درس و عبرت بھرا سفر !” انڈمان و نکوبار “
حذیفہ غلام محمد وستانوی
خلیج بنگال میں واقع انڈیا کے ” انڈمان و نکوبار جزائر “ ۵۷۲/ جزیروں پر مشتمل ہے، جن میں سے صرف ۳۸/ پر انسانی آبادی ہے، یہ جزیرے فاصلہ کے حساب سے انڈیا کی بہ نسبت جنوب ِمشرقی ایشیا کے زیادہ قریب ہیں، یہ جزیرے شاندار ساحلوں، سمندری حیات، ساحلی خوبصورتی، اور جنگلات کے حوالہ سے مشہور ہیں، لیکن دل کش نظاروں کے علاوہ، ان کا سیاہ ماضی بھی ہے، کہ وہ ہندوستان کے جنگ ِ آزادی کے ان متوالوں کی قربان گاہ ہیں، جنہیں انگریزوں نے کالے پانی کی سزا کے طور پر مرنے کے لیے یہاں ڈھکیل دیا تھا ۔
اللہ تعالی نے اس دنیائے رنگ و بو کو حضرت انسان کے لیے بڑا خوبصورت، دلکش، دل فریب امتحان گاہ بنایا ہے، جہاں نعمت بھی ہے اور نقمت بھی، آسائش بھی ہے اور آزمائش بھی ،یہ دنیا انسان کے لیے ہمیشہ رہنے کی جگہ نہیں ، بلکہ عبرت کی جا ہے #
” یہ عبرت کے جا ہے تماشا نہیں ہے “
مگر دنیائے تاریخ کے سب سے اڈوانس (Advance)اور پر تعیش دور کو انسان نے کھیل و تماشہ بنا کر رکھ دیا ہے، جس پر صرف افسوس ہی کیا جاسکتا ہے، جبکہ نعمتیں اس لیے نہیں ملتیں کہ انسان بدمست و خود غرض ہوجائے، اور اپنی ہی دنیا میں مگن ہوکر رہ جائے، ہمدردی، غمخواری، اور عبرت و نصیحت سے رشتہ ناطہ توڑ کر بیٹھ جائے۔
عجیب دور ہے ! جس میں ساری ظاہری نعمتیں پانے کے باجود انسان، انسانیت سے عاری ہو کر زندگی گزار رہا ہے، عقلمند کے لیے اشارہ کافی ہے۔
دنیا میں انسان کو ملنے والی نعمتوں میں سب بڑی نعمت ” ایمان“ ہے، اس کے بعد ” علم “ ، پھر ” اخلاق “ ، اور اس کے بعد امن وامان ،اسی ایمان و علم کی برکت سے بندہ کو دنیا کے مختلف خطوں کے سفر کے مواقع ملتے رہتے ہیں، لوگ دعوتیں دیتے ہیں کہ آپ ہمارے یہاں بھی آکر لوگوں میں تعلیمی بیداری پیدا کیجیے، اور انہیں ایمان وعلم کی عظمت واہمیت سے روشناس کرایئے۔
الحمدللہ! اس کم عمری میں دنیا کا بہت سا حصہ دیکھا، بالخصوص ہندوستان تو تقریباً پورا ہی دیکھ لیا، البتہ ہندوستان کا وہ جز جو جزائر پر مشتمل ہے، اور ہندوستان سے کافی دوری پر واقع ہے، باوجود اس کے کہ وہاں کے آباد متعلقین ومحبین کی طرف سے بار بار دعوت ملتی رہی ، مگر حاضری نہیں ہو سکی ،کیوں کہ ہمارا عقیدہ ہے ”کل شیء مرھون بالقدر “کہ ہر چیز مرہون بالقدر ہوتی ہے، بس مقدر میں ” انڈمان و نکوبارجزائر “ کی حاضری کے لئے، ۲۹/ اور۰ ۳/ جون، ۲۰۲۴/ کی تاریخیں طے تھیں، اس لئے تقدیر نے تدبیر کی راہیں ہموار کردی، اور اس کی صورت کچھ یوں بنی کہ مئی کے مہینے میں ہمارے صدیق حمیم یعنی پرجوش اور جگری دوست، جامعہ انجینئرنگ کالج کے سابق اسٹوڈنٹ: ” احمد بھائی تمبی “ (جو ” دادا بھائی فیملی “ سورت سے تعلق رکھتے ہیں، یہ فیملی جامعہ کے ساتھ بہت طویل عرصہ سے جڑی ہوئی ہے، ”حاجی ابراہیم دادامرحوم “ والد صاحب کے بہت ہی قریبی دوست اور معاون ہی نہیں بلکہ جامعہ کے ٹرسٹی بھی رہے ہیں اور جامعہ کی عظیم ملی، تعلیمی، دینی و سماجی خدمات میں ان کا بڑا اہم کردار رہا ہے، والد صاحب کو ، دنیائے مدارس کی سب سے زیادہ معاون برادری ” میمن قوم “ سے جوڑنے میں ہمارے حاجی ابراہیم دادا