مفتی عبد القیوم مالیگانوی/ استاذ جامعہ اکل کوا
ہرطرف ایک ہی آواز:
آج پوری دنیا میں ہرطرف حقوق ہی کی بات ہورہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اکیسویں صدی حق طلبی اور ظلم کشی کے حوالہ سے انقلاب کی صدی ہے۔ مختلف تنظیمیں اورادارے اس میدان میں اپنے طورپرکام کررہے ہیں۔ عالمی سطح پر دیکھیں توہیومن رائٹس حقوق ِانسانیت کے عنوان سے کمیٹیاں قائم ہیں۔ مغربی دنیا اس سلسلہ میں سب سے آگے ہے، جس نے حقوق ِنسواں اور آزادیٴ نسواں کے نام کا ایسا عجیب و غریب نعرہ لگایا کہ سن کر حیرت ہوتی ہے ۔لیکن ذراپردہ ہٹاکردیکھیے توپیچھے کی کہانی کچھ اورہی ابھرکرسامنے آئے گی کیوں کہ اسی نے تو عورت جیسی عصمت وعفت کی تصویر کو سراپا کھلونا اور حرص وہوس کی تسکین کے لیے بے قیمت سامان بناکر پوری دنیا میں اس کی آبرو کوبرسرعام؛نیلام کردیا ۔
حقوق ؛بقدرِ احسان ہوتے ہیں:
خیر یہ بھی مسلمات میں سے ہے کہ جس کے احسانات جتنے زیادہ ہوتے ہیں، اس کا حق بھی اتناہی زیادہ ہوتا ہے۔ پروردگار ِعالم کے علاوہ مخلوق میں سب سے زیادہ احسانات امت ِمسلمہ پر خصوصاً اور پوری انسانیت بل کہ تمام ہی مخلوقات پر عموماً اگر کسی ہستی کے ہیں تو بالیقین وہ عبد اللہ کے فرزند، آمنہ کے ارجمند، ابوطالب کے دلبر، قریش کے سپوت، امت کے مسیحا، انسانیت کے رہبراور رب العالمین کے محبوب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم فداہ ابی و امی کے ہیں۔رب کریم آپ پر کروڑوں درود و سلام نازل فرمائے اورپوری امت کی طرف سے آپ کو جزائے خیر عطافرمائے۔
معلوم کرناپڑے گا:
نبیٴ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے امت پر چند بنیادی حقوق ہیں، جنھیں معلوم کرنا اوران کو ادا کرنا ہم پرلازم ہے۔ کیوں کہ حق کہتے ہیں ایسی ذمہ داری اور فریضہ کو جس کی ادائیگی فرض ہوتی ہے، ورنہ تو صاحب ِحق کا حق مارنا لازم آتا ہے۔اوریہ بات بھی اسلامی اصول وشرعی ضابطوں سے مصرح ہے کہ حقوق العباد ؛یعنی بندوں کے حقوق اللہ کے حقوق کی بہ نسبت زیادہ اہم اور لائق توجہ ہیں۔
اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اپنے حقوق کی کوتاہی کو درگزر کرسکتے ہیں، لیکن بندوں کے حقوق میں جب تک بندہ معاف یا در گزر نہ کرے نجات نہیں مل سکتی؛بل کہ حشر میں ان حقوق کی ادائیگی اپنی نیکیوں سے کرنی پڑے گی۔اور نیکیاں ختم ہونے کی صورت میں صاحب حق کے گناہوں کا بوجھ حق تلفی کرنے والے کے ذمہ ڈالا جائے گا۔پھر سوائے خسران وناکامی کے کچھ ہاتھ نہ لگے گا۔اسی کو ﴿ذٰلِکَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ﴾کہتے ہیں۔
کچھ بھی پاس ولحاظ نہیں:
یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہم انھیں کے نام لیوا سپاس گزار منت کش ہونے کے باوجود ان کی ذات والا صفات کو فراموش کر بیٹھے، ان کی تعلیمات وہدایات کو بھلا بیٹھے، ان کے مشن ومقصد کو گنوا بیٹھے،نہ ہمیں ان کے نام کا پاس رہا، نہ نسبت کا لحاظ،نہ ان کی قربانیاں یاد رہیں، نہ جاں نثاروں کا خیال۔ المیہ یہ ہے کہ ہم رنگینیٴ حیات اور فانی زندگی کے حصار سے باہر نہ آسکے اورفی الحال ایسی کوئی امیدبھی نظرنہیںآ تی۔ اپنے بندھے ٹکے نظام العمل سے وقت نہ پاسکے اورنہ ہی اپنی روز مرہ مصروفیات سے دامن چھڑا سکے۔اب سوال یہ ہے کہ ہم دامن چھڑائیں بھی توکیسے؟ہماراحال تویہ ہے کہ ہر وقت ؛وقت نہ ملنے ہی کاگاناگاتے اورہردم ،ہرقدم پرفرصت نہ ملنے کاروناروتے رہتے ہیں۔
ایک طرف وہ مبارک ہستی تھی :
جو اشاعت ِدین اور تبلیغ ِاسلام کے لیے اپنا وجود گھلاتی رہی۔ ظلم پر ظلم سہتی رہی، دکھ پر دکھ اٹھاتی رہی، رب ِکریم کے حضور ساری رات روتی اورسجدے کی حالت میں گڑگڑاتی رہی اورامت کی ہدایت کے لیے پورے سوز وگداز اور تڑپ وکڑھن کے ساتھ مدت العمر مصروفِ عمل رہی۔ بالآخر اپنے فرض ِمنصبی کی تکمیل کے بعد دنیا سے رخصت ہوگئی۔
دوسری طرف ہماری حالت زار ہے :
