ازقلم: حذیفہ غلام محمد وستانوی
دارالعلوم ڈابھیل گجرات کے ان قدیم ترین اداروں میں سے ایک ہے ،جو سو سال سے زیادہ عرصے سے نونہالانِ امت کی دینی و ایمانی تعلیم و تربیت میں مصروف ِعمل ہے۔
دارالعلوم ڈابھیل کی علمی عظمت:
اس ادارے کو یہ شرف حاصل ہے کہ خاتم المحدثین، امامِ دوراں، محققِ زمانہ و مدققِ بے مثال، متکلم اسلام، فقیہ عظیم حضرت علامہ انور شاہ کشمیری نوراللہ مرقدہ جیسے نابغہٴ روزگار نے وہاں پر مسند ِحدیث کو اپنے درس سے مزین کیا، آپ ہی کی برکت سے ادیب ِاریب محدث ِکبیر علامہ یوسف بنوری نوراللہ مرقدہ، جو آپ کے اجلِ تلامذہ میں سے تھے، اسی طرح شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی، موٴرخِ کبیر قاضی اطہر مبارک پوری نوراللہ مرقدہ وغیرہ جیسے اساطینِ علم کے قدومِ میمنت اور فیضِ نورانی سے بہرہ ور ہوا۔ علومِ اسلامیہ یہاں خوب پروان چڑھا اور آج بھی اس کا فیض مستقل جاری ہے۔ الحمدللہ!
دارالعلوم ڈابھیل کے مسابقہ میں دعوتِ شرکت:
چند دنوں قبل قاری اسحاق صاحب نے فون کے ذریعہ دعوت دی کہ جمادی الأخری کی ۱۰/ ۱۱/ ۱۲/ تاریخوں میں مسابقہ ہے، آپ کو جس دن فرصت مل سکے شرکت کرنی ہے۔ بندہ نے کہا قاری احمداللہ صاحب نوراللہ مرقدہ کا ہم پر حق ہے، میں ان شاء اللہ ضرور حاضری کی کوشش کروں گا۔قاری صاحب سے بات ہونے کے بعد جامعہ کے شعبہ تجوید و قرأ ت کے استاد قاری جابر صاحب مسلسل پوچھتے رہے اور یاددہانی کراتے رہے کہ جانے کی کیا ترتیب بنی؟ آخر کار طے ہوا کہ جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب ۱۱/ تاریخ کو بعد ِمغرب کچھ دیر کے لیے حاضری دینی ہے ۔
ڈابھیل کے لیے روانگی:
وعدہ کے مطابق جمعہ کے بعد ”اکل کوا“ سے روانگی ہوئی ،راستے میں کچھ اہم کام تھے ،جنہیں مکمل کرتے ہوئے تقریباً ۷/ بجے ”دارالعلوم ڈابھیل“کے مہمان خانہ پہنچے۔ حضرت قاری احمداللہ صاحب کے وہ تمام شاگرد جنہیں حضرت نے ”جامعہ اکل کوا“میں خدمتِ قرآن کے لیے متعین کیا ہے، وہ حضرات اور ان کے ہمراہ کچھ دارالعلوم کے طلبہ و اساتذہ وہاں منتظر تھے، فورًا مغرب کی نماز ادا کی اور دارالعلوم کی عالیشان مسجد میں مسابقہ میں شرکت کے لیے حاضر ہوا۔
اکابرین کے اخلاق عالیہ :
قاری اسحاق صاحب اور ان کے رفقا سے ملاقات ہوئی، حضرت اقدس مفتی بسم اللہ صاحب دامت برکاتہم اور حضرت مولانا احمد بزرگ صاحب دامت برکاتہم سے بھی ملاقات کا شرف حاصل ہوا، دونوں بزرگ استقبال میں کھڑے ہوگئے، جس پر بندہ کو بڑی شرمندگی ہوئی کہ اس حقیر فقیر پرتقصیر کے لیے اتنے بڑے حضرات کھڑے ہوگئے ہیں، معا یہ سیکھنے کو ملا کہ ہمارے اکابرین کتنے منکسر المزاج ہیں کہ مجھ جیسا تہی دامن جس کی عمر کی ان کی اولاد ہے، وہ مہمان کی حیثیت سے اس کے اکرام میں کھڑے ہوگئے ہیں، اخلاقِ حسنہ کے فقدان کے اس دور میں اصغار کے لیے اپنے ان بزرگوں کا عمل ایک سبق اورلائق تقلید نمونہ ہے۔
طلبہ کی دل سوزوطرب انگیز تلاوت:
مفتی بسم اللہ صاحب کے جوار میں کافی دیر بیٹھنا میسر آیا، تقریباً تین طلبہ کی قرأت سنی۔ سبحان اللہ! ہر ایک طالب علم ایک سے بڑھ کر ایک تھا، ترتیل، تدویر، حدر میں ہر ایک نے تجوید کی مکمل رعایت کے ساتھ بہترین ادائیگی، شاندار لہجے اور دل کش آواز میں تلاوت کی، دل تو نہیں چاہتا تھا کہ اس مبارک مجلس کو چھوڑ کر نکلوں؛ مگر پہلے سے طے شدہ دوسرے پروگرام کی وجہ سے مجبور تھا۔
تاثرات قلبی:
عشاء کا وقت ہونے والا تھا ، بندہ کو قاری رضوان صاحب پالنپوری نے تأثرات پیش کرنے کے لیے مائک پر دعوت دی۔ بندہ نے حمد و صلاة کے بعد بطور تمہید قرآن کی اہمیت پر روشنی ڈالی، اس کے بعد رسول اللہ صلی علیہ وسلم پر قرآنِ کریم کے نزول اور اس کے مقاصد کو بتاتے ہوئے ، ﴿وَ اَنْذِرْ عَشِیْرَ تَکَ الْأَقْرَبِیْنَ﴾(الشعراء: ۲۱۴) کے پیشِ نظر آپ ا نے اہل مکہ کو جو ہدایت کا پیغام دیا، اس پر روشنی ڈالی اور مکہ کے بعد اس پیغام ہدایت کے سلسلے کو قدر ترتیب سے بیان کیا کہ مکہ کے بعد اہلِ طائف، اس کے بعد بیعتِ عقبیٰ اولیٰ میں اہلِ مدینہ کو پیغام دیا۔ اہلِ مدینہ کے مطالبہ پر حضرت مصعب ابن عمیر کو اور حضرت عبداللہ ابنِ ام مکتوم کو داعی بنا کربھیجا۔اور سب سے پہلے مقری کی تاریخ بتائی۔
مقری اور دارالقرّا کی تاریخ:
حافظ مغلطائی نے لکھا ہے کہ سب سے پہلا” مقری کا لقب“ حضرت مصعب ابن عمیر کو دیا گیا اور جہاں وہ قرآن کی تعلیم دیتے تھے اسے دار القرا سے موسوم کیا گیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضراتِ صحابہ نے سب سے پہلے اپنی تمام تر توجہ قرآنِ کریم پر مرکوز کی۔
قرأ تِ سبعہ و عشرہ اور جدت پسندسوشل میڈیا اسکالر:
روایتوں کے مطابق سبعة احرف میں قرآنِ کریم کی تلاوت کو مشروع کیا گیا، تواتر علمی و عملی سے یہ ثابت ہے اور امت کا اس پر اجماع بھی ہے؛ مگر افسوس کے عصر حاضر میں جاوید احمد غامدی جیسے جدت پسند اس کا انکار کرتے ہیں اور اسے عجمی سازش گردانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قرأ تِ عامہ یعنی روایتِ حفص میں صرف تلاوت کی جائے گی۔تعجب ہے ان کی کم علمی پر! روایتِ حفص جو کہ حضرت عاصم سے مروی ہے، اور عاصم ابن ابی النجود خود بھی عجمی تھے، تو ایک جانب عجمی سازش کے نام پر قرأ تِ سبعہ و عشرہ کا انکار، اور دوسری جانب عجمی قاری ہی کی قرات کا لزوم!
فنا فی فن القراء ات شخصیت:
خطاب کے اخیر میں بندہ نے کہا کہ حضرت قبلہ قاری احمداللہ صاحب فنا فی القراء ات تھے، چند سال قبل ”اکل کوا“ تشریف لائے اور بندہ سے کہا: علم قرأ ت کو فروغ دینا ہے آپ کے یہاں سے یہ کام ہوسکتا ہے۔ بندہ نے کہا: حضرت پورا شعبہ آپ کے حوالے، پھر والد صاحب سے ملاقات ہوئی، تو والد صاحب نے بھی کہا کہ آپ شعبہٴ تجوید و قراء ا ت کے سرپرست ہیں جیسا چاہیں کرسکتے ہیں، بس پھر کیا تھا حضرت پیرانہ سالی اور اکل کوا کے راستے کی ابتری کے باوجود بڑے اہتمام کے ساتھ سال میں دو تین بار جامعہ تشریف لاتے۔ اور آپ نے اپنے ۶/ بہترین تلامذہ کو جامعہ اکل کوا کے حوالے کیا، جو الحمدللہ! خدمتِ قرآن میں ہما تن مشغول ہیں۔ یہ ساری خدمات حضرت کے لیے صدقہ ٴجاریہ ہے۔
ہر فرع کے اول نمبر والے طلبہ کے لیے عمرہ:
اخیرمیں منجانب اللہ دل میں بات آئی اور احقر نے اس خیال خیر کو اللہ کا مہمان سمجھتے ہوئے فوراً اعلان کیا کہ اول نمبر سے کامیاب ہونے والے طالب علم کو ہماری جانب سے عمرہ کے لیے بھیجیں گے ،کہا گیا کہ تین فرع ہے، بندہ نے کہا ٹھیک ہے تینوں فرع کے پہلے نمبر پر کامیاب ہونے والے طالب علم کو عمرہ کرایا جائے گا۔ ان شاء اللہ !
اخیر میں بندہ نے یہ تجویز پیش کی کہ عالمی مسابقات میں قرأ تِ سبعہ و عشرہ کی فرع ہوتی ہے، ہم دارالعلوم سے طلبہ کواس مسابقہ میں شریک کریں گے۔ ان شاء اللہ!
درہ اور شاطبیہ کے حفظ یاد کرنے، اور مقامات کی جانب خاص توجہ دینے کی اہمیت جتائی۔ اوران الفاظ میں دعا کے ساتھ کہ: اللہ قرآن سے ہمیں والہانہ عشق نصیب فرمائے اور اپنی رضا والے اعمال کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین! اپنی بات مکمل کی۔