حیاتِ عبد الرحیم میرے دل کے آئینے میں

(رئیس جامعہ حضرت مولانا) غلام محمد (صاحب) وستانوی

دل رنجور ہے غم سے بھر پور ہے:

            قارئین ِکرام ! بہت ہی غم اور حزن وملال ہے اس بات کا کہ جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا کے ایک موٴقر، کام یاب ترین استاذ اور مربی اللہ کو پیارا ہوگیا اور ہم سے جدا ہوگیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون!اللہ مولانا کی مغفرت فرمائے ان کی خدمات کو قبول فرمائے اور درجات بلند فرمائے۔

حفظِ قرآن اور مظاہر علوم سہارنپور:

            مولانا عبد الرحیم صاحب پٹیل جن کو آج ہم رحمة اللہ علیہ کہنے پر مجبور ہیں، رویدرا کے رہنے والے تھے جن کو میں ان کی زندگی کے نویں سال سے جانتا ہوں۔ جب ان کی عمرنو سال تھی، اس وقت میں مظاہر علوم میں دورہٴ حدیث کا طالب علم تھا، میرا اس وقت ان سے کوئی رشتہ نہیں تھا۔ وہ بالکل چھوٹے بچے تھے، میں دیکھتا تھا کہ حضرت ناظم صاحب  تشریف لاتے ہیں اوریہ اپنا قرآن ناظم صاحب کو سناتے تھے۔ یہ میری بچپنے میں ان سے شناسائی تھی ۔ ان کے برادر کبیر (وہ بھی اس وقت جوار رحمت میں پہنج چکے ہیں)حضرت مفتی عبد اللہ صاحب کی نگرانی میں انہوں نے تعلیم وتربیت حاصل کی۔

فضیلت فلاح دارین اور محدث کبیر کا فیض:

            بعدہ انہوں نے ماشاء اللہ جامعہ فلاح دارین سے دورہٴ حدیث تک کی تعلیم کی تکمیل کی۔ اس کے بعد پھر مظاہر علوم میں محدث ِکبیر حضرت شیخ الحدیث مولانا یونس صاحب  سے دورہٴ حدیث کی کتابیں پڑھی۔ ان کے اساتذہ میں حضرت شیخ یونس صاحب ،حضرت مولانا عاقل صاحب ، حضرت مولانامفتی مظفر صاحب وغیرہ رہے۔

فضیلت اور جامعہ اکل کوا میں آمد:

            بہر حال فراغت کے ایک دو سال بعد جامعہ اکل کوا میں ان کو تدریس کے لیے ہم نے مقرر کرلیا تھا۔جامعہ کی تاسیس سے پہلے ان کی ہمشیرہ سے میرا نکاح ہوا، اس وجہ سے ہمارا رشتہ اور مضبوط ہوا اوروہ میرے نسبتی بھائی کہلائے گئے۔

جامعہ اور مولانا مرحوم کی خدمات:

             جامعہ میں جس وقت ان کا تقرر ہوا یومِ اول ہی سے وہ ماشاء اللہ بہت محنتی، جفاکش اوروقت کے پابند تھے۔ جامعہ کے تربیتی نظام کو مستحکم ومضبوط کرنے میں مولانا کا بڑا اہم کردار رہا۔ طلبہ کی تربیت میں ماشاء اللہ جامعہ کا انہوں نے شروع سے تاحیات بڑا تعاون کیا۔

تدریسی خدمات اور حسنِ اخلاق:

            مولانا عبد الرحیم نے جامعہ کے قیام میں ابتدا سے لے کر انتہا تک کی کتابوں کو پڑھایا اور بڑے کامیاب مدرس ثابت ہوئے۔ اپنے تدریس کے زمانے میں کسی استاذ کے ساتھ ان کا کوئی اختلاف نہیں رہا۔ طلبہ کے ساتھ بڑی ہمدردی اور محبت کے ساتھ تعلیم وتربیت کاسلسلہ قائم رکھا، اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑی صلاحیتوں سے نوازا تھا ۔

