۳۰ویں قسط: عبد المتین اشاعتی کانڑگاوٴں
چھٹا راز: تخیُّل
تخیُّل کا اُسلوب وطریقہ کیا ہونا چاہیے؟!
سوال: حفظِ قرآنِ کریم کرتے وقت قوتِ خیالیہ کو کیسے کام میں لائیں!
جواب: اس کی تین صورتیں ہیں: (۱) حفظِ قرآنِ کریم سے پہلے تخیلات۔ (۲)سونے سے پہلے تخیلات۔ (۳) ہر نماز کے بعد تخیلات۔
(۱ ) حفظِ قرآنِ کریم سے پہلے تخیلات:
حفظِ قرآنِ کریم شروع کرنے سے پہلے دماغ میں عجیب وغریب قسم کے خیالات کا ہجوم ہوتا ہے، ان سے نجات پانے کے لیے پہلے استرخاء وسکون کی حالت میں بیٹھ جائیں، چند منٹ اسی حالت میں بیٹھ کر یہ سوچتے رہیں:
ختمِ قرآنِ کریم؛ میری زندگی کا ایک سنہرا خواب ہے،…میرے والدین کی تمنا اور آرزوہے،میں اپنے والدین کو سنہرا تاج پہنے ہوئے بہشتی ممبروں پر بیٹھا دیکھنا چاہتا ہوں،اگر آج میں نے قرآنِ کریم مکمل حفظ کرلیا، تو کل کو فرشتے مجھ سے کہیں گے؛ کلام اللہ پڑھتا جا اور جنت کے درجات چڑھتاجا، سبحان اللہ!
یہ سب سوچنے سے دل مطمئن ہوگا، سکون کی کیفیت طاری ہوگی، اور انسان حفظِ قرآنِ کریم کے لیے ذہنی وقلبی طور پر تیار ہوگا۔جب میں حافظِ قرآنِ پاک بن جاوٴں گا، تو سب گھر والے رشتہ دار، دوست واحباب مجھے مبارک بادیاں دیں گے،حفظِ کلام اللہ کے بعد میں اس پر عمل بھی کروں گا، تاکہ اپنی زندگی اسی کے مطابق گزاروں،مجھے معاشرے میں ایک خاص مقام حاصل ہوگا؛جب میں اس دنیائے فانی کو الوداع کہوں گا، تو لوگ کہیں گے ؛ ایک حافظِ قرآن وحاملِ قرآن کی موت ہوئی۔ اورجب فرشتے استقبال کریں گے، تو میرا نام (حافظ کلام اللہ واہل اللہ) پکاریں گے، جنت کی خوش بو ”ریحان“ کی خوش خبری دیں گے، رب کی رضاوخوش نودی کی خوش خبری دیں گے،میں اپنے پروردگار سے ملوں گااس حال میں کہ میرا رب مجھ سے راضی ہوگا،جب میں وحشت کے گڑھے قبر میں اتارا جاوٴں گا ، تو قرآن میرا مُونِس وغم خوار ہوگا، میرا سفارشی ہوگا، اللہ اکبر کبیراً!
میں دنیا میں قرآنِ پاک کے ساتھ رہا، یعنی اُسے یاد کرکے اُس کے احکام پر عمل کرتا رہا، اور آخرت میں قبر کی وحشت میں وہ میرے ساتھ رہے گا،جب میدانِ حشر میں تمام لوگ منھ تک پسینے میں شرابور ہوں گے، غم ورنجیدگی میں رہیں گے، اس وقت قرآن کریم نور بن کر میری راہ نمائی کرے گا، ندالگے گی: یا أہل القرآن، … یا أہل اللّٰہ وخاصّتہ۔
پھر داہنے ہاتھ میں کتاب یعنی نامہٴ اعمال دیا جائے گا،ا ور میں پوری مخلوق کے سامنے کہتا پھروں گا: ﴿ھاوٴم اقرء وا کتابیہ o إني ظننت أني ملٰق حسابیہ﴾ ”لو میرا نامہٴ اعمال پڑھ لو، میں تو جانے ہوئے تھا کہ مجھے ضرور میرا حساب پیش آنے والا ہے“۔ (سورہٴ حاقہ: ۱۹، ۲۰)
پھر یہ تصور بھی کریں کہ:مجھے کرامت کا تاج اور حُلّہ (مخصوص جنتی لباس پہنایا جارہا ہے) ایک ایک آیت پڑھ کر میں جنت کی سیڑھیاں درجہ بدرجہ چڑھ رہا ہوں۔(اور درج ذیل یہ نظم بھی گنگنائیں!)