آج امت کے کتنے گھرانے ہیں، جنھیں نبی کا گھرانہ اور خانوادہ معلوم ہے؟ نہ خلفا وصحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے روشن کارنامے سے روشناس ہیں، نہ بنات ِطاہرات کے نام جانتے ہیں، نہ ازواج مطہرات کی صحیح تعداد؛ بل کہ بہت سے تیرہ بخت وبد قسمت اس دھرتی پرایسے بھی موجود ہیں؛ جنھیں کلمہ طیبہ اوررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نامی بھی یاد نہیں۔لیکن ان سے کسی فلمی اداکاروں ، ناول نگاروں،گانوں اورفلمی رسالوں کے بارے میں بات کریں، توبسم اللہ کی طرح ازبرپائیں گے اورآپ حیرت کے دریا میں ڈوب جائیں گے۔
ہاتھ ہے زور ہے الحاد سے دل خوگر ہیں
امتی باعث رسوائیٴ پیغمبر ہیں
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس امت پر چند بنیادی حقوق ہیں ،جن کا جانناہمارے لیے بے حد ضروری ہے :
پہلا حق ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا:
نبیٴ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ورسالت جب دلائل ِبینہ ،آیاتِ واضحہ اور معجزات ظاہری کے ذریعہ ثابت ہوچکی ہے، توقیامت تک آنے والی انسانیت پر لازم ہے کہ وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور بلا ریب ان تمام احکامات کی تصدیق کرے جنھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے۔خواہ بہ طریق وحی جلی ہو یا بہ طریق وحی خفی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات وہدایات کو ماننا اور بروئے چشم انہیں قبول کرنا ہر امتی پر فرض ہے، جیسا کہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿قُلْ ٰٓیاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَان ِالَّذِیْ لَہمُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْض لَا ٓاِلٰہَ اِلَّاہُوَ یُحْی وَیُمِیْتُ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ الَّذِیْ یُوٴْمِنُ بِاللّٰہِ وَکَلِمٰتِہو َاتَّبِعُوْہُ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ﴾(سورہٴ اعراف: ۱۵۸)
اے محبوب (صلی اللہ علیہ وسلم)!فرمادیجیے کہ دنیا جہان میں بسنے والے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہو، جس کی بادشاہی تمام زمین میں قائم ہے۔ اس ذات کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہی زندگی دیتا ہے اور وہی موت دیتا ہے۔ اس لیے تم ایسے اللہ پر ایمان لاوٴ اور اس کے ایسے نبیٴ امی پر بھی جو کہ خود اللہ پر اور ان کے احکام پر دل و جان سے ایمان رکھتا ہے اور اس نبی کا اتباع کرو تاکہ تم سیدھی راہ پر آجاوٴ۔
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ شَاھِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًاo لِّتُوٴْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہوَتُعَزِّرُوْہُ وَتُوَقِّرُوْہُ وَتُسَبِّحُوْہُ بُکْرَةً وَّاَصِیْلاً ﴾(سورہٴ فتح:۹-۸)
”یقینا ہم نے آپ کو سچی گواہی دینے والا، خوش خبری سنانے والا اور اللہ کی ناراضگی سے ڈرانے والا بناکر بھیجا ہے۔ یہ اس لیے کہ تم اللہ اور اس کے رسول(صلی اللہ علیہ وسلم) پر ایمان لاوٴ۔“
نیز اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لانے والے شخص کا انجام بھی ذکر فرمایا:
﴿ وَمَنْ لَّمْ یُوٴْمِنْ م بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہفَاِنَّآ اَعْتَدْنَا لِلْکٰفِرِیْنَ سَعِیْرًا ﴾(سورہٴ فتح: ۱۳)
”اور جوبدبخت شخص اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)پر ایمان نہیں لائے گا، ایسے کافروں کے لیے ہم نے دوزخ کی دہکنے والی آگ تیار کر رکھی ہے، جس میں ان کو ڈالا جائے گا۔“
ایمان کے مفہوم میں چار چیزیں داخل ہیں۔
(۱)…آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی خبروں کی تصدیق کرنا۔
(۲)…آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس چیز کا حکم کریں اس کو بجا لانا۔
(۳)…اور جس سے روکے اس سے رک جانا۔
(۴)…آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کے مطابق اللہ کی عبادت کرنا۔
