مولانا افتخار احمد قاسمی بستوی
اللہ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاہے، مشکاة المصابیح جلد دوم میں علامہ خطیب تبریزی رحمة اللہ علیہ نے حضرت ابو ہریرہ عبد الرحمن بن صخر رضی اللہ عنہ (متوفی ۷۵ھ در مدینہ طیبہ) سے وہ حدیث نقل کی ہے کہ ” جو شخص پہاڑ سے گر کر خود کشی کر ڈالے تو وہ آتش دوزخ میں ہمیشہ ہمیشہ گرتا اورجلتا رہے گا۔“
(مشکاة المصابیح :۲/۲۹۹)
اسلام میں اللہ کی نافرمانی اوررسول کے حکموں کی اطاعت سے گریز کرنا گناہ کہلاتا ہے، جو آگ کی چنگاری کی مانند ہے، چنگاری چھوٹی ہو یا بڑی لباس ومکان کو جلاکر خاکستر کردینے کے لیے کافی ہے۔ اس لیے اللہ کے حکموں پر عمل پیرا ہونا اور نافرمانی سے بچنا، سیرت واخلاق کو سنت و احکام کے سانچے میں ڈھالنے کے مترادف ہے، احکام خداوندی کی اطاعت سے آدمی اللہ کا محبوب بن جاتا ہے ۔ اورنافرمانی کرنے سے اللہ کا مبغوض بن جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ﴿ یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَافِیْ السَّمٰوٰتِ وَمَا فِیْ الْاَرْضِ﴾آسمان وزمین کی تمام چیزیں اللہ کی پاکی بیان کرتی ہیں اور دوسری جگہ ارشاد خداوندی ہے ﴿لِلّٰہِ مَافِیْ السَّمٰوٰتِ وَاْلاَرْضِ﴾ آسمان وزمین کی ساری چیزیں اللہ کی مملوک ہیں، ہم آپ اور سبھی اللہ کی ملکیت میں بے حس و حرکت جماد کے مانند ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم کو جو حکم دینا چاہے دے، ہم کو انکار کرنے کی گنجائش نہیں، اس کے ہم بندے اورمملوک ہیں، ہم اگر انکار کرتے ہیں تو اپنا نقصان کرتے ہیں، اگر مملوک مالک کی بات پرنکیر کرتا ہے، تو مالک اس کو اٹھاکر پھینک دیتا ہے۔ اسی طرح اللہ کے بندے اگر اللہ کی نافرمانی کریں گے تو اللہ تعالیٰ اسے اٹھاکر پھینک دیں گے، دوزخ کی آگ کا ایندھن بنادیں گے۔ چھوٹی بڑی کسی بھی نافرمانی کی کوئی بھی سزا اللہ رب العزت تجویز کردیں گے، ان کو حق ہے، بلا نافرمانی کے بھی اگر انھوں نے ہماری سزا تجویزکردی تب بھی وہ مالک ومولیٰ ہیں اور ہم مملوک وبندے ، ہمیں کیا اعتراض؟
اس تحقیق سے پتہ چلا کہ گناہوں کو چھوٹے بڑے خانوں میں تقسیم کرنے کے بعد چھوٹے گناہوں کو ہلکا اور معمولی سمجھنا اور ان کوکرلینے میں کوئی حرج نہ سمجھنا بہت بڑی دلیری اور جرأت و بے باکی ہے اور عمل کرنے کے لحاظ سے خدا کے فرمان کو سر آنکھوں پر رکھنا ہی بندگی ہے۔
رہی بات چھوٹے بڑے گناہوں کی تقسیم صغائر و کبائر کے نام سے تو وہ ایک شرعی اصطلاح کی بنیاد پر ہے کہ جن گناہوں پر قرآن وحدیث میں وعید وارد ہوئی ہے ان کو ”کبائر“ کی فہرست میں رکھتے ہیں اور جن گناہوں کو گناہ بتلاکر چھوڑ دیا گیا ہے ان کو ”صغائر“ کی فہرست میں رکھتے ہیں۔
انسان کو ملی ہوئی ہر چیز امانت ہے۔ انسان کا جسم، اس کے اعضا و جوارح ، آنکھ ، کان، ناک اور دل وماغ ہر چیز اللہ کی ہے۔ اس نے انسان کے پاس بہ طور امانت استعمال کرنے کے لیے دی ہے۔ اس نے استعمال کرنے کا صحیح اور مفید طریقہ بتلایا ہے۔ غلط استعمال سے گریز کا حکم دیا ہے، لیکن انسان کو بدن اور اعضائے بدن کو ضائع ونیست ونابود کرنے سے منع کیا ہے۔
