دار ۱لقضاء کی اہمیت، ضرورت اورافادیت

مفتی محمدجعفرملی رحمانی

صدرمفتی دارالافتا،جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم

اکل کوا ،ضلع نندربار،مہاراشٹر

            الحمد للہ رب العالمین۔ والصلوة والسلام علی سید الأنبیاء والمرسلین وعلی آلہ وصحبہ اجمعین الی یوم الدین! اما بعد:

محترم ومعزز میرے مربی ومشفق ،اس عظیم دینی وعصری دانش گاہ کے بانی، روح ِرواں اورصدرِ اجلاس :

حضرت مولانا غلام محمد صاحب وستانوی دامت برکاتہم !

            مہمانانِ مکرم ،فقیہ عصر، کارگزار جنرل سیکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ،جنرل سیکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی ۔جامعہ عربیہ ہتھوڑا باندہ کے شیخ الحدیث مایہ ناز فقیہ حضرت مولانا عبید اللہ صاحب اسعدی۔ ندوة العلماء لکھنوٴ کے استاذ تفسیر وفقہ، محقق عالم ربانی حضرت مولانا عتیق احمد صاحب بستوی دامت برکاتہم، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی دار القضاء کمیٹی و تفہیمِ شریعت کمیٹی کے آرگنائزر محترم مولانا قاضی تبریز عالم صاحب زید مجدہم!

            موٴقر ومعزز حضرات اساتذہٴ کرام ، طلبہٴ عظام اور معزز ین شہر اکل کوا واطراف!

            ہم اور آپ اس امر سے بخوبی واقف ہی نہیں بل کہ ہمارا اور آپ کا اس پر ایمان ویقین ہے کہ اسلام ایک جامع اور مکمل دین ہے۔ اس میں نہ کوئی کمی ہے کہ اسے پورا کیا جائے۔ اور نہ کوئی زیادتی ہے کہ اسے حذف کرنے کی ضرورت ہے۔ اعلان ربانی ہے:

             ﴿الیومَ أکمَلتُ لکمْ دِینکُم وأَتممتُ علیکُم نعمتِیْ ورَضیتُ لکُم الإسلامَ دینًا﴾(سورة المائدة:۳)

             ﴿إنَّ الدِّینَ عندَ اللہِ الِاسْلَام﴾(سورة آل عمران:۱۹)

            وقال:﴿ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ۔ وھو فی الآخرة من الخاسرین

(سورةآل عمران:۸۵)

            ارشاد نبوی ہے: ترکتکم علی البیضاء لیلہا کنہارہا لا یزیغ عنہا بعدی إلا ہالک۔

(إتحاف السادة المتقین:۱/۱۸۲)

            اللہ پاک نے دین اسلام کو آخری شریعت کے طور پر اپنے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیاہے۔جو لوگ اسلام کو دین کی حیثیت سے قبول کر لیتے ہیں، ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس دین کو اپنی زندگی کے ہر گوشے میں داخل کریں۔حکم خداوندی ہے:﴿یا أیہا الذین آمنوا ادخلوا فی السلم کافة﴾۔(بقرہ:۲۰۸)

            حضرات مفسرین اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اسلام میں پورے کے پورے داخل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی احکام پر پوری طرح عمل کرو۔ ایسا نہ ہو کہ اسلام کے بعض احکام تو قبول کرو اور بعض احکام قبول نہ کرو۔

            محترم سامعین!دین اسلام ایک مکمل نظام زندگی اور دستور حیات ہے۔ کتاب اللہ، سنت رسول اللہ اور ان دونوں سے ہی ماخوذ فقہ اسلامی میں اس نظام کی تمام تفصیلات موجود ہیں۔اس نظام میں عقائدو عبادات، معاملات ومعاشرت، اخلاق ، سیاست وحکومت ، تجارت وصنعت ، سبھی داخل ہیں۔ بعض لوگ اسلام کو صرف عبادات نماز، روزہ، زکوة،حج وعمرہ اور صدقہ وخیرات تک ہی محدود سمجھتے ہیں،یہ ان کی بڑی غلط فہمی ہے۔اسلام نے جس طرح عبادات کے تمام مسائل واحکام واضح طور پر کھول کھول کر بیان کیے ہیں، اسی طرح اس نے معاملات اور معاشرت کے احکام کو بھی پوری تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اورایک مسلمان کے لیے ان دونوں طرح کے احکام ومسائل پر عمل کرنا واجب و ضروری ہے۔ اس کے بغیر اس کا ایمان واسلام کامل ومکمل نہیں ہو سکتا۔ آقائے مدنی ﷺفرماتے ہیں:لا یوٴمن احدکم حتی یکون ھواہ تبعا لما جئت بہ۔(کنزالعمال)