دوسرا حق آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت وعقیدت :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرماں برداری کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت و عقیدت رکھنا بھی لازم اور ضروری ہے۔اور یہ محبت دنیا کی تمام چیزوں ؛حتی کہ اپنی عزیز جان سے بھی بڑھ کر ہونی چاہیے۔جب تک کوئی شخص اس معیار پر پورا نہ اترے اس کا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا۔ بخاری شریف کی روایت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”لَا یُوْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وََّلَدِہِ وَوَالِدِہوَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ“ (مسلم)
تم میں کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا ،جب تک میں اس کے نزدیک اس کی اولاد ،اس کے والد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاوٴں۔
بالکل یہی مضمون قرآن مجید کی اس آیت میں بھی موجود ہے۔ حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
﴿ قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآوٴُکُمْ وَاَبْنَآوٴُکُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَاَمْوَالُ نِ اقْتَرَفْتُمُوْھَا وَتِجَارَة’‘ تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَھَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہوَجِھَادٍ فِیْ سَبِیْلِہفَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہط وَاللّٰہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْن﴾(توبہ:۲۴)
”آپ کہہ دیجیے! اگر تمہارے باپ اورتمہارے لڑکے اورتمہارے بھائی اورتمہاری بیویاں اورتمہارے کنبے قبیلے اور تمہارے کمائے ہوئے مال اوروہ تجارت؛ جس کی کمی سے تم ڈرتے ہو اور وہ حویلیاں جسے تم پسند کرتے ہو، اگر تمہیں اللہ اوراس کے رسول سے اور اس کی راہ میں جہاد سے بھی زیادہ عزیز اور پسندیدہ ہیں تو تم انتظار کرو کہ اللہ تعالیٰ اپنا عذاب لے آئے ۔ اور اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔“ (التوبہ)
چنا ں چہ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ ! میرے نزدیک میری ذات کے بعد سب سے زیادہ محبوب آپ ہیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا نہیں ۔ بخدا تمہارا ایمان تب تک کامل نہیں ہے جب تک کہ میں تمہارے نزدیک تمہاری ذات سے بھی زیادہ محبوب نہ ہوجاوٴں۔
روایت میں آتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اب آپ میری ذات سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے عمر ! اب تمہارا ایمان کامل ہے۔
یاد رہے کہ یہاں دو چیزیں الگ الگ ہیں: ایک ہے محبت اور ایک ہے دعویٴ محبت ۔ محض دعویٴ محبت ثبوت ِمحبت کے لیے کافی نہیں ہےجب تک اس کی دلیل یا کم از کم اس کی علامت نہ پائی جائے ۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ :
۱- زندگی کے ہر شعبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی جائے۔
۲- کثرت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا جائے۔
۳- آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا قید ِزمان و مکان کثرت سے یاد کیا جائے۔
۴- آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے کی تمنا کی جائے۔
۵- آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب چیزوں اور شخصیات سے محبت کی جائے۔
تیسرا حق، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و توقیر:
نبی ٴکریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و تو قیر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق میں داخل ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ شَاھِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا o لِّتُوٴْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہوَتُعَزِّرُوْہُ وَتُوَقِّرُوْہُ وَتُسَبِّحُوْہُ بُکْرَةً وَّاَصِیْلاً ﴾(الفتح:۹)
”بے شک ہم نے تمہیں بھیجا ہے گواہی دینے والا ، خوش خبری سنانے والا اور ڈرانے والا بناکر، تا کہ اے لوگو! تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاوٴ۔ اور رسول کی توقیر وتعظیم کرو اور صبح و شام اللہ کی پاکی بیان کرو۔ “
