خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک

عاجز: احسن فہیم سمستی پوری

ملوں گا خاک میں ایک روز بیج کے مانند

فنا پکار رہی ہے مجھے بقا کے لیے

            اچانک دروازے پر دستک ہوتی ہے۔ کیا پتا تھا کہ گلشن میں کلیوں کے چٹکنے، پھولوں کے مہکنے اور مشام جاں معطر کرنے کی خوش خبری ہوگی یاچمنستان دل کو بجائے شبنم سے سیراب ہونے کے غم واندوہ کا تلخ گھونٹ پینا پڑے گا لیکن اف!!!

تنکوں سے کھیلتے ہی رہے آشیاں میں ہم

آیا بھی اور گیا بھی زمانہ بہار کا

            پھر وہی ہوا کہ کانوں کو بہرہ کر لیا میں نے، جس کے لیے کان تیار نہ تھے۔ وہ خبر ملی استاذ محترم، مشفق ومربی، سیدی وحبیبی حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب فلاحی (اللّّٰہم اغفرلہ وارحمہ وسکنہ فی الجنة) اب اس دیار میں نہیں رہے۔ ساقی تو کب کا میخانے سے روٹھ کر چل دیا، خمار ٹوٹا تو یاد آیا کہ حضرت نے جمعرات کو فون پر یاد فرمایا تھا ۔کچھ دیر گفتگو ہوئی اور فون رکھ دیا۔ خیال آیا گیا کہ ملاقات کرلوں، اسی کشمکش میں دن گزر گئے۔ نہیں معلوم تھا کہ شاید یہ آخری بات ہوگی اور پھر تقدیر لم یزل نے فیصلہ کر دیا کہ ہاں ہاں! یہ آخری بات تھی۔ گویا حضرت گفتگو کے وقت یہ کہنا چاہ رہے تھے 

ہم نے مانا کہ تغافل نہ کروگے لیکن

خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک

            آہ!

اس طرح خاموش اٹھ کر چل دیے ہیں بزم سے

 کوئی آہٹ نہ خبر ، خاک اوڑھی سو گئے

یک لخت دل کی حرکتیں ساکت ہو گئیں، سوچنے کی قوت کافور ہو گئی، جسم بوجھل ہو گیا، پر دل ہے کہ مانتا نہیں 

عجب قیامت کا حادثہ ہے ، کہ اشک ہے آستیں نہیں ہے

زمیں کی رونق چلی گئی ہے ، افق پہ مہر مبیں نہیں ہے

تری جدائی سے مرنے والے، وہ کو ن ہے جو حزیں نہیں ہے

مگر تری مرگ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے

            ابھی دوسرے علما کے رخصت ہونے کا زخم تازہ ہی تھا کہ حضرت فلاحی صاحب کے سانحہٴ ارتحال نے دلوں پر بجلی گرادی۔ ہر جانے والا اپنے پیچھے ایسا مہیب خلا چھوڑ کر جا رہا ہے، جس کے پر ہو نے کی امید نہیں لیکن…موت وحیات کا سلسلہ دراصل ازل کے ساز کا وہ آہ وفغاں ہے، جس کے سبب فطرت ممکنات زیر وبم یعنی عروج و زوال کو نمایاں کرتی ہے۔ زمانہ کی حیثیت تو صرافِ کائنات کی ہے جو حیات انسانی کے اچھے اور برے اعمال کو پرکھتا اور اس کا تعین کرتا ہے۔جس شخص کی خودی ناقص وضعیف ہوتی ہے اس کے حصے میں موت عدم کے سوا کچھ نہیں ہوتی، جسے زمانہ فراموش کر دیتا ہے۔بر خلاف اس کے؛ جس کی خودی عشقِ لا زوال سے مستحکم اور پائیدار ہوتی ہے، اس کے حصے میں موت دائمی زندگی ہوتی ہے۔ موت اس کے وجود کو مٹاتی نہیں، بل کہ مزید نکھارتی ہے۔ اس سے مفر نہیں کہ انسان کے تخلیق کردہ نقوش کو ثبات حاصل نہیں ہے، تاہم جس شئے یا جس نقش کی تخلیق میں مرد مومن کا عشق اور اس کا خون جگر شامل ہوتا ہے اس کے حصے میں فنا نہیں ہوتی ، بل کہ ثبات کا رنگ غالب ہوتا ہے۔ وہ مرد مومن تو چلا گیا لیکن اس کی تخلیق اور ہزاروں نقوش صفحہٴ قلوب پر نقش ہو چکے ہیں 

ہے مگر اس نقش میں رنگِ ثباتِ دوام

جس کو کیا ہو کسی مردِ خدا نے تمام

مٹ نہیں سکتا کبھی مردِ مسلماں کہ ہے

اس کی اذانوں سے فاش سر کلیم و خلیل

اس کی زمیں بے حدود ، اس کا فلک بے ثغور

اس کے سمندر کی موج دجلہ و دینوب و نیل

مرد سپاہی ہے وہ اس کی زرہ لاالہ

سایہٴ شمشیر میں اس کی پنہ لاالہ

            سچ میں وہ مرد قلندر ایسا ہی تھا، جس کی خدمات کو زمانہ تا قیامت نہ بھلا سکے گا۔ حضرت فلاحی کی شخصیت ایسی دلنواز اور ایسی باغ وبہار تھی کہ جس کی خصوصیات کو اس مختصر سی تحریر میں سمونا مشکل ہے۔علم تفسیراورعلم حدیث حضرت کا خاص موضوع تھا،لیکن ہر فن کے معلومات کا خزانہ تھے۔آپ وقت کے ناظم المسابقات بھی تھے، بڑے بڑے نظما آپ کے سامنے مثلِ چراغ بن جاتے تھے۔ حضرت کی پوری زندگی دین کی خدمت میں گزری۔ واقعتاً ان کے جانے کا صدمہ ہر اس شخص کو ہوا ہوگا ،جو آپ کی شخصیت سے واقف ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے احباب ورشتے داروں کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ حضرت کو اپنی آغوش رحمت میں جگہ اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے سرفراز فرمائے۔ آمین!!!

دل کھنچا رہتا ہے کیوں اس شخص کی جانب فہیم

جانے کیا شیٴ اس کی ان یادوں کے گھر میں رہ گئی

ہم تجھ سے کس ہوس کی فلک جستجو کریں

دل ہی نہیں رہا ہے کہ کچھ آرزو کریں