مفتی محمد جعفر ملی# رحمانی#-صدر دار الافتاء – جامعہ اکل کوا
اللہ رب العزت کا فرمان ہے:”فَاسْئَلُوْا أَہْلَ الذِّکْرِ إِنْ کُنْتُمْ لَاتَعْلَمُوْنَ“ (الأنبیاء:۷)
”فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْہُمْ طَائِفَةٌ لِّیَتَفَقَّہُوْا فِیْ الدِّیْنِ“( التوبة:۱۲۲)
اہمیت ِفقہ وفتاوی:
قال النبی صلی اللّہ علیہ وسلم:”لکل شیء دعامة،ودعامة الاسلام الفقہ فی الدین“ ہر چیز کے لیے ایک ستون ہے جس پر اس کا مدار ہوتاہے، اور اس دین کا ستون فقہ ہے۔
(کنز العمال:۱۰/۷۷۔۲۸۹۲۰)
ہر زمانہ میں فقہ وفتاوی کو بڑی قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھا گیا اور سماج ومعاشرہ کی اصلاح وانقلاب کا اسے ایک موٴثر ذریعہ سمجھا گیا۔ ۱۸۰۳ءء میں جب لارڈ بلیک کی سرکردگی میں انگریزی افواج نے دہلی پر قبضہ کرلیا اور ایسٹ انڈیا کمپنی نے شاہ عالم بادشاہ کو تخت سے بے دخل کرتے ہوئے لال قلعہ کے سامنے یہ اعلان کیا کہ ”زمین خدا کی، ملک بادشاہ سلامت کا، اور حکم کمپنی بہادر کا“ تو شاہ عبد العزیز دہلوی نے جامع مسجدسے تقریر کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ ” آج سے یہ ملک دار الحرب بن گیا ،اور ان غاصبوں کے خلاف جہاد کرنا ہمارا فرض ہے“ اپنی اس بات کو باوزن بنانے کے لیے آپ نے ایک فتوی لکھا کہ”قانون سازی کے سارے اختیارات عیسائیوں کے ہاتھوں میں ہیں، مذہب کا احترام ختم ہوگیا، شہری آزادی سلب کر لی گئی، لہذا ہر محب وطن کا فرض ہے کہ اس اجنبی قوت سے اعلان جنگ کردے، اور جب تک اس ملک سے اس کو باہر نہ کردے اس ملک میں زندہ رہنا اپنے لیے حرام جانے“۔ (تحریک آزادی کے نمائندہ مسلم مجاہدین:ص۲۴۰،۲۴۱)
آپ کے اس فتوی نے ہندوستان کے ہر باشی میں نہ صرف جذبہٴ حرّیت و آزادی پیدا کیا بل کہ اس کے لیے ”تن، من، دھن“ سب کچھ قربان کردیناآسان بنادیا۔آج کے اس پُر فتن خدا بیزار، علوم اسلامیہ سے نہ صرف عدم واقفیت بل کہ ایک حد تک اسلامی اقدار کے باغی معاشرہ اور سماج میں بڑی حیرت انگیز تبدیلیاں اور زبردست انقلابات رونما ہوئے، سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی نے نئے نئے افق پیدا کیے، اور اب دنیا گلوبلائزیشن کی دنیا کہی جانے لگی، معاشی اور اقتصادی امور میں، نت نئی ترقیات نے جہاں نئے نئے مسائل لاکھڑے کر دیئے، وہیں ذرائعِ ابلاغ کی نئی نئی ایجادات نے فکری و نظری، تہذیبی و ثقافتی جنگوں کے محاذ کھول دیئے، اب جو لوگ شریعت اسلامیہ کو اپنی معاشرت، تجارت، اور زندگی کے دوسرے میدانوں میں معیارِ ہدایت قرار دے کر زندگی گزارنا چاہتے ہیں، ان کے سامنے ایسے سینکڑوں مسائل آکھڑے ہیں، جن کے بارے میں وہ علماء ِ اسلام و اصحابِ افتاء کی طرف نظریں جمائے ہوئے ہیں کہ ،کیا یہ جائز ہیں یا ناجائز؟
