خدا کا وجود انسانی فطرت کی آواز ہے

            عقل سلیم کا راستہ سب سے آسان اور سیدھا راستہ ہے، جس کے ذریعہ بندہ اپنے رب کو پہچان سکتا ہے۔ اس کی الوہیت اور ربوبیت کو تسلیم کر سکتا ہے، اور اس کے کل احکام کی پابندی کر سکتا ہے۔

            انسانی عقل اگر راستی اور سلامتی پر مبنی ہے تو یہی عقل اشیاء اور مختلف امور سے متعلق مثبت یا منفی یا ہونے یا نہ ہونے کا قابلِ قبول فیصلہ کرتی ہے۔

            باری تعالی کا وجود اس کی معرفت و اطاعت اور اس سے تقرب کا حصول منجملہ ان مسائل میں سے ہے، جس کی تائید میں انسانی عقل انتہائی واضح اور دو ٹوک فیصلہ کرتی ہے جس سے انکار کی گنجائش سمجھدار اور باشعور افراد کے لئے بے حد دشوار ہے۔

            انسان اگر اپنے ضمیر کی آواز کو دبانے کی کوشش نہ کرے اور اپنی عقل کے فیصلوں پر توجہ دے تو عقل و ضمیر اس کی رہنمائی کریں، اس کے سامنے دلائل اور شواہد پیش کریں۔ اور اس قضیہ سے متعلق اپنا آخری فیصلہ صادر کریں کہ:-

            ”حق تعالی کو اس کے اسماء وصفات کے ساتھ ماننا سب سے اہم فریضہ ہے۔ اس کی وحی پر عمل پیرا ہونا،اس کی اطاعت و عبادت کرنا۔ اور اس کی بھیجی ہوئی شریعت کی کامل پیروی کرنا نہایت ضروری ہے۔“

            انسان غور کرے کہ اس بھری پری کائنات میں سب سے بلند و بالا سب سے زیادہ عظمت اور شان کا مالک آسمان ہے، جسے جی بھر ہر کوئی جب اور جہاں چاہے دیکھ سکتا ہے۔ اس روشن کشادہ اور جگمگاتے آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے عقل انسانی اسے اس طرح مخاطب کرتی ہے۔

            ”یہ چرخ نیلی فام، اور یہ اونچا آسمان، یہ چاند، یہ سورج، یہ تارے اور یہ کہکشاں جن کا مشاہدہ ان آنکھوں سے ممکن ہے، جس کی رفعت،حد، دوری اور پہنائی کی نہ کوئی انتہاء ہے نہ کسی کو اس سے انکار ہے۔ کیا یہ اس کا ثبوت نہیں کہ یہ جس قدر عظیم المرتبت اور اونچی شان والا ہے اس کا بنانے والا اس سے کہیں زیادہ بلند و بالا اور قدرت، سطوت اور شان و شوکت کا مالک ہے۔“

            زمین کا فرش خاکی جسے انسان ہر جگہ اپنے پیروں سے روندتا ہے، اسی خاک سے پیدا ہو کر ایک روز اسی میں مل جانا ہے۔ یہ زمین اپنے وجود کی آپ دلیل ہے، جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ لہذا آسمان کی طرح یہ زمین بھی کیا خود بخود پیدا ہو سکتی ہے یا اس کا کوئی بنانے والا ہے؟

            زمین و آسمان کے علاوہ جن کا تعلق جمادات سے ہے زندہ و پائندہ خلائق میں سب سے حیرت انگیز، عجوبہ روزگار اور افضل ترین مخلوق انسان ہے، اور اس کے بالمقابل ادنی اور کمتر مخلوق مکھی، مکڑی اور چیونٹی وغیرہ ہیں۔ روز مرہ کا مشاہدہ ہے کہ ان حقیر ترین مخلوقات کی بھی مختلف دنیا آباد ہے۔ ان کی کچھ مخصوص عادات اور طور طریق ہیں۔ ان کے زندگی گزارنے کھانے پینے، خوراک کا ذخیرہ کرنے اور خطرات کا مقابلہ کرنے کا اپنا ایک نظام ہے، جو کسی خارجی اعانت کے بغیر حرکت و عمل میں مصروف ہے۔ عقل یہ پوچھتی ہے کہ کیا یہ نظام بھی خود ساختہ اور آپ سے آپ جاری و ساری ہے یا اس کے پیچھے کوئی ذہن کوئی طاقت کار فرما ہے؟

            اس طرح انسانی عقل ایک ایک مخلوق اور ان کے نظامِ حیات کو پیش کر کے یہ سوال کرتی ہے اور یہ احساس دلاتی ہے کہ ضرور اس کی جستجو کی جائے کہ عدم سے انہیں وجود بخشنے والا انہیں روزی پہنچانے اور ایک خاص نظام کا پابند بنانے والا ہر جاندار کو ایک مخصوص مدت تک زندگی سے نوازنے، اور پھر اسے سلب کر لینے والا آخر کون ہو سکتا ہے؟ وہ کون ہے؟ جس نے ازل سے ابد تک جملہ خلائق اور کل کائنات کو وجود بخشا جو زبر دست اور انوکھی قوتِ تخلیق حکمت و تدبیر اور نظم و ترتیب کا مالک ہے۔