صاحب مرحوم کا کلیدی کردار رہا ہے، آپ بڑے بے لوث اور والد صاحب کے عاشق زار تھے، جامعہ کی خدمات جلیلہ کا اجر و ثواب آپ کے لئے صدقہ جاریہ ہے ، ما شاء اللہ آپ کے تمام ہی صاحبزادگان اور دیگر بہت سے اعزہ واقارب آج بھی، جامعہ سے ویسا ہی تعلق رکھتے ہیں، جیسا حاجی صاحب مرحوم کا تھا، اللہ تعالی ہم سب کو اخلاص کے ساتھ نیک کاموں میں ایک دوسرے کا معاون بنائے رکھے، اور تمام دینی خدمات کو اپنے ہاں شرف قبول بخشے، آمین یارب العالمین)نے معمول کے مطابق علیک سلیک کے بعد کہا ، حضرت ! اپنے کو ” انڈمان و نکوبار “ جانا ہے، میں مسلسل انکار کرتا رہا، اور ان کی طرف سے برابر اس پر اصرار ہوتا رہا، ان کا اصرار میرے انکار پر غالب آگیا، اور بالآخر میں نے ہامی بھر لی، کہ ان شاء اللہ کسی وقت پروگرام بنائیں گے!! تو وہ کہنے لگے حضرت ایسا نہیں، یہ میرے خسر ” حاجی افضل “ بیٹھے ہوئے ہیں، انہوں نے وہاں جماعت میں ایک چلہ لگایا ہے، وہاں سے ان کے ایک فعال اور متحرک دوست ”مولانا معاذ پالن پوری “ بھی یہاں آئے ہوئے ہیں اور وہ یہ کہہ رہے ہیں :کہ ہم کئی سالوں سے مولانا حذیفہ کو، مولانا ارشد پالن پوری ، (استاذ دارالعلوم کھڑود بھروچ گجرات) کے ذریعے دعوت دے رہے ہیں، مگر سفر کی کوئی ترتیب نہیں بن پا رہی ہے، لہٰذا آپ ان کی کوئی تاریخ طے کردو، اس لئے بقر عید کے بعد ۲۸/ ۲۹/ ۳۰/ جون، ۴ ۲۰۲/ کو پروگرام بناتے ہیں، جمعرات کو ” سورت “ سے ”حیدرآباد“، جمعہ کی صبح ”حیدرآباد “سے ”پورٹ بلیر“، اور وہاں جمعہ میں خطاب، اس کے بعد ” ہفتہ “ کو ”تاریخی مقامات“کی سیر، اور اتوار کی صبح، ”نورانی مکاتب “کا جلسہ، اور رات میں ”تعلیمی بیداری “پر اجلاس عام۔
اس کے بعد احمد بھائی یہاں اور مولانا معاذ وہاں، دونوں حضرات سفر کی ترتیب میں مشغول ہوگئے، مولانا معاذ نے احمد بھائی سے کہا کہ حضرت کے ساتھ اگر منور زماں صاحب کو بھی دعوت دی جائے تو بہتر ہوگا ،تو احمد بھائی نے انہیں بھی دعوت دے کر اس سفر پر آمادہ کرلیا، اس طرح یہ طے پایا کہ بندہ ” حذیفہ “ ، ” منور زمان صاحب “ ، ”مولانا جاوید “ (ناظمِ مکاتب جامعہ اکل کوا ) ”حاجی افضل میمن سورت“ ، اور ” احمد بھائی تمبی “ ، پانچ رفقاء پر مشتمل قافلہ مذکورہ تاریخوں میں مقررہ پروگرام کے مطابق روانہ ہوگا۔ ان شاء اللہ!
پھر مذکورہ تاریخوں سے ایک ہفتہ پہلے بندے نے احمد بھائی سے یہ سفر کرنے سے معذرت چاہی، مگر انہوں نے کہا کہ نہیں حضرت ! چلنا تو پڑے گا ہی، تو میں نے کہا ٹھیک ہے لیکن پروگرام اس طرح بنایئے کہ ایک، دیڑھ دن میں واپسی ہوجائے، تین دن بہت مشکل ہے، ہفتہ کی شام چلتے ہیں، اتوار کو پروگرام کرکے، پیر کے دن واپسی ہوجائے گی، احمد بھائی نے کہا : سفر قدرے طویل اور پر مشقت ہے، اس لئے بہتر یہ ہوگا کہ جمعہ کی شام کو چلتے ہیں اور ان شاء اللہ پیر کو واپسی ہوگی، تو بندے نے بادل ِ نا خواستہ اسے منظور کر لیا۔