            محترم حاضرین!اللہ پاک نے حضرت انسان کو ایسی متضاد صفتوں سے متصف کیا ہے، جو دیگر مخلوق میں نہیں پائی جاتیں۔ جہاں وہ محاسن وخوبیوں کا پیکر ہے وہیں اس میں کچھ خامیاں اور کمزوریاں بھی ہیں۔ جنہیں خود ذات باری تعالی نے بیان فرمایا ہے:سورہٴ نساء میں ہے:﴿وخلق الانسان ضعیفا﴾۔(نساء:۲۸)انسان کمزور پیدا کیا گیاہے۔سورہٴ معارج میں ہے:﴿إن الانسان خلق ہلوعا﴾۔(انسان حریص پیدا کیا گیا ہے)سورہٴ بنی اسرائیل میں ہے:﴿ وکان الانسان عجولا﴾ انسان جلد بازہے۔ (بنی اسرائیل:۱۱) سورہٴ احزاب میں ہے:﴿إنہ کان ظلوما جھولا﴾انسان ظالم اور جاہل ہے(الاحزاب:۷۲)سورہٴ نحل میں ہے:﴿فإذا ھو خصیم مبین﴾ انسان جھگڑالو ہے۔

(النحل :۴)

            محترم سامعین کرام!بھلا بتلائیے جس انسان میں اتنی کمزوریاں ہوں، وہ جھگڑے ،نزاع اوراختلاف کے بغیر کیسے زندگی گزار سکتاہے؟ یقینا نہیں۔بشریت کے اسی تقاضہ کی وجہ سے انسانوں میں جھگڑے ، نزاع اور اختلافات رونما ہوتے ہیں۔ ہم چوں کہ مسلمان ہیں، تو ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے، کہ جب باہم کسی امر میں اختلاف وجھگڑا ہو، تو خود ہی شریعت کی روشنی میں اسے حل کرلیں۔ اور اگر خود حل نہ کر سکیں تو دار القضاء ، محاکم شرعیہ وغیرہ سے شرعی احکام وہدایات کے مطابق حل کرائیں۔ ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ ضرورت پڑنے پر وہ ان اداروں کی خدمات حاصل کریں۔

            فرمانِ خداوندی ہے:﴿یاایہاالذین آمنوا اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول واولی الامر منکم۔ فان تنازعتم فی شیء فردوہ الی اللہ والرسول ان کنتم توٴمنون باللہ والیوم الآخر ذلک خیر واحسن تأویلا﴾۔(نساء:۵۹)

            آیت میں بظاہر تین اطاعتوں کا حکم دیا گیا۔مگر حقیقت میں ان تین اطاعتوں :اللہ پاک کی اطاعت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت، اور ان کی اطاعت جن کے ہاتھ میں کسی چیزکا انتظام وانصرام ہو:مراد علما، فقہا۔ کیوں کہ یہ نائب رسولﷺ ہیں۔ اور دین کانظام ان کے ہاتھ میں ہے۔

            ان تینوں اطاعتوں کا مقصودِ اصلی، اطاعتِ خداوند ی ہی ہے۔

            کیوں کہ اطاعت کہتے ہیں:حکم کی بجاآوری کو، اور حکم صرف خدا کا ہے۔ ارشاد ہے:﴿اِنِ الحکمُ الا للہ۔امر ان لا تعبدوا الا ایاہ۔ذلک الدین القیم﴾(سورہٴ یوسف:۴۰)۔

﴿وما ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن اللہ﴾(سوة النساء:۶۴)۔﴿ وما ینطق عن الھوی ان ھوالا وحی یوحیٰ﴾(سورة النجم:(۳/۴)۔ ﴿قل ما یکون لی ان ابدلہ من تلقاء نفسی ان اتبع الا ما یوحی الی﴾َّ۔(سورہٴ یونس:۱۵)

