حضرت کاپودروی رحمۃ اللہ علیہ  صفات کے آئینے میں

مفتی عبد القیوم مالیگانوی استاذجامعہ اکل کوا

کسی کی نہیںچلتی:

                اِ س جہانِ رنگ وبو کے اندرانسانوں کی اس نگر ی میں لا تعداد اور بے شمار انسان؛ اپنی حیا تِ مستعار کے لیل و نہار اور ان کے معمولات ومشاغل میں مصروف رہ کر اپنے وقتِ موعود پر {لہ الحکم والیہ ترجعون} کے مطابق اپنی متعینہ انفاس پوری کرکے اُس شہرِ خموشاں کی طرف چل دیتے ہیں، جس سے کبھی واپسی نہیں ہوتی۔ جس کے نام سے ہی انسان کا پِتہ پگھل جاتاہے، جسے سن کرہی شیر دل انسان ،سخت گیر پہلوان اور تخت وتاج کے مالکان بھی کا نپ جاتے ہیں ۔

چل دیے خاموش بستی کی طرف:

                لیکن ان جانے والوں میںکچھ لعل وگہر، بعض چمکتے دمکتے موتی اور چند مہکتے پھول ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی چمک اور مہک صدیوں تک زمانہ اور اہلِ زمانہ فراموش نہیں کر پاتے ۔ وہ تو چلے جاتے ہیں لیکن ان کے نقوشِ حیات اور خطوطِ راہ سے ہزاروں نہیں؛ بل کہ لاکھوں انسان اپنے اپنے کشکول میں اپنی استعداد اور قوت کسب کے مطابق علم و عمل کی مرادوں کو بھرتے ہیں ۔ جن کے جانے پر ہزاروں نہیں بل کہ لاکھوں اشخاص زبانِ قال سے اور سیکڑوں مقامات ، مناصب اور مختلف اماکن زبانِ حال سے اپنی یتیمی اور محرومی کا شکوہ کرتے ہیں ۔

                اُن ہی محترم اور مغتنم ہستیوں میں فخرِ گجرات ،مفکرِ ملت حضرت مولانا عبد اللہ صاحب کاپودروی رحمۃ اللہ علیہ بھی شامل تھے، جن کے دنیاسے رخصت ہو جانے سے نہ صرف طبقۂ علما وطلبا محزون ومغموم ہیں ، بل کہ پوری ملتِ اسلامیہ سوگوار اور غمزدہ ہے ۔

مقصدِ زندگی؛ دین کی سرفرازی :

                جن کا مقصدِ حیات ہی خدا کے دین کی سرفرازی اور اس کی تعمیر وترقی رہا ۔ جنھوں نے حیات ِفانی کے ہر لمحہ اورہرسیکنڈ کو غنیمت جان کر اپنی مقدور بھر کوشش اور محنت سے محمدِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے گلستان کو بنانے، سجانے اور سنوارنے میںلگادیااور اسی دھن میں مستغرق اپنی زندگی کو مکمل کیا ۔ قسّامِ ازل نے پوری فیاضی کے ساتھ حضرت مرحوم کو مختلف النوع خوبیوں اور کمالات سے آراستہ کیاتھا،جن میںسے ہم صرف دوایسی خوبیوںکاذکرکرناچاہتے ہیں،جوبہت نمایاںبھی ہیں اورمؤثربھی۔ جس میںپہلی اہم ترین خوبی ان کی دین و اسلام کے لیے غیرت و حمیت تھی ؛جس نے کبھی بھی ایک مقام پر چین کاسانس نہ لینے دیا ،بل کہ ملکوں کی خاک چھاننے اوردربدرپھرنے پر مجبور کردیا ۔ کسی نے سچ کہا ہے   ؎

جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں

ادھر نکلے اُدھر ڈوبے ، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے

                اسی صفتِ خاصہ کا اثر تھا کہ جس طبقہ میں گئے شمعِ انجمن بن گئے اور اپنی بات، اپنا موقف اور اپنی فکروں کو انتہائی مضبوطی اور بے لاگ طریقہ سے بغیرکسی خوف وملامت کے پیش کرنے میں دریغ نہ کیااورنہ ہی کسی مصلحت کو راہ دیا؛ بل کہ وہاں کی کمزوریوں ،خامیوںاور کوتاہیوں پر برابر قدغن لگائے اور اپنے مفید مشوروں اور بیش قیمت تجربات سے بھی نوازا،جو کسی داعیٔ حق اور حقیقی وارثِ نبی کی زندگی کا لازمی حصہ ہے ۔

میںنے بارہاسناہے:

                میں نے مادرِ علمی جامعہ اکل کوا میں باربار حضرتِ مرحوم کی حاضری کے موقع