جمعہ کے دن چار بج کر ۳۵/ منٹ پر ہم”اکل کوا “سے روانہ ہوئے، راستہ میں ایک جگہ عصر کی نماز ادا کی، ۸/ بجے سے پہلے ” سورت “ پہنچے، ایرپورٹ کی کار روائی سے فارغ ہو کر مغرب اور عشاء کی نمازیں ادا کیں، اور ۹/ بجے ” سورت “ سے بذریعہ ہوائی جہاز ”حیدرآباد “ پہنچے، آئی ایم ایس اسکول کے اونر اور مالک ” لطیف خان صاحب “ ہوائی اڈے پر استقبال کے لیے موجود تھے، تقریباً گیارہ بجنے والے تھے ، تو انہوں نے کہا کہ حیدرآباد میں حالات بہتر نہیں ہیں، پچھلے چند دنوں میں قتل کی کئی واردات ہوئی ہیں، ا س لئے حکومت سختی کر رہی ہے، بازار اور ہوٹلیں ۳۰:۱۰/ بجے بند کروا دی جاتی ہیں، تو بہتر ہے کہ ہم یہیں ایئرپورٹ پر ” فوڈ کورٹ “ میں کھانا کھا لیتے ہیں، ہم نے کہا: بھائی !ہم مہمان ہیں اور آپ میزبان، اور مہمان میزبان کے تابع ہوتا ہے، اس لئے آپ جو کہیں گے اس کی تعمیل ہو گی، جب ہم فوڈ کورٹ میں داخل ہوئے تو سامنے ہی ”KFC“ تھی، تو میں دل ہی دل میں سوچنے لگا ، یا اللہ ! یہ تو بائیکاٹ کی فہرست میں ہے، بیت المقدس کی آزادی کی کوشش کرنے والوں کے خلاف، غزہ کے نہتے بچوں، عورتوں اور بڑھوں کے قتل عام میں شریک، ملٹی نیشنل کمپنیوں میں سے ایک ہے، ہم سب کو اسرائیل نواز کمپنیوں کا کلی طور سے بائیکاٹ کرنا چاہیے، یہ ایمان کا ادنیٰ درجہ ہے، اللہ کا شکر ہے کہ لطیف خاں نے کہا : ”گورمینٹ کنافہ ریسٹورانٹ “ مسلم ہوٹل ہے، وہاں کھانا، کھالیتے ہیں، تو ہم نے وہیں کھانا کھا لیا، ماشاء اللہ ! اس ہوٹل کا کھانا بڑا لذیذ تھا ، احمد بھائی کہنے لگے : حضرت یہ فوڈ کورٹ بڑا اچھا ہے، اور کھانا بھی شاندار ہے، لطیف بھائی کی اس دعوت پر ہم سب نے ان کا شکریہ ادا کیا۔
منور زماں صاحب نے یہ ترتیب بنائی تھی کہ کھانے کے بعد لطیف خان ہمیں اپنی گاڑی میں ” ہمالیہ بکس“ کے مالک جناب ” رفیع صاحب “کے یہاں لے جائیں گے، جب ہم ان کے یہاں پہنچے، تو وہ فرمانے لگے کہ میں نے سر سے کئی بار کہا تھا کہ مولانا حذیفہ وستانوی صاحب سے ملنے کا شوق ہے، تو الحمد للہ! آج اس کی تکمیل ہو گئی۔
رفیع صاحب سے مختلف مسائل پر کچھ دیر تبادلہ خیال ہوا، موصوف نے کھجور ، چائے اور دیگر اشیاء سے ہم سب کی ضیافت بھی فرمائی، پھر ہم دو بجے ” مٹروپولن ہوٹل “ پہنچے، کچھ دیر آرام کیا، اور چار بجے بیدار ہوئے، تقریباً ساڑھے چار بجے فجر کی نماز ادا کی، اور اس کے بعد جب ائیر پورٹ پہنچے، تو ہمیں بتلایا گیا کہ آپ تاخیر سے آئے ہیں، اس لئے اب سامان ساتھ ہی لے جانا ہوگا اور بعجلت گیٹ ۱۵/ پر پہنچ جانا ہے، الحمدللہ ! دروازہ بند ہونے سے پہلے ہی ہم وہاں پہنچ گئے اور ہوائی جہاز پر سوار ہوگئے، منور زماں صاحب کہنے لگے : حضرت کے ساتھ ماشاء اللہ ! کرامت ہی دیکھنے کو ملتی ہے، بظاہر نہیں لگ رہا تھا کہ ہم سوار ہو پائیں گے، تو میں نے عرض کیا: یہ ” سورہ یٰسین “ اور ” اذکارِ مسنونہ “ کی برکت ہے، جو بندہ نے ہوٹل سے نکلتے ہی گاڑی میں بیٹھ کر ،معمول کے مطابق، اللہ کی توفیق سے پڑھ لیا تھا، اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل ِخاص اور رحم و کرم کا معاملہ فرمایا ہے، اس پر ہم اس کا جتنا شکر ادا کریں کم ہے، تو احمد بھائی اور منور زمان صاحب کہنے لگے : نومبر میں ” مسابقاتِ قرآنیہ “ کے لیے ہندوستان کے طول و عرض کے سفر کے دوران بھی متعدد بار ایسا ہی ہواہے، خیر! یہ ہمارے دوستوں کا حسن ِظن ہے۔ اللہ پاک ہمیں ان کے حسن ظن سے بھی زیادہ بہتر بنائے۔ آمین یارب العالمین!