            محترم سامعین!ان تینوں اطاعتوں کا ماحصل اور خلاصہ یہی ہے، کہ ایک مسلمان اپنی عملی زندگی میں، اللہ اور اس کے رسول کے احکام، اور اولو الامر کی ہدایات کا پابند ومکلف ہو، اور خلاف ورزی کی صورت میں مستحق سزا ہو۔ اصل سزا تو آخرت میں ملتی ہے۔لیکن بعض جرائم اور گناہ وہ ہیں؛ جن کی سزائیں اس دنیا میں بھی دی جاتی ہیں؛ جنھیں حدود وقصاص اورتعزیرات سے تعبیر کیا جاتاہے۔

            لیکن یہ سزائیں وہاں دی اور قائم کی جاتی ہیں؛ جہاں اقتدار وسلطنت مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو۔ اورملک کا دستور وقانون کتاب اللہ ،سنت رسول اللہ اور فقہ اسلامی ہو۔ ہم اور آپ جس ملک میں رہتے ہیں، یہ ملک ہمیں اپنی جان سے زیادہ عزیز ہے۔ اس کی آزادی ، اس کی تعمیر وترقی ، اس کے بقا وتحفظ، اورامن وامان کی حفاظت وپاسداری میں ہمارے بزرگوں کاخون، ان کی صلاحیتیں اور ہر طرح کی قربانیاں موجود ہیں۔

            ملک ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے۔ جس کا اپناایک آئنی ڈھانچہ ہے۔یہاں رائج قوانین کی دو اہم قسمیں ہیں۔ سول کوڈ Civil Code اور کرِیمنل کوڈCriminal Codeدوسری قسم کے اندر جرائم کی سزائیں اور بعض انتظامی امور آتے ہیں۔ اس قسم کے قوانین تمام اہل ملک کے لیے یکساں ہیں۔اس میں کسی نوعیت کی تفریق ، نسل ومذہب کی بنیاد پر از روئے دستور نہیں کی گئی۔

            پہلی قسم سول کوڈ civil codeکے دائرے میں، وہ تمام قوانین آتے ہیں؛ جن کا تعلق معاشرت ، تمدن اور معاملات سے ہے۔ اس قسم کے بیشتر قوانین بھی تمام اہل ملک کے لیے یکساں ہیں۔

            البتہ اسی سول کوڈ کے ایک حصہ (جسے پرسنل لاء کہتے ہیں)میں ملک کی بعض اقلیتوں کو جن میں مسلمان بھی ہیں، ان کے مذہب کے لحاظ سے کچھ خصوصی شعبوں میں الگ، مذہبی قوانین پر عمل کرنے کا ا ختیار دیا گیا ہے۔ اسی کو” پرسنل لاء کی آزادی“ کا نام دیا جاتاہے۔اسی کے تحت مسلمانوں کو بھی دستور ہند میں یہ حق دیا گیا ہے کہ نکاح، طلاق ، ایلاء، ظہار ، لعان، خلع، مباراة(خلع ہی کی ایک قسم) فسخ نکاح، عدت ، نفقہ ، وراثت ، وصیت ، ہبہ ، وَلایت ، رَضاعت، حَضانت، وقف (خیراتی وغیر خیراتی)سے متعلق مقدمات، اگر سرکاری عدالتوں میں دائر کیے جائیں، اور دونوں فریق مسلمان ہوں؛ تو سرکاری عدالتیں اسلامی شریعت کے مطابق ہی مذکورہ معاملات میں فیصلہ کریں گی۔

            ان ہی قوانین کے مجموعہ کو ”مسلم پرسنل لاء “ کہا جاتاہے۔

            محترم سامعین!مسلمانوں کوان ہی چند قوانین میں اپنی شریعت کے مطابق عمل کرنے کا دستوری حق دیا گیاہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اسے بھی چھین لینے کی مسلسل سازشیں کی جارہی ہیں، کہ مسلمانوں کو اِن چند امور میں بھی اُن قوانین کی پابندی پر مجبور کیا جائے ؛جو تمام اہل ملک کے لیے بنائے جائیں۔ اسی کو سول کوڈ کہا جاتاہے۔

