دعوت ِ قرآن الی تدبر ِ قرآن

محمد ہلال الدین بن علیم الدین ابراہیمیؔ

                اَفَلاَ   یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ ط  وَلَوْ  کَانَ  مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ  لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا۔

                کیایہ لوگ قرآن میں غور وفکر سے کام نہیں لیتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا، تووہ اس میں بہ کثرت اختلاف پاتے۔(النساء:۸۲)

                {کِتٰب’‘ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ مُبٰرَک’‘  لِّیَدَّبَّرُوْٓااٰیٰتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَاُولُوا الْاَلْبَاب}(ص:۲۹)

                (اے پیغمبر!) یہ ایک بابرکت کتاب ہے، جو ہم نے تم پر اس لیے اتاری ہے کہ لوگ اس کی آیتوں پر غورو فکر کریں، اور تا کہ عقل رکھنے والے نصیحت حاصل کریں۔

                { اَفَلاَ   یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ  اَمْ  عَلٰی   قُلُوْبٍ  اَقْفَالُھَا}(محمد:۲۴)

                ’’بھلا کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے یادلوں پر وہ تالے پڑے ہوئے ہیں جو دلوں پر پڑا کرتے ہیں؟‘‘

                یہ تمام آیات تدبرِقرآن اور تفکرِ قرآن کی دعوت دے رہی ہیں اور بتارہی ہیں کہ قرآن کے معانی میں تدبر کرنے والا کبھی گمراہ نہیں ہوسکتا؛سادہ دل اور خالی الذہن انسان قرآن میں غور فکر کرے اور راہ یاب نہ ہو یہ ہوہی نہیں سکتا۔ ہاں! اگر اللہ نے گناہوں کی پاداش اور اسلام دشمنی کی بنیاد پر اس کے دل کو مقفل کردیا ہے تو الگ بات ہے۔

کلام میں مقصود معانی ہیں:

                شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کہتے ہیں: یہ بات روز ِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ تمام کلام میں مقصود اس کے معانی ہوتے ہیں ،محض الفاظ نہیں۔ اور یہ تو کلام اللہ ہے، اس کے معانی کس قدر مقصود ہوںگے!۔

                تلاوت ِ کلام ِ پاک میں اہم صرف مقدار ِتلاوت نہیں؛ اصل اعتبار تو اس بات کا ہے کہ اس سے کتنا فائدہ پہنچا۔تلاوت ِ کلام اللہ ثواب سے خالی نہیں، لیکن مقصود ِاصلی تدبر وتفکر کے بعد استفادہ ہے کہ کس قدرتلاوت کیا اور کس قدر زندگی پر اس کا اثر ہوا؟

ہم نے قرآن سے راہ یاب ہونا چھوڑ دیا:

                آج کلامِ پاک سے راہ یاب ہونا اور راہ ِراست پر لانا نہ کے برابر ہے؛ حالاں کہ رب ذو الجلال دوٹوک انداز میں گویا ہیں:

                {وَلَوْ اَنَّ قُرْاٰنًا  سُیِّرَتْ بِہِ  الْجِبَالُ  اَوْ قُطِّعَتْ  بِہِ الْاَرْضُ اَوْ کُلِّمَ بِہِ الْمَوْتٰی ط بَلْ لِّلّٰہِ الْاَمْرُ جَمِیْعًا}(رعد:۳۱)’’اور اگر کوئی قرآن ایسا بھی اترتا، جس کے ذریعے پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹادیے جاتے یا اس کی بدولت زمین سخت کردی جاتی، (اور اس سے دریا نکل پڑتے) یااس کے نتیجے میں مُردوں سے بات کرلی جاتی (تب بھی یہ لوگ ایمان نہ لاتے) حقیقت تو یہ ہے کہ تمام تر اختیار اللہ کا ہے‘‘۔

                 { لَوْ اَنْزَلْنَا ھٰذَاالْقُرْاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیْتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًامِّنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ ط وَتِلْکَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُھَا لِلنَّاسِ لَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْن}(حشر:۲۱)

                ’’اگر ہم نے یہ قرآن کسی پہاڑ پر اتاراہوتاتو اسے دیکھتا کہ وہ اللہ کے رعب سے جھکا جارہا ہے اور پھٹ پڑتا ہے، اور ہم یہ مثالیں لوگوں کے سامنے اس لیے بیان کرتے ہیں تا کہ وہ غوروفکر سے کام لیں‘‘۔