اک اک آیہ پڑھوں گا میں…درجے پہ درجہ چڑھوں گا میں
منزل میری وہیں ہوگی …ختم جہاں پہ کروں گا میں
رب کی نوازش پاوٴں گا… حق کی سفارش پاوٴں گا
بنوں گا نبی کا میں مہمان… بنوں گا میں حافظِ قرآن
جب میں جنت میں داخل ہوں گا، تو میرے نام کا اعلان ہوگا، مجھے خصوصی پرمیشن (اجازت نامہ) ملے گا: ﴿کلوا واشربوا ہنیٓئا بمآ أسلفتم في الأیام الخالیة﴾” کھاوٴ اور پیو مزے کے ساتھ ان اعمال کے بدلے میں جو تم گزشتہ ایام میں کرچکے ہو“۔ (سورہٴ حاقہ: ۲۴)
مجھے اپنا جنت کا محل یاد آرہا ہے،میں جنت کی نہروں میں تیر رہا ہوں، غوطہ خوری کررہا ہوں،وہ عالی شان محلات، بنگلے، کوٹھیاں اور حورِ عین …یاد آرہی ہیں،میرا رب کتنا عظیم الشان اور محسِن ہے، …سبحان اللہ!… الحمد للہ!… اللہ اکبر!
تفاوٴلِ خیریعنی نیک شگون کے ساتھ چہرے پر تبسمُّ و مسکراہٹ کے آثارنمایاں ہونے چاہییں!
سونے سے پہلے تخیلات:
سونے سے قبل کا وقت تخیلات کے لیے مثالی وقت ہے،پہلے پانی نوش کریں، پھر آنکھیں بند کریں، گہری سانس لیں، پھر مذکورہ بالا مراتب ودرجات کو یاد کریں، اجر وثواب، جنت کی رہائش ولذت ، بروزِ قیامت شفاعت، قبر میں کلام اللہ سے اُنسیت کو یاد کرکے اپنے آپ کو خوش کریں، کہ یہ سب یقینی چیزیں ہیں؛ جب تخیل کرکے سوئے گا، تو نیند میں ان ہی خیالی چیزوں کو شکل وصورت میں پائے گا، خواب میں بھی تخیلات دوڑتے رہیں گے، تو نیند سے بیداری کے بعد اس کی طرف میلان ہوگا، حفظِ قرآنِ کریم میں رغبت پیدا ہوگی۔
ہر نماز کے بعد تخیلات:
مذکورہ بالا مراتب وتخیلات ہر نماز کے بعد کریں، خصوصاً حفظِ قرآنِ کریم کے شروع دنوں میں، کیوں کہ نماز ایک روحانی طاقت وعبادت ہے، چنانچہ نماز کے بعد ان چیزوں کا تخیل اس طاقت کے حصول میں مُیَسِّر(آسانی پیدا کرنے والا) ہوتا ہے۔ ألا بذکر اللہ تطمئن القلوب۔ان امور کو بار بار کرتے رہیں، إن شاء اللہ حافظہ تیز ہوگا، اور سکون وطمانینت کی کیفیت پیدا ہوگی۔یہ ذہنی تدریبات حفظِ قرآنِ کریم پر آمادگی کا سبب ہیں،اور اس سے حفظ میں سرعت اور قرآنِ کریم سے شغف ومحبت اور مزید تعلق پیدا ہوتا ہے۔
(یہی وجہ ہے کہ طلبہٴ کرام حفظ کے آخری سال میں بڑی تیزی سے پارے سناتے ہیں، ۲۷، ۲۸، ۲۹/ اور ۳۰/واں پارہ سنانے میں تاخیر نہیں کرتے، کیوں کہ ہدف سامنے ہوتا ہے، تو ایک شوق سا ہوتا ہے۔ بعضے اساتذہ ابتدائی طلبہ کو پہلے ۲۹، اور ۳۰/ واں پارہ جو یاد کراتے ہیں اُس کے پیچھے بھی یہی حکمت کار فرما ہوتی ہے کہ ان کو یاد کرنے کے بعد طالبِ علم یہ سوچتا ہے کہ جب آخر کے پارے اتنے آسان ہیں، تو شروع کے اور بھی آسان ہوں گے، چنانچہ وہ حفظ میں دل چسپی لینے لگتا ہے۔)