             سرکاری عدالتیں باوجود اس کے کہ وہ مسلم فریقین کے مابین مسلم پرسنل لاء کے مطابق فیصلہ کی پابند ہیں، مگر وہ ایسا نہیں کرتیں۔اور بہت سی مرتبہ یکساں سول کوڈ کے مطابق ہی فیصلہ کرتی ہیں۔ ان مخالفِ شریعت فیصلوں سے بچنے کی ایک ہی صورت ہے کہ مسلمان اپنے تنازعات ، باہمی مفاہمت ومصالحت سے شریعت کے مطابق خود ہی حل کر لیں۔ یا پھر اپنے ان معاملات میں دار القضاء سے رجوع ہوں۔ اور شریعت کے مطابق معاملات کو حل کرائیں۔کیوں کہ مسلمان جہاں اور جس حالت میں رہتے ہوں، مسلم ملک میں یا غیر مسلم ملک میں، اکثریت میں یا اقلیت میں، وہ اس امرکے مکلف وپابند ہیں،کہ اپنے عائلی وخاندانی مسائل میں اختلاف کی صورت میں اس اختلاف کو شریعت کی روشنی میں ہی حل کریں۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اسلام میں دارالقضاء کی اہمیت اور اس کا مقام کیاہے؟ بقول حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ :القضاء ُفریضةٌ محکَّمةٌ وسنةٌ متبعةٌ ۔کہ قضا مضبوط فریضہ اور سنت متبعہ یعنی قابل تقلید سنت ہے۔

            ہمارے فقہا ئے کرام نے نظامِ قضا پر بہت زیادہ زور دیا ہے۔ یہاں تک کہ جن ممالک میں اسلامی حکومتیں نہیں،اور وہاں مسلمان بستے ہوں، تو ان مسلمانوں پر بھی لازم ہے کہ وہ اپنے میں سے کسی شخص پر متفق ہو جائیں(یعنی اسے اپنا امیر بنا لیں)۔ اور وہ ان کے اوپر کسی قاضی کا تقرر کردے۔ واذا لم یکن سلطان ولامن یجوز التقلد منہ کما ھو فی بعض بلاد المسلمین غلب علیہم الکفارکقرطبة فی بلاد المغرب الآن وبلنسیة وبلاد الحبشة واقروا المسلمین عندہم علی مال یوٴخذ منہم یجب علیہم ان یتفقوا علی واحد منہم یجعلونہ والیا فیولی قاضیا او یکون ہو الذی یقضی بینہم وکذاینصبوا لہم اماما یصلی بہم الجمعة۔(فتح القدیر :۷/۲۴۶۔)

            محترم بزرگو!حضرات انبیائے کرام صرف احکامِ الہیہ کے پیغمبر ہی نہیں ہواکرتے تھے بل کہ وہ قاضی اور حکم بھی ہوتے تھے۔ :﴿فلا وربک لا یوٴمنون حتی یحکموک فیما شجر بینہم ثم لا یجدوا فی انفسہم حرجا مما قضیت ویسلموا تسلیما﴾(سورة النساء:۶۵)

            میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی منصب ِعظیم کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔نیز آپ کا ارشاد گرامی ہے:عَدْلُ سَاعَةٍ خَیْرٌ مِنْ سِتِّینَ سَنَةٍ۔(الترغیب والترہیب :۳/۱۱۷)ایک لمحہ کا انصاف ساٹھ سالہ عبادت سے بہتر ہے۔

ہندوستان میں نظامِ قضا :

            ملک عزیز میں مغلیہ سلطنت کے دور تک نظام قضا باقی رہا۔اور مسلمانوں کے مقدمات دا ر القضاء سے فیصل ہوتے رہے۔ مگربعد میں جب انگریزوں کا دور آیا تو انہوں نے اس نظام کو ختم کردیا۔اس وقت ہمارے بزرگوں اور اسلاف نے یہ محسوس کیا کہ انگریزوں کا یہ فیصلہ مستقبل میں ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کی اجتماعی دینی زندگی کے لیے انتہائی خطرناک اور نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس لیے علما کی ایک جماعت نے حضرت مولانا ابو المحاسن سجاد  کی قیادت میں صوبہ بہار کی محدود سطح پرنظام قضا قائم فرمایا۔ جو الحمد للہ آج تک قائم ہے۔ اور وہاں سے بہار، اڈیسہ وجھارکھنڈ کے مسلمانوں کے تمام تنازعات وجھگڑے فیصل ہوتے ہیں۔