مسلسل ۳/ گھنٹے کی ہوائی مسافت طے کرنے کے بعد ہم ” پورٹ بیلر “ پہنچے، چوں کہ تھکے ماندے تھے، اس لئے دورانِ سفر زیادہ تر وقت سونے میں ہی گزرا، البتہ جب جب آنکھ کھلتی تو محض اللہ کی توفیق سے، عادت کے مطابق، مطالعہ میں مشغول ہوجاتا، پھر نیند غالب آجاتی تو کچھ سوجاتا، آنکھ کھلتی تو پھر مطالعہ میں لگ جاتا ، خیر ! اس طرح عافیت کے ساتھ یہ سفر پورا ہوا، اور تقریباً ۴۵:۱۰/ پر جب ہم ائیرپورٹ سے باہر آئے، تو ”مولانا معاذ صاحب “ ، ” ڈاکٹر آصف صاحب “ اور دیگر بہت سے مخلصین استقبال کے لیے موجود تھے، پوری گرم جوشی کے ساتھ ملاقات ہوئی اور گاڑی میں سوار ہوکر میزبان کے ترتیب دیے پروگرام کے مطابق، ” جناب حسن بھائی “ کے گھر ناشتہ کے لئے پہنچ گئے، گھر تیسری منزل پر تھا، دسترخوان پرتکلف تھا، ناشتہ سے فارغ ہوئے اور ” ہوٹل “ پہنچے تو ظہر کا وقت ہوچکا تھا، اس لئے ظہر کی نماز ادا کی اور کچھ دیر لیٹ گئے، بعدہ پروگرام کے مطابق دوسرے جزیرے پر واقع ” دارِ ارقم اسکول “ کے لیےچل دئے ۔
” دارِ ارقم اسکول “ کی طرف روانگی:
ظہر کی نماز سے فارغ ہو کر ” دارِ ارقم اسکول “ کے پروگرام کے لیے ہوٹل سے ساحلِ سمندر کی جانب چل دیے، ساحل کے قریب پہنچے، تو معلوم ہوا کے کار میں سوار ہو کر چلنا ممکن نہیں ہے، لہٰذا کچھ دور پیدل چل کر پانی کے جہاز پر سوار ہوگئے، ناخدا سے علیک سلیک کے بعد کیبن (Cabin)کی دوسری جانب بیٹھ کر، سمندر کے خوبصورت مناظر سے لطف اندوز ہونے لگے، مسافت بہت مختصر تھی، اس لئے دس، پندرہ منٹ میں ہی جہاز دوسرے جزیرے پر لنگرانداز ہوگیا، اور ہم لوگ اس سے اتر کر گاڑی پر سوار ہوکر چند ہی منٹ میں ” دارِ ارقم اسکول “ کے دروازہ پر پہنچ گئے۔
” دار ِارقم اسکول “ کا تعارف اور امتِ مسلمہ کے لئے نمونہٴ عمل:
جیساکہ اسکول کے بانی مبانی ”مولانا خالد بیگ ندوی صاحب “ دامت برکاتہم نے ایک ملاقات کے دوران بیان کیا کہ ” دارِ ارقم اسکول “ کے محرک ، مفکر اسلام ” حضرت مولانا علی میاں ندوی “ نوراللہ مرقدہ ہیں، مولانا خالد بیگ ندوی صاحب کی نگرانی میں ملک بھر میں تقریباً ۵۶/ اسکول بہت اعلیٰ اور معیاری پیمانے پر کام کر رہے ہیں، یقیناً موجودہ حالات میں یہ مسلمانوں کی ایک اہم ترین ضرورت ہے، کہ جس طرح ہمارے اکابر نے ۱۸۵۷/ کے بعد، ہندوستان میں مدارسِ اسلامیہ اور مکاتبِ دینیہ کا جال بچھا کر اپنی نسلوں کے ایمان و اسلام کی حفاظت کا سامان مہیا کیا تھا، اسی طرح اب ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اپنے مدارس، مکاتب، دعوت و تبلیغ، خانقاہی نظام اور دیگر اسلامی تحریکات کو مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ ہر جگہ اپنے پرائمری اور میڈل سیکنڈری اسکولیں قائم کریں، ان میں اسلامی ماحول فراہم کریں، اور طلبہ کی مکمل ایمانی واسلامی تربیت کا نظام بنائیں، اس سلسلہ میں ” دارِ ارقم “ ایک کامیاب ماڈل (Model) ہے، ہر ریاست (State) میں اس طرح کی اپنی کالجیں اور یونیورسٹیاں قائم کی جانی چاہیے، اہلِ ثروت مسلمان اور دانشور علما مل جل کر یہ کام کریں، ورنہ بظاہر آئندہ نسلوں کے ایمان و اسلام کی کوئی ضمانت (Guarantee) نہیں دی جاسکتی، اور اگر آج ہم نے مل جل کر یہ بیڑا نہیں اٹھایا اور خدا نہ کرے ! ہماری موجودہ و آئندہ نسلیں ارتداد کی شکار ہوئیں تو بروز قیامت ہم اللہ تعالیٰ کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے، اس لئے خدارا !خوابِ غفلت سے بیدار ہوجائیے، اور اپنی نسلوں کے ایمان واسلام کی فکر کو اوڑھ لیجیے ! اللہ پاک ہم سب کو فہمِ صحیح اور ایمانی بصیرت عطا فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین!