ایک اور موقع پر اہل ایمان سے خطاب کرتے ہوئے کہا گیا:
اے مومنو! اپنی آوازیں پیغمبر کی آواز سے اونچی نہ کرو اور جس طرح آپس میں ایک دوسرے سے بولتے ہو، اس طرح ان کے رو برو زور سے نہ بولا کرو ۔ ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال ضائع ہوجائیں اور تم کو خبر بھی نہ ہو،جو لوگ اللہ کے پیغمبر کے سامنے دبی آواز سے بولتے ہیں اللہ نے ان کے دل تقویٰ کے لیے آزمائے ہیں، ان کے لیے بخشش اور اجرِ عظیم ہے۔ (الحجرات)
حضرات ِصحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے تعظیم کا حق ادا کردیا، جس کی شہادت عروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ نے دی؛ چناں چہ حضرت مسور بن مخرمہ اورمروان رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ واقعہ حدیبیہ کے موقعہ پر عروہ بن مسعود کفار کی طرف سے وکیل بن کر بارگاہ ِرسالت میں آئے۔ وہ وہاں پر صحابہٴ کرام کے جذبہٴ عشق ومحبت اور معمولات ِادب وتعظیم کا مشاہدہ کرتے رہے۔ اس کے بعد جب اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹ کر گئے تو ان سے کہنے لگے :اے میری قوم! اللہ رب العزت کی قسم میں بڑے بڑے عظیم المرتبت بادشاہوں کے دربار میں وفد لے کر گیا ہوں۔ مجھے قیصر ، روم ، کسریٰ ، ایران اور نجاشیٴ حبشہ جیسے بادشاہوں کے دربار میں حاضری کا موقع ملا ہے، لیکن خدا کی قسم میں نے کوئی ایسا بادشاہ نہیں دیکھا کہ اس کے درباری اس کی اس طرح تعظیم کرتے ہوں، جیسے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی کرتے ہیں۔ خدا کی قسم جب آپ تھوکتے ہیں تو ان کا لعابِ دہن کسی نا کسی شخص کی ہتھیلی پر ہی گرتا ہے، جسے وہ اپنے چہرہ اور بدن پر مل لیتا ہے۔ جب وہ کوئی حکم دیتے ہیں تو اس کی بلا توقف تعمیل کی جاتی ہے۔
جب وہ وضو فرماتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ لوگ وضو کا استعمال شدہ پانی حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ لڑنے پر آمادہ ہوجائیں گے۔ آپ کے رفقا آپ کی بارگاہ میں اپنی آواز کو انتہائی پست رکھتے ہیں اور غایت ِتعظیم کی وجہ سے آپ کی طرف آنکھ بھر کے نہیں دیکھ سکتے۔ (بخاری، احمد)
چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کا تقاضا یہ ہے کہ آپ کی قدر ومنزلت کی تعیین میں حد سے تجاوز نہ ہو۔ اس طورپر کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوعبدیت ورسالت کے مرتبے سے آگے بڑھادیاجائے اور کچھ الٰہی خصائص آپ کی طرف منسوب کردیے جائیں۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و توقیر میں یہ بھی داخل ہے۔
۱- آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان وحدیث کی تعظیم کی جائے۔
۲- آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد کی تعظیم کی جائے۔
۳- آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن چیزوں اور شخصیات کا حکم دیا ہے،ان کی تعظیم کی جائے۔
ان تین بنیادی حقوق کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک عظیم حق یہ ہے کہ ہر مسلمان اپنی جان ومال سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بھر پور دفاع کرے۔
۱- آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات وسنت کی طرف سے دفاع ۔
۲- آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج ِمطہرات کی طرف سے دفاع۔
۳- آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کی طرف سے دفاع۔
الغرض اس کے علاوہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق ہیں، جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بشر؛ بل کہ سید البشر ماننا؛ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود ارشاد فرماتے ہیں:
” انا سید البشر ولد آدم “ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین تسلیم کرنا کہ آپ کے بعد قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا؛ بل کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی نبوت و رسالت چلے گی، جس کا اتباع آنے والے پیغمبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی کرنا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
” اَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ“
نیز امت پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی حق ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ذات کے اعتبار سے بشر مانتے ہوئے وصف کے اعتبار سے آپ کے نور ہدایت ہونے کا عقیدہ رکھے۔ اوصاف کے اعتبار سے آپ نور ہیں بل کہ نورٌ علیٰ نور ہیں، منبع نوراور مرکز نور ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے کفر کی تاریکیاں ظلم کے اندھیرے اورنا انصافی کی ظلمتیں کافور ہوئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور ہدایت سے اسلامی عقائد، اعمال، معاملات، اخلاقیات اور معاشرت روشن ہوئیں، اس اعتبار سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم یقینا نور ہیں۔
اس کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو افضل الانبیاماننا بھی امت پر لازم ہے۔
عنْ اَبیْ ہُرَیْرَةَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: فُضِّلْتُ عَلَی الْاَنْبِیَاءِ بِسِتٍّ ۔اُعْطِیْتُ جَوَامِعَ الْکَلِمِ وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ وَاُحِلَّتْ لِیَ الْغَنَائِمُ وَجُعِلَتْ ِلیَ الْاَرْضُ مَسْجِدًا وَّ طَہُوْرًا وَاُرْسِلْتُ اِلَی الْخَلْقِ کَافَّةً وَّخُتِمَ ِبیَ النَّبِیُّوْنَ۔
حدیث بالا میں تفضیل کی مختلف صورتوں کو بیان کیا گیا کہ مذکورہ چیزوں میں اللہ تعالیٰ نے بھی دیگر انبیا پر فضیلت وفوقیت اور امتیازی شان عطا فرمائی ہے۔
ایک اہم ترین حق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا امت پر یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روضہٴ مبارکہ میں باحیات مانے۔ ایک طویل حدیث ہے،جس کے راوی اوس بن اوس ہیں اور اس کا آخری جز ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب صحابہ نے سوال کیا کہ ہماری نمازیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرکیسے پیش کی جاتی ہیں جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مٹی میں مل چکے ہیں، تو جواب میں فرمایا:
” اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَ جَلَّ حَرَّمَ عَلَی الْاَرْضِ اَجْسَادَ الْاَنْبِیَاءِ“
معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر ِمبارک میں زندہ ہیں اور یہی ہمارا عقیدہ ہونا چاہیے۔
خیرکاسرچشمہ:
مذکورہ بالا سطور میں تمام حقوق نبوی کا احاطہ نہیں کیا گیااورہوبھی نہیں سکتا،اس لیے چند بنیادی اوراہم ترین حقوق پرہی روشنی ڈالی گئی ہے۔ اب اصل چیزیہ ہے کہ انھیں اچھی طرح سمجھ کر انہیں ادا کرنے کی بھر پور کوشش کرنا، چوں کہ ہماری ہر خیر کا سر چشمہ آپ علیہ السلام کی ذات مقدسہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور سیرت وکردار ہی ہمارے لیے دنیا سے لے کر قبرو حشر میں مشعل ِراہ اورکام یابی کی کلید ہے۔بہ صورتِ دیگر ہماری ساری مٹی پلیدہے۔
ہماری یہ کوشش ہونی چاہیے:
اس لیے ہماری مختصر زندگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبتوں سے معمور اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت وکردار سے منور؛ بل کہ دوسروں کے لیے بھی نمونہ اور آئیڈیل بن جائے۔ اس کی ہمیشہ فکر اورکوشش کرنا چاہیے۔ تب ہی جاکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام اور مشن دوسروں تک پہنچے گااور حشر میں ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رو برو کھڑے ہونے کے قابل ہوسکیں گے۔
رب کریم ہماری دستگیری فرمائے اور ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی پکی اور عملی محبت عطا فرمائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو ہمیں قولاً و عملاً فکراً پیش کرنے کی صلاحیت اور فکر نصیب کرے۔ آمین!