دارالعلوم دیوبند کا بابرکت سفر

زید ابن حنیف وستانوی

            الحمدللہ! حالیہ دنوں میں مجھے حضرت خادم القرآن و عامر المساجدحضرت مولانا غلام محمد وستانوی کے ہمراہ بحیثیت خادم ”دارالعلوم دیوبند“ کے اس بابرکت سفر میں شرکت کا موقع ملا۔

             حضرت خادم القرآن و عامر المساجد کے اس سفر کا مقصد دارالعلوم دیوبند کی مجلس ِشوریٰ میں شرکت کرنا تھا، جس میں ہندوستان کے بڑے بڑے اکابرین و مشائخین حضرات نے شرکت فرمائی تھی۔

            اس سفر کے دوران دارالعلوم دیوبند اور دارالعلوم وقف دیوبند کا وزٹ کیا گیا، جہاں کے علمی اور روحانی ماحول نے دل و دماغ پر گہرا اثر ڈالا۔

            مجلسِ شوریٰ میں آئی ہوئی ہندوستان کی عظیم شخصیات سے ملاقات کا موقع ملا، جن میں حضرت مولانا ارشد مدنی، حضرت مولانا عبدالخالق مدراسی، حضرت مولانا حبیب باندوی، حضرت مولانا بدرالدین اجمل، حضرت مولانا محمود مدنی اور دیگر مشائخین شامل تھے۔

            مؤرخہ۴ ۱/ صفر المظفر ۱۴۴۶ھ مطابق ۱۸/اگست ۲۰۲۴ء کی شام کو ہم پانچ حضرات حضرت کے ہمراہ سورت سےIndigo کے طیارے میں دہلی روانہ ہوئے۔ اس قافلے میں، حضرت مولانا اویس صاحب، مولانا خالد دیسائی صاحب، حافظ عمار اور بندہٴ خدا شامل تھے۔ تقریباً ایک گھنٹے چالیس منٹ کی پرواز کے بعد ہم دہلی کے اندرا گاندھی انٹرنیشنل ہوائی اڈے پر پہنچے۔

            قیام و طعام کا انتظام جمعیت علمائے ہند کے مہمان خانے میں کیا گیا تھا۔ رات کو آرام کرنے کے بعد صبح پانچ بجے ہم دارالعلوم دیوبند کی جانب روانہ ہو گئے۔ سفر کے دوران جیسے جیسے ہم دارالعلوم کے قریب پہنچتے گئے، دل میں خوشی اور جذبات کا ایک طوفان برپا ہوتا گیا۔کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ دور سے دارالعلوم کی وسیع و عریض عمارتیں نظر آنے لگیں۔ یہ منظر دیکھ کر دل خوشی سے جھوم اٹھا، کیوں کہ ہم اس عظیم درسگاہ کی زیارت کے لیے جا رہے تھے جہاں سے ہندوستان کے عظیم ترین علما و مشائخ نے اپنی علمی پیاس بجھائی۔ یہ لمحہ واقعی ناقابل بیان تھا، کیوں کہ ہم اس مقام کی زیارت کر رہے تھے، جس نے بے شمار علمی شخصیات کو پروان چڑھایا اور جہاں سے علم کا سمندر پوری دنیا میں بہا۔

            دارالعلوم دیوبند پہنچنے کے بعد، حضرت مولانا غلام صاحب وستانوی مجلسِ عاملہ میں شرکت کے لیے تشریف لے گئے اور ہم چند احباب (مولانا خالد دیسائی، حافظ عمار، اور بندہ) اس عظیم درسگاہ کی زیارت کے لیے نکل پڑے، جس کے تذکرے بچپن سے سنتے آئے تھے۔ ہماری رہنمائی کے لیے حضرت مولانا حبیب صاحب مدنی نے ایک رہنما(بھائی عبدالرحیم سلمہ) کو مقرر فرمایا، جو ہمیں دارالعلوم کی مختلف جگہوں کی زیارت کروانے لگے۔ دورانِ زیارت، رہنما نے ہم سے دریافت کیا کہ :کیوں نہ ہم اس مبارک رومال کی زیارت کے لیے بھی جائیں، جو کئی سال تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جبہٴ مبارک سے مس رہا؟ یہ سن کر ہمارے قلوب شوقِ ِزیارت سے مچل اٹھے اور ہم فوراً وہاں جانے کے لیے تیار ہو گئے۔جب ہم اس مبارک رومال کی زیارت کے لیے پہنچے، تو دل میں ایک عجیب سا جذبہ اور شوق موجزن تھا۔ وہ رومال ایک شیشے میں بند ،انتہائی حفاظت کے ساتھ دارالعلوم کے دفتر میں محفوظ کیا گیا تھا۔ ہم نے دیر تک اس مبارک رومال کی زیارت کی اور دل خوشی سے لبریز ہو کر آنکھوں سے آنسو بن کر بہنے لگے۔ مگر ہجوم کی وجہ سے ہم وہاں زیادہ دیر تک ٹھہر نہ سکے۔

رومال مبارک کی تاریخ:

            یہ مبارک رومال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جبہٴ مبارک سے کئی سال تک مس رہا۔ یہ دارالعلوم دیوبند کو دولت ِعثمانیہ کا عطیہ ہے۔ ترکی کے سلاطین اس جبہٴ مبارک کی زیارت کا شرف حاصل کرتے تھے، جو آج بھی ترکی کے خزانے میں محفوظ ہے۔ جنگ بلقان کے زمانے میں، دارالعلوم دیوبند کی مالی امداد سے متاثر ہو کر ۱۳۳۲ھ مطابق۱۹۱۳ء میں سلطان المعظم ترکی نے دارالعلوم دیوبند کو یہ تبرک عطا فرمایا۔ (روداد دارالعلوم دیوبند۱۳۳۲ھ، صفحہ۹ ۲)

