مولانا افتخار صاحب قاسمی بستوی
دنیا کو دیا پیغامِ سکوں، طوفانوں کے رخ موڑ دیے
اللہ رب العزت نے اس دنیا کو امتحان گاہ بنایا ہے۔ یہاں کا ہر عمل فرشتوں کے ذریعے لکھا جاتا ہے، جس پر جزا یا سزا مرتب ہونے والی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے مقرر کردہ فرشتوں کے علاوہ ہاتھ، پاوٴں، اعضا و جوارح اور جس جگہ آدمی کوئی بھی عمل اچھا یا برا انجام دیتا ہے اللہ کے حکم سے یہ ساری چیزیں؛ ان اعمالِ خیر و شر کو محفوظ کرلیتی ہیں۔
اس دنیا میں امتحان کے لیے اللہ رب العزت نے تین بنیادی چیزیں بتلائی ہیں:
(۱) توحید۔
(۲) رسالت ۔
(۳) آخرت ۔
بندے کو توحید میں پختہ اترنا ہے۔ توحید کا مطلب ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات و صفات میں اکیلے ہیں۔خدا کی ذات کے علاوہ کوئی ذات ایسی نہ مانی جائے ،جس کو خدا کی ذات کے برابر درجہ دیا جائے۔ اگر ایسا کیا گیا تو؛ توحید ختم ہوجائے گی۔ اس کی جگہ توحید کے بجائے شرک جنم لے گا، جس کے بارے میں ارشاد ہے کہ پھر امتحان میں بندہ کامیاب نہ ہوگا۔
قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے:
﴿اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذلِکَ لِمَنْ یَّشَاءُ﴾
”بے شک اللہ تعالیٰ شرک کو نہیں بخشیں گے، اس کے علاوہ جو بھی گناہ ہوگا اور جس کے لیے بھی چاہیں گے اس کو بخش دیں گے۔“
امتحان میں کام یاب ہوکر نتیجہ حاصل کرنے کی جگہ آخرت ہے اور توحید کی تشریح معتبر وہی ہوگی ،جو رسالت کے واسطے سے آئے گی۔ جس توحید کی تشریح؛ جس طرح حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہوگی وہی قابلِ اعتبار ہوگی اور اپنی من مانی تشریح وتفصیل معتبر نہیں ہوگی۔انھیں تینوں بنیادی اشیا کا نام توحید، رسالت اور آخرت ہے۔
امتحان کی تیاری کے لیے اس دنیا کی زندگی کا ایک ایک لمحہ قیمتی اورقابلِ قدر ہے۔ ایک ایک سانس بندے کی ایسی گزرنی چاہیے، جس میں توحید اور اس کے تقاضے کے خلاف کچھ نہ ہو، توحید کی اجمالی تشریح ہے : ”اٰمَنْتُ بِاللّٰہِ کَمَا ہُوَ بِاَسْمَائِہ وَصِفَاتِہ وَقَبِلْتُ جَمِیْعَ اَحْکَامِہ ۔“
میں اللہ پر ایمان لایا جیسا کہ وہ اپنی صفات اور اپنے اسمائے حسنیٰ کے ساتھ موجود ہے اور میں نے اس کے سارے احکام قبول کیے۔
اور توحید کی تفصیلی تشریح ہے:
”اٰمَنْتُ بِاللّٰہِ وَمَلَائِکَتِہ وَکُتُبِہ وَرُسُلِہ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَالْقَدْرِ خَیْرِہ وَشَرِّہ مِنَ اللّٰہِ تَعَالیٰ وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ“۔
کہ میں ایمان لایا اللہ رب العزت اور اس کے تمام فرشتوں پر، اس کی نازل کردہ تمام آسمانی کتابوں اور اس کے تمام پیغمبران برحق پر، میں ایمان لایا آخرت کے دن پر اور اچھی بری تقدیر کے خدا کی طرف سے ہونے پر اور موت کے بعد زندہ ہونے پر بھی ایمان لایا۔
ساری دنیا اور کائنات کی ہر شئ کو مخلوق جاننا اور اکیلے خدا کو خالق جاننا۔ اسی کو حاکمِ مطلق، قادرِ مطلق گرداننا اور اسی کو خوش کرنا اور اسی کو راضی رکھنے کی دوا دوش میں ہمہ وقت بے چین رہنا توحید کہلاتا ہے۔
توحید تویہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ دوعالم سے خفا میرے لیے ہے
(مولانا محمد علی جوہر)
اسی توحید کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تین سو ساٹھ خداوٴں کی پوجا کرنے والے مکہ کے کافروں کے سامنے قبول کرنے کے لیے پیش کیا تو کہنے لگے :