            انسان سوچے تدبر اور غور و فکر سے کام لے اور اپنی عقل کو ہیچ اور حقیر نہ سمجھے۔

            انسانی عقل قدرت کا بیش بہا عطیہ ہے، جو اس سے کام نہ لے ہر کوئی اسے دیوانہ اور پاگل مشہور کرتا ہے۔ اس لئے کہ فکر و شعور اور عقل و تدبیر سے خالی ہو کر بلا سوچے سمجھے جو اس کے جی میں آتا ہے کہتا ہے یا کرتا ہے، عقل کے ناخن لے کر انسان غور کرے کہ کیا کل کائنات آپ سے آپ بن گئی؟ کیا کوئی اس کا بنانے والا نہیں؟ اسی طرح کیا مادہ بھی تخلیق اور حرکت کر سکتا ہے۔ اس لئے کہ اول تو عقل یہ تسلیم نہیں کرتی کہ مادہ جو پر سکون اور تن ِمردہ کی طرح ہوتا ہے، ”اتفاقا“ اس کے اندر حرکت کیونکر پیدا ہوئی؟ اس لئے کہ جو شی مردہ ہو وہ کسی اور چیز کی حیات کا باعث بن سکتی ہے؟

            أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَیْرِ شَیْءٍ أَمْ ہُمُ الْخُلِقُونَ۔ (طور:۳۵)

            ”کیا یہ کسی کے پیدا کئے بغیر ہی پیدا ہو گئے ہیں؟ یا یہ خود اپنے خالق ہیں؟“

            اور اگر بالفرض حرکت پیدا ہو بھی جائے تو یہ کیا ضروری ہے کہ اس مادے کے اندر زندگی کے آثار رونما ہوں، مختلف مخلوقات پیدا ہوں، اور ایک حیرت انگیز نظام کے تحت ان کا رشتہ آپس میں منسلک ہو؟

            اور اگر یہ سب ممکن نہیں اور یہ نظریہ سراسر باطل اور بے بنیاد ہے تو اس سے بہتر تو یہی ہے کہ یہ تسلیم کرلیا جائے اور زبان سے اس کا اقرار کیا جائے کہ وہ خدا ہے، جو ہمیشہ سے ہے، جو بڑی قوت وقدرت، بڑی قوتِ ارادی اور حد درجہ علم و حکمت والا ہے۔ اس نے پیغمبروں اور کتابوں کے ذریعے آگاہ کیا کہ وہی خالق، پروردگار، ہر چیز پر قادر، زمین آسمان کا موجد اور کل بادشاہت والا ہے۔

            اجرام ِسماوی پر غور کرنے کے بعد اب ہمیں زمین پر چل پھر کر اس کی جستجو اور تلاش میں نکلنا چاہئے کہ یہاں موجود تمام چیزیں کیا آپ سے آپ بن گئیں؟ یا ان کا کوئی بنانے والا ہے؟

            ہمارے ارد گرد نباتات کی ایک دنیا آباد ہے۔ قسم قسم کے پودے، درخت، پتے، پھل،پھول اور بیلیں اپنی اپنی بہار دکھاتے ہیں۔ ان سب پر غور کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کی پرورش اور افزائش مقرر اصول کے تحت انجام پاتی ہے، اور کوئی پودا یا پتہ اس ضابطے سے روگردانی یا انحراف کی اپنے اندر سکت یا طاقت بھی نہیں رکھتا، ہر بیج ایک مدت تک زمین کے اندر دفن رہتا ہے۔ زمین کی رطوبت اور تری سے تازگی پاتا ہے، چند روز کے بعد زمین سے سر اٹھا کر باہر کی دنیا کو دیکھتا ہے۔ ہوا اور پانی سے شاد کام ہوتا ہے۔ اور جس طرح مادے کے حقیر ذرّے میں ایٹمی طاقت کا عفریت بند ہوتا ہے، ایک معمولی بیج پورے درخت کا اس کی جڑ شاخوں سمیت خاکہ اپنے سینے میں مخفی کئے ہوتا ہے! کیا یہ درخت آپ سے اُگ رہا ہے؟ یا اس کا کوئی اُگانے والا ہے؟

            نباتات کی طرح حیوانوں اور جانوروں کی بھی ایک دنیا ہے، جن کی تعداد ہی نہیں ان کی اقسام بھی بے شمار ہیں۔ ان میں حقیر اور معمولی بھی ہیں، بلند و بالا اور پست قامت بھی ہیں؛ لیکن کسی حیوان سے متعلق یہ انکشاف آج تک نہیں کیا جاسکا کہ فلاں جاندار اپنی پیدائش کا آپ ذمہ دار ہے؟