معلمین ومدرسینِ حفظ سے گزارش!:
اپنے پاس حلقہٴ تحفیظ میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ پر اس طریقہٴ کار کو آزماکر دیکھیں، اس اسلوب پر عمل کرکے دیکھیں، طلبہ کو قرآنِ کریم سے محبت پیدا ہوگی، اپنے بچوں کے سامنے حافظِ قرآن کے فضائل ومناقب بیان کریں، جنت کی ایک خیالی صورت ان کو ذہن نشیں کرائیں، ان کی رغبت میں ضرور اضافہ ہوگا، إن شاء اللہ!
لیکن افسوس!
بعض والدین اور اساتذہٴ کرام اپنے بچوں اور طلبہٴ علومِ نبوت پر بڑی سختی کرتے ہیں، کرخت لہجے میں ان سے بات کرتے ہیں، نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچے حفظِ قرآنِ کریم سے بدظن ہوکر پڑھائی چھوڑ بیٹھتے ہیں۔ لاحول ولا قوة إلا باللہ العلي العظیم!
بعضے چار وناچار حفظِ قرآنِ کریم تو کرلیتے ہیں، مگر اسے یاد رکھنے اور اس کے دور ومراجعہ کی کوشش نہیں کرتے، جس کی بنا پر قرآن بھول جاتے ہیں۔ ارشادِ خدا وندی ہے: ﴿ولو کنت فظا غلیظ القلب لانفضوا من حولک﴾”اور اگر آپ تُند خو، سخت طبع ہوتے تو لوگ آپ کے پاس سے منتشر ہوگئے ہوتے“۔
(سورہٴ آلِ عمران: ۱۵۹)
مدرسین اور والدین اپنے بچوں اور شاگردوں کے بارے میں ذرا صبر کریں ، اور مذکورہ طریقے پر عمل کرنے کی کوشش کریں!
کیا ہم اپنی اولاد اور شاگردوں کو جید وپختہ حافظ بنانا نہیں چاہتے؟ …اگر ہاں! تو پھر آئیے! بچوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیں، بس ان کے سامنے خود قرآنِ کریم لے کر بیٹھ جائیں، یاد کرتے رہیں،وہ مشاہدہ کریں گے کہ ہمارے والدین واساتذہ پڑھتے ہیں ، وہ بھی پڑھیں گے، رات دن اس میں مشغول رہیں گے، قدوہٴ حسنہ یہی ہے جس کا بچوں کی تربیت پر مثبت اثر پڑتا ہے، یعنی پہلے خود کرکے بتائیں، پھر بچوں اور شاگردوں سے اس کا مطالبہ کریں! اور انہیں یہ نصیحت بھی کریں کہ:
حفظِ قرآن سعادت ہے… دونوں جہاں کی راحت ہے
لیکن بچوں یاد رکھو!… اصل تو اس کی اطاعت ہے
اس کے مطابق جیون ہو… ورنہ آگ کا ایندھن ہو
اللّٰہم اجعل القرآن ربیع قلوبنا ، ونور أبصارنا ، وشفاء صدورنا ، وجلاء أحزاننا ، وذہاب ہمومنا وغمومنا ،
وقریننا في الدنیا ، وأنیسنا في قبورنا ، وصاحبنا یوم القیامة ۔ آمین !
جاری…………