خودی پیدا کر… نہ کہ خود پسندی !

مولانا عبد الرحمن ملیؔ ندوی ؔایڈیٹر مجلہ ’’ النور ‘‘ جامعہ اکل کوا

            آج ہر آدمی زندگی کے مختلف میدانوں میں کام یابی کا متمنی اور آرزومند ہوتا ہے ، اس کے لیے خوب جتن بھی کرتااور ہزارہا خواب بھی دیکھتا ہے ، لیکن حقیقت اور خواب کی دنیا میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ کوئی بھی کام یابی صرف تمنااور آرزو سے حاصل نہیں ہوتی ، بل کہ اس کے لیے جہد مسلسل اور عمل پیہم بھی درکار ہے ، اس لیے کہ یہ دنیا دارالعمل ہے ۔ یہاں کام یابی اس کے مقدر ہوتی ہے، جس کی زندگی جہد مسلسل سے عبارت ہوتی ہے ’’جوبڑھ کر خود اٹھالے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے ‘‘

            { وأن لیس للإنسان الا ما سعٰی وأن سعیہ سوف یریٰ }آیت کریمہ سے ظاہر ہورہا ہے کہ ہر انسان کو اس کی کوشش اور محنت کا پھل ملتا ہے ۔ دنیا میں ہر کامیابی اپنی ایک قیمت رکھتی ہے ، جو اس کی قیمت ادا کرتا ہے کام یابی اسی کے حصہ میں آتی ہے۔ اور جو شخص صرف تمنا ہی کرتا ہے اور محنت سے دور رہتا ہے وہ کبھی کامیاب زندگی گزار نہیں سکتا ، بل کہ اس کی زندگی ادھورا خواب بن کر رہ جاتی ہے اور ایسا خواب، جس کی کوئی تعبیر نہ ہو وہ احلام کہلاتے ہیں۔

            بعض لوگ ذہین اور قابل تو ہوتے ہیں ، مگر ان کی زندگی میں خوف اور ڈر غالب رہتا ہے ، جو ان کی تمام صلاحیات کو ناکارہ بنا دیتا ہے اور وہ بے چارے تذبذب کا شکار ہوکر عملی قدم اٹھانے سے رہ جاتے ہیں ۔ بعض لوگ اعلیٰ ذہن کے مالک ہوتے ہیں ۔ کسی اہم کام میں عملی اقدام بھی کرتے ہیں ، لیکن کام کو پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچاتے ، ان کا حوصلہ ٹوٹ جاتا ہے اور وہ مایوسی کے شکار ہوکر رہ جاتے ہیں ، لیکن جو لوگ بہادر ہوتے ہیں ، وہ خود اعتمادی کی دولت سے سرفراز ہوتے ہیں۔ جس کام کا آغاز کرتے ہیں اس کو مکمل بھی کرتے ہیں ۔راستے کے ہر پتھر کو دیکھ کر چھوڑنے کے بجائے اس کو ٹھوکر مارکر ہٹانے کی ہمت رکھتے ہیں ۔ وہ ناکامی کو جانتے ہی نہیں ، حوصلہ شکنی ان کے مزاج میں ہوتی ہی نہیں ، ایسے انسان ہمیشہ خوش قسمت ہوتے ہیں اور کام یابی ان کے قدم چومتی ہے ۔ کامیاب انسان کی علامت یہ ہوتی ہے کہ وہ کٹھن سے کٹھن مراحل میں بھی خود اعتمادی کو چھوڑتا نہیں ہے، بل کہ ہر چیلنج کو قبول کرکے اس کا مقابلہ کرتا ہے ۔ اس کی خود ی اس کے اندر امکانات پیدا کرتی ہے ۔    خوداعتمادی سے آدمی کے اندر ایک غیر معمولی طاقت پیدا ہوتی ہے ۔ خود اعتمادی وہ طاقت ہے، جس سے آدمی ہر مشکل پر قابو پاسکتا ہے ، اس لیے کہ خود ی کام یابی کی روح اور اصل ہے ۔ خود اعتمادی بازار میں بکنے والی مالی چیز نہیں ہے ، بل کہ وہ انسان کے اندر ہی موجود ہوتی ہے ، اس کو پہچاننے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ جب انسان خود اعتمادی کے ساتھ کام کے لیے قدم بڑھاتا ہے، تو خود اعتمادی اس کے حوصلے بلند کرتی ہے ۔