دارالعلوم کی لائبریری کا وزٹ:

            دوپہر کے کھانے کی دعوت حضرت مولانا ارشد مدنی صاحب کی قیام گاہ پر تھی۔ کھانے سے فارغ ہونے کے بعد، ہم دارالحدیث اور شیخ الہند لائبریری کا وزٹ کرنے کے لیے روانہ ہوئے۔ ہم نے دارالحدیث اور شیخ الہند لائبریری کا وزٹ کیا۔ یہ عمارت سرخ ریتلے پتھر (Red Sandstone) سے تعمیر کی گئی ہے، جو دارالعلوم دیوبند کی رونق میں مزید اضافہ کرتی ہے۔

            تقریباً ۵۴/ میٹر اونچی اس عظیم الشان عمارت میں ۱۰/ لاکھ کتابوں کا ذخیرہ رکھنے کی گنجائش موجود ہے۔ اس کے زیر زمین دارالحدیث واقع ہے، جہاں بیک وقت ۵ /ہزار طلبہ علم حدیث حاصل کر سکتے ہیں۔ ان مقامات کی زیارت کے بعد دل باغ باغ ہو گیا اور اللہ کا بے حد شکر ادا کیا کہ اس نے ہمیں اس مقدس جگہ کی زیارت کا شرف عطا فرمایا۔

            ہم نے دارالعلوم وقف دیوبند کا دورہ کیا اور حضرت ناظم و مہتمم، مولانا سفیان صاحب (دامت برکاتہم) نبیرہٴ حضرت قاری طیب صاحب سے ملاقات کی۔

            وقت کی قلت کے پیشِ نظر ہم دارالعلوم دیوبند وقف کا وزٹ نہیں کر سکے۔ اس لیے ہم نے دارالعلوم وقف دیوبند کے ناظم و مہتمم، حضرت مولانا سفیان صاحب سے ملاقات کو ترجیح دی۔ ہم چند احباب (مولانا خالد دیسائی، حافظ عمار وہرا، اور بندہ) حضرت مولانا سفیان صاحب سے ملاقات کے لیے ان کے دفتر میں تشریف لے گئے۔ حضرت سے ہم نے ملاقات کی اور ہمارے لیے چائے اور ناشتے کا انتظام فرمایا۔ اس کے بعد حضرت نے ہم سے گفتگو کی اور ہمیں بہت ساری نصیحتوں سے نوازا۔

            گفتگو کے دوران، بندہ نے اپنی کم سنی اور کم علمی کے باوجود حضرت سے حالاتِ حاضرہ کے پیش نظر ایک سوال دریافت کیا:حضرت، موجودہ حالات کے پیش نظر مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟

            حضرت نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے بڑی قیمتی باتیں بیان فرمائیں، جو ہمارے لیے رہنمائی کا ذریعہ بنیں۔حضرت مولانا سفیان صاحب نے موجودہ حالات کے پیش نظر فرمایا کہ

            ” بحیثیتِ مسلم ہر شخص کو اپنے آپ کا محاسبہ کرنے کا عادی بننا چاہیے۔“، انہوں نے مزید کہا کہ” مصلح بننے سے پہلے صالح بن جاؤ۔ آج کل ہر کوئی مصلح بنا بیٹھا ہے، صبح سے شام تک مذاکرے اور اصلاحی باتیں پیغامات کے ذریعے شیئر کرتا ہے، لیکن خود ان پر عمل نہیں کرتا۔“ آخر میں، حضرت نے اس بات پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ” اپنے آپ کو اللہ سے جوڑنے والا اور اس کی بارگاہ میں گڑگڑانے اور رونے کا عادی بناؤ، اور اللہ کو اپنی تمام ضروریات و مشکلات کا ناصر بناؤ۔ ان شاء اللہ، اس سے ضرور نفع ملے گا۔“

            مؤرخہ۶ ۱/ صفر المظفر ۱۴۴۶ ھ مطابق ۱۹/ اگست ۲۰۲۴ء کو ہم حضرت مولانا غلام صاحب کے ہمراہ دہلی کی طرف روانہ ہو گئے۔تقریباً ۹/ بجے ہم جمعیت علمائے ہند کے دفتر پہنچے جہاں طعام و قیام کا انتظام تھا۔ رات قیام کے بعد، چند احباب (مولانا اویس وستانوی، مولانا خالد دیسائی، حافظ عمار وہرا) حضرت کے ہمراہ دہلی سے Indigo کے طیارے میں سورت روانہ ہوئے۔ تقریباً ۱۲/ بجے تمام حضرات اپنی منزلِ مقصود، جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا، بخیر و عافیت پہنچ گئے، الحمدللہ!

            بندہ مؤرخہ۸ ۱/ صفر المظفر۱۴۴۶ ھ مطابق ۲۱/ اگست ۲۰۲۴ء کو دہلی سے احمدآباد کے طیارے میں روانہ ہوگیا۔ حضرت کی دعاؤں سے بندہ بھی بخیر و عافیت اپنی منزل پر پہنچ گیا اور یوں اس سفر کا اختتام ہوا۔

نوٹ: بندہ نے جو بھی سفر کے تأثرات اپنے الفاظ میں بیان کیے ہیں، کم علمی کی بنا پر ممکن ہے کہ کچھ غلطیاں ہو گئی ہوں۔ اس کے لیے بندہ معذرت خواہ ہے۔