یہیں آکر انسان کا عقیدہ بگڑ جاتا ہے، وہ اپنے اعضا وجوارح اور اپنے جسم کا خود مالک ومختار خیال کرنے لگتا ہے، جس سے فساد عقیدہ کا مرتکب ہوکر مجرم بارگاہ ربانی بن جاتا ہے اور بے محابا اعلان کر بیٹھتا ہے کہ ”میرا جسم میری مرضی“ حالاں کہ جب سخت بیمار پڑتا ہے تو اپنی مرضی سے کیوں صحت یاب نہیں ہوجاتا اور جب موت کے آثار نمایاں ہونے لگتے ہیں تو اپنی مرضی سے آثار موت کو ٹال کر موت سے راہِ فرار کیوں اختیار نہیں کرلیتا۔
اسی طرح انسانی بدن ، انسانی جسم میں موجود روح کی بدن سے وابستگی اور حیات کا مالک بھی اللہ ہی ہے۔ انسان کو بدن ، روح اور روح کی بدن سے اور ارتباطی حالت کو ختم کرنے کا مجاز نہیں بنایا گیا۔
انسان کتنے ہی نازک وجاں گسل حالات میں کیوں نہ ہو، اس کو اللہ کی ملکیت میں دست درازی کا حق نہیں دیاگیا، اس کو حالات کی درستگی کے لیے صبر آزما حالات میں صبر کرنے کی تلقین ضرور کی گئی ہے، حالات وصبر آزما کیفیات کا مالک بھی وہی ، برہم زن عالم خداوند قدوس ہے، اسی کی چوکھٹ پر حاضری دینے باوضو ہوکر ، دورکعت کی نیت باندھ کر، سجدہ ریز ہوکر اسی کے در پہ جبیں سائی سے حالات کشیدگی سے بہتری کی طرف مڑنے لگتے ہیں، اگر انسان سے خدا کی امانت میں خیانت کرڈالی تو یہ ایسا گناہ ہے، جس پر وعید شدید وارد ہوئی ہے، اس لیے اصطلاحِ شرع میں اس گناہ کو ”کبائر“ کی فہرست میں رکھا جاتا ہے۔ اور اس نافرمانی کے سبب اسے ایک بڑی مدت تک آخرت میں سزا پانی ہوگی، البتہ ایمان کی بدولت وہ دوزخ سے جنت میں ضرور آجائے گا۔
دنیا میں خود کشی کرکے جان ضائع کردینے اور اعضائے بدن کو کاٹ ڈالنے کے واقعات ماضی میں بھی پیش آتے رہے ہیں اور حال میں بھی پیش آرہے ہیں، جن پر روک تھام کی سخت ضرورت ہے، اس کے لیے سب سے ضروری تدبیر اوراہم علاج افراد انسانی کو عقائد واعمال کے درست سانچے میں ڈھالنے کی تربیت وکوشش ہے۔
اگر عقائد واعمال کے درست سانچے میں افراد انسانی اورنوجوانان امت کوڈھال دیاگیا تو ایسے صبر آزما حالات میں وہی عمل انجام دے گا جو بڑے بڑے صبر آزما حالات میں ماضی کے اسلاف میں پیش رو حضرات نے انجام دیے ہیں۔ تین احباب سفر میں انتہائی نازک حالات میں ایک غار میں بند ہوجاتے ہیں، وہاں غار کے منہ پر ایک بھاری چٹان، غار کا راستہ بند کر دیتی ہے، اب موت کے علاوہ کوئی چارہ نہیں، ہر ایک خود کشی کے لیے تیار ہوسکتا ہے، لیکن عقیدہ وعمل کی درست سمت صحیح تربیت وکوشش نے ان کی جان بچالی، تینوں اپنے خالق ومالک کی بارگاہ کی طرف متوجہ ہوئے اور اپنے اپنے عقیدہ وعمل کا واسطہ دے کر اپنے مالک سے درخواست کی کہ ”بار ِالٰہا !میں نے اپنے والدین کی خدمت میں اپنے بچوں کو بھوکا چھوڑ کر اپنے والدین کی خدمت کو ترجیح محض تیری خوشنودی کے حصول کے لیے دی“،” میں نے برائی کے سارے اسباب مہیا ہونے کے باوجود تیرے خوف کی وجہ سے گناہ ترک کردیا“،” میں نے امانت میں خیانت سے گریز کیا“۔تینوں نے اپنی اپنی نیکیوں کا بارگاہِ رب العزت میں حوالہ دیا، خدا کی رحمت جوش میں آئی اور چٹان غیبی مدد سے کھل گئی اور تینوں صبر آزما حالت سے پر سکون زندگی کی راہ پر آگئے۔