طلبہ کی تربیت کا نمایاں انداز:

             خصوصاً طلبہٴ کرام کے سے متعلق امر میں آپ کو خوب تربیت کا ملکہ حاصل تھا ،آپ نفسیات شناس اور نفس کشی میں بڑے ماہر تھے۔ کس طالب علم کو کس طریقہ سے آگے بڑھاناہے،اس میں آپ کو یدطولیٰ حاصل تھا۔ طلبہ کے لیے تشجیعی پروگرام کرتے ،طلبہ کو انعامات سے نوازتے۔

            ان کی زندگی کا اخیری اورنرالا تربیتی انداز۔ ہمارے یہاں لاک ڈاؤن میں مدرسی کے تقریباً۹/ ہزار طلبہ موجود تھے۔ انہوں نے شعبہ عالمیت کے طلبہ کو مشغول رکھنے اورعلمی مزاج بنانے کای ایک سلسلہ شروع کیا کہ طلبہ کو قرآن ِکریم کی تفسیر کے تعلق سے ایک ایک آیت پڑھتے اور کہتے تھے کہ جو طالب علم اس آیت کریمہ کی اچھی سے اچھی تفسیر لکھ کر لائے گا اس کو پانچ سو روپے کا انعام دیا جائے گا اور روزانہ کئی طلبہ اس علمی کارنامے میں لگے ہوتے اور انعامات حاصل کرتے، یہ طلبہ کی تربیت کے سلسلے میں ان کی زندگی کا اخیری اور سنہرا عمل رہا، جس کے بعد وہ اپنے رب کو پیارے ہوگئے۔

غریب طلبہ کی نگہداشت اور ان کی تعلیم کی فکر:

            بہر حال وہ طلبہ کے ساتھ ہر قسم کی ہمدردی کرتے تھے، یہ ان کا وصف ِخاص تھا۔ خصوصاً غریب طلبہ کی امداد کرنا، ان کے کپڑے ، ان کے کمبل ، ان کے چادر اور دوسری ضروریات کی فکر،آپ یہ عمل کس طریقے سے کرتے تھے ، اس کا کسی کو علم بھی نہیں ہوتا تھااور ہمیں بھی خبر نہیں پڑتی تھی؛ لیکن طلبہ یہ خود بیان کرتے ہیں کہ ہمارے بہت بڑے مربی اور محسن آج چل دیے۔ طلبہٴ کرام کے جو تاثرات ہیں۔ آپ ان سے سن سکتے ہیں۔

تبلیغی اور دعوتی خدمات:

            بہر ِحال! مولانا عبد الرحیم صاحب  کا بڑا کار نامہ تدریس کے علاوہ یہ تھا کہ قرب و جوار کے دور درازمقامات پر وعظ وتقریر کا ایک خاص مشغلہ تھا اور الحمدللہ اس پر استقامت کی وجہ کر آپ بڑے کام یاب مقرر ثابت ہوئے۔

جامعہ اکل کوا کے مشن تصحیحِ قرآن میں کلیدی اور مثالی کردار:

             ان چیزوں کے ساتھ جہاں جامعہ اکل کوا نے ”مسابقة القرآن الکریم“ کا پروگرام شروع کیا تو پہلے دن سے ہی ماشاء اللہ محرک ، متحرک ،فعال ناظم ثابت ہوئے ۔پورے ہندستان میں اب تک کل نو مسابقة القرآن کا انعقاد ہوا، جس کی کامیابی کے لیے آپ نے ہندستان کے کونے کونے میں جاکر مدارس کے درمیان ارتباط کا کام کیااور مسابقة القرآن کے ذریعہ طلبہ میں قرآن کی پختگی اور تصحیح کی روح پھونک دی۔

مسابقات میں انصاف کے ترازوکو ہمیشہ مضبوط اور مثالی بنایا:

            مسابقة القرآن الکریم کے پروگرام میں سب سے بڑا کار نامہ یہ رہا کہ جس جگہ جس مقام پر گئے ،ہر جگہ الحمدللہ انصاف کے ساتھ انہوں نے کام کیا۔ آج تک کسی جگہ کسی مسابقہ کے بارے میں شکایت نہیں ہوئی کہ اکل کوا سے آنے والے وفد نے ہمارے ساتھ کوئی نا انصافی کی ۔ یہ ان کا خاص وصف تھا، کبھی بھی کسی کے ساتھ مسابقة القرآن کے پروگرام میں ناانصافی تو کیا ، کوئی ایسی حرکت بھی نہیں ہوئی ،جس سے کسی کو تکلیف ہو۔یا یہ احسای ہو کہ ان کا میلان ہماری طرف ہے یا نہیں۔ الحمدللہ اس کی وجہ سے مسابقة القرآن کی یہ تحریک ہندستان میں بہت کام یاب ثابت ہوئی اور ہر جگہ مسابقہ میں ہندستان کے بڑے بڑے علمائے کرام نے حاضری دی۔

مولانا کی حیات وخدمات سوشل میڈیا اور اس رسالے میں:

            مولانا عبد الرحیم صاحب  کے بارے میں بہت لمبی بات تحریر نہیں کرسکوں گا ۔ وجہ یہ ہے کہ ماشاء اللہ ہمارے جامعہ کے طلبہ جواُن کے شاگرد ہیں ، جو کئی سالوں سے فارغ ہورہے ہیں، انہوں نے بہت کچھ لکھا ہے جو آپ کے سامنے آگیا ہے اور آرہا ہے۔

مولانا بیک وقت کئی خصوصیات کے حامل تھے:

            مولانا عبد الرحیم صاحب  ایک کام یاب مدرس، ایک کام یاب مقرر ، ایک کام یاب خطیب اور ایک کام یاب ناظم تھے۔ اور الحمدللہ جامعہ کی مالیاتی وصولی میں بھی ان کا ایک خاص انداز تھا۔ وہ اس طریقے سے مالیات کی وصولی کرتے تھے کہ کسی کو بار بھی نہیں ہوتاتھا اور الحمدللہ! اللہ نے اس میں بھی ان کو بڑی کام یابی عطاکی؛ ، چناں چہ انہوں نے اس سلسلے میں لندن وغیرہ کے کئی کام یاب سفر بھی کیے۔

            اور اس سفر کی وہاں کے لوگوں نے رپورٹ دی۔ کہا کہ مولانا عبدالرحیم صاحب اس طرح کام کرتے ہیں جیسے کہ مولانا عبد الرحیم صاحب ہمارے مہمان ہیں اور وہ ان کا اکرام بھی ایسے ہی کرتے ہیں ۔

جامعہ کی وصولی اور مولانا مرحوم کی امانت داری:

             جامعہ کے وصولی کے معاملہ میں بھی انہوں نے بڑی امانت داری ، دیانت داری سے کام لیا اور کبھی اپنے مفاد کا کوئی کام نہیں کیا۔ امانت داری دیانت داری یہ ان کا بہت بڑا وصف تھا۔ اوراس کے اثرات ان کے طلبہ میں بھی پائے جاتے ہیں۔ لندن کے سفر میں ہر جگہ اصلاحی بیانات کرنا اور وہاں کے مشائخین علما سے ملنا جلنا یہ ان کا خاص امتیاز رہا۔

وہ میرے دست وبازو رہے:

             میرے رشتے کے بعد ہم تو آپس میں نسبتی بھائی بن گئے۔ مولانا عبد الرحیم صاحب  نے اس رشتہ کا بھی خوب خیال رکھا۔ میرے لیے سب سے بڑی راحت کی بات یہ تھی کہ میں اکل کوامیں ہوں یا نا ہوں جامعہ میں کوئی بھی باہر کا مہمان آیا ، ملکی غیر ملکی ، جانا پہچانا ، انجانا، سب کے لیے وہ یکساں ہوتے اور میری غیر حاضری میں وہ بالکل چوکنا رہتے تھے۔ ہر مہمان کا اکرام اس کے مطابق کرتے تھے۔ مہمان نوازی یہ ان کا خاص وصف رہا۔

