۲۷؍ویں قسط:
پانچواں راز مفتی عبد المتین اشاعتی کانڑگانوی
حالتِ استِرخاء
یعنی
نشاط وچستی کی حالت میں کوئی چیز زبانی یاد کرنا
اطمینان وسکون کے مواقع:
کئی بار ہم نے محسوس کیا کہ پورے سال بھر یاد کیا ہوا، سنایا ہوا ، امتحان کے زمانے میں ہمیں بالکل یاد نہیں رہتا،ہاں! استرخا اور اطمینانِ نفس وسکونِ قلب چند موقعوں پر حاصل ہوتا ہے:
(۱) نماز کے وقت:
جب ہم خشوع وخضوع کے ساتھ نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں،تلاوت کرتے ہوئے الفاظ وکلمات کا استحضار کرتے ہیں، تو اس وقت پڑھا ہوا زیادہ دیر تک اور اچھا یاد رہتا ہے، کیوں کہ قلب حاضر اور نفس مطمئن ہوتا ہے۔
(۲)سونے کے وقت:
اس وقت استرخاوسکون حاصل ہوتا ہے، تو انسان خالی الذہن ہوکر کوئی چیز محفوظ کرسکتا ہے۔
(۳) وعظ ونصیحت کے وقت:
جب ہم کسی کے وعظ ونصیحت اور خطبہ کو بغور سنتے ہیں، تو آنکھیں بھر آتی ہیں، یہ بھی استرخا وسکون کی حالت ہے۔
(۴)قرآنِ پاک کی تلاوت کے وقت:
جب ہم تدبُّر وتفکُّر کے ساتھ قرآنِ پاک کی تلاوت کرتے ہیں،تو استرخا وسکون حاصل ہوتا ہے۔اور حالتِ استرخاء یعنی نشاط وچستی کی حالت میں کوئی بھی چیز حافظہ میں محفوظ ہوجاتی ہے، انقباضِ نفس (نفسیاتی اُلجھن وذہنی انتِشار) کے ساتھ انسان کچھ یاد نہیں کرپاتا، اور اگر یاد کربھی لے، تو اس کا مستقبل میں یاد رکھنا دشوار ضرور ہوتا ہے، اس کو حسّی مثال سے یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ استاذ اپنے طلبہ سے کہے کہ سب اپنے دونوں ہاتھ کی مٹھیاں بھینچ کر ایک ساتھ طاقت لگائیں، پھر اُن سے پوچھے کہ ابھی تمہاری پوری قوت کہاں ہے؟ نگاہ کس طرف ہے؟ تو وہ جواب دیں گے: ہاتھوں کی مٹھیوں کی مضبوطی پر، تو کہے کہ اب سب لوگ کوئی آیت، حدیث وغیرہ یاد کرنا شروع کردیں، اس حالت میں کوئی بھی یاد نہ رکھ پائے گا، تو ایسے ہی ٹینشن، غم، رنج والم اور خوف میں مبتلا شخص کوئی چیز ذہن میں محفوظ نہیں رکھ پاتا۔
حافظہ کی مضبوطی اور کم زوری کے اوقات:
حافظہ کے ماہرِ نفسیات علما نے انسان کے حافظہ کی مضبوطی اور کم زوری کے چار مرحلے بیان کیے ہیں:
(۱)مرحلۃ البیتا:
یعنی لکڑی ، مارپیٹ کے خوف، فکری وذہنی پریشانی ، اُلجھن کے وقت پڑھائی اور کسی چیز کا حفظ کرنایہ دُشوار ہوتا ہے۔مثلاً: امتحاناتِ فصلیہ(ماہانہ، سہ ماہی، شش ماہی وغیرہ) کا بوجھ اور ٹینشن سر پر سوار رہتا ہے، اس بے چینی میں حافظہ میں ضعف پیدا ہوتا ہے، مجبور ہوکر طالبِ علم پڑھائی چھوڑ دیتا ہے۔
(۲) مرحلۃ الألفا:
یعنی صفائیٔ ذہن، حضورِ قلب، اطمینانِ نفس کے وقت پڑھائی کرنا۔ اس مرحلے میں انسان کا حافظہ تیز ہوتا ہے۔
(۳) مرحلۃ الثیتا:
یعنی غلبۂ نیند کے وقت انسان خالی الذہن ہوتا ہے، دنیوی جھمیلوں سے نجات مل جاتی ہے، تب ہی تو اسے اُونگھ آنا شروع ہوتی ہے، ایسے موقع پر انسان کا حافظہ کام کرتا ہے، اگر کوئی چیز یاد کرے، تو یاد رہتی ہے۔
(یعنی انسان تھوڑا سُستا لے، پھر وضو کرکے تازہ دم ہوجائے اور سبق ودور کی تیاری میں لگ جائے، یا فجر سے پہلے تہجد کے وقت)
(۴) مرحلۃ الدلتا:
یعنی گہری نیند، اس موقع پر کوئی بھی شخص حافظہ کا فائدہ نہیں اُٹھا سکتا، کیوں کہ یہ وہ مرحلہ ہے جسے ہم ’’موتِ صُغریٰ‘‘ کہتے ہیں، جس میں روح بدن سے جُدا ہوکر، باری تعالیٰ کے دربار میں حاضر ہوتی ہے ، جس کو قرآنِ پاک میں یوں بیان فرمایا گیا:
{اللّٰہ یتوفی الانفس حین موتہا والتي لم تمت في منامہا فیمسک التي قضی علیہا الموت ویرسل الأخری إلی أجل مسمی إن في ذلک لاٰیٰت لقوم یتفکرونo}۔-’’ اللہ جانوں کو قبض کرتا ہے، اُن کی موت کے وقت اور اُن جانوں کو بھی جن کی موت نہیں آئی ہے، اُن کے سونے کے وقت، پھر وہ اُن جانوں کو تو روک لیتا ہے، جن پر موت کا حکم کرچکا ہے، اور باقی جانوں کو ایک معیادِ مُعَیَّن کے لیے رہاکردیتا ہے، بے شک اس سارے تصرف میں نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو سوچتے رہتے ہیں۔‘‘ (سورۂ زمر: ۴۲)
مذکورہ بالا چار مرحلوں میں سے پہلا اور چوتھا مرحلہ کسی چیز کے حفظ کے لیے مفید نہیں ہے، اور دوسرے و تیسرے مرحلے میں انسان سرعت وتیزی کے ساتھ حفظِ قرآنِ کریم وغیرہ کرسکتا ہے۔
فائدہ:
ہر انسان کے دو نفس ہوتے ہیں:
(۱)ایک نفسِ حیاتی (فزیکل لائف): جو موت کے وقت اس سے سلب ہوجاتا ہے، اُس کے جانے سے جان چلی جاتی ہے۔اس میں سلبِ روح من کل الوجوہ ہوتا ہے، جس کے بعد نہ حیاتِ جسمانی باقی رہتی ہے نہ شعور واِدراک۔
(۲)دوسرے نفسِ شعوری/ اِدراک(سائیکیکل لائف): وہ نیند کے وقت اُس سے جدا ہوجاتا ہے اور نیند کے بعد واپس آجاتا ہے۔اس میں سلبِ روح صرف (حیاتِ شعوری) جزئی حیثیت سے ہوتا ہے، حیاتِ جسمانی جوں کی توں باقی رہتی ہے، لیکن شعور واِدراک باقی نہیں رہتا۔ (تفسیر ماجدی)
بروایتِ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ: ’’اصل روح تو نیند کے وقت بھی جسم سے نکل جاتی ہے، لیکن اس کا تعلق جسم کے ساتھ باقی رہتا ہے(جیسے آفتاب کا شعاعی تعلق کروڑوں میل دور ہونے کے باوجود زمین سے قائم رہتا ہے)، اور سوتا ہوا انسان (اسی جزئی تعلق کی بنا پر) خواب دیکھتا رہتا ہے، پھر جب بیداری کا وقت آتا ہے، تو یہ روح چشم زدن سے بھی کم میں جسم میں واپس آجاتی ہے۔‘‘ ( تفسیرماجدی بحوالہ مدارک)
ڈاکٹر جارج لوزانوف:
بلغاریہ کا ماہرِ نفسیات ’’ڈاکٹر جارج لوزانوف‘‘ جو لغاتِ اجنبیہ سکھانے میں بھی ماہر ہے، اس نے انہی دو مرحلوں کو اپنے طلبہ پر استعمال کیا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہر طالبِ علم نے یومیہ ۵؍ سو کلماتِ اجنبیہ یاد کیا۔ اور اس کا فائدہ یہ بیان کیا کہ اگر چند ہفتوں کے بعد بھی ان کلمات کا دور واِعادہ کیا جائے، تو ۹۰؍ فی صد کلمات یاد رہتے ہیں۔
جب کہ ہمارے مدارس اور اسکولوں میں فصلی امتحانات بکثرت ہوتے ہیں، طلبہ ان کی تیاری بوجھ سمجھ کر کرتے ہیں، اور اگلا پچھلا سب بھلادیتے ہیں، کیوں کہ قلق واضطراب (بے چینی) کی حالت میں یاد کیا ہوا ہوتا ہے۔
جاپان کا تعلیمی معیار:
ملک جاپان کا(دنیوی) تعلیمی معیار فی الحال بہت اونچا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں کے اسکولوں میں مذکورہ مرحلوں کے استعمال کا بہت خیال رکھا جاتا ہے، حتی کہ اساتذہ کے لیے ایک مخصوص کمرہ ہوتا ہے، جہاں وہ تنہائی میں بیٹھ کر صرف اور صرف اس بات پر غور وخوض کرتے ہیں کہ طلبہ کو کیسے پڑھایا اور سمجھایا جائے، پھر تعلیم وتعلُّم کے لیے نت نئے جدید طریقے اِیجاد کرتے ہیں۔ (جاری……)