کتنے ہی جاں گسل حالات آئیں اللہ کی بڑائی اورصبر و رضا کی کیفیت ہی انسان کو مشکل سے مشکل حالات میں مداوا پیش کرسکتی ہے، ماضی کے سیکڑوں واقعات ہمارے لیے مشعل راہ ہیں، جن کو یاد کر کے بھی انسان اپنی زندگی کے بکھرے خطوط درست کرسکتا ہے اور اپنے بچوں کی صحیح تربیت سے ان کو کتنی خطرناک راہوں میں تاریک منزل سے روشن منزل تک لاسکتا ہے، پس صحیح تدبیر وعلاج کی تلاش ہمارا فرض منصبی ہے۔
صحیح تدبیر اوردرست سوچ کے لیے سب سے صحیح سوچ وتدبر والے کی پیروی ناگزیر ہے۔ انسانوں میں اللہ رب العزت سے انبیائے کرام کو سب سے زیادہ صحیح سوچ وتدبر کا مالک بنایا ہے۔ انبیائے کرام کی عقلیں اور ان کے پیغامات ہی صحیح تدبر کا درست معیار ہیں۔
سب سے آخری نبی ، نبیوں کے آقا ومولا، کائنات کے سردار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ناگزیر حالات اور جاں گسل مواقع میں اللہ کی طرف رجوع کو غم کا مداوا بتلایا ہے۔ یہی وہ سوچ ہے جو تمام غموں کو ہلکا اور تمام مصیبتوں کو راحتوں سے بدل دیتی ہے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زوجہ مطہرہ اور تمام مومنین کی ماں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو چراغ گل ہونے کے موقع پر بتایا کہ انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھنا چاہیے کہ ہلکی سے ہلکی مصیبت میں بھی اس کو پڑھ کر اللہ کی طرف رجوع ہونا چاہیے، جو اصل غم کا علاج ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب تیز آندھی آتی، کالے کالے بادل دکھائی دیتے، سورج کو گہن لگتا، چاند گرہن ہوتا ان تمام حالات میںآ پ مسجد کی طرف تیزی سے جاتے ہوئے دکھائی دیتے۔ اپنے صحابہ کرام اور پوری امت کو اپنے اس عمل کے ذریعہ جان کو پگھلا دینے والے حالات میں غم کا مداوا”رجوع الی اللہ“ کو بتلانے کے لیے آپ ایسا کرتے۔
صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین، اولیائے کرام، محدثین، مفسرین، فقہائے عظام اور امت کے سربر آوردہ بزرگان امت کے تمام غموں میں رجوع الی اللہ اور صبر واستقامت ہی کو اصل علاج مان کر زندگی گزاری ہے، جس سے ان کو غموں سے نجات ملی ہے اور دنیا میں راحت اورآخرت میں ثواب کی ضمانت کی بات کہی گئی ہے۔
غموں کے خاتمے کا علاج صبرو رضا ہے، رجوع الی اللہ اور استقامت و توکل نہ کہ اپنی جان دے دینا، یہ تو بہت بڑا جرم اور صبر کی توہین ہے
خود کشی جرم بھی ہے صبر کی توہین بھی ہے
اس لیے عشق میں مر مر کے جیا جاتا ہے
(عبرت صدیقی)
یہاں ایک سوال ذہنوں میں گردش کرتا ہے کہ خود کشی کا بڑھتا رجحان اسلامی سماج میں اسلام اوراہلِ اسلام کی بدنامی کا سبب بنتا جارہاہے، تو اس کی مناسب تدبیر اور تیر بہ ہدف حل کی تلاش ضروری ہے۔
