۲۸/ نومبر بروز جمعرات، مولانا نے دارالعلوم اسلامیہ عربیہ ماٹلی والا، بھروچ (گجرات) میں” حدیث اور اس کے متعلقات “کے عنوان پر ہونے والے سہ روزہ سیمینار میں شرکت کی۔ اس سیمینار کے لیے مولانا نے ایک وقیع مقالہ بعنوان”المعجم المفہرس لألفاظ الحدیث النبوی کا تعارف و تجزیہ“ تحریر کیا تھا، جس کا خلاصہ آپ نے اسی مجلس میں پیش کیا۔
اس مجلس پر خود مولانا نے تحریر لکھی ہے جو شمارے میں”علوم ِحدیث اور اس کے متعلقات“ کے عنوان پر
علمی سمینار کی نورانی یادیں کے عنوان سے شامل ہے، اور مکمل مقالہ ان شاء اللہ اگلے کسی شمارے میں قارئین کی خدمت میں پیش کیا جائے گا۔
افتتاح مرکز مسجد دانہ پور بھوکردن جالنہ
۲۹/ نومبر بروز جمعہ، فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد”اکل کوا“ سے ۳۰۰/ کلومیٹر کی مسافت طے کرنے کے بعد ناظم جامعہ جالنہ ضلع کے بھوکردن تعلقہ میں موجود ایک مشہور علاقہ” دانہ پور“ پہنچے۔ یہاں ایک عظیم الشان مرکز مسجد کی تعمیر ہوئی ہے اور آج جمعہ کی نماز سے اس کا افتتاح ہونا ہے۔آپ جمعہ سے قبل ”دانہ پور“ پہنچ گئے۔ بیان سے پہلے خطبہٴ جمعہ دیا اور نماز ِجمعہ پڑھائی۔ نماز جمعہ کے بعد مسجد کی آبادی، نماز کی اہمیت، تعلیمی بیداری اور قرآن سے وابستگی پر عمدہ خطاب فرمایا۔خلاصہٴ خطاب پیش خدمت ہے۔
خلاصہٴ بیان:
آپ نے اپنے خطاب میں ایمان کی پختگی اور شریعت کے مطابق زندگی گزارنے کی اہمیت پر زور دیا، خاص طور پر جدید دور کی آزمائشوں اور فتنوں کے مقابلے میں مسلمانوں کو راہ عمل کی رہنمائی فرمائی۔
مادہ پرستی کی دنیا میں ایمان کو قائم رکھنا:
آپ نے اللہ پر حقیقی ایمان کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں ہمیشہ یہ خیال رکھنا ہے کہ صرف زبانی طور پر اسلام کا اقرار کرنا کافی نہیں ہے۔ حقیقی ایمان کا تقاضا ہے کہ اللہ کی مطلق طاقت کو تسلیم کیا جائے اور یہ سمجھا جائے کہ ہر چیز اللہ کی مرضی کے مطابق ہوتی ہے۔ آپ نے کہاعصر حاضر میں دولت کی ریل پیل اور آسائش کی کثرت اکثر انسان کو حقیقی ایمان سے غافل کر دیتی ہے۔
مساجد اور کمیونٹی کی اہمیت:
آپ نے کہا کہ مساجد”ایمانی طاقت کے مراکز“ ہیں۔ اس لیے پابندی اور اہتمام سے مساجد میں آئیں؛ تاکہ اپنے روحانی معاملات کو بہتر کریں، دیگر مسلمانوں کے ساتھ تعلقات قائم کریں، دینی تعلیمات سیکھیں اور ایک منظم زندگی گزاریں۔آپ نے کہا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو باجماعت نماز پڑھنے اور مساجد کو کمیونٹی مراکز کے طور پر اہمیت دینے کی تلقین کی ہے۔
زندگی کے حقیقی مقصد کو سمجھنا:
آپ نے زندگی کے حقیقی مقصد کو سمجھنے پر زور دیا۔ یعنی اللہ کے حقوق اور اس کی مخلوق کے حقوق کو پورا کرنا اور اس کی رضا حاصل کرنا۔آپ نے فرمایا:کہ دنیا کی تمام اشیاء انسان کے فائدے کے لیے تخلیق کی گئیں، جبکہ انسانوں کو اللہ کی عبادت اور خدمت کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔
اچھے کردار اور اعمال کی اہمیت:
آپ نے اچھے کردار اور اعمال کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے، سامعین کو جتلایا کہ حقیقی مومن وہ ہے جو نیک زندگی گزارنے کی کوشش کرتا ہے اور دوسروں کے ساتھ مہربانی اور احترام کا برتاؤ کرتا ہے۔ مومن وہ نہیں جو صرف دنیاوی مقاصد پر توجہ مرکوز رکھے اور اپنے روحانی فرائض کو نظرانداز کردے۔
بچوں کی پرورش کی ذمہ داری:
آپ نے بچوں کی اخلاقی اقدار کے ساتھ پرورش کرنے پر زور دیا۔اور بچوں کو موبائل اور ٹیوی کے حوالے کرنے پرافسوس جتاتے ہوئے، والدین کو تلقین کی کہ وہ اپنے بچوں کی اخلاقی اور روحانی تربیت کو ترجیح دیں۔ والدین کو کہا کہ وہ اپنے گھروں میں دینی ماحول پیدا کریں، بچوں کو اسلام کی تعلیم دیں، اور اچھے اخلاق اور دوسروں کا احترام سکھائیں۔
زندگی کی عارضی حیثیت اور آخرت کی تیاری:
آپ نے تقریر کے آخر ی حصہ میں موت کی حقیقت اور آخرت کی تیاری کی طرف متوجہ کیا۔اور گناہوں کے خطرات کو اجاگر کیا اور توبہ کرنے اور اللہ کی مغفرت طلب کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ آپ نے مسلمانوں کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ ہر دن ایسے گزاریں؛ جیسے یہ ان کا آخری دن ہو، نیک اعمال پر توجہ دیں اور اللہ کی رضا کے حصول کو اپنی زندگی کا مقصد بنائیں۔