            انسان خود اپنے اوپر بھی غور کرتا چلے کہ وہ سب سے اعلیٰ اشرف جاندار ہے، جسے حق تعالی نے خصوصی درجہ اور نمایاں امتیاز مرحمت فرمایا۔ دوسروں پر غور کرنے کے ساتھ ساتھ آدمی اپنے اوپر نظر ڈالے کہ مرد و عورت کے ملاپ سے رحم میں اس کا نطفہ قرار پایا، پھر مختلف مدارج طے کرتا ہوا ایک ننھے معصوم انسان کی صورت میں اس کا ظہور ہوا۔ پیدائش کے بعد پرورش اور ارتقاء کے مختلف زینے یعنی بچپن، جوانی، بڑھاپے کے مراحل طے کرتا رہا تا آنکہ مقررہ وقت پر اس کو موت آلیتی ہے اور وہ اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔ کیا ان تمام مراحل میں جنہیں انسان طے کرتا ہے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اسے ذرّہ برابر بھی اختیار ہے یا وہ اپنی مرضی اور ارادے کا مالک ہے؟

            زمین، آسمان ، نباتات و جمادات اور کل کائنات پر اور پھر اپنے اوپر نظر ڈال کر انسان غور کرے اور دل پر ہاتھ رکھ کر سوچے کہ یہ سارا کارخانہ کیا آپ سے آپ جاری و ساری ہے؟

            انسان کم از کم اپنے حالات سے بخوبی آگاہ ہے۔ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ خود اپنی پیدائش کے معاملے میں وہ کتنا بے بس ہے۔ علم و آگہی کے باوجود جب اسے اپنے اوپر قدرت نہیں تو تمام حیوانات جو اس سے کمتر ہیں، اپنی پیدائش پر بھلا انہیں کیوں کر قدرت حاصل ہو سکتی ہے؟ ظاہر ہے اس کا جواب نفی میں ہو گا، اسی طرح کوئی مخلوق جیسے مکھی یا ادنیٰ سی چیز جیسے چائے کی پیالی پیدا کرنے اور بنانے والے کے بغیر وجود میں نہیں آسکتی؛ چہ جائیکہ بڑی سے بڑی عمارت یا معمولی سی روٹی آپ سے آپ بن جائے! یہ سوچنا بھی جہالت ہے کہ خدا کچھ کرتا ہوا کہیں نظر نہیں آتا، اس لئے اس کا کوئی وجود نہیں؛ کیوں کہ پہلو میں دھڑکتے ہوئے دل اور سر کے اندر موجود دماغ کو ہر شخص دیکھ نہیں پاتا، لیکن ہزاروں ان دیکھی چیزوں کی طرح ان کے وجود کو مانتا ہے۔ ایٹم جو اتنا مہین برق پارہ ہے کہ خوردبین سے بھی نظر نہیں آتا، لیکن سائنس کی نظر میں اس کی ایک حقیقت ہے۔ اور جب ان کا وجود ہے تو لا محالہ کوئی ان کا بنانے والا بھی ہونا چاہیے، اس لئے کہ بنانے والے کے بغیر کوئی چیز بن نہیں سکتی۔

            أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَیْرِ شَیْءٍ أَمْ ہُمُ الْخَلِقُونَ۔ (الطور: ۳۵)

            کیا یہ کسی کے پیدا کئے بغیر ہی پیدا ہو گئے ہیں؟ یا یہ خود اپنے خالق ہیں؟

            حیرت ہے کہ یہ منکرین جو خلق و تکوین کے خدائی قانون سے واقف ہوتے ہیں، بسا اوقات قدرت کے بعض مظاہر کا الٹا اثر لیتے ہیں۔ چنانچہ سمندر سے آبی بخارات اٹھتے اور بخارات سے بارش برستے ہوئے یا انڈے سے چوزہ اور بیج سے پودا اگتے ہوئے دیکھ کر وہ یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ جب یہ سب آپ سے آپ ہو رہا ہے تو کسی خدا کو ماننے یا اس کا وجود تسلیم کرنے کی کیا ضرورت؟ اس عقل و دانش پر ماتم نہیں تو اور کیا کیا جائے کہ جن چیزوں سے اوروں کے دلوں میں ایمان ویقین پیدا ہوتا ہے، ان کے اندر کفر و الحاد کے جراثیم پروان چڑھتے ہیں۔ کاش کہ انہیں اس کا احساس ہوتا!

            اس قسم کے الحاد اور بے دینی کی مثال ایسی ہے، جیسے کوئی طباق بھر اعلی درجہ کی کھجوریں کسی ان پڑھ آدمی کے سامنے کھانے کے لئے رکھ دے، جب وہ شکم سیر ہو کر کھا چکے اور یہ پوچھ بیٹھے کہ اتنی لذیذ کھجوریں کس نے بنائیں؟ تو اسے بتایا جائے کہ بھائی خدا کے سوا بھلا اور کون بنا سکتا ہے؟ وہ شخص بھی مان لیتا ہے کہ بے شک اسی نے بنایا۔ پھر اتفاق سے اس کا گزر کھجوروں کے ایک باغ پر ہوتا ہے، جہاں باغ کا مالی درختوں کی رکھوالی میں مصروف ہوتا ہے کھجور کے درختوں کی قلمیں لگاتا ہے، اور جڑوں کو سینچ کر پودوں کی پرورش کرتا ہے۔ یہ دیکھ کر وہ شخص مکر جاتا ہے اور کہتا ہے کہ کھجور اگانے والا خدا نہیں، بلکہ یہی مالی ہے۔ اس لئے کہ شروع سے آخر تک ساری محنت یہ کرتا ہے نہ کہ کوئی اور، اب اسے کون سمجھائے کہ مالی کی بساط ہی کیا؟ یہ تو قدرت کی ادنیٰ کاریگری ہے کہ اس نے کھجور کا ایک بیج ہی نہیں، بلکہ اس کی پرورش کے لئے ہوا پانی، مٹی اور خود اس مالی کو عدم سے وجود بخشا۔ اسے باغبانی کا علم دیا اور یہ اسی کا کرشمہ ہے کہ معمولی بیچ کے پیٹ سے اونچا پودا درخت سر اٹھاتا ہے، اور اس کی شاخوں سے میٹھی کھجوریں پیدا ہوتی ہیں۔