جامعہ کا فیض اور احساسِ تشکر:
جیسے ہی گاڑی، اسکول کے دروازہ پر رکی اور استقبال کے لیے قطار میں کھڑے احباب پر نظر پڑی تو رفیق سفر ” مولانا جاوید “ نے کہا: ماشاء اللہ ! یہ تو اپنے جامعہ کے فاضل ہیں!! دریافت کرنے پر انہوں نے کہا : جی بالکل ! بندہ کا نام ” محمد مسعود اشاعتی “ ہے، اور میں نے سن ۲۰۱۲/ میں جامعہ اکل کوا سے سند فضیلت حاصل کی ہے، ان سے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ الحمد للہ! اتنے دور دراز علاقے میں بھی جامعہ کا فیض جاری و ساری ہے، اور جامعہ کے فاضل یہاں قرآنِ کریم اور اسلامیات کے اسکول میں معلم ہیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعاء ہے کہ وہ جامعہ کے اس فیض کو پوری دنیا میں عام فرمائے، اور فضلائے جامعہ کو اس فریضہ کے لئے بعافیت قبول فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین۔
ایک نشست انتظامیہ و اساتذہ میں :
اسکول کے ذمہ داران کے ساتھ کچھ دیر گفتگو ہوئی تو ماشاء اللہ ان نوجوانوں کو متحرک اور فکرمند دیکھ کر بڑی مسرت ہوئی۔بچوں کے والدین کو بھی جمع کیا گیا تھا تو بندہ نے ، پھر” منور زماں “ صاحب نے کچھ دیر، ان سے تعلیم و تربیت کے عنوان پر گفتگو کی، اس کے بعد کھانے سے فارغ ہوئے اور دوبارہ پانی کے جہاز پر سوار ہوکر ” پورٹ بیلر “ کی جانب واپس روانہ ہوئے۔
تاریخِ آزادی کی ایک سنہری کڑی، ” دارِ ارقم “ سے ” پورٹ بلیر “ کے جیل کی جانب:
” پورٹ بیلر “ پہنچ کر ہم سب سے پہلے اس جیل کی طرف روانہ ہوئے، جہاں مجاہدینِ آزادی کو مختلف قسم کے ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا اور انہیں قید با مشقت میں ڈالا گیا۔ جیل پہنچنے پر کسی نے کہا: آپ حضرات تاخیر سے پہنچے ہیں، اس لئے اب اندر نہیں جا سکتے! مگر مولانا معاذ نے کسی کو کال کی، تو ”تنویر بھائی“ وہاں پہنچ گئے اور کہا: جلدی سے ہم جیل کے اہم متعلقات دیکھ لیتے ہیں۔
عبرت و نصیحت:
تذکرہ ان مجاہدوں کا جنہوں نے ملک کے لئے عظیم قربانیاں پیش کی:
جیل کے پہلے مقام پر گئے تو ہمیں بتایا گیا: جب آزادی کے کسی بھی متوالے کو پھانسی کی سزا دینی ہوتی تھی تو پہلے اسے اس مقام پر غسل دیا جاتا، اس کے بعد چند قدم پر ” پھانسی گھاٹ“ پر لایا جاتا اور پھانسی دے دی جاتی۔ اس تصور سے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوگئے کہ آہ ․․․ ! ان ظالم و جابر انگریزوں نے ہمارے ملک عزیز کے ہزاروں افراد کو اپنے جائز حق کے مطالبے پر بڑی بے دردی کے ساتھ موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اللہ ہی جانتا ہے ان بیچاروں پر کیا بیتی ہوگی!
باشندگان ہند کے لئے اہم سبق:
آج کے ہندوستانیوں کے لیے اس میں سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ استعماری طاقت برطانیہ کے خلاف اس طویل جنگ آزادی میں بلا تفریق مذہب و مسلک، سب نے متحد ہو کر مقابلہ کیا، جان، مال اور عزت و آبرو کی قربانیاں دیں، تب جاکر ہمیں آزادی ملی۔ اگر ہمارے اُس وقت کے آباء و اجداد آپس میں مذہبی وقومی بنیادوں پر لڑتے رہے ہوتے تو ہمیں آج بھی آزادی کی نعمت حاصل نہیں ہوتی اور ہم یوں ہی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہوتے۔
مگر افسوس کہ آج ایک طبقہ اس بھائی چارگی کو فراموش کر کے منافرت پر اتر آیا ہے، جس کا نقصان پورے ملک کو ہو رہا ہے، آج یہ طبقہ جس طرح ہمیں آپس میں دست وگریباں کرنے اور بھائی چارگی کو پارہ پارہ کرنے کے درپہ ہے اسی طرح انگریزوں نے بھی ہمارے آباء واجداد کو مذہب و قوم کی بنیاد پر آپس میں لڑانے کی بہت کوشش کی تھی، مگر ہمارے آباء و اجداد نے بیدار مغزی کا ثبوت دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ جب ہم سب کا دشمن ایک ہی ہے اور وہ ہے ” انگریز “ تو ہمیں جب تک اس سے آزادی نہیں مل جاتی ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے، اور بغیر کسی آپسی اختلاف کے استعماری طاقت کے خلاف محاذ پر ڈٹے رہیں گے، آج ہمیں بھی اپنے ان اسلاف کے نقش ِقدم پر چلنا ہوگا، ورنہ ہم بڑے قومی و ملکی خسارے میں مبتلا ہوں گے۔ نہ ملک ترقی کرے گا اور نہ ہی یہاں امن و امان ہوگا۔ اللہ تعالی صحیح سمجھ، اور توفیق عمل عطا فرمائے۔ آمین یا رب العلمین!