﴿ اَجَعَلَ اْلاٰلِہَةَ اِلٰہًا وَّاحِدًا، اِنَّ ہٰذَا لَشَیْءٌ عُجَابٌ﴾(سورہٴ ص:۵)
” کیا اتنے ڈھیر سارے خداوٴں کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خدا بنادیا، یہ تو بہت ہی حیرت انگیز بات ہے۔“
ہم نے تین سو ساٹھ نہیں،بل کہ اپنی بے شمار ضروریات کے لیے صرف تین سو ساٹھ خداوٴں کو تجویز کررکھا ہے۔ ابھی اور خداوٴں کے بڑھانے کا ارادہ ہے تاکہ ہماری ضروریات خداوٴں کی کثرت سے پوری ہوتی رہیں اور یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے کہ ضرورتیں تو بے شمار ہیں اور ان کو پورا کرنے کے لیے صرف ایک خدا! واقعی نہایت تعجب خیز اور حیرت انگیز معاملہ ہے۔
تھی راحت حیرت کی کس درجہ فراوانی
میں نے غم ہستی کی صورت بھی نہ پہچانی
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زیست اسی توحید کا پیکر تھی ،جس کی قسم خود بر ہم زنِ نظامِ عالم، خالقِ کون و مکان نے یہ کہتے ہوئے کھائی کہ﴿لَعَمْرُکَ اِنَّہُمْ لَفِیْ سَکْرَتِہِمْ یَعْمَہُوْنَ﴾ (الحجر:۷۲)
اللہ رب العزت حاکم ہیں ، بندے اس کے محکوم ، اللہ تعالیٰ نے بندوں کو حکم فرمایا ہے کہ تم میرے علاوہ کسی کی قسم نہیں کھاسکتے، لیکن اللہ کو کوئی حکم نہیں دے سکتا، ورنہ اللہ محکوم اور بندے حاکم ہوجائیں گے، جس سے پوری بساط الٹ جائے گی۔ اسی لیے قادر مطلق رب ذو الجلال نے اپنی مرضی کے مطابق جس چیز کی قسم کھانا چاہی اس کی قسم کھائی ہے اور قسم جس چیز کی کھائی ہے یہ بتلانے کے لیے کھائی ہے کہ یہ مقسم بہ معظم ومحترم اوراپنی نوع میں باعظمت وباوقار ہے۔
یہاں اس آیتِ کریمہ میں اللہ رب العزت نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات کی قسم کھائی ہے، جو توحیدِ باری تعالیٰ سے مملو اور توحید ربانی کا پیکر مجسم تھی۔ عمر عین کے پیش اور عین کے زبر کے ساتھ دونوں طرح بولا جاتا ہے اور دونوں کے معنی حیات کے ہیں۔ اللہ رب العزت نے آپ کی عمر؛ یعنی حیات کی قسم کھائی ہے توآپ کی حیات انواع حیات میں سب سے عالی شان ، رفیع القدر اورعظیم المرتبت ہوگی۔
حیات نبوی کی قسمیں:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات جو توحید خداوندی کا مجسم پیکر ہے ، اس کو وسیع نظر سے دیکھا جائے تو چار حصوں میں بانٹا جاسکتا ہے:
۱- ایک حصہ عالمِ ارواح سے پہلے کا ہے،جو ولادتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم تک محیط ہے۔ یہ حصہ عمر شریف کا ایسا ہے، جس کے نورانی وجودکو حدیث شریف میں اس طرح بیان کیا ہے:
”کنت نبیا وآدم بین الماء والطین“
”میں نبی ہوچکا تھا اور ابھی حضرت آدم علیہ السلام پانی اور مٹی کے درمیان تخلیق کے مراحل میں تھے۔“
۲- دوسرا حصہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت بابرکات سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک کا عرصہ جو مکی ومدنی زندگی پر مشتمل ۶۳/ سال کے طویل زمانے پر محیط ہے۔
۳- تیسرا عالم برزخ کی حیات کا ہے،جو روضہٴ اقدس میں آرام فرمانے سے لے کر نفخہٴ ثانیہ اورمیدان ِمحشر میں سوال وجواب اورفیصلہ ٴجنت و دوزخ کے زمانے تک چلا گیا ہے۔
۴- زندگی کا چوتھا حصہ فیصلہٴ جنت کے بعد دخولِ جنت اور خلود ِفردوس کا لا متناہی عرصہ ہے۔
قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اسی حیات کی قسم کھائی ہے ،جو ازل سے ولادت اور ولادت سے وفات، پھر وفات سے میدان ِمحشر اور پھر میدانِ محشر سے خلود و دخول جنت کے لا متناہی عرصے تک چلی جاتی ہے۔ یہی وہ مقدس حیات ہے جو توحید ِخداوندی کا مجسم پیکر نور ہدایت کا سرچشمہ اور محبوب رب العالمین کا منظر ومظہر ہے۔اسی تقدس وتقدم اور اسی تبرک وپاکیزگی کو بتلانے کے لیے اللہ نے بندوں کو قسم کھاکے بتلایا ہے کہ ایسے نبی نے تم کو میری توحید کی دعوت دی ہے ،جو رسالتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر نامعتبر اور غیر مسلم ہے۔ ازل سے ابد تک خدا کی قدرتوں کا ہزاروں حجاب کے باوجود نظارہ کرانے والی ہے #
ہزاروں حجاب اور اس پر یہ عالم
کہ چر چا ترا جا بجا کو ، بہ کو ، ہے
(مفتی محمدشفیع)
ہزاروں حجاب میں رہنے والے خدا کے نور ِتوحیدکے شرعی پہلووٴں کو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے سامنے طشت ازبام کیا اور خدا سے برگشتہ لوگوں کو خداکی چوکھٹ پرجبیں سائی کے لیے برضا و رغبت لاکھڑا کیا، یہاں تک کہ ساری انسانیت پر توحید خداوندی کی شنا سائی وشناخت اوررہنمائی وہدایت کا احسان بھی فرمایا۔
محسنِ انسانیت محسنِ توحید ِاعظم:
یہاں تک کہ عہد الست میں جب اللہ رب العزت نے عالمِ ارواح میں سب کو جمع کیا آدم علیہ السلام کی قیامت تک آنے والی تمام ذریت عالمِ ارواح میں چیونٹی کی مانند اکٹھا تھی۔ سارے انبیا ورسل اور سارے نیک وبد اللہ رب العزت کے سامنے موجود تھے، اس موقع پر جب اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا: ﴿اَ لَسْتُ بِرَبِّکُمْ ﴾ کیا میں تمہارا پرور دگار نہیں ہوں؟ تو پوری فضا خاموش تھی، سب پر سکوت کا عالم طاری تھا، کوئی جواب نہ دے رہا تھا، سب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھ رہے تھے، تب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے عہدِ الست میں ﴿بَلی﴾ کہہ کر خداوندِ ذو الجلال کی ربوبیت کا اقرار سوال ربوبیت کے جواب میں سب کو سنایا تھا۔اس وقت لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھ کر ﴿بَلٰی شَہِدْنَا ﴾ کہا تھا۔
معلوم ہوا کہ اقرارِ توحید میں آپ کی حیات کے ساتھ جہاں اولیت وابستہ ہے ،وہیں تمام ارواح کے لیے معلم توحید کی اولیت بھی آپ کی مبارک حیات سے وابستہ ہے
وفاکاعہدتھادل کوسنبھالنے کے لیے
وہ کہہ پڑے تھے”بلیٰ“سب کوجاننے کے لیے
لے دے اپنے پاس فقط اک نظر تو ہے
کیوں دیکھیں زندگی کو کسی کی نظر سے ہم
(ساحر لدھیانوی)
یہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ، جس کو ہم اپنی نظر کو وسیع کرکے دیکھیں تو نورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تخلیق سے ولادتِ جسمانی کی دنیوی موجودگی تک اور ولادت سے وفات اور پھر وفات سے عالم برزخ اور پھر عالمِ برزخ سے دخولِ جنت وخلودِ فردوس تک پھیلی ہوئی ایسی زندگی جو تمام ارواح کو بھی عہد ِ الست میں زندگی بخشنے والی توحید کی معلم بن کر خاتم الانبیا کی شکل میں قرآنِ کریم میں ﴿لَعَمْرُکَ اِنَّہُمْ لَفِیْ سَکْرَتِہِمْ یَعْمَہُوْنَ﴾ (الحجر:۷۲) کی آیت اللہ رب العزت کی قسم کا مقسم بہ بن کر رہی ہے۔ ﴿تَبَارَکَ اللّہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ﴾
پتا چلا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات بابرکات کے خدا کے بعد سب سے مقدس ہونے کی غایت وہی توحید و ربوبیت باری کا اقرار؛برائے دیگرارواح اور تعلیم اقرار ہے ،جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات کی اللہ رب العزت نے قسم کھائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری فیضانِ علمی وعملی وحالی کا سبب بن کر دنیا میں تریسٹھ سال تک جلوہ فگن رہی۔