                پہلی آیت سے بالکل واضح ہے کہ کلام ِ پاک تو تاثیر سے ،عبرت سے، نصیحت سے ،رہ نمائی سے ہدایت سے پُر ہے؛ لیکن جو راہ یاب ہونا ہی نہ چاہے ، راہِ راست پر آنا ہی نہ چاہے، ہدایت کی طرف قدم اٹھانا ہی نہ چاہے اور عناد وسرکشی اصرار ِمعاصی نے اس کے قلوب کو گناہوں کی نحوست سے مغفل ومقفل کردیا ہو، اس کے کانوں پر ڈاٹ ڈال دیا ہو تو باوجودیکہ قرآن موعظت ونصیحت کا پیکر ہے، مردہ قلوب کو جلا بخشتا ہے، اگر جلا حاصل کرنا ہو تو۔ اسی لیے تو دوسری آیت میں صاف صاف کہہ دیا کہ آیت ِ قرآنیہ میں ایسی تأثیر ہے اور وہ اس قدر موئثرہے کہ اگر قرآن پہاڑ جیسی سخت مخلوق پر بھی نازل کردیا جاتاتو آسمانوں سے باتیں کرتی اس کی بلندی خوفِ خدا سے زمین کی طرف جھک جاتی اور وہ اس قدر سخت جان ہونے کے باوجود پھٹ پڑتا۔ حالاں کہ ہمارے یہاں ایسے شخص کے لیے محاورہ ہے جو ظالم وجابر ہو کہ یہ سنگ دل ہے۔

                ذرا سوچیں !کہ قرآن میں کس قدر تاثیر ہے کہ پہاڑ خشیت ِ الٰہی سے سرنگوں اور پھٹ پڑتا، لیکن افسوس ہے انسان پر! خصوصاً ہم مسلمانوں پر کہ ہم پر قرآن باوجود اُسی تاثیر کے مؤثر نہیں؛ وجہ صاف ہے کہ ہم  تلاوت‘نہ تدبر وتفکر سے کرتے ہیں اور نہ اثر قبول کرنے کے ارادے سے اسے سنتے ہیں۔

قلوب کا تدبرِ قرآن کی طرف متوجہ ہونا ضروری ہے:

                جب تک ہمیںاز خود راہ ِ راست پر آنے کی فکر نہیں ہوگی اور قلوب قرآن کی طرف متوجہ نہیں ہوں گے، اس وقت تک ہم راہ یاب نہیں ہو پائیںگے۔

                قارئیں کے دلوںپر اگر یہ تحریر احساس کا دستک دے رہی ہو،ان کی ضمیر کو کچوکے لگار ہی ہواور وہ اپنے قلوب میں تاثیرِ قرآن پیدا کرنے کے ارادے سے اِسے پڑھ رہے ہوں، تو میں اس بات کا ضامن ہوں کہ اگر استغفار اور صلوٰۃ التوبہ کرتے ہوئے ،اجتناب ِمعاصی اور ترک ِ گناہ کے عزم کے ساتھ کلام ِپاک کی تلاوت کریں گے ،اس کے ترجمے پر غور کریں گے اور جو عالم نہیں ہیں وہ معتبر مفسرین کی تفسیر بھی دیکھیں گے تو ان کی زندگیا ں بدل جائیں گی ۔

تلاوتِ کلام پاک کے ساتھ ساتھ تدبرِ کلام پاک کا اہتمام:

                اکثر مسلمان تلاوتِ کلام پا ک کا اہتمام کرتے ہیں۔ خصوصا ً آنے والے ماہِ مبارک میں تو ہم تلاوت ِ کلام پاک کا اہتمام کرنے ہی والے ہیں؛اگر ساتھ ساتھ تدبر کلام ِپاک کا اہتمام ہو جائے تو زندگیاں بدل جائیں گی۔ زیادہ تفصیل کاوقت نہ ہو تو کم ازکم مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کے آسان ترجمۂ قرآن کے تراجم اور مختصر تفسیر ہی کو ایک وقت متعین کرکے پڑھ لیں ؛مزید کے لیے ان کے والد بزرگوار مفتیٔ اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع صاحب نور اللہ مرقدہ کی تفسیر’’ معارف القرآن‘‘ پڑھیں اور مساجد میں درس ِقرآن کے حلقے ہوں تو اس میں ضرور شامل ہوںاور نہ ہوں توقائم کرنے کی فکر کریں۔ اسی طرح ہر طالب علم دوم سے لے کر دورے تک ترجمۂ قرآن یاتفسیرِ ِ قرآن پڑھتا ہے، بس وہ اپنی سوچ میں مزید اضافہ کرتے ہوئے، صرف سبق کے طور پر اور امتحان کے لیے نہیں، بل کہ اپنی زندگی اور آخرت کے امتحان کی کام یابی کے ـلیے درس کا اہتمام کرے اور یہ تہیہ کرے کہ قرآن جس چیز کا حکم دے گا، جس امر کی طرف دعوت دے گا، صد فی صد میں اس حکم کو بجا لاؤں گا اور اس کے مطابق زندگی گذاروں گا اور جن چیزوں سے روگے گا، اس سے مکمل اجتناب کروں گا۔ پھر دیکھے !یہ قرآن کیوں آپ پر اثر انداز نہیں ہوتا اور کیوں آپ اس کی تلاوت کرتے ہوئے نہیں روتے اور اس کی تلاوت کی حقیقی چاشنی آپ کوکیوں کر محسوس نہیںہوتی !!

ہم میں اور صحابہ میں فرق:

                ہم میں اور صحابہ میں بس فرق یہی ہے کہ صحابہ کلامِ پاک کی تلاوت اور اس کی سماعت‘ موعظت ونصیحت ،تذکیر وتفکیر کے غرض سے کرتے تھے اور ہم اس کی تلاوت ان اغراض کے لیے نہیں کرتے ۔ قرآن تو آج بھی وہی ہے ۔اللہ ہمیں مقاصد ِمذکورہ کے تحت تلاوتِ کلام اللہ کی توفیق عطا فرمائے۔

کیاجن ، ہم سے زیادہ کلام پاک سے اثر قبول کرتے ہیں:

                وَاِذْ صَرَفْنَآ اِلَیْکَ  نَفَرًا  مِّنَ الْجِنِّ  یَسْتَمِعُوْنَ  الْقُرْاٰنَ ج فَلَمَّا  حَضَرُوْہُ قَالُوْٓا اَنْصِتُوْا ج فَلَمَّا قُضِیَ وَلَّوْا اِلٰی قَوْمِھِمْ  مُّنْذِرِیْنَ ہقَالُوْا ٰیقَوْمَنَآ اِنَّا سَمِعْنَاکِتٰبًا اُنْزِلَ مِنْ م بَعْدِ مُوْسٰی مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ یَھْدِیْٓ اِلَی الْحَقِّ وَاِلٰی طَرِیْقٍ مُّسْتَقِیْمٍ ہ ٰیقَوْمَنَآ اَجِیْبُوْا دَاعِیَ اللّٰہِ  وَاٰمِنُوْا  بِہٖ  یَغْفِرْلَکُمْ  مِّنْ  ذُنُوْبِکُمْ  وَیُجِرْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ  اَلِیْمٍ ہ وَمَنْ لَّا یُجِبْ دَاعِیَ  اللّٰہِ  فَلَیْسَ بِمُعْجِزٍ فِی الْاَرْضِ وَلَیْسَ لَہٗ مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِیَآئُ ط اُولٰٓئِکَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْن۔(الاحقاف:۲۹-۳۲)

                ترجمہ: اور (اے پیغمبر!)یاد کرو جب ہم نے جنات میں سے ایک گروہ کو تمہاری طرف متوجہ کیا کہ وہ قرآن سنیں؛چناں چہ جب وہ وہاں پہنچے تو انہوں نے ایک دوسرے سے کہاکہ: خاموش ہوجاؤ؛پھر جب وہ پڑھا جاچکا تو وہ اپنی قوم کے پاس انہیں خبردار کرتے ہوئے واپس پہنچے۔انہوں نے کہا کہ: اے ہماری قوم کے لوگو! یقین جانو ہم نے ایک ایسی کتاب سنی ہے، جو موسیٰ علیہ السلام کے بعد نازل کی گئی ہے، اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے، حق بات اور سیدھے راستے کی طرف رہ نمائی کرتی ہے۔ اے ہماری قوم کے لوگو! اللہ کے داعی کی بات مان لواور اس پر ایمان لے آؤ، اللہ تعالیٰ تمہارے گناہوں کو معاف کردے گا اور تمہیں ایک دردناک عذاب سے پناہ دے گا، اور جو کوئی اللہ کے داعی کی بات نہ مانے تو وہ ساری زمین میں کہیں بھی جاکر اللہ کو عاجز نہیں کرسکتا۔ اور اللہ کے سوا اس کو کسی قسم کے رکھوالے بھی نہیں ملیںگے، ایسے لوگ کھلی گمراہی میں مبتلا ہیں۔

افسوس صد افسوس!