            استاذی ومربی فقیہ زمن وبے بدل حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی  ایک زمانے تک اسی دار القضاء کے قاضی القضاة وچیف جسٹس اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر رہے۔ اللہ پاک آپ  کی قبر کو نور سے بھر دے۔اور پوری امت کی طرف سے بالخصوص اس عاجز وحقیر اور اس کے تمام تلامذہ کی طرف سے آپ کو بہترین بدلہ عطا کریں۔کہ حقیر جودو بول بولنے اور چند سطریں لکھنے کے قابل بنا ، یہ اس کے جمیع اساتذہ بالخصوص حضرت قاضی صاحب کا ہی فیض ِنظر ہے۔ ورنہ

 کہاں میں اور کہاں یہ نکہت گل۔

            آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ جو ہندوستان میں بسنے والے تمام مکاتبِ فکراور مسالک کے مسلمانوں کا ایک مشترکہ پلیٹ فارم ہے۔( اللہ پاک اسے تا قیامِ قیامت قائم رکھے) نے اس نظامِ قضا کو ملک گیر پیمانے پر وسیع کرنے کایہ پروگرام بنایا ہے۔ بہت سارے شہروں اور قصبوں میں یہ نظام قائم ہو چکا ہے۔ اور دیگر بہت سے مقامات پر اس کے قیام کی کوششیں جاری ہیں۔ اللہ پاک ان کوششوں کو کامیابی سے ہم کنار فرمائے۔

دار القضاء اکل کوا :

            جامعہ کے رئیس محترم حضرت مولانا غلام محمد صاحب وستانوی دامت برکاتہم نے، پورے ملک میں کامیابی کے ساتھ جہاں مدارس دینیہ، مکاتب قرآنیہ اور مساجد کو قائم وتعمیر فرماکر قوم مسلم کو اس کے خالق ومالک سے وابستہ کیا۔اور اس کے نونہالوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرکے بر سر روزگار کردیا۔

            وہیں آپ کے خلف الرشید معتمدِ جامعہ، ناظم تعلیمات حضرت مولانا حذیفہ صاحب زادہ اللہ شرفا وعلما وعملااور جامعہ کے موٴقر ٹرسٹی حاجی الیاس صاحب مکرانی حفظہ اللہ ورعاہ کی یہ فکر تھی کہ ہمارے اس علاقہ ضلع نندوربار کے مسلمانوں کے عائلی وخاندانی تنازعات کے حل کے لیے دار القضاء کا قیام ہو جائے تو بہتر ہوگا۔ اللہ پاک کا شکر ہے کہ آج مسلم پرسنل لاء بورڈ کے معززکارگزار جنرل سیکریٹری اوراس کے موٴقر ارکان کے دستہائے مبارک اور دعاوٴں سے دار القضاء ضلع نندور بار کا، سرزمینِ اکل کوا پر افتتاح ہونے جارہا ہے؛ جو پورے علاقے کے مسلمانوں کے لیے بڑی خوشی ومسرت کی بات ہے ۔ اللہ پاک اسے قبول فرمائے اور دوام عطا کرے۔

دار القضاء ملکی آئین کی نظر میں:

            محترم حضرات!ہمارے ملک کا آئین دار القضاء کے قیام کو سند جواز فراہم کرتا ہے۔ دستور ہند کی دفعات ۱۹/۲۱/۲۵/۲۶۔کے تحت تمام شہریوں کو اپنی انجمنیں اور ادارے قائم کرنے، اپنے مذہب کی پیروی کرنے، اس کی تبلیغ کرنے اور اپنے مذہبی معاملات پر عمل کرنے کا حق حاصل ہے۔ حکومت وقت بھی عدالتوں کا بوجھ کم کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً عوامی عدالتیں قائم کرتی ہیں۔ جہاں باہمی مفاہمت ومصالحت سے اس تعدادمیں مقدمات فیصل ہوتے ہیں، کہ اگر وہ عدالتی سسٹم کے مطابق حل کیے جاتے؛ تو کتنے فریق جو جوان ہیں بوڑھے ہو جاتے اور جو بوڑھے ہیں وہ زیر زمیں ہو جاتے ۔ مگر انہیں انصاف نہیں مل پاتا۔ ملک کی دارالقضائیں اسی مفاہمت ومصالحت اورردِّ امانات الی اہلہا، اور عدالتوں کے مقدمات کے بوجھ کو کم کرنے کے مراکز ہیں۔ ُمتوازی ومُقابل عدالتیں نہیں ہیں۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ نے جب پورے ملک میں دار القضاء کے قیام کا اعلان کیا، تو ایک شخص ”مدن موہن لوچن“ نے اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ سپریم کورٹ نے دار القضاء کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی الگ سے عدالتی نظام قائم کرنے کی سوچ نہیں ہے۔ بل کہ یہ ایک طرح سے عدالتی نظام کی مدد کہلائے گی۔