اس اہم موڑ پر ان کی رہنمائی و رہبری علماء شریعت پر فرض ہے، اسی فرض کی انجام دہی کے لیے رئیس الجامعہ( حضرت مولانا غلام محمد صاحب وستانوی) دامت برکاتہم نے بتاریخ ۳/۱۱/۱۴۲۸ھ مطابق ۱۴/۱۱/۲۰۰۷ء بوقت صبح” ۴۵:۷“ نہ صرف دارالافتاء بلکہ شعبہٴ افتاء بھی قائم فرمایا تاکہ امت کو موجودہ حوادث و مسائل کا شرعی حل مل جائے اور اس عظیم ذمہ داری کے بارِ گراں کو اٹھانے کے لیے ملک ہند کی مختلف ریاستوں کے علماء بھی تیار ہوں، قیام دارالافتاء کے روز اول ہی سے اس بات کی طرف خصوصی توجہ دی جارہی ہے کہ زیر تعلیم طلباء کو امت کو درپیش مسائل جدیدہ کی صورتوں اور حقیقتوں سے واقف کراکر ان پر احکام شرعیہ کے انطباق کی تربیت دی جائے تاکہ ہم اپنے اس دعوے میں کامیاب ہوں کہ اسلام میں ہر دوروزمانے کے مسائل کاحل موجودہے اورشریعت پر چلنے والوں کے لئے زندگی کے ہرموڑپراس کی رہنمائی پائی جاتی ہے۔
آٓج تک: دار الافتاء سے الحمد للہ کل: ”۱۵۶/علمائے کرام“ تکمیلِ افتاء کرچکے ہیں۔
نیز امت کے روز مرہ پیش آمدہ مسائل کے حل کے لیے مستقل فتاوی اور مسائل کا سلسہ جاری وساری ہے جس کی ایک کڑی بنام:
(۱)… ”المسائل المہمہ فی ما ابتلت بہ العامة“: ہے، یہ کتاب قرآن وسنت اور عباراتِ فقہیہ سے مزین، ۲۹۵۴/مسائل، ۱۳/جلدوں، اور ۴۳۱۶/صفحات پر مشتمل ہوکرمنظرِ عام پر آچکی ہے، نیز ملک وبیرون ِملک کی کئی مساجد میں ان مسائل کی تعلیم بھی جاری ہے۔
(۲) …اس سلسلہ کی ایک اور سنہری کڑی ”محقّق و مدل جدید مسائل“ ہے،جو ۱۱۲۲/مسائل،۲/ جلدوں اور۱۳۸۰/صفحات پر مشتمل ہے۔
(۳)… الحمد للہ دار الا فتا میں ملک وبیرون سے استفتا آتے ہیں ، جن کے جوابات جامعہ کے صدر مفتی ، حضرت مفتی محمد جعفر صاحب ملی رحمانی صاحب کے قلم سے صادر ہوتے ہیں۔
الحمد للہ اب تک کے فتاو ی کی کل تعداد : ۱۱۶۳ /ہے، جو۱۸۸۰/ جزئیات پر مشتمل ہیں ۔
فتاوی کا یہ سلسہ کئی جلدوں میں بنام ”فتاوی اشاعت العلوم“ ان شاء اللہ بہت جلد منظر عام پر آجائیگا۔
(۴)…حضرت مفتی صاحب اپنے استاذ ِمحترم حضرت قاضی مجاہد الاسلام صاحب رحمہ اللہ کے زمانے سے ”اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا“ کے مندوب ہیں، اس لئے اکیڈمی کی طرف سے جاری کیے جانے والے سوالات پر حضرت اپنے مقالات پیش کرتے رہے،اب تک مختلف موضوعات پر کل ۹۶/مقالات، ۶۴۱/صفحات پر مشتمل بنام ” مقالات ومضامین“ کتابی شکل میں شائع ہوچکے ہیں۔
(۵)… مسائلِ قربانی: یہ کتاب۱۳۳/ جدید وقدیم مسائل ِ قربانی پر مشتمل ہے۔
(۶)… رسالہ”کرسی پر نماز کا جواز و عدم جواز“ عصر ِ حاضر کے ایک اہم او رمختلف فیہ مسئلہ” کرسی پرنماز“سے متعلق ،عصر ِحاضر کے علماء کی تحریروں ، ان کا تجزیہ اور اس سلسہ میں جامعہ کے دار الافتاء کے موقِف پر مشتمل ہے۔ فللہ الحمد علی ذلک!