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ (متوفی: ۱۶/ رجب ۱۳۶۲ھ-۲۰جولائی ۱۹۴۳ء) فرماتے ہیں :
” اور یہی غایت ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کی کہ اپنے فیضان علمی وعملی وحالی سے اس امت کی تکمیل فرمادیں جو حاصل ہے اتباع کامل کا۔ پس حاصل غایت تشریف آوری کا یہ ہوا کہ امت اتباع کامل اختیار کرے۔“ (خطباتِ حکیم الامت: ۵/۳۶)
توحید سے معمور حیاتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم:
اللہ رب العزت نے اپنی توحیدکونبی کی رسالت کے ساتھ آخرت کی مقصودیت میں ملاکر قرآن کریم کا موضوع بنایا اور یہ تینوں باتیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں رچی بسی تھیں، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے نبی کی حیات بمعنی عمر کی قسم کھاکر آپ کی زیست کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ اِس کی تفصیل فرماتے ہوئے حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:
”اس کے بعد جاننا چاہیے کہ اول معلوم ہوچکا ہے قسم معمولی شئ کی نہیں کھائی جاتی۔مقسم بہ کوئی عجیب اور ذی شرف شئ ہونا چاہیے۔ اب دیکھنا چاہیے کہ مَقْسَمْ بہ یہاں کیا ہے؟ تو مَقْسَمْ بہ یہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ہے، اِس لیے کہ عمر بفتح وضم نام ہے حیات اور بقا کا اور حیات کہتے ہیں۔ ذی حیات کی اس حالت کو جو تولد سے لے کر وفات تک ہے اور اگر نظر کو وسیع کیا جائے تو حضور کے لیے بعدِ وفات کے بھی حیاتِ برزخی ثابت ہے اور وہ حیاتِ شہداء کی حیاتِ برزخی سے بھی بڑھ کر ہے اور اتنی قوی ہے کہ حیاتِ ناسوتی کے قریب قریب ہے۔چناں چہ بہت سے احکام ناسوت کے اس پر متفرع بھی ہیں۔ دیکھیے زندہ مرد کی بیوی سے نکاح جائز نہیں ہے ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات سے بھی نکاح جائز نہیں اور زندہ کی میراث تقسیم نہیں ہوتی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث بھی تقسیم نہیں ہوئی اور حدیثوں میں صلاة و سلام کا سماع وارد ہوا ہے ۔ سو یہ تحقیقات ہیں اہل اسرار کی۔ اس سے اصلی راز اُن احکام یعنی ﴿لَا تَنْکِحُوْا اَزْوَاجَہُ مِنْ بَعْدِہ اَبَدًا﴾ اور ”لا نورث ماترکناہ صدقة“ کا معلوم ہوگیا ۔ پھر حیاتِ برزخی کے بعد حیاتِ اخروی ہے، وہ تو سب کو شامل ہے تو انبیا کو بطریقِ اولیٰ حاصل ہوگی۔پس حیات کا مصداق حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت شریفہ سے لے کر جنت کے دخول وخلود تک ہے ۔یہ کلام منتہیٰ کی جانب میں ہے اور اگر ابتدائی جانب نظر کو وسعت دی جاوے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نوریت کی جو حالت عالم ارواح سے بھی پہلے تھی اس کو بھی حیات کہہ سکتے ہیں ، جس کی نسبت ارشادہے: ” کنت نبیا و آدم بین الروح والجسد“ میں اُس وقت بھی نبی تھا جب حضرت آدم علیہ السلام روح اور جسم کے مابین تھے اور عالمِ ارواح میں جب الست کا عہد لیا گیا اور پوچھا گیا ﴿اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ ﴾تو سب نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا کہ دیکھیں کہ آپ کیا جواب دیتے ہیں، توسب سے اول حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ”بَلی اَنْتَ رَبُّناَ“ اس کے بعد اوروں نے ”بَلٰی“ کہا۔ اوروں کے علم و معرفت کے مربی بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہوئے اور تربیت فی العلوم حیات پر موقوف ہے ،پس جب سے نور مخلوق ہوا ہے اس وقت سے حیات (مراد) لی جاسکتی ہے۔“
(خطبات حکیم الامت: ۵/۳۱)
معلوم ہوا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جہاں محسنِ انسانیت ہیں وہیں معلم و محسنِ توحید ِ اعظم بھی ہیں۔ آپ ہی کی عملی تلقین سے عالمِ ارواح میں سب نے”بَلی اَنْتَ رَبُّناَ“ کہا۔ اس لیے توحید وہی معتبرہوگی ، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے راستے سے ہم تک پہنچے ۔ توحید کی وہی تشریح معتبر ہوگی جوحضرت خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں۔
توحید کے بارے میں تمام طرح کی افراط و تفریط سے بچنا اور رسالت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدود سے واقف ہونا نہایت ضروری امر ہے۔
چوں کہ شریعتِ اسلامیہ کا حاصل توحید ورسالت اور آخرت کے تین کلیدی امور ہیں ،(جن کی بنیادقرآن،حدیث،اجماعِ امت اورقیاس ہیں،جن سے افعالِ عبادکے نام مباح ،مستحب،سنت، واجب، فرض،مکروہ اورحرام مستنبط ہوتے ہیں۔) اس لیے اللہ تعالیٰ نے نبی ٴکریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات توحید و رسالت کے تمام تقاضون کو ایسا پیوست کردیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے بغیر چارہ نہیں۔
مسند امام احمد بن حنبل (۳/۳۳۸)میں ایک حدیث ہے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ولو کان موسیٰ حیا لما وسعہ إلا اتباعیی“ (الاسرار المرفوعة علی القاری : ۸۳، ۲۹۲) اگر موسی علیہ السلام زندہ ہوتے تو ان کو بھی بجز میری اتباع کے کوئی گنجائش نہ تھی۔ چناں چہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب آسمان سے اترکر دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے اور دنیا میں دجال کا خاتمہ کریں گے تو اس وقت وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی شریعت کا اتباع کریں گے۔
ایک حدیث میں آتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کو نبی ٴکریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت دکھلائی گئی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ رب العزت سے با ادب عرض کیا :
اے اللہ ! ان سب کو میری امت بنادیجیے، تو ارشاد ہوا: اے موسیٰ! یہ تو نبی بطحا ، نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہے۔ تب موسیٰ علیہ السلام بارگاہِ ایزدی میں دوبارہ عرض کرنے لگے : اے اللہ ! تو مجھے ہی اس میں سے کر دیجیے، اللہ رب العزت نے فرمایا: نہیں ، تم خود مستقل نبی ہو۔
یہ شان ہے احمد مجتبیٰ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی اور آپ کی امت کی ۔ فیضان روح اورجود وعطائے علم میں آپ کا کوئی ثانی نہیں۔ امیر خسرو دہلوی کیا خوب کہتے ہیں:
حسنِ یوسف دمِ عیسیٰ ید بیضا داری
آں چہ خوباں ہمہ دارند ، تو تنہا داری
اللہ رب العزت کا ارشاد ہے: ﴿تَلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَہمْ عَلی بَعِضٍ ﴾ ”یہ رسول ہیں جن میں بعض کو بعض پر ہم نے فضیلت وبرتری دے رکھی ہے۔“
تمام انبیا ورسل میں سب سے افضل ، برترحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو بنایا ہے۔
مولانا رومی مثنوی میں فرماتے ہیں
بہر ایں خاتم شد است او کہ بجود
مثل او نے بودو نے خواہند بود
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی سبب سے تو خاتم النبیین ہوئے ہیں کہ فیوضِ روحانی اور علومِ ربانی کے جو د و عطا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مثل نہ کہیں پہلے کوئی ہوا اور نہ بعد میں کوئی ہوسکتا ہے۔”بعدازخدابزرگ توئی قصہ مختصر“ کمال وجمال ونوال کے تمام مراتب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوگئے ہیں۔ آپ ”خاتمِ مطلق“ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی میں تمام جن وبشر، تمام ملائکہ اور تمام مخلوقات کی کمالات سے زیادہ کمال موجود ہے، تو آپ خاتم کمالات ِبھی ہیں۔ تمام جن و بشر میں جمال کی کمیت و کیفیت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑھے ہوئے ہیں، تو آپ خاتم جمال بھی ہیں اور پوری کائنات کے تمام جن و بشر کو آپ کی جود و سخا عام ہے۔ خدائے بزرگ وبرتر کے بعد عطائے و جود میں سب سے بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ تو آپ کی ذاتِ گرامی خاتم نوال بھی ہے۔ اس لیے خاتم النبیین کا لقب آپ کو دیا گیا ہے، جو اپنے اپنے وقت میں جمال و کمال اورنوال ہیں۔ سب سے بڑھ کر ہوئے ہیں ۔
ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمام نبیوں میں جمال و کمال اور نوال میں سب سے زیادہ ہیں، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں۔ اور سب انبیا ئے کرام کا زمانہ محدود تھاکہ ان کے بعد دوسرے انبیائے کرام تشریف لائے تھے، لیکن آپ کے بعد نہ کوئی نبی آئے گا اور نہ کوئی رسول۔
اس کے بعدآپ کا زمانہ طویل اور تقریباً لامحدود ہوگا، اس لیے زمانے کے اعتبار سے بھی آپ خاتم النبیین ہیں۔
غرض یہ کہ آپ خاتم مطلق ہیں، آپ کی نبوت خاتم زمانی ومکانی ورتبی ہے۔ سارے انبیائے کرام کا اپنازمانہ اور مقام ومرتبہ ہے ، سارے انبیائے علیہم السلام کی بعثت خاص تھی ، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت عام ہے۔ آپ جس توحید ورسالت کا امرِ خداوندی لے کر آئے اس میں پانچ کلیدی امور ہیں:
پانچ بنیادی امور رسالت:
پہلا امر: کمالِ فنا و بقا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام پر عمل پیرا ہونے میں اپنی ذات کو مکمل فنا اور قربان کرچکے تھے اور باقی زندگی کے لیے کامل بقا کا نظم و انتظام فرماچکے تھے۔
دوسرا امر:درجہٴ فعل و عمل میںآ پ کامل و مکمل اور وجہ اثباتِ کائنات اور کائنات کے ثابت و موجود رہنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی واسطہ ہے ،جسے اصطلاحی الفاظ میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم واسطہ فی الثبوت اورواسطہ فی الاثبات دونوں ہیں۔
تیسرا امر : یہ ہے کہ آپ دوسروں کی تکمیل کی طرف کامل طور پر متوجہ تھے۔
چوتھا امر: یہ ہے کہ دوسرے اہل استعداد کی کامل و مکمل تعمیر و تکمیل فرمائی جو کام اتباعِ نبوی میں منحصر ہے۔
اورپانچواں امر: یہ ہے کہ آپ کا ظاہری وجود دنیا میں فی الحال اگر چہ نہیں ہے، لیکن آپ کی توحید و رسالت کا فیض عالم میں جاری ہے۔
اس طرح نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم، توحید و رسالت کے پیغام کو عام کرکے اسی آخرت ومعاد کی طرف چلے گئے، جہاں سب کو لوٹ کر جانا اور اپنی زیست کا حساب دینا ہے۔
مختصر یہ ہے کہ ہماری داستان زندگی
اک سکونِ دل کی خاطر عمر بھر تڑ پاگئے
(معین جذبی)
(مستفاد خطبات حکیم الامت: جلد پنجم)