            اور اگر ان دہریوں سے یوں کہا جائے کہ تم جو زمین و زماں کے اصولوں اور کون و مکاں کے دستور پر حاوی ہونے کا دعوی کرتے ہو ذرا یہ تو بتاؤ کہ یہ اصول اور ضابطے آخر کس نے بنائے؟ تو یہ منکرین خدا کے وجود اور اس کی پرستش سے بچنے کے لئے کہیں گے کہ ”یہ سب نیچر اور مادے کی توانائی کا کرشمہ ہے۔“ اور اگر نیچر کو زبان مل جائے اور وہ ان سے مطالبہ کرے کہ پھر تم میری سنو اور میرے خلاف مت چلو! تو جیسے انہوں نے خدا کا انکار کیا، نیچرکا بھی انکار کر بیٹھیں گے۔ جب کہ خداوند عالم صاف صاف ان سے کہتا ہے:

             یَأَیُّہَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّکُمُ الَّذِی خَلَقَکُمْ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ۔ (بقرہ :۲۱)

            اے لوگو! اپنے اس پر وردگار کی عبادت کرو، جس نے تم کو پیدا کیا اور ان لوگوں کو بھی جو تم سے پہلے گذرے، تاکہ تم پر ہیز گار بن جاؤ۔

            اس میں شک نہیں کہ نیچر یا مادے جیسی بے جان شی کو سب کچھ تسلیم کر لینے کی بجائے خدا پر ایمان لانا کہیں زیادہ معقول اور آسان ہے۔ چنانچہ کسی ماہر طبیعیات نے صحیح کہا ہے ”کہ کائنات اور یہ سارا نظام اگر اپنے آپ وجود پذیر ہوا“ تو ہمیں کل کائنات کو خدائی اوصاف کا حامل، بلکہ خدا تسلیم کرنا ہو گا اور یہ کسی عجوبے سے کم نہ ہو گا، اس لئے کہ کسی ایسے خدا کا تصور کیوں کر کیا جاسکتا ہے، جو بیک وقت مادی اور غیر مادی محسوس اور غیر محسوس دو متضاد اوصاف کا حامل ہو۔ اس لئے میں ایسے خدا پر ایمان لانے کو ترجیح دوں گا، جس نے کل کائنات کو پیدا کیا، جو تمام جہانوں کا حاکم اور نگراں ہے اور جس کی ذات کا ئنات سے ماوراء اور کون و مکان کی آلائشوں سے پاک وصاف ہے۔ میں خدا کو چھوڑ کر نکتہ وروں کی غیر یقینی توجیہات اور فلسفیوں کی بھول بھلیوں میں الجھ کر رہ جانا اپنے لئے پسند نہیں کرتا۔

            یعنی نظامِ کائنات کی توجیہ کرنے کے لئے ماہرین طبیعیات اور اہل سائنس نے اتفاق احتیاج ضرورت اور مادی توانائی کے جو نظریے پیش کئے اس کی قطعی ضرورت نہیں۔ اس لئے کہ یہ لوگ جس چیز کو کائنات کی توجیہ کا نام دے کر خدا کا بدل ٹھہرانے کی سرتوڑ کوشش کرتے ہیں، نہایت آسانی سے اسے خدائی نظام اور اس کا طریق کار جیسے معقول نام سے یاد کیا جاسکتا ہے؛ جب کہ ان کی تمام تر توجیہات کی حیثیت ذہنی تعیش، خوشنمافریب، جہالت اور وہم و گمان سے زیادہ نہیں۔

            اب ہمیں دیکھنا چاہئے کہ کائنات کی توجیہ اور نظام عالم کو چلانے کے لئے خدا کے منکر اور ملحدین طبیعیت احتیاج و ضرورت اور اتفاق و علت جیسے نظریے پیش کرتے ہیں تو اس سے ان کی مراد کیا ہے؟

طبیعیات کیا ہے؟

            طبیعیات کافی وسیع مفہوم کا حامل ہے، جو بیک وقت مادے اور اس کے اجزاءِ ترکیبی پر بولا جاتا ہے۔ نیز مختلف عناصر جیسے: حرارت، برودت، خشکی اور تری اور ان کے مختلف امتزاج پر بھی اس لفظ کا اطلاق ہوتا ہے۔ علمِ طبیعیات کی رو سے کسی عنصر کے باریک ترین ذرے یعنی جو ہر کو بھی مادہ (Atom) کہتے ہیں۔ جو دوسرے انتہائی معین ذروں کے ساتھ مل کر رہتے ہیں۔ ان کے اندر مثبت اور منفی دونوں قسم کی توانائیاں مقید ہوتی ہیں، (جیسے گھڑی کی کمانی پوری چابی دینے کے بعد اپنے اندر توانائی رکھتی ہے۔)

