اناللہ واناالیہ راجعون !
حذیفہ وستانوی جامعہ اکل کوا
جامعہ اکل کوا کے ٹرسٹی،والد محترم حضرت مولانا غلام محمد وستانوی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کے عاشق زار ،ہندستانی مدارس اسلامیہ کے عظیم معاون ، امتِ مسلمہ ہندیہ کے بے لوث خادم، مخلص خدمت گذاراور علما و صلحا کے ساتھ کوٹ کوٹ کر محبت کرنے والے ۶؍ماہ کی علالت کے بعد شبِ جمعہ کو رات ۱۲؍ بجے دار فانی سے دار باقی کی جانب اپنے رب کریم کے جوار ِرحمت میں چل بسے ۔انا للہ وانا الیہ راجعون!
ان للّٰہ مااخذ ولہ مااعطی ، لاحول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم ، اللّٰہم اجرنا فی مصیبتنا۔
واقعتا یہ امتِ مسلمہ کے لیے عظیم خسارہ ہے۔ حاجی صاحب میمن برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ نے زندگی بھر امت کے تعلیمی اور رفاہی میدان میں بے پناہ مدد کی ۔آپ خود بھی مدد فرماتے اور مخیرین سے بھی مدد کرواتے تھے۔ آپ کی ان مخلصانہ خدمات کی برکت سے اللہ نے آپ کو نیک اولاد مرحمت فرمائی۔ آپ کے تمام صاحبزادے نیک و صالح، صوم و صلاۃ کے پابند ہیں۔
اقبال بھائی،ناصر بھائی،الیاس بھائی ،مولانا عرفان نعیم بھائی، نذیر بھائی، خالد بھائی اور ماشاء اللہ سب ہی اپنے والد کے نقشِ قدم پر ہیں؛ بل کہ آپ کے تمام پوتے بھی صلاح و تقویٰ کے حامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حاجی صاحب کو شبِ جمعہ مقدر فرمائی، یہ آپ کی قبولیتِ خدمات کی علامت ہے۔
حاجی صاحب کا احقر کے ساتھ خصوصی تعلق رہا۔حاجی صاحب بہ کثرت احقر کے ساتھ فون پر رابطہ میں رہتے اور اکثر مسائل کے بارے میں دریافت کرتے رہتے تھے ۔
آپ قوم و ملت کے حالات پر بڑی گہری نظر رکھتے تھے ۔ انگریزی بھی آپ کی بہت عمدہ تھی ۔ بالکل صاف ستھری اور سلیس انداز میں انگریزی میں تکلم کرتے تھے ۔ ایک مرتبہ میں نے حاجی صاحب کو اردو میں کتاب مطالعہ کرتے ہوئے دیکھا تو سوال کیا کہ حاجی صاحب! آپ نے اردو کہاں اور کب سیکھی ؟ تو مسکراکرکہنے لگے کہ علما سے تعلق کی بنیاد پر بہ کثرت اردو کتابیں میرے پاس آتی ہیں تو میں نے خود ہی ان کتابوں کو پڑھ پڑھ کر اردو سیکھ لی ۔
والد صاحب کی بیماری کا اگر علم ہوجاتا تو بس پھر کیا پوچھنا ؟باربار فون کرکے دریافت کرتے کہ طبیعت کیسی ہے ؟ کبھی رات دیر گئے فون کرتے تو کبھی صبح سویرے فجر سے پہلے فون کرتے ۔
حاجی صاحب مرحوم کی صحت بھی خوب اچھی تھی۔ ایک مرتبہ میں نے دریافت کیا کہ حاجی صاحب آپ کی صحت کا راز کیا ہے ؟ تو کہنے لگے میں صبح فجر میں بہت پہلے اٹھ جاتا ہوں اور پورے گھر کو اپنے ہاتھ سے صاف کرتاہوں، جس کی وجہ سے میری ورزش ہوجاتی ہے ۔
جب بھی میں حاجی صاحب سے ملنے کے لیے جاتا گھنٹوں نکل جاتے ۔ حاجی صاحب بڑے مشکل مشکل سوالات کرتے اور جب میں جواب دیتا تو مطمئن اورخوش ہوکر کہتے کہ دوسرے لوگ میرے سوال کا جواب نہیں دیتے ،لیکن تم بہت صحیح اور معقول جواب دیتے ہو ۔
جب میں ان سے کہتا کہ حاجی صاحب دعا میں یاد فرمائیں تو کہتے میں تمہارے لیے اور تمہارے والد کے لیے بلا ناغہ اورہمیشہ دعا کرتا ہوں ۔ اگر حاجی صاحب کو کسی بڑے پروجیکٹ کے بارے میں دعا کے لیے کہتا تو کہتے آپ لوگوں کا کام تو ہونا ہی ہے ، اس لیے کہ اخلاص ہے اور اخلاص والوں کا کوئی کام؛اللہ کبھی نہیں روکتا ۔
جب بھی میں جاتا تو مہمان نوازی میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ۔حاجی صاحب کو جامعہ کا قیام بہت پسند تھا ۔جب میں کہتا کہ حاجی صاحب اکل کوا تشریف لے چلو تو کہتے مجھے تو آنا ہے اور لمبا رہنا ہے ، مگر آپ لوگ مہمان نوازی میں بہت تکلف کرتے ہو، اس لیے مجھے اچھا نہیں لگتا کہ میں کسی کو تکلیف دوں ۔
اللہ تعالیٰ آپ کی مغفرت فرمائے، امت کے حق میں آپ کی خدماتِ جلیلہ کو شرف قبولیت اور آپ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ۔امت کو آپ کا نعم البدل میسر فرمائے اور آپ کے پسماندگان کو صبر جمیل سے نوازے ۔آمین یارب العالمین!