۲۶؍ویں قسط:
اس قسط وار مضمون کی۲۵ویں قسط نومبر۲۰۱۷ء میں آئی تھی ،اس کے بعد مضمون نگار کی کسی مصروفیت کی وجہ کر اگلی قسط درمیان میں موصول نہ ہو سکی؛ تاہم اب قارئین کو مسلسل اس کی قسطیں موصول ہوں گی۔ ان شاء اللہ
حفظِ قرآن کریم ایک سنہرا خواب:
الحمدللہ! گزشتہ قسطوں میں ہم نے صنعتِ باری تعالیٰ اور انسانی جسم میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی کاریگری کو پڑھا، اتنی عظیم نعمتوں سے اللہ پاک نے ہمیں نوازا، بے اختیار منھ سے نکلتا ہے:{وإن تعدوا نعمۃ اللّٰہ لا تحصوہا}۔ تو کیا ہم نے رب العالمین کا شکر ادا کیا؟ نہیں! بلکہ {إن الانسان لظلوم کفار}انسان بڑا ناشکرا ہے۔
یہ نعمتیں انسان کے لیے ایک عظیم تحفہ ہیں، ارشادِخداوندی ہے: {ولقد کرمنا بني اٰدم وحملنٰہم في البر والبحر ورزقنٰہم من الطیبٰت وفضّلنٰہم علی کثیر ممن خلقنا تفضیلاO}۔’’اور ہم نے بنی آدم کو عزت دی ہے اور ہم نے انہیں خشکی اور دریا دونوں میں سوار کیا، اور ہم نے ان کو نفیس چیزیں عطا کیں، اور ہم نے ان کو اپنی بہت سے مخلوقات پر بڑی فضیلت دی ہے۔‘‘ (سورۂ اِسراء: ۷۰)
سبحان اللہ! انسانی جسم اللہ کی نشانیوں اور نعمتوں سے بھرا پڑا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {وفي أنفسکم أفلا تبصرون}۔ ’’اور خود تمہاری ذات میں بھی (نشانیاں ہیں) تو کیا تمہیں دکھائی نہیں دیتا؟‘‘ (سورۂ ذاریات: ۲۱)
{لقد خلقنا الانسان في احسن تقویم}۔ ’’ہم نے انسان کو بہترین انداز کے ساتھ پیدا کیا ہے۔‘‘ (سورۂ تین:۴)
{وصورکم فأحسن صورکم}۔’’اور تمہارا نقشہ بنایا سو تمہارا عمدہ نقشہ بنایا۔‘‘ (سورۂ مومن:۶۴)
اللہ پاک نے انسان کو عقل جیسی عظیم نعمت وطاقت سے نوازا، لیکن انسان قدراتِ عقلیہ میں سے صرف ایک فی صد عقل کا استعمال کرتا ہے، اور اِس ایک فی صد کے بَل بوتے انسان کہاں سے کہاں ترقی کرگیا ہے۔
امام احمد ابن حنبل رحمہ اللہ بیک وقت ہزار ہزار حدیثیں یاد کرلیتے تھے۔
امام بخاری رحمہ اللہ کو ایک لاکھ صحیح حدیثیں اور دو لاکھ ضعیف حدیثیں یاد تھیں۔
بدیع الزماں الہمدانی رحمہ اللہ سو، سو اَشعار ایک مرتبہ پڑھ کر یاد کرلیا کرتے تھے، اور از اول تا آخر معکوس (اُلٹا)سنایا کرتے تھے۔
امام ابو الحسن نیشاپوری رحمہ اللہ کی تفسیر ۳۰؍ جلدوں میں تھی، جس کو آپ نے اپنے حافظے سے املاکروایاتھا، گویا آپ حفظ میں اللہ کی ایک نشانی تھے۔
یہ بطور ’’مُشتے نمونہ از خروارے‘‘ چند واقعات مختصراً نقل کیے گئے، ورنہ گزشتہ قسطوں میں حیرت انگیز حافظہ کے واقعات بیان کردیئے گئے ہیں۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے سلف کا معمول قرآن وحدیث اور دینی ودنیاوی علوم کو سینوں میں محفوظ کرنے کا تھا، حتی کہ کسی کا مقولہ بھی ہے: ’’العلم في الصدور لا في السطور‘‘کہ علم سینوں میں ہوتا ہے نہ کہ سطور میں۔
اس لیے ہر آدمی کو چاہیے کہ حفظ کرنے سے پہلے اپنی قدراتِ عقلیہ یعنی عقلی نعمتوں اور طاقتوں کو دیکھ لے، اپنی سوچ کو اِیجابی ومثبت بنالے، اور یہ بات ہمیشہ دہراتے رہے:
أنا ترکیزي قوي…میرا حافظہ بڑا مضبوط ہے۔
ذاکرتي حدیدیۃ… میرا حافظہ بڑا تیز ہے۔
نعم اللّٰہ تتری علي… مجھ پر اللہ کی نعمتیں مسلسل برستی رہتی ہیں۔
میں قرآن کریم کا صرف ایک صفحہ ۷؍ منٹ میں یا اُس سے کم وقت میں حفظ کرسکتا ہوں، اور دعا بھی کرے: ’’اللّٰہم أعني علی حفظ کتابک‘‘اے اللہ! قرآنِ کریم کے حفظ کرنے میں میری مدد فرما۔
پانچواں راز
استرخاء یعنی نشاط وچستی کی حالت میں زبانی کوئی چیز یاد کرنا
انسان دن میں ۶۰؍ ہزار مرتبہ سوچتا ہے، اس میں سے ۸۰؍ فی صد فکریں سلبی ومنفی ہوتی ہیں۔
انسان روزانہ اپنے نفس کے ساتھ ۵؍ ہزار کلمات بولتا ہے، اس میں سے ۷۷؍ فی صد کلمات سلبی ومنفی ہوتے ہیں۔ایسی حالت میں انسان سُستی کا شکار ہوتا ہے، کچھ یاد نہیں کرپاتا، اور اگر یاد کربھی لیتا ہے تو امتحان کے موقع پر سب کچھ نسیاً منسیا ہوجاتا ہے۔
اسی طرح اگر اہم فیصلے، حفظِ قرآنِ کریم اور حفظِ احادیث واسباق وغیرہ اس مرحلے میں کیے جائیں، تو انسان خطا کرجاتا ہے، نتیجۃً اس پر سُستی وکاہلی کا بٹہ لگ جاتا ہے۔