            علم طبیعیات اور جدید سائنس کے ماہرین یہ بھی سمجھتے ہیں کہ مادہ یا جو ہر ان تین بنیادی اجزاء پر مشتمل ہوتا ہے۔ پروٹون (Proton) نیو ٹرون (Neutron) اور الیکٹرون (Electron)

            اس علم کے ماہرین کے نزدیک مادہ کی حیثیت یہ ہے، لیکن جہاں تک عقل ِسلیم کا تعلق ہے، یہ سوال بار بار ذہن میں گردش کرتا ہے کہ عناصر کا یہ کھیل یہ جوہری توانائی، اور ایٹم کی یہ تمام تر فتنہ سامانی کیا محض اس مادے کے چشم و ابرو کا کرشمہ ہے؟ کیا مادہ یہ سب کچھ کر رہا ہے؟ یا اس مادے کے ماوراء بھی کوئی ذات ہے؟ جس کا قدم قدم پر مادہ خود محتاج ہے؟۔ اس کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ بالا نظریہ محض عقل کی نارسائی اور فہم کی ناپختگی کا نتیجہ ہے، اس لئے کہ اس پورے نظریے کو من و عن تسلیم کر لینے کا مطلب یہ ہے کہ مادہ پہلے معدوم تھا۔ سب سے پہلے اس نے خود کو وجود بخشا، پھر اس نے دوسرے عناصر اور کل کائنات کو پیدا کیا؟ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مادہ اپنی تمام تر حیرت انگیز توانائی کے باوجود اپنے وجود کے لئے کسی ایسے موجد کا محتاج ہے ،جو اس سے ہزار ہا ہزار گنا زیادہ طاقت اور قوت کا مالک ہے، اور جس نے ان اوصاف کو اس حقیر ذرے میں ودیعت کیا ہے۔ اس صورت کے تسلیم کئے جانے کے بعد یہ لازم آئے گا کہ مادہ ناقابل ِتخلیق اور لافانی نہیں، بلکہ مخلوق اور قطعی فنا ہو جانے والا ہے۔ اور یہ امر مقرر ہے کہ فانی شی الوہیت کی صلاحیت نہیں رکھ سکتی، نہ خلق و تکوین اور عدم سے وجود میں لانے کی اہل بن سکتی ہے۔ عقل کی اس نارسائی سے خدا کی پناہ!

            عقلِ سلیم نے اب سے بہت پہلے اس قاعدہ کو مان لیا ہے کہ جو مادہ مختلف عناصر سے مرکب ہو گا، فانی ہو گا۔ اس لئے کہ مرکب اور بنی ہوئی چیز ایک نہ ایک دن بگڑ کر رہتی ہے۔ نیز عدم سے جو شیٴ وجود میں آئے اس کے لئے موجد کا ہونا لازمی ہے؛ چناں چہ علت و معلول کا نظریہ جو اگر چہ باطل ہے، لیکن اس کی تائید کرتا ہے۔ (اس نظریے کا خلاصہ یہ ہے کہ کائنات میں ازل سے ایک کے بعد ایک واقعات اور حوادث پیش آتے گئے۔ اور ہر بعد کے واقعہ کے لئے پہلے کے واقعہ کا وجود فرض کیا گیا ہے، جو بعد والے واقعہ کا سبب اور اس کی علت بنا۔ اس نظریے کی رو سے کائنات کی تخلیق کی اصل علت اگر مادہ بنتا ہے، تو یہ ضروری ہے کہ خود مادہ سے پہلے کوئی علت ہو جو مادے کو جنم دے، ورنہ مادہ کا وجود باطل ہو گا۔ اس لئے کہ یہ نام نہاد عقلمند بھی اس کے قائل ہیں کہ ملت کے بغیر معلول کا وجود کسی طرح ممکن نہیں!)

            پس یہ ثابت ہوا کہ مادہ کا وجود اور اس کی گردش یا توانائی اگر معلول اور نتیجہ ہے تو اس کے لئے کوئی علت کا پایا جانا ضروری ہے؛ یہی علت در حقیقت الٰہِ ازلی ہے جو غیر مادی ہے۔ اس لئے کہ غیر ازلی حادث ہوتا ہے اور حادث سرا سر مادہ سے بنا ہوتا ہے، وہ بھلا کسی کو کیا زندہ کر سکتا ہے؟

            یوں بھی یہ امر بدیہی ہے کہ جو شیٴ خودتہی اور خالی ہو، وہ دوسرے کے لئے کچھ نہیں کر سکتی، نہ زندگی اور حیات کی طرح کوئی اعلیٰ وارفع چیز دے سکتی ہے، نہ مورت اور عدم کی طرح کوئی اونیٰ چیز دے سکتی ہے۔