            زندگی کے طویل سفر میں حالات ومشکلات کا پیش آنا ایک فطری معاملہ ہے اور آزمائشوں کا آنا ایک یقینی بات ہے ۔ اگر سفر جاری رکھا جائے تو راہ کے کانٹے بھی اس کے لیے رہ نمائی کا فریضہ انجام دیںگے۔

کس قدر تاریک تھیں راہیں، مگر جب چل پڑے

خاک کے ذروں سے پیدا روشنی ہونے لگی

            جو لوگ حصول مقصد کے لیے مشکلات کا سامنا نہیں کرتے وہ زندگی میں بدلاؤ نہیں لاسکتے۔ کسی چیز کو حاصل کرنے کا خواب دیکھنا اچھی چیز ہے ، کیوں کہ خواب کے بغیر تعبیر بھی ناممکن ہے ، لیکن یہ بھی صحیح نہیں ہے کہ آدمی صرف خواب ہی دیکھتارہے ، بل کہ خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے محنت وکاوش بھی کرنی چاہیے اور یہ چیز خود اعتمادی کے بغیر ناممکن ہے ۔ صبر و برداشت خود اعتمادی کو پروان چڑھانے کے لیے نہایت ضروری ہے ۔ نازک گھڑی میں کسی کا ہمت ہار جانا گویا زندگی کی بازی ہار جانا ہے ، اس لیے کہ کوشش کرنے والا بہر حال  کامیاب ہوجاتاہے ۔

            حصول مقصد کے لیے خود اعتمادی بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ کوشش کرنا انسان کا کام ہے اور اس کوشش کو کامیاب کرنا اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ خود اعتمادی جب تک حدود وقیود میں رہتی ہے تو انسان ، انسان رہتا ہے ۔اور جب خود اعتمادی حدود پار کرجاتی ہے تو پھر تکبر انسان کو فرعون اور قارون کی صف میں کھڑا کردیتا ہے اور انسان اپنے آپ کو مقام خداوندی پر فائز تصور کرنے لگتاہے ۔

            ساغر اعظمی نے بڑی حکمت کی بات کہی ہے کہ  ع

شہرت کی فضاؤں میں اتنا نہ اڑو ساغر

پرواز  نہ کھوجائے ان اونچی اڑانوں میں

             یہ دنیا عارضی ہے اس کی کام یابی بھی عارضی ہے۔ انسان چاہے جتنی بلندی پر چلاجائے وہ انسان ہی رہتا ہے خدا نہیں بنتا ۔ انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ بگاڑ اس صورت میں پیدا ہوا جب انسان نے اپنے اختیارات میں خدائی بتلانی شروع کی ، اس لیے انسان کو نہ خدا بننا چاہیے اور نہ رسول ۔ امتی ہے امتی ہی بنارہے اسی میں وقار اور عزت ہے۔ کامیاب خود اعتمادی وہ ہے جو انسان کو انسان رہنے دے خدا نہ بننے دے ۔ انسان کی اخلاقی بیماریوں میں سے سب سے بڑی بیماری، بل کہ خطرناک بیماری خود پسندی اور خود نمائی ہے ۔ جسے عربی میں ’’العجب‘‘ کہا جاتا ہے ۔ یہ ایک ایسا مرض ہے کہ جب انسان کو لگ جاتا ہے تو اس کی شخصیت کو مجروح کردیتا ہے۔ یہ مرض کبھی فرد میں پایا جاتا ہے تو کبھی پوری جماعت اور تنظیم میں۔

            حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:کہ خود پسندی یہ ہے کہ انسان اپنی خوبیوں کو کمال کی نگاہ سے اس طرح دیکھے گویا وہ اس کی کوشش کا ثمرہ ہے اور پھر خدا تعالیٰ کی نعمتوں کو فراموش کردے ۔ فرماتے ہیں :

             ’’اعجاب المرء بنفسہ ہو ملاحظتہ لہا بعین الکمال مع نسیان نعمۃ اللّٰہ‘‘۔

 (فتح الباری ، کتاب اللباس )

            بعض مرتبہ خود پسندی کے شکار ماہرین ِفن بھی ہوتے ہیں اور ایسے افراد بھی ہوتے ہیں، جن کو اللہ نے ذوق ِعبادت کی نعمت سے نوازا ہے کہ وہ خود کو برتر اور دوسروں کو کم تر سمجھتے ہیں ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں کسی بھی فرد کو کامل نہیں بنایا ۔ ایک شخص اگر ایک میدان میں باکمال ہے تو دوسرے میدان میں وہ پیچھے ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : {نرفع درجات من نشاء وفوق کل ذی علم علیم } ہم جس کے مرتبے چاہتے ہیں بلند کردیتے ہیں اور ہر صاحب علم کے اوپر کوئی صاحب علم موجود ہے ۔

            غزوات میں غزوۂ حنین کو خصوصیت یہ تھی کہ اس میں مسلمانوں کی کثرت اور وسائل کی فراوانی تھی اور مسلمان اپنی شان و شوکت کی وجہ سے عجب کے شکار ہوگئے ۔ ان کا اعتماد اللہ کی ذات کے بجائے خود اپنے دست وبازو پر ہوگیا تھا ۔ اللہ کو یہ بات پسند نہ آئی ، چناں چہ انہیں آزمائش میں مبتلا کردیا ، جس کی طرف قرآن کریم نے اس طرح اشارہ کیا ہے :

            {ویوم حنین اذ اعجبتکم کثرتکم فلم تغن عنکم شیئا وضاقت علیکم الارض بما رحبت ثم ولیتم مدبرین }

             اور حنین کے دن بھی جب کہ تم کو تمہاری کثرت نے خود پسندی میں مبتلا کردیا تھا، پھر کوئی چیز تمہارے کام نہ آئی اور زمین اپنی وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہوگئی ، پھر تم پیٹھ دکھاتے ہوئے بھاگ کھڑے ہوئے ۔

            خود پسندی کو کافروں کا شیوہ اور وطیرہ کہا گیا ہے ۔ {ولا تکونوا کالذین خرجوا من دیارہم بطرا ورئاء الناس } قارون کی بربادی بھی تو خود پسندی کی وجہ سے ہوئی ، جب اس سے کہاگیا تھا کہ {لاتفرح ان اللہ لا یحب الفرحین } اتراؤ مت ، اللہ تعالیٰ اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔ تو قارون نے جواباً کہا تھا کہ مجھے یہ دولت میرے ہنر مندی کی وجہ سے ملی ہے ۔ {انما اوتیتہ علی علم }

            احادیث مبارکہ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ خود پسندی کا انجام بربادی اور ہلاکت کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ اس لیے کہ خود پسندی اللہ کو پسند نہیں ہے ۔ ایک حدیث میں خود پسندی کو مہلک مرض قرار دیتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے ۔

            آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

             ’’ ثلاث منجیات وثلاث مہلکات ، فأما المنجیات فتقوی اللہ فی السر والعلانیۃ ، والقول بالحق فی الرضا والسخط ، والقصد فی الغناوالفقر۔ وأما المہلکات فہو متبع وشح مطاع وإعجاب المرء بنفسہ وہو أشدہن ۔‘‘