خود کشی کے بڑھتے رجحان پر بند باندھنے کا واحد طریقہ اور آزمودہ حل صرف یہی ہے کہ ذہن ودماغ کی اسلامی تربیت کی جائے۔ اگر خاندان ومعاشرہ اسلامی ہوگا تو سب سے پہلے اس کے ذہن میں یہی بات آئے گی کہ یہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے، اس دنیا کا ایک ایک لمحہ نہایت قیمتی ہے، اس کو خدا کی مرضیات میں گزارنا چاہیے، لہٰذا خدا کے احکام کو بجالانا اپنا فرض منصبی سمجھنا چاہیے، اپنی ذات سے کسی کے لیے حتیٰ کہ چرند و پرند اور کیڑے مکوڑوں کو بھی تکلیف نہ پہنچنے پائے
مری زبان و قلم سے کسی کا دل نہ دکھے
کسی کو شکوہ نہ ہو زیر آسماں مجھ سے
با پ بیٹے کے حق کو اسی لیے ادا کرے گاکہ میری ذات سے اس کو گزند نہ پہنچے، بیٹا باپ کا اکرام اسی لیے کرے گاکہ وہ میرے لیے جنت کا دروازہ ہیں، ماں، بہن، بیٹی، بہو، پڑوسی، بھائی بند، رشتے دار، ازدواجی رشتے اور دور ونزدیک کے تمام رشتے صرف اسی بنیاد پر محفوظ رہ سکتے ہیں کہ سب کو اس کا خیال ہے کہ میری ذات سے دوسروں کو گزند واذیت نہ ہونے پائے۔
اس طرح کی ذہن سازی سماج میں بڑھتے ہوئے اذیت رساں رجحانات اور خود کشی کے اقدامات پر یک لخت پابندی عائد کردے گی ، جس سے پورا سماج خوش حال وشادماں نظر آئے گا۔
آج پورے معاشرے میں یہ رجحان بڑھتا جارہا ہے کہ میری ذاتی غرض پوری ہو، وہ کیسے پوری ہو، کس نوعیت سے پوری ہو، اس کا کوئی خیال کسی کو کسی درجہ بھی نہیں، جس کی وجہ سے بعض مرتبہ دوسرا تکلیف و اذیت اور مصیبت کے اس مرحلے میں پہنچ جاتا ہے، جہاں آخری درجے کے صبر کی ضرورت ہوتی ہے وہاں سماج پہلے درجے کی صبر سے ہی دامن چراتا ہے، تو آخری درجے کا صبر کیسے کرے گا؟ اس لیے اب خود کشی کا رجحان اور اس کے لیے عملی اقدام کو انسان آخری درجے کی مصیبت کا مداوا سمجھ جاتا ہے حالاں کہ
اب تو گھبراکے وہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے
مرکے بھی چین نہ پائیں گے تو کدھر جائیں گے
(ذوق ابلوی)
معلوم ہوا کہ خود کشی کے بڑھتے رجحانات کو روکنے کے لیے صرف جہیز جیسی چند رسموں کو ختم کرنا پورا حل نہیں ہے، بل کہ ذہن ودماغ پر ایسے عقائد وتصورات کو جاری کرنا ضروری ہے، جو مثبت روش کے علم بردار ہونے کے ساتھ آدمی کی اخروی زندگی میں کام یابی کی ضمانت بھی ہوں۔
آج کے حالات کا اگر آپ جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ ہرشخص آج دوسروں کو پھنسانے، غلط طریقے سے الجھانے اور دوسروں کو نیچا کرنے کی دوا دوش میں ایسامنہمک ہے کہ ہزاروں سال سے آئے اور برتے ہوئے اصولوں تک کو پامال کردیاجاتاہے۔ جھوٹ کوکب اچھا مانا گیا ہے؟ زنا کاری کو کب ہنر کہا گیا ہے؟چوری چماری کو کب عرفی وسماجی جواز ملا ہے؟ ڈکیتی اور سینہ زوری کوکب اچھا مانا و تسلیم کیا گیا ہے؟لیکن آج انہی اصولوں کو بالکل نئے زاویے سے پرکھا جارہا ہے، جھوٹ کو صدق کا درجہ دے دیا گیا ہے، زنا کاری کوایک جدید تہذیب کا حصہ بنایا جا رہا ہے،سینہ زوری کو وجہ جواز فراہم کیا جارہا ہے، چوری چماری کوعدالتیں بھی غلط نہیں کہہ رہی ہیں، خیانت کو امانت اور امانت کے ساتھ خیانت کو قانونی تعاون حاصل ہورہاہے۔ ایسی حالت زار میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ:
تن ہمہ داغ داغ شد، پنبہ کجا کجا نہم
یک تن وخیلے آرزو دل بچہ مدعا دہم