            نیز یہ تمام تر دجل و فریب اور ذہنی خلجان جو خلق اور تکوین کو مادے کی طرف منسوب کرنے کے نتیجے میں رونما ہوا اور جس نے بیشتر افراد کو خدا کی یاد اور اس کی کتاب کی تلاوت سے غافل اور شکوک میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اس تمام تر خلجان سے بچنے کے لئے صاف اور سیدھی بات یہ ہے کہ یہ سمجھ لیا جائے کہ دھوکے کی یہ ساری ٹٹیاں محض اس لئے کھڑی کی گئی ہیں؛ تاکہ خدا کے بندے ان میں الجھ کر خدا کے وجود اور اس کے احکام کی بجا آوری کی نعمت سے غافل ہو جائیں۔ اس لئے بلا پس و پیش یہ کہا جا سکتا ہے کہ کائنات کے خدا کا اقرار کر لیا جائے اور اس کا اعلان کر دیا جائے کہ جو کچھ ہو رہا ہے یا ہو گا سب کچھ خدا کی قدرت اور اس کے طریق کار کا مظہر ہے۔ مادہ اور رائی سے لیکر پر بت تک تمام اشیاء خدا کی مخلوق ہیں، ان کی نسبت اندھے اور بے جان مادہ کی طرف کرنا صحیح نہیں، نہ ہی اتفاقات کی طرف کرنا صحیح ہے، جو حکمت و ارادہ و تدبیر سے خالی ہیں۔

اتفاقات کیا ہیں؟

            طبیعیات کے ماہرین نے انکارِ خدا کے لئے قانون علت کی طرح قانون اتفاق کے نام سے ایک نظریہ وضع کیا ہے، جو اپنے پس منظر کی طرح لغو اور باطل بنیادوں پر قائم ہے۔

            اس نظریے کا حاصل یہ ہے کہ اب سے کروڑوں اربوں سال پہلے یہ ماہرین اپنا جھوٹ چھپانے اور انسانی ذہن کو مرعوب کرنے کے لئے ہمیشہ اسی قسم کے مہیب اعداد و شمار کا سہارا لیتے ہیں۔ کائنات کا وجود نہ تھا۔ نہ نظام ِشمسی تھا نہ زمین آسمان، نہ نباتات تھے اور نہ حیوانات؛ البتہ فضا کے اندر مادہ موجود تھا، جو شروع میں معتدل اور غیر متحرک تھا۔ مادہ کی اس ہیئت پر صدیاں بیت گئیں۔ پھر ایسا ہوا کہ پر سکون مادے میں غیر ارادی اور اتفاقی طور پر خلل واقع ہوا اور وہ آپ سے آپ بڑھتا ہوا فضا میں پھیل گیا؛ یہاں تک کہ جابجا پھیلا ہوا مادہ سمٹ کر مختلف جگہوں میں یکجا ہونے لگا اور اس پر بھی صدیاں بیت گئیں؛پھر رفتہ رفتہ اس جمع شدہ مادے سے کل کائنات، چرند پرند، نباتات و جمادات اور حیوانات وجود میں آئے اور خلا میں رقص کرتی رنگ و نور سے معمور یہ دنیا آباد ہوئی۔

            کائنات کی ابتداء اور نظام عالم کی اُستواری کی یہ توجیہ ہے، جسے اس نظریہ کے حاملین بڑے شدومد سے پیش کرتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج تک خود ان کا ضمیر بھی اس پر مطمئن نہیں ہو سکا ہے۔ اور اطمینان کیوں کر ہو؟ جب کہ ہذیان اور اوہام اس نظریے کی بنیاد ہے، جسے مانا تو در کنار سننا بھی ہر شخص گوارہ نہیں کرے گا۔

            مزید برآں یہ نظریہ خود ان کے قاعدے کی رو سے بھی ٹوٹ جاتا ہے، اس لئے کہ ان کا عقیدہ ہے کہ وہ بغیر دیکھے کسی چیز کو تسلیم نہیں کرتے، لیکن دیکھا گیا کہ اس نظریے میں چھوٹی بڑی متعدد چیزوں کو بغیر دیکھے محض فرض و تخمین اور قیاس و اندازے کی بنیاد پر تسلیم کر لیا گیا۔

            ہم پھر عرض کریں گے کہ اس نظریے کی تہہ میں صرف خدا کا انکار اور اس کی بندگی سے گریز کا جذبہ کار فرما ہے۔ اس لئے کہ انہیں یقین ہے کہ اگر انہوں نے خدا کو تسلیم کر لیا تو انہیں دنیا کی لذت اور عیش کوشی سے دستبردار ہو کر ایک خدا کی بندگی اور ایک پابند زندگی گزارنی ہوگی۔

            نظریہ اتفاق اور نظریہ علت جس طرح ایک عجوبہ ہے، علماء اسلام اور دینیات کے ماہرین نے اس کی تردید کے لئے بالکل اسی رنگ میں بعض دلچسپ جوابات دیئے ہیں، چناں چہ وہ لکھتے ہیں:

            ”کسی زمانے کا ذکر ہے کہ کسی شہر میں ایک چھاپہ خانہ تھا۔ جس کے اندر ایک صندوق میں بند کمپوزنگ کے لئے ٹائپ کے اتنے سارے حروف رکھے تھے جن کی مدد سے کئی کئی کتابیں شائع کی جاسکیں۔ اتفاق سے اس علاقے میں زبردست بھونچال آیا، جس نے عمارت کے درو دیوار اور اس صندوق کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، لیکن اس زلزلے کے نتیجہ میں ایک تماشہ ہوا کہ صندوق میں حرکت پیدا ہونے کی وجہ سے حروف ایک دوسرے پر گرتے گئے، اور بالکل اتفاقی طور پر متعدد ابواب اور فصلوں پر مشتمل ایک خوبصورت سجی سجائی علمی کتاب تیار ہوگئی!“

            ”اسی قسم کا دوسرا واقعہ یہ ہے کہ کسی جگہ ایک شخص نے ایک سختی کے وسط میں ایک سوئی گاڑ دی اور ایک اندھے شخص کو جسے کچھ بھی نظر نہیں آتا تھا، ایک ہزار سوئیاں دے کر کہا کہ اس سوئی کا نشانہ لے کر ایک ایک سوئی اس انداز سے پھینکو کہ تمہاری ہر سوئی پہلی سوئی کے ناکے میں پیوست ہوتی جائے اور اس طرح بالکل اتفاقی طور پر سوئیوں کا اونچا مینار کھڑا ہو جائے۔“

            غور کیا جائے کہ کوئی بھی عقلمند ان دونوں حوادث کو عقل و مشاہدے کی رو سے درست ماننے پر آمادہ ہو سکتا ہے؟ ہرگز نہیں! لہٰذا محض اتفاقی حوادث کے سہارے جب اس قسم کی معمولی چیزوں کا وجود نا ممکن ہے تو اس قدر وسیع و عریض کائنات اور خلا میں رقص کرتی یہ بھری پُری دنیا کیا محض اتفاق سے وجود میں آسکتی ہے؟ یا اس کے پیچھے بڑے زبر دست منتظم اور مدبّر کا شعوری ذہن کام کر رہا ہے؟

احتیاج و ضرورت کیا ہے؟

            نظریہٴ اتفاق کی طرح ملحدین نے خدا کا انکار کرنے کے لئے ایک اور عجیب و غریب نظر یہ وضع کیا ہے، جس کا نام احتیاج و ضرورت ہے۔

            اس نظریے کا حاصل یہ ہے کہ ”کائنات اور کل مخلوق کے اندر جو فرق نظر آتا ہے وہ سب ضرورت اور احتیاج کا نتیجہ ہے؛ چناں چہ زرافہ کو اونچے درختوں کی پتیاں کھانے اور مچھلی کو پانی میں تیرنے کی ضرورت ہے۔ لہٰذا اس ضرورت نے پہلے کی گردن لمبی کر دی اور دوسری کو گلپھڑے عطا کئے!“

            یہ اور اسی انداز کی دیگر کار آمد چیزوں کو اس نظریے کے حاملین اس نام نہاد ”ضرورت“ کو دین سمجھتے ہیں، لیکن جیسا کہ ہم نے عرض کیا اس تمام جھوٹ کا حاصل خدا سے فرار اور اس کی بندگی سے گریز کے سوا کچھ نہیں۔ ورنہ یہ دانشور جنہیں خدا نے شعور اور دل و دماغ بھی بخشا ہے، غور کریں تو انہیں معلوم ہو کہ جس چیز کو وہ حاجت اور ضرورت کا نتیجہ سمجھتے ہیں، دراصل وہ سب خدا کی رحمت اور اس کی مہربانی کا صدقہ ہے۔ اور اگر کوئی رافت و رحمت کے ان نمونوں کو تلاش کرنا چاہے تو سچ یہ ہے کہ تلاش کرنے والوں کی عمریں ختم ہو جائیں گی، لیکن اس کی رحمت و مہربانی کے نمونے کبھی ختم نہ ہوں گے؛ چناں چہ دانشور آئیں اور دیکھیں کہ یہ قدرت الٰہیہ کے وہی مخفی ہاتھ ہیں جو ماں کے رحم اور مادہ کے پیٹ میں بچے کی عجیب انداز سے پرورش کرتے ہیں؛ چناں چہ بچہ جب ماں کے رحم میں ہوتا ہے تو اس کے پیٹ سے ایک ٹالی لگی ہوتی ہے، جس کے ذریعہ اس کی غذا براہِ راست اس کے پیٹ میں پہنچتی ہے اور جب مدت حمل کے بعد بچہ کی پیدائش عمل میں آتی ہے، تو وہی غذا دودھ کی شکل میں ماں کے پستان سے برآمد ہوتی ہے۔ اور دست ِقدرت بچے کی یوں دستگیری کرتا ہے کہ ابھی اسے کسی قسم کا شعور نہیں ہوتا، لیکن ماں کے پستان کو منہ میں لینا اور چوسنا اسے آجاتا ہے اور محض اس کے ہلکے سے اشارے پر اس کی غذا اس کے پیٹ میں پہنچ جاتی ہے، تا آنکہ دوسری غذاؤں کا وہ عادی بن جاتا ہے۔ نر مادہ کا باہمی اختلاط بھی اسی کی قدرت کاملہ کا نتیجہ ہے، جس کی بنا پر حیوانات میں تو الدو تناسل کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کا سب سے زیادہ فائدہ بھی حضرت انسان کو پہنچتا ہے کہ ان جانوروں سے انسان اپنی غذا لباس اور معاش کے بہت سارے مسائل حل کرتا ہے۔