            حدیث میں مذکور چھ چیزوں میں خود پسندی کو سب سے زیادہ مہلک قرار دیا ہے ۔ خود پسندی خود ایک گھناؤنی حرکت اور ناپسندیدہ عمل ہے اور جس شخص کے اندر خود پسندی آجاتی ہے اس کے اصلاح کی امید بہت کم ہوتی ہے ۔ خود پسندی ایک فریب ہے جس کے جال سے نکلنا بڑا دشوار ہوتا ہے۔ سلف صالحین اور بزرگان دین نے خود پسندی کی ہرطرح مذمت وبرائی کی ہے ۔

             حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ

             ’’ الہلاک فی اثنین ، القنوط والعجب ‘‘

             ہلاکت دو چیزوں میں ہے : مایوسی اور خود پسندی ۔

            خود پسندی بہت بڑی آفت ہے ، جو انسان کو مختلف اخلاقی بیماریوں میں مبتلا کرتی ہے ۔ خود پسندی کی وجہ سے انسان نفس پرستی اور انانیت کا شکار ہوتا ہے ۔ انسان اپنے کمالات اور خوبیوں کو اپنی کوشش کا نتیجہ سمجھ بیٹھتا ہے ، جس کی وجہ سے کفر انِ نعمت میں مبتلا ہوتا ہے ۔ یہ ایک قسم کا غرور ہے ۔ موجودہ دور میں یہ بیماری جہاں امت کے دیگر افراد میں پائی جاتی ہے ، وہیں علما کا طبقہ بھی اس سے محفوظ نہیں ہے اور نوجوان طبقہ تو کچھ زیادہ ہی اس کا شکار ہے، جیسے ہر معاملہ میں خود کو سب سے زیادہ درست سمجھنا   ۔ہمیں خوشی ہے کہ بحمد اللہ رئیس جامعہ حضرت مولانا وستانوی صاحب اور ناظم تعلیمات جناب مولانا حذیفہ صاحب وستانوی،جب بھی تعلیمی وتربیتی اعتبار سے طلبہ میں کوئی تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو ہر شعبہ کے اساتذہ سے باہم مشورہ کرتے ہیںاور پھر آپسی مشورہ سے معاملات کا نفاذ ہوتا ہے ؛ورنہ آج ہر شخص اظہار ذات وشخصیت کا خوگر بن گیا ہے ۔ اپنے آپ کو عیوب سے پاک قرار دیتا ہے اور دوسروں کی طرف انگشت نمائی کرتا ہے۔ ایک عرب شاعر نے بڑی حکمت کی بات فرمائی کہ

نعیب زماننا والعیب فینا

وما لزماننا ذنب سوانا

نہجوا ذ الزمان بغیر ذنب

ولو نطق الزمان لنا ہجانا

            کہ ہم زمانہ بھرکوکو ستے رہتے ہیں ، جب کہ عیب خود ہماری اپنی ذات میں ہوتا ہے ۔اگر زمانہ کو قوتِ گویائی دی جائے تو وہ خود ہماری برائی کرے گا اور ہماری اصلاح وتربیت بھی ۔

             آج افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ ہم تعلیمی نسبتوں کے اختلاف کو بھی طعن و تشنیع اور خود نمائی کا سبب گردانتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ ’’عباراتنا شتی وحسنک واحد‘‘ہمارے مدارس کا نصاب تعلیم تو جدا اور منفرد ہوسکتا ہے لیکن منشا سب کا ایک ہے ’’رجال سازی اور فنی افراد پیدا کرنا‘‘ اور یہ مزاج تقریباً ہر معاشرے میں عام ہوچکا ہے ۔ ہر گروہ اپنے ہی طریقے پر نازاں ہے ۔

            ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے آپ کو عجب ، خود نمائی اور خود پسندی جیسے مہلک روحانی بیماریوں سے بچائیں تو امت بھی بہت سی بیماریوں سے بچے گی ۔