وہ تنہا انجمن تھے:

            اسی طریقہ سے وقت کی پابندی، صبح سویر ے جلدی اٹھنا اور جلدی اٹھ کر حافظ عبد الصمد کے ساتھ تھوڑی دیر بیٹھ کر طلبہ کو اٹھانا ، طلبہ کو اٹھانے کی ذمہ داری انہوں نے خود اپنے ذمہ لے رکھی تھی، ان کے ذمے کوئی فرض نہیں تھا؛لیکن ان کا اخلاقی فریضہ تھا کہ وہ جاتے اور طلبہ کو بڑی محبت سے نماز فجر کے لیے بیدار کرتے تھے۔

             میں کیا کیا ان کے اوصاف بیان کروں۔ آپ مدرس ہونے کے ساتھ مربی بھی تھے، مربی ایسے تھے کہ طلبہ کو ہر طرح سے تیار کرتے تھے؛یہ ان کا وصف خاص تھا۔

بیماری اور آخری ملاقات:

            اورجب بیمار پڑے تو صرف معمولی بات ہوگئی کہ انہیں قے آنا شروع ہوئی۔ ” السلام ہاسپیٹل“ میں انہوں نے علاج کروایا، لیکن انہیں کوئی زیادہ خاص فرق نہ ہونے پر مجھ سے کہا کہ مجھے انکلیشور مولانا حنیف صاحب کے” ویل کیئر“ ہاسپیٹل میں جانا ہے،وہاں ڈاکٹرانار والا ہے، اس سے میرا تعلق ہے اوروہ میرے ڈاکٹر رہ چکے ہیں، میں نے کہا آپ ضرور جائیے ، چناں چہ ایمبولینس ان کے لیے تیار کی گئی۔ ایمبولینس کے تعلق سے انہوں نے کہا کہ ایمبولینس میرے گھر پر نہ لائیے ، کیوں کہ لوگ سمجھیں گے کہ میں بہت بیمار ہوں؛چناں چہ اسکوٹر پر بیٹھ کر ”السلام“ تک پہنچے اور ہاتھ ملاکر چلے گئے اور کہا کہ شام کو آجاوٴں گا؛ لیکن انہیں نہیں پتاتھا کہ ﴿وما تدری نفس بای ارض تموت﴾کسی نفس کو بھی پتا نہیں ہے کہ وہ کس زمین پر مرنے والا ہے۔

            بہر حال ! وہاں سے انکلیشور چلے گئے اور انکلیشور میں ایک دن رہے اور رات ہی میں اٹیک آنے کی وجہ سے اپنے خالق ِحقیقی سے جاملے۔

تقدیر الہی پر رضامندی ہی عین ایمان ہے:

            بہر کیف ان کا وصال ہم سب کے لیے؛ خصوصاً ارباب ِجامعہ کے لیے اور عموماً پوری امت ِمسلمہ کے لیے ایک بڑا خسارہ ہے، لیکن ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے ، اللہ کے حکم پر ہم سب کو راضی رہنا چاہیے۔ دعائیں کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلند فرمائے اور ان کے پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔

مولانا اور ان کے گھرآنے کے لیے دعا:

            ان کی اولاد میں مولانا ریحان صاحب ہیں ، جو جامعہ کے مدرس ہیں اور ان کی پانچ بیٹیاں ہیں۔ ان میں سے چار کا نکاح الحمدللہ ہوچکا ہے اور دو بچے ابھی زیر تعلیم ہیں۔ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان بچوں کی نگہبانی فرماوے ، ان کی حفاظت فرمائے اور ان کے والدین کے لیے صدقہٴ جاریہ بنائے۔ اللہ تعالیٰ ان کی بال بال مغفرت فرمائے اور درجات کو بلند فرمائے۔ آمین!