            دا ر القضاء کے ساتھ کاوٴنسلنگ کمیٹی بھی قائم کی جاتی ہے، جو یہ کوشش کرتی ہے کہ کاوٴنسلنگ کے ذریعہ سے فریقین میں سمجھوتہ ہو جائے۔ اگر سمجھوتہ نہ ہو، تب دا رالقضاء کے قاضی احکام شرعیہ کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں۔

            دار القضاء میں انتہائی کم وقت اور کم خرچ میں شرعی اصولوں اوراس کے رہنما خطوط کی روشنی میں فیصلے ہوتے ہیں۔ جو مسلمانوں کے لیے اس دنیا میں راحت وسہولت کا سبب اور آخرت میں نجات کاکا ذریعہ ہے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے تنازعات کے حل کے لیے دار القضاء کا رخ کریں۔ اور اس نظام کو مضبوط ومستحکم بناکر، دینی واجتماعی زندگی، اور ملی وقومی روایات وثقافت کی حفاظت کریں۔ جو ہر مسلمان پر لازم وضروری ہے۔

ایک اشکال اور اس کا جواب:

            بعض لوگوں کی جانب سے یہ اشکال کیا جاتاہے کہ دار القضاء فیصلہ تو کرتا ہے، لیکن اسے نافذ نہیں کر سکتا۔تو اس کا کیا فائدہ؟

            جواباً عرض ہے :کہ علامہ شامی نے مفتی اور قاضی کی جو تعریف کی ہے اس سے اس اشکال کا جواب مل جاتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں:إن المفتی مخبربالحکم والقاضی ملزم بہ(شرح عقود رسم المفتي:۴۶)کہ مفتی حکم خداوندی کی خبر دیتا ہے اور قاضی حکم شرعی کو لازم کرتا ہے۔ قاضی کی اس تعریف میں یہ کہا گیا ہے کہ قاضی کا کام حکم خداوندی کو لازم کرنا ہے۔ نافذ کرنا نہیں ہے۔ نافذ کرنا حاکم وقت کا کام ہوتا ہے۔جو یہاں نہیں ہے۔

             اور فقہ کا یہ قاعدہ ہے : المیسورلا یسقط بالمعسور۔کہ متعذر اور ناممکن امر کی وجہ سے امر میسوریعنی ایساکام جو ہمارے اختیار وقدرت میں ہے کو ترک نہیں کیا جا سکتا۔ یعنی ہمیں قوتِ نافذہ حاصل نہ ہونے کی وجہ سے ہم قضائے شرعی کو ترک نہیں کر سکتے۔ ہم صرف اس کے مکلف وپابند ہیں کہ فریقین کو قضائے شرعی سے مطلع کردیں۔ اور ماننے نہ ماننے کا اختیارانھیں حاصل ہے۔ اورظاہر بات ہے کہ جب وہ مسلمان ہیں،اللہ اور اس کے رسول اور آخرت پر ایمان ویقین رکھتے ہیں، تو اس حکم کو ضرور مانیں گے۔ اور مانتے بھی ہیں۔ أکتفي علی ہذا

وصلی اللہ تعالی علی خیر خلقہ سیدنا محمد وعلی آلہ وصحبہ وسلم، وحبیبنا وحبیب رب العالمین،

ربنا تقبل منا إنک أنت السمیع العلیم، وتب علینا إنک أنت التواب الرحیم۔