            دانشور ذرا سوچیں! کہ نباتات اور پودوں میں ”تخم ریزی اور بار آوری“ کا عمل کیوں کر ہوتا ہے؟ کیا یہ امر حیرت انگیز نہیں کہ نر انجیر کے بیجوں سے کیڑے اُڑ اُڑ کر مادہ درختوں پر پڑتے ہیں؟ اور اس طرح یکے بعد دیگرے درختوں کو بار آور کرتے ہیں۔ یہ سب صرف انسانوں کے فائدے اور نفع رسانی کے لئے ہوتا ہے۔ آئے دن وہ اس کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ سمندروں سے اٹھنے والے بادلوں کو ہوا ئیں اپنے دوش پر اڑائے لئے پھرتی ہیں، پھر جہاں خدا کا حکم ہوتا ہے، گرج چمک کے ساتھ بارش ہوتی ہے۔ اور اس کے ذریعہ کھیتوں میں اناج اور باغوں میں پھل اور سبزی ترکاریاں اُگتی ہیں۔

            کیا کوئی کہہ سکتا ہے پستان میں دودھ کی افزائش، نر و مادہ کا باہمی اختلاط نباتات میں تخم ریزی، بادلوں سے بارش، کھیتوں اور باغوں سے اناج اور پھلوں کی پیداوار اور کارخانہٴ قدرت میں ہر چھوٹی بڑی حرکت کیا اس نام نہاد احتیاج اور ضرورت کا نتیجہ ہے؟ اور کیا یہ سب جو انتہائی باقاعدگی اور ایک خاص نظم و ترتیب سے ہو رہا ہے، یہ ساری کار فرمائی اسی ضرورت کی کرشمہ سازی ہے؟ ہرگز نہیں! یہ کسی ضرورت کا کرشمہ نہیں۔ یہ سب مالکِ حقیقی کا لطف و کرم اور اس کی عنایت و مہربانی کا ادنیٰ مظہر ہے۔

            آخر میں ایک عقلی دلیل پر اس بحث کو ہم ختم کرتے ہیں۔ وہ یہ کہ مادہ پرست اس کے قائل ہیں کہ انسان حیوان اور نباتات کی پیدائش بہت بعد میں ہوئی۔ خصوصاً انسانوں کی پیدائش اور بھی پیچھے ہوئی، لہٰذا اگر ان تینوں سے متعلق یہ سوال کیا جائے کہ انہیں عدم سے وجود میں لانے والا کون ہے؟ ظاہر ہے ذیل کا کوئی ایک مفروضہ اس کا جواب ہو گا:

(۱) باری تعالیٰ سب کا خالق و مالک ہے۔

            (۲) مادہ اور اس کے مختلف عناصر کے قصد و ارادے اور باہمی ملاپ سے کائنات کی تخلیق ہوئی، اس کی صورت یہ ہوئی کہ ان چیزوں نے بڑے غور و خوض کے بعد پوری دنیا کو اس طرح پیدا کیا، جس طرح آج وہ ہمارے سامنے ہے۔

            (۳)مادہ اور اس کے عناصر کے اتفاقی ملاپ سے زمین آسمان نبات و جماد اور انسان و حیوان کی تخلیق ہوئی۔ اور یہ سب کسی قصد دارادے اور نظم و ترتیب کے بغیر ہوا۔

            ان تین مفروضوں میں سے دوسرے مفروضے کو ملحدین رد کرتے ہیں۔ اس لئے کہ وہ نظریہ اتفاق کے قائل ہیں، جب کہ اس مفروضہ میں مادہ کے لئے قصد و ارادہ ثابت کیا گیا۔ رہا تیسرا نظریہ تو ماد یین اگرچہ اس کے قائل ہیں، لیکن عقل و قیاس کی رو سے جیسا کہ ہم نے عرض کیا یہ محض واہمہ اور فکر و نظر کا فریب ہے ان دو مفروضوں کے باطل ہونے کے بعد اب ایک حقیقت باقی رہ گئی، وہ یہ کہ ذات باری تعالیٰ نے کل کائنات اور اس عالم رنگ و بو کو پیدا کیا۔ انسان و حیوان اور نبات و جماد کو وجود بخشا اور اس کے قانونِ قدرت کے تحت یہ کارخانہ حیرت انگیز نظم کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ اس صاف اور سیدھی بات کے سامنے آجانے کے بعد یہ ضروری ہوا کہ مادہ قانونِ اتفاق اور نظریہٴ علت جیسے باطل خداؤں کا انکار کر کے اس خدائے واحد پر ایمان لانے کا اعلان کیا جائے جو خالق و مالک علیم و خبیر اور حکیم و دانا ہے۔

            عقل و قیاس کی روشنی میں وجود باری تعالیٰ پر ٹھوس دلیلیں پیش کئے جانے کے بعد یہ جاننا ضروری ہے کہ اس کی معرفت اور اس کی بارگاہ میں تقرب حاصل کرنے کی کیا کیا صورتیں ہو سکتی ہیں؟