اس سفر نامہ کا اصل مقصد ہی آزادی کی جد و جہد کی سنہری یادوں کو تازہ کرنا ہے تو آئیے! جیل کی مزید تفصیلات جاننے سے پہلے مختصراً یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ
انگریز ہندوستان کیسے آئے ، کس طرح قابض ہوئے؟
پھر کیسے ان کے خلاف ملک گیر بغاوت ہوئی؟
انہوں نے اسے کچلنے کی کیا کوششیں کی؟
کس طرح قربان گاہ کے طور پر آزادی کے متوالوں کو ” کالے پانی کی سزا“ دینے کے لیے یہاں لایا گیا ؟
وہ کون لوگ تھے،کس طرح لائے گئے ، ان پر ان جیلوں میں ظلم کے کیسے کیسے پہاڑ توڑے گئے، اور پھر وہ لوگ آزادی میسر ہونے تک کس طرح پہاڑ سے زیادہ مضبوطی کے ساتھ ڈٹے رہے؟۔
نیز آج ان کی قربانیوں کو کیسے فراموش کیا جارہا ہے اور تاریخ کو مسخ کرکے، جو اصل ہیرو تھے، انہیں بھلانے کی سعی کی جارہی ہے اور جو غدار تھے انہیں ہیرو بنا کر پیش کرنے کی کیسی کوششیں ہورہی ہیں؟۔
ظالم یہ بات یاد رکھے کہ حقیقت خوشبو کی مانند ہوتی ہے، چاہے جتنی بھی کوشش کی جائے، اسے چھپایا نہیں جا سکتا۔ مورخ ہمیشہ دلیر، منصف اور بے باک ہوتا ہے، وہ سب کچھ صاف صاف لکھ دیتا ہے اور یہی اس کا فریضہ ہے۔ آج کل کے جعلی قلم کار، نیز ناٹک، فلموں اور سیریلز (SERIALS) کے اداکار جتنی بھی کوشش کریں، وہ حقیقت کو نہیں بدل سکتے، ان کی تمام تر کوششوں کے باوجود، وہ کبھی بھی اس میں کامیاب نہیں ہو سکتے، وہ ہمیشہ محض اداکار ہی رہیں گے، اور حقیقت اپنی جگہ قائم ہے، اور ان شاء اللہ تعالی تا قیام قیامت قائم رہے گی ۔
انڈمان و نکوبار میں واقع جیل کی تاریخ و تفصیل جاننے سے قبل ہمیں سب سے پہلے ان سوالوں کا جواب جاننا ضروری ہے:
انگریز ہندوستان میں کب، کیسے اور کیوں آئے؟
کس طرح قابض ہوئے؟
پھر کیسے ان کے خلاف ملک گیر بغاوت ہوئی؟
انہوں نے اسے کچلنے کی کیا کوششیں کی؟
ذیل میں آرہی تحریر میں مذکورہ بالا سوالوں کے جوابات کو واضح انداز میں پیش کیا جارہا ہے:
انگریز اور یورپی اقوام کی آمد اور بعد میں ان کا تسلط بھی ایک عجیب مخمصہ اور پہیلی سے کم نہیں، ” پروفیسر ڈاکٹر مبارک علی“ نے ایک حیرت انگیز عنوان سے بڑی دلچسپ بات لکھی ہے، عنوان ہے:”کیا انگریزوں نے ہندوستان کو فتح کیا تھا؟“۔
” ڈاکٹر مبارک علی “ لکھتے ہیں:
” تاریخ میں جب بھی کسی ملک کو فتح کیا گیا تو حملہ آور اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ آتے، خونریز جنگیں ہوتیں، اور اگر حملہ آور فتح یاب ہوتے تو شکست خوردہ ملک و قوم کے خزانوں اور دولت پر ان کا قبضہ جائز ہو جاتا تھا۔ بالآخر یا تو وہ ملک پر قبضہ کر کے اپنے اقتدار کو مضبوط کرتے تھے یا پھر لوٹ کے مال کے ساتھ واپس چلے جاتے تھے۔
اس حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے، جب ہم انگریزوں کی آمد اور ان کی تاریخ کو دیکھتے ہیں تو سب سے پہلی بات تو یہ واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ انگریز ہندوستان میں حملہ آور ہو کر نہیں آئے تھے بلکہ وہ بحیثیت تاجر آئے تھے، جن کا مقصد تجارت کے ذریعے منافع کمانا تھا، پھر وہ کون سے حالات تھے کہ وہ تجارت سے سیاست کی طرف چلے گئے اور یہاں اپنا اقتدار قائم کر لیا؟ “ ۔
انگریزوں کی حکمت عملی:
ڈاکٹر صاحب نے بڑا اچھا سوال اٹھایا اور اس کے دو جواب بھی دیے ، مگر آگے بڑھنے سے پہلے ” راقم الحروف “ ایک وضاحت کردینا چاہتا ہے کہ انگریز بڑی چالاک، عیار اور مکار قوم ہے، جہاں اس نے انسانوں پر جسمانی مظالم کے پہاڑ توڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی وہیں اپنے آپ کو صاف ستھرا اور ہمدرد ظاہر کرکے لوگوں کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے جھوٹ کا سہارا لینے اور دھوکہ دہی سے بھی گریز نہیں کیا۔
” جھوٹے ہمدرد “ تجارت سے سیاست کی طرف:
اسی جھوٹی ہمدردی کو بیان کرتے ہوئے، ڈاکٹر مبارک علی ایک انگریز کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ ” انگریز تو تجارت کے لیے آئے تھے مگر انہوں نے آخری مغلیہ دور کی کمزوری اور نااہلی دیکھ کر حکومت کا خلاء پر کرنے کے لیے سیاست میں دخل اندازی کی“۔ لیکن یہ سراسر جھوٹ ہے، ان مکاروں کی نیت پہلے ہی سے تجارت کی آڑ میں حکومت قائم کرنے کی تھی۔ جیساکہ ہندوستانی مورخ ” موگھڑجی “ کے حوالے سے جناب مبارک علی صاحب نے آگے واضح کیا ہے۔
اقتدار کا غیر ارادی حصول:
موگھڑجی لکھتے ہیں: ” سر جون سیلے“ جو ” کیمبرج یونیورسٹی“ میں تاریخ کے پروفیسر تھے، ان کا نقطہٴ نظر یہ تھا کہ انگریزی اقتدار، کسی منصوبے کے تحت نہیں بلکہ Absent mindedness یعنی غیر ارادی یا لاشعوری طور پر وجود میں آیا۔ اور اس پر ان کی دلیل یہ تھی کہ مغل زوال کی وجہ سے جو خلا پیدا ہو رہا تھا، اس دوران ”ایسٹ انڈیا کمپنی“ کو یہ موقع مل گیا کہ وہ اس خلا کو پورا کر کے سیاسی طاقت بن جائے۔
ہندوستانی مورخین کا نقطہ نظر:
اس جھوٹ کو واشگاف کرتے ہوئے، ہندوستانی مورخ ” موگھر جی “ نے اپنی کتاب ”The Rise and Fall of the East India Company” میں اس بات پر زور دیا ہے کہ کمپنی ابتدا ہی سے سیاسی طاقت حاصل کرنا چاہتی تھی؛ کیونکہ اس کے نتیجے میں اسے تجارت سے زیادہ منافع حاصل کرنے کی امید تھی۔ اس لئے کمپنی نے ایک منصوبے کے تحت آہستہ آہستہ اپنے اقتدار کے لیے راستے صاف کیے۔
ہندوستان میں انگریزوں کے علاوہ ” فرانسیسی “ اور ” ڈچ “ بھی آئے کیوں کہ ” اورنگزیب “کی وفات کے بعد ہندوستان میں سیاسی انتشار پیدا ہوا، اس لیے ان تجارتی کمپنیوں نے اپنی فیکٹریوں یا تجارتی گوداموں کے لیے حفاظتی فوج رکھی۔ یہ فوجی ہندوستانی تھے، مگر ان کو مغربی طرز پر تربیت دی گئی تھی، جس میں نظم و ضبط کی بڑی اہمیت تھی، جبکہ ہندوستان میں فوجیوں کو مناسب تربیت نہیں دی جاتی تھی اور جنگ کے میدان میں یہ ہجوم کی سی صورت اختیار کر لیا کرتے تھے۔
آگے ” مبارک علی صاحب “ لکھتے ہیں:
” اسی کا مشاہدہ کرتے ہوئے یورپی سیاحوں نے لکھا تھا کہ یورپ کا ایک تجربہ کار جنرل، اپنی تھوڑی سی منتظم فوج کے ساتھ، ہندوستانیوں کو شکست دے سکتا ہے۔ کیوں کہ باہمی جنگوں کی وجہ سے ان میں ڈسپلین کی روایت پیدا ہوئی، جس کی وجہ سے وہ میدان جنگ میں اپنی اپنی جگہ پر قائم رہ کر اپنے جنرل کے احکامات کی تعمیل کیا کرتے تھے۔ “
یہ ” مبارک علی صاحب “کا اپنا نقطہ نظر ہے، جس سے اتفاق ضروری نہیں ہے، کیوں کہ تاریخ نے بعد میں یہ ثابت کیا کہ انگریزوں نے بادشاہوں کے معتمد افراد کو لالچ دے کر انہیں اپنا ہمنوا بنایا، اور بادشاہوں سے غداری پر آمادہ کیا، ان لوگوں نے انگریزوں کو اقتدار تک پہنچانے اور ان کے اقتدار کو مستحکم کرنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ اسی طرح انگریزوں نے ہندوستانیوں کو آپس میں لڑوا کر اس سے بھی بھرپور فائدہ حاصل کیا۔
جنوبی ہندوستان میں انگریزوں اور فرانسیسیوں کا مقابلہ:
جنوبی ہندوستان میں خاص طور سے انگریزوں اور فرانسیسیوں کے درمیان مقابلہ تھا کہ مقامی ریاستوں سے رابطہ کر کے ان سے تجارتی سہولتیں طلب کریں۔ دوسری جانب ان ریاستوں نے اپنے مفادات کے تحت فرانسیسیوں اور انگریزوں کو باہمی جنگوں میں استعمال کیا۔ اسی وجہ سے یہ یورپی تجارتی کمپنیاں ہندوستانی سیاست میں ملوث ہوتی چلی گئیں۔
پلاسی کی جنگ:
اس مقابلے میں بالآخر ”ایسٹ انڈیا کمپنی“ کو فرانسیسیوں پر فتح حاصل ہوئی اور یہاں سے ہی روبرٹ کلائیو 1757ء میں ” پلاسی کی جنگ “ لڑنے گیا۔ اس جنگ میں فتح کی وجہ سے انگریزی اقتدار کی راہیں کھل گئیں اور انہوں نے آہستہ آہستہ ہندوستان کی ریاستوں پر قبضے کرنا شروع کر دیے اور مغل بادشاہ ان کا وظیفہ خور بن گیا۔
انگریزی اقتدار کی بنیاد:
انگریزوں کو یہ کامیابی کیوں حاصل ہوئی؟جب ہم اس سوال کا تجزیہ کرتے ہیں تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ”ایسٹ انڈیا کمپنی“ اپنے ساتھ کوئی فوج لے کر انگلستان سے نہیں آئی تھی۔ اس کے تمام فوجی ہندوستانی تھے، سوائے ان کے افسروں کے۔ انہوں نے اپنے فوجیوں کو نہ صرف تربیت دی تھی بلکہ ان کی تنخواہیں مقرر کر کے پابندی سے دیا بھی کرتے تھے۔ جب کمپنی کو ” بنگال “ اور ” بہار “ میں دیوانی حقوق ملے تو لگان وصول کرنے کا کام بھی ہندوستانی عملے نے کیا۔ کمپنی کو قرضہ دینے کا کام بھی ہندوستانی بینکاروں نے کیا، جن میں خاص طور سے ”جگت سیٹھ“ کا نام آتا ہے۔ یہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت کو نہ صرف مالی مدد فراہم کیا کرتے تھے بلکہ اس کے لیے ٹیکس بھی جمع کرتے تھے۔
ریاستی اداروں میں ہندوستانیوں کی شمولیت کی وجہ:
جب کمپنی کی حکومت نے ریاستی ادارے قائم کیے، تو بالائی سطح پر تو اپنے عہدیدار رکھے، لیکن نچلی سطح پر یہ ملازمتیں ہندوستانیوں کو دیں۔ جن میں دفتروں کے کلرک، پولیس مین، اور جاسوسی اداروں کے مخبر ، یہ سب ہندوستانی ہوا کرتے تھے۔ کیوں کہ ہندوستانی اپنی روایت کے مطابق اپنے مالک سے وفادار ہوا کرتے تھے، اور نا انصافی کے خلاف ان سے بغاوت کی کوئی امید نہیں کی جاسکتی تھی، جس کا اندازہ ہمیں اس وقت ہوتا ہے، جب 1857ء میں ہندوستانی فوجیوں نے بغاوت کی، تو انہیں یہ شرمندگی تھی کہ اس کی وجہ سے وہ ” نمک حرامی “ کے مرتکب ہوئے ہیں۔ 1857ء کی اس بغاوت کو کچل تو دیا گیا مگر یہ کام بھی ہندوستانی فوجیوں کی مدد سے ہی ہوا۔
1857ء کے بعد کا دور:
1857ء کے بعد کمپنی کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور ہندوستان تاج برطانیہ کے تحت چلا گیا، لیکن اس دور میں بھی ریاستی انتظامات ہندوستانیوں ہی کی ذمہ داری تھی، جب بھی انگریزی حکومت کو ضرورت پڑتی تھی تو ہندوستانی ریاست کے نواب، راجہ اور بڑے بڑے زمیندار اور جاگیردار ان کی مالی مدد کیا کرتے تھے۔
انگریزوں کی غیر ملکی فتوحات میں ہندوستانیوں کا اہم کردار:
انگریزوں نے” ہندوستانی فوجوں “ کے ذریعہ غیر ملکی فتوحات بھی حاصل کی، جس کی ایک مثال ” برما “ ہے۔
” ہندوستان کے مزدوروں “ کو انہوں نے جنوبی افریقہ بھیجا، جہاں انہوں نے کانوں میں کام کیا، اسی طرح ”جزائر غرب الہند “ میں بھی ہندوستانی مزدوروں کی کافی تعداد بھیجی گئی۔
” ہندوستانی پیشہ وروں اور دفتری کلرکوں “ کو انہوں نے اپنی افریقی کالونیز (Colonies)میں بھی استعمال کیا۔
الغرض ! انتظام بالا تو انگریزوں کے پاس تھا لیکن نچلی سطح پر حکومت کا پورا کاروبار ہندوستانی ہی چلایا کرتے تھے۔
آزادی کے بعد کی صورتحال:
جب وقت اور ماحول بدلنے کے ساتھ ساتھ ہندوستانیوں میں سیاسی شعور پیدا ہوا تو ہندوستان کے بینکاروں اور سرمایہ داروں میں یہ سوچ پیدا ہوئی کہ کیوں نہ ہم آزاد ہو کر اپنے سرمائے میں اضافہ کریں اور اپنے مفادات کو حاصل کریں، اس لئے انہوں نے ” کانگریس “ اور دوسری جماعتوں کو فنڈ فراہم کیا کہ وہ انگریزی اقتدار کے خلاف جدوجہد کریں۔
آزادی کے بعد کا اقتدار:
آزادی کے بعد، جب اقتدار میں انگریزوں کی جگہ ہندوستانی آئے ، تو انہوں نے ریاستی اداروں اور قوانین میں کوئی خاص تبدیلیاں نہیں کی، اور نہ ہی عوام کو اپنی مراعات میں شامل کیا۔ اور آج بھی یہی صورتحال ہے کہ عام لوگوں کے لیے یہ آزادی بے معنی ہو کر رہ گئی، کیوں کہ ہندوستان، پاکستان، بنگلادیش، اور نیپال وغیرہ تمام ریاستوں کی عوام اب بھی اپنے بنیادی حقوق کے لیے جدوجہد کر رہی ہے، انہیں غیر ملکی حکومت اور اپنی حکومت کے درمیان کوئی زیادہ فرق معلوم نہیں ہورہاہے۔
ما شاء اللہ ” پروفیسر مبارک علی صاحب “ نے بہت عمدہ تجزیہ مختصر اً پیش کیا، جس کا مقصد صرف تاریخی معلومات بہم پہنچانا نہیں بلکہ آزادی سے متعلق اصل حقائق سے واقف کرانا ہے، جس کے لیے ہمیں انگریزوں کی آمد سے لے کر ان کے پاؤں جمانے اور یہاں سے ان کی روانگی اور نکالے جانے تک کے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالنی ہوگی۔ بندہ اس کی کوشش کرے گا۔ انشاء اللہ تعالی!
(جاریہے․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․)