جامعہ میں اس کے فاضل مفتیان ِ کرام کا ورود:
حضرت رئیس الجامعہ حضرت مولانا غلام محمد صاحب وستانوی،أطال اللہ عمرہ بالصحة والعافیةاور آپ کے فرزند حضرت ناظم تعلیمات ومعتمد ِ جامعہ حضرت مولانا حذیفہ صاحب وستانوی حفظہ اللہ ورعاہ کی یہ فکر تھی کہ جامعہ کے دار الافتاء سے ۱۵/سال میں فارغ ہونے والے تمام مفتیانِ کرام کی کار گزاری سامنے آئی، اسی غرض و فکر کے تحت ۲۴/اگست/۲۰۲۲/مطابق : ۲۵/ محرم الحرام/۱۴۴۴ھ ، بروز بدھ،تمام مفتیان ِ کرام کو ایک دن کے لئے جامعہ میں حاضری کی دعوت دی گئی، الحمد للہ ۱۰۹/ مفتیان ِ کرام نے اس دعوت پر لبیک کہا، اور اس یک روزہ تربیتی اجتماع میں شرکت کی، جامعہ فارمیسی کالج کے کانفرنس ہال میں۵/نشستیں منعقد ہوئیں۔
نشست ِ اول: میں حضرت مولانا حذیفہ صاحب وستانوی نے ”حضرات علماء ومفتیان ِ کرام کی ذمہ داری“ کے عنوان پربڑا پُر مغز وجامع خطاب فرمایا۔
نشست ِ ثانی: میں صدر دار الافتاء” حضرت مولانا مفتی محمد جعفر صاحب ملی رحمانی دامت برکاتہم العالیہ “ نے ”کار ِ افتاء کی عظمت، اہمیت، فضلیت، افادیت، نزاکت اور عصر ِ حاضر میں اس کا طریقہٴ کا ر “ پر اپناقیمتی و اصولی مقالہ پیش فرمایا۔
نشست ِ ثالث: میں رئیس الجامعہ حضرت مولانا غلام محمد صاحب وستانوی دامت برکاتہم العالیہ کی موجودگی میں فضلاء ِ افتاء کی کار گزاری پیش کی گئی، جو انتہائی حوصلہ افزا، پُر اثر اور پُر لطف رہی۔
نشست ِ رابع: میں حضرت مولانا سلمان صاحب مظاہری نے’ جدید مالی معاملات“ پر”فقہ المعاملات“ کے عنوان سے بڑا مفیدوکارآمدمحاضرہ پیش کیا۔ فجزاہم اللّہ خیرا
۲۵/اگست بروز جمعرات، بوقت: صبح ۹/بجے، جامعہ کی مسجد ِ جامع”مسجد ِ میمنی“ میں تکمیل ِ حفظ ِ قرآنِ کریم اور طلبہٴ افتاء ۲۰۲۲/ کی الوداعی تقریب کا انعقاد عمل میں آیا، جس میں ۱۸۶/ طلبہ نے حفظ ِ کلام پاک کی تکمیل کی، اور ۹/ طلبہ ٴ افتاء نے ،افتاء کی تعلیم مکمل کی ، جنہیں اس مجلس میں سند افتاء دی گئی،اور حضرت رئیس الجامعہ کی ِنصائح و دعا پر مجلس کا اختتام ہوا۔
مفتیان ِ کرام کی کار گزاری:
درس وتدریس: الحمد للہ ۵۲/ مفتیان ِ کرام درس وتدریس میں مشغول ہیں،ان میں ۲۰/ مفتیانِ کرام جامعہ اکل کوا میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
امامت وخطابت: ۲۷/مفتیان ِ کرام امامت وخطابت میں سر گرم ہیں۔
مکاتب ومدارس: ض فضلا ء نے بڑے معیاری مکاتب قائم کئے،جن میں امت کے نو نہالوں کومنظم انداز میں بنیادی دینی تعلیم دی جارہی ہے۔
شعبہٴ تحقیق : ایک فاضل مفتی جامع مسجدممبئی کی تاریخی لائبریری میں شعبہٴ تحقیق ومخطوطات میں خدمت انجام دے رہے ہیں۔
درس قرآن وحدیث: ۱۸/ مفتیان ِ کرام اپنی مشغولیتوں کے ساتھ مختلف پلیٹ فارم سے رفاہی سماجی، اصلاحی خدمات مثلاً یتیموں، بیواوٴں،غریبوں کی ضروریات کا تکفل، اصلاح ِ معاشرہ، اور فرق ِ باطلہ کے منفی اثرات کے دفاع و ازالہ میں مصروف ہیں۔
عصری اداروں میں ملازمت: بعض مفتیان ِ کرام اردو اسکولوں اور ہائی اسکولوں میں دینیات کی تعلیم دے رہے ہیں ،اس طرح ایک فاضل مفتی وقف بورڈر،ریاست مہاراشٹرمیں بڑی اچھی خدمت انجام دے رہے ہیں، اور بعض آگے ”IPS”اور ”LLB”کی تعلیم میں مشغول ہیں۔
تصنیف و تالیف:ایک فاضل مفتی ، مفتی محمد افضل صاحب ممبئی کے قلم سے ”افضل الراجی فی حل السراجی “اور” افضل التطبیق العصری علی مسائل القدوری“ سراجی کی شرح اور متن ِ قدوری پر حوادث و نوازل کی تطبیق جیسی عظیم شرح وتصنیف منظرِ عام پر آکر قبول ِ عام حاصل کر چکی ہے۔