                 کہاں ہیں وہ نفوس وقلوب؟ جو اچھی طرح کلام پاک کوسنتے ، اس کی طرف کان دھرتے اور ان کا یہ اعتقاد تھا کہ یہ کتاب ِ ہدایت ہے؛ یہ لوگوں کو جہالت، شرک، گناہ ومعاصی کے مرض سے شفا دیتی ہے؛ یہ ان قلوب کو جو کفر کی ظلمت اور شرک باللہ سے نجات دے کر نور ِ ایمان اور ہدایت کی راہ پر ڈالتی ہے اور یہ دلی خوشی ومسرت کے حصول کا باعث ہے۔ اور سب سے بڑی خوشی تو اس بات کی کہ یہ رضائے خداوندی کا ذریعہ ہے!۔

                کہاں ہیں وہ معمور قلوب جو انہماک اور توجہ کے ساتھ کلام ِ پاک سنتے تھے؟ اور نہ صرف سنتے تھے ؛بل کہ اُس سے مکمل نصیحت قبول کرتے اور عمل پیرا ہوجاتے تھے؟ کہاں ہے وہ خشوع اور رونے کی کیفیت اور آیت ِقرآنی میں تدبروتفکر کی حالت ا ور کلام پاک سننے اور سمجھنے کا اہتمام!۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاقرآن سننے کا شوق اور انداز:

                ’’عن عبد اللہ ابن مسعود رضي اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: اقرأ، فقلتُ: أقرأ علیک وعلیک أنزل، قال: نعم، فقرأت سورۃ النساء، حتی بلغت: ’’فکیف إذا جئنا من کل أمۃ بشہید وجئنا بک علی ہؤلاء شہیدا‘‘ قال: حسبک، الآن، قال: فالتفت إلیہ فإذا عیناہ تذرفان ‘‘متفق علیہ۔

                حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے کہا: کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے قرآن پاک کی تلاوت کا حکم فرمایا: میں نے آپ سے دریافت کیا :کیامیں آپ کے سامنے تلاوت کروں؟ حالاں کہ قرآن آپ کے اوپر اترا ہے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہاں! تلاوت کرو؛ چناںچہ میں نے سورۂ نساء کی تلاوت کی اور جب میں اس آیت پر پہنچا ’’فکیف إذا جئنا من کل أمۃ بشہید وجئنا بک علی ہؤلاء شہیدا‘‘توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بس۔ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ ہوا، تو آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے(متفق علیہ)

کیوں صحابہ کی زندگی میں انقلاب اورہماری زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں !!

                اس کا جواب بھی سنیں! کیوں کہ قرآن کے ساتھ ان کا معاملہ بہت بہتر تھا، وہ اس کے حقیقی قیمت شناس تھے، اور نزول ِ قرآن کے مقصد کو اچھی طرح سمجھتے تھے اور اُن کا یہ اعتقاد تھاکہ قرآن کو مضبوطی سے تھامے بغیر اور اُس پر عمل پیرا ہوئے بغیر نہ تو کوئی عزت مل سکتی ہے اور نہ کوئی مدد حاصل ہوسکتی ہے۔

                صحابۂ کرام کی زندگی قرآن ہی میں گذرتی تھی، وہ لوگ قرآن میں ڈوبے ہوتے تھے ؛تلاوت کرتے ہوئے، خشوع اختیار کرتے ہوئے ، اس کی گہرائیوں میں غوطے لگاتے ہوئے، عملی موتیوں کو چنتے ہوئے اور عمل کے زیور سے آراستہ ہوتے ہوئے۔ہر ایک صحابی ایسا معلوم ہوتا جیسے زمین پر قرآن کا عملی نمونہ چل رہا ہو، قرآن ان کی زندگی تھی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس کا کچھ اثر قبول کرنے کی طاقت وتوفیق عطا فرمائے۔

حلاوتِ کلام اللہ کا مثالی واقعہ:

                حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: ہم حضور  ﷺکے ساتھ غزوۂ ذات الرقاع میں تھے۔ ایک مسلمان شخص نے ایک مشرک کی بیوی کو قتل کردیا۔اس مشرک کو اس پر بڑا غصہ آیا، اور اس نے اس بات پر قسم کھالی کہ جب تک میں اصحابِ محمدﷺ میں سے کسی کا خون نہ کرلوں، چین سے نہ بیٹھوں گا؛ چناں چہ اس مشرک نے مسلمانوں کے قافلہ کا تعاقب کیا۔ادھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک منزل پر اُترے اور حسب ِ معمول آپ نے رات میں پہرہ کا نظم فرمایا اور دریافت کیا کہ رات میں کون پہرہ دے گا؟ اس پر دوصحابی ایک مہاجرین میں سے یعنی حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ اور ایک انصار میں سے یعنی حضرت عبادہ بن بشر رضی اللہ عنہ نے حضور کی آواز پر لبیک کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ہدایت فرمادی کہ سامنے کی پہاڑی پر چلے جائیںاور وہاں جاگ کر رات گزاریں؛ چناں چہ یہ دونوں صحابی وہاں پہنچ گئے اور آپس میں طے کیا کہ ہم دونوں باری باری رات میں جاگیں گے، چناںچہ شروع شب میں حضرت عمار بن یاسر کا لیٹنا اور عبادہ بن بشر کا جاگنا طے ہوا۔

                 عبادہ بن بشر نماز کی نیت باندھ کر کھڑے ہوگئے، وہ مشرک پہلے سے ان کی تاک میں تھا ، اُس نے دور سے ان صحابی کو دیکھا تو وہ سمجھ گیا کہ قافلہ کے چوکیدار وپہرہ دار ہیں؛ چناں چہ اس نے اِن پر تیر چلایا ، اورتیرانہیں جالگا؛ یہ صحابی نماز میں تھے، نماز ہی میں انہوں نے تیراپنے بدن سے نکال پھینکا؛ اُس مشرک نے یکے بعد دیگرے تین بار اِن پر تیر سے حملہ کیا، آخر کار صحابی ٔ رسول نے رکوع سجدہ کیا اور نماز سے فارغ ہو کر اپنے ساتھی، یعنی حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو بیدار کیا ؛جب اُس مشرک نے دیکھا کہ ان میں ہلچل ہے تو سمجھ گیا کہ اِن کو میرا پتہ چل گیا ہے، وہ فوراً وہاں سے بھاگ گیا۔ حضرت عمار ؓ نے جب انصاری صحابی کے بدن پر خون ہی خون دیکھا، تو کہا سبحان اللہ ! تم نے مجھ کو شروع میں کیوں نہ جگایا؟ جب پہلی بار اس نے تیر مارا تھا، تو انصاری صحابی حضرت عبادہ بن بشر رضی اللہ نے جواب دیا کہ میں نے نماز میں ایک سورت شروع کر رکھی تھی، اس کو پوراکیے بغیر میں نے نماز کو ختم کرنا نہیں چاہا، جب پَے در پے تیر مجھے لگے تو میں نے رکوع کیا اور نماز تمام کرکے آپ کو آگاہ کیا۔ورنہ قسم بخدا! اگر مجھے اس گھاٹی کی نگرانی ؛جس کا حکم مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا ضائع ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا ،تو میں سورہ کو درمیان میں چھوڑنے کے بجائے اپنی سانس چھوڑدیتا یا پھر سورہ کو مکمل کرکے ہی دم لیتا۔

صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طاقت ہی کلام اللہ تھی:

                ان کی تمام تر قوت تعظیم ِ قرآن میںتھی ،قرآن پڑھتے ہوئے ان پرکلام اللہ کی ہیبت ہوتی اور وہ اس کی حلاوت میںڈوب جاتے؛ ان کی زندگی کا راز ہی یہ قرآن پاک تھا۔

غور کرنے کی بات:

                غور کریں! صحابی ٔرسول عباد بن بشر رضی اللہ عنہ کے اس جملے پر’’وأیم اللہ، لولا أن أضیع ثغرا أمرني رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بحفظہ لقطع نفسی قبل أن أقطعہا أو أنفذہا‘‘۔

                ترجمہ: قسم بخدا! اگر مجھے اس گھاٹی کی نگرانی جس کا حکم مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا ؛ضائع ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں سورہ کو درمیان میں چھوڑنے کے بجائے اپنی سانس چھوڑدیتایا پھر سورہ کو مکمل کرکے ہی دم لیتا۔

کیا ہمیں بھی کسی آیت نے بوڑھا کیا؟

                قارئین! خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر کلام ِپاک کا کس قدر اثر تھا! کہ آپ اہتمام سے اسے سنتے اور آپ کی آنکھیں بھر آتیں۔ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’سورۂ ہود‘‘ اور اس کے اخوات نے مجھے بوڑھا کردیا۔ کیا ہمیں بھی قرآن کی کسی آیت نے بوڑھا کیا ؟نہایت ہی افسوس کا مقام ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا شفیع اور بخشا بخشایا بندہ قرآن کی اِن سورتوں میں ذکر کردہ عذاب کی اس قدر فکر اوڑھتا ہے کہ بال سفید ہوجاتے ہیں۔

                اور آج ہم دن رات معاصی میں ڈوبے ہوئے ہونے کے باوجود آیت ِ عذاب کی تلاوت کرنے کے باوجود جو کس قدر ہولناک ہیں، ہمیں آخرت کی فکر نہیں رلاتی۔ قارئین! قرآن کو پڑھیں آیات میں غور کریں! جس طرح قرآن نے جہنم اور اس کے عذ۱ب کی منظر کشی کی ہے، کیا کوئی اُسے دل سے پڑھنے کے بعد گناہوں پر جرأت دکھائے گا۔اللہ تعالیٰ خوف ِ خدا اور لذت ِ تلاوت عطا فرمائے۔آمین

مقصود قرآن کا زندگی بن جاناہے:

                 قرآن پاک میں تدبر کیے بغیر اس کے معانی کو سمجھے بغیر صرف قرآن پاک کو ختم کرنا اصل مقصد نہیں؛ مقصد ِ اصلی تو ہماری زندگی کو ہمارے رہن سہن کو قرآن کے مطابق کرنا ہے اور مقصد ِ قرآن میں سے ہے کہ ہم ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں؛ تا کہ سمجھیں کہ قرآن کیا کہہ رہا ہے۔

                 وَقُرْاٰنًا فَرَقْنٰہُ لِتَقْرَاَہٗ عَلَی النَّاسِ عَلٰی مُکْثٍ وَّنَزَّلْنٰہُ تَنْزِیْلًاہ (اسرا:۱۰۶)

                ’’اور ہم نے قرآن کے جدا جدا حصے بنائے، تاکہ تم اسے ٹھہر ٹھہر کر لوگوں کے سامنے پڑھو، اور ہم نے اسے تھوڑا تھوڑا کرکے اتارا ہے‘‘۔

                پھر سے میں آپ لوگوں کو متوجہ کرتاہوں کہ یہ قرآن جو ہمارے ہاتھوں میں ہے وہی قرآن ہے، جو صحابہ کے ہاتھوں میں تھا؛ جس نے اس امت کو ایک مثالی گروہ دیا، جس میں ایسے ایسے علما تیار ہوئے جو انبیاعلیہم السلام کے صحیح وارثین بنے؛ کتنا بلند ہے ان کا مقام اور کس قدر قابل ِ احترام ہیں یہ لوگ۔ ان میں سے داعیوں کی جماعت تیار ہوئی جو امت اور اسلام کی حفاظت کے لیے شیشہ پلا ئی ہوئی دیوار ثابت ہوئے ، ان میں بڑے بڑے عبادت گذار، متقی، مثالی قائد اور ماہرین تیار ہوئے، ان میں مثالی خواتین اور عمدہ تربیت کرنے والی مائیں ہوئیں؛ جو فیشن اور عریانیت کا نام ونشان بھی نہیں جانتی تھیں، بازاروں کے بجائے گھروں کی زینت تھیں ، جن کی نگاہیں اس آیتِ کریمہ پر جمی اور ٹکی ہوئی تھیں:

                 وَقَرْنَ  فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاھِلِیَّۃِ الْاُوْلٰی وَاَقِمْنَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتِیْنَ الزَّکٰوۃَ وَاَطِعْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ طاِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ  الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ  وَیُطَھِّرَکُمْ  تَطْھِیْرًا (الاحزاب)

                ’’اور اپنے گھروں میں قرار کے ساتھ رہواور (غیر مردوںکو) بناؤ سنگھار دکھاتی نہ پھرو! جیسا کہ پہلی جاہلیت میں دکھا یا جاتا تھا اور نماز قائم کرو! اور زکوٰۃ اداکرو! اور اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرو!۔اے نبی کی اہل ِ بیت! (گھروالیو!) اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم سے گندگی کو دور رکھے اور تمہیں ایسی پاکیزگی عطا کرے، جو ہر طرح مکمل ہو‘‘۔

آج مانع کیا ہے؟

                قرآن نے ان کی زندگیوں کو ایسا مثالی بنادیا تھا کہ جس کے اندر دنیا وآخرت کی تمام عزتیں سموئی ہوئی تھیں… آخرآج کیا مانع ہے؟ کیوں قرآن صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین رحمہم اللہ جیسے نمونے پیدانہیں کررہا ہے؟ کیا قرآن نے امت سے ایسے افراد کھودیے یا خود امت نے قرآن سے اِن اوصاف کے حاملین ِافراد کو کھودیا ؟ نہیں ایسا نہیں ہے ، قسم بخدا! کمی ہمارے اندر ہے، عیب موجودہ امت میںہے۔ نعوذ باللہ! حاشا وکاللہ!عیب قرآن میں نہیں۔قرآن تو قیامت تک کے لیے دائمی معجزہ ہے۔اور اللہ تعالیٰ کے جانب سے امت کے ـلیے ہدایت ہے۔

                 اِنَّ  ھٰذَا الْقُرْاٰنَ  یَھْدِیْ لِلَّتِیْ  ھِیَ اَقْوَمُ  وَیُبَشِّرُ  الْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَھُمْ اَجْرًا کَبِیْرًا۔(اسراء:۹)

                حقیقت یہ ہے کہ قرآن وہ راستہ دکھا تا ہے، جو سب سے زیادہ سیدھا ہے اور جو لوگ (اس پر) ایمان لا کر نیت ِ عمل کرتے ہیں، انہیں خوش خبری دیتا ہے کہ ان کے لیے بڑا اجر ہے۔

حقیقتاً کمی ہمارے اندر ہے :

                آج ہر گھر میں قرآن پاک موجود ہے اورموبائل ، کمپیوٹر ، سی ڈی وغیرہ میں ہم قرائے کرام کی تلاوت سننے کا اہتمام بھی ؛ آج دسیوں نہیں سیکڑوں حفاظ موجود ہیں ، بل کہ آج امت میں حفاظ کرام کی جو تعداد ہے اتنی پہلے کبھی نہیں تھی ۔ ان سب کے باوجود بھی آج امت پریشان کیوں ہے اور وہ ان اہتمام کے باوجود بھی اصل پھل سے محروم کیوں ؟ اس لیے کہ تلاوتِ کلام پاک کے مکمل شرائط کا ہم لحاظ نہیں کررہے ہیں ۔ بس ہم صرف الفاظِ قرآن کے اہتمام پر ہی اکتفا کر بیٹھے ہیں اور جب تک ہم کلام پاک کی تمام شرائط اور اس کے تلاوت کے مقاصد کو ملحوظ نہیں رکھیں گے ،یہ کلامِ معجز کا اعجازِ کامل امت میںکسی حال بھی ظاہر نہیںہوگا ۔

                میں یہ نہیں کہتا کہ اس کے حروف کی تصحیح، الفاظ کی صحت اور تجوید کی طرف دھیان نہ دیا جائے، بل کہ اس کا اہتمام توکیا ہی جائے اور جہاں اہتمام نہیں ہے وہاں توجہ دیا جائے ۔ ہاں! لیکن اپنی تمام توجہ اور کوششوں کو اسی پر صرف کردینا اورمعانی قرآن ، پیغامِ قرآن ، احکامِ قرآن ، اعجازِ قرآن اور موعظتِ قرآن کی طرف نظر نہ کرنا ، جیسا کہ آج ہورہا ہے ، یہ سبھی چیزیں قابل توجہ ہیں ۔ یہ امت قرآن پڑھتی نہیں ہے ،اگر پڑھتی بھی ہے تو اس کے ذہن میں صرف اتنے ہی خاکے ہیںحصولِ ثواب ، ایصالِ ثواب ، دفاع ِبلا ،حصول شفا اور بس!

                بس ہم کماً اسے پڑھتے ہیں کیفاً نہیں ۔ آج ہم موبائل میں، کمپیوٹر میں اورگاڑیوں میں تلاوتِ قرآن لگاکر چھوڑ دیتے ہیں ۔موبائل اورٹیپ ریکارڈ بجتا رہتا ہے ، درو دیوار کے علاوہ کوئی اس کا مخاطب نہیں ہوتا! استغفراللّٰہ !  اللہ کی پناہ ایسا لکھنے سے بھی لیکن یہ امر واقع اور حقیقت ہے ۔ ہم اپنے کاموں میں مشغول ہوتے ہیں اور ٹیپ ریکارڈپورے آن بان سے بجتا رہتا ہے ، کہاں گیا استماع قرآن کا وجوب !!

                ہمارا لگاؤ کلام پاک سے بس شکلی ہے حقیقی نہیں ۔ کچھ حد تک اس کے حروف ، لہجے اور تجوید وقرأت سے تو ہے ،اور اسی طرح ہماری توجہ قرآن پاک کے ذریعہ تعویذ اور جھاڑ پھونک میں تو ہے اور قسم بخدا یہ امور بھی ضروری ہیں ۔ہاں! لیکن قرآنِ پاک سے ہمارا اصلی لگاؤ نہیں ۔ اس کے معانی سے حقیقی دل چسپی نہیں ، ہماری زندگی میں اس کے حدود وواجبات کی رعایت نہیں ،اوامرو نواہی کی طرف کوئی توجہ نہیں ۔ بس یہی وجوہات ہیں کہ قرآن باوجود آج بھی مؤثر ہونے کہ ہم پر اثر انداز نہیں ۔ ہم نے اعجاز ِقرآن سے خود کو محروم کرلیا ہے ، جس کے پاداش میں ہمارے قلوب بدل چکے ، ہماری تہذیب وتمدن مغربیت سے متاثر ہوچکی ہے اورہم کلام اللہ سے فائدہ نہیں اٹھا پارہے ہیں ۔

آئیں!ان آیات کی روشنی میںقرآنِ پاک سے اپنے قلوب کو آباد کرنے کا عہد کریں:

                اِنَّمَاالْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَاذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ وَاِذَا تُلِیَتْ عَلَیْھِمْ اٰیٰتُہٗ زَادَتْہُمْ اِیْمَانًا وَّعَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ۔(الانفال:۲)

                ’’مومن تو وہ لوگ ہیں جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر ہوتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں ۔ اور جب ان کے سامنے اس کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو وہ آیتیں ان کے ایمان کو اور ترقی دیتی ہیں اور وہ اپنے پرور دگار پر بھروسہ کرتے ہیں‘‘ ۔

                 اِنَّمَآ  اُمِرْتُ  اَنْ اَعْبُدَ رَبَّ ھٰذِہِ الْبَلْدَۃِ  الَّذِیْ  حَرَّمَھَا  وَلَہٗ کُلُّ شَیْئٍ ز وَّاُمِرْتُ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ  الْمُسْلِمِیْنَ  ہ وَاَنْ  اَتْلُوَا الْقُرْاٰنَ ج  فَمَنِ  اھْتَدٰی  فَاِنَّمَا یَھْتَدِیْ لِنَفْسِہٖ ج وَمَنْ ضَلَّ فَقُلْ اِنَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ ہ(النمل ۱۹،۹۲)

                (اے پیغمبر ! ان سے کہہ دو کہ : ) ’’ مجھے تو یہی حکم ملا ہے کہ میں اس شہر کے رب کی عبادت کروں ،جس نے اس شہر کو حرمت بخشی ہے ۔اور ہر چیز کا مالک وہی ہے اور مجھے یہ حکم ملا ہے کہ میں فرماں برداروں میں شامل رہوں ۔ اور یہ کہ میں قرآن کی تلاوت کروں ۔ ‘‘ اب جو شخص ہدایت کے راستے پر آئے ، وہ اپنے ہی فائدہ کے لیے راستے پر آئے گا اور جو گمراہی اختیار کرے تو کہہ دینا کہ : ’’ میں تو بس ان لوگوں میںسے ہوں جو خبردار کرتے ہیں ۔‘‘

                اللہ ہمیں تدبرِ قرآن کے ذریعے مردہ قلوب کو آباد کرنے اور اس اضمحلالی زندگی میں انقلاب لانے کی توفیق وطاقت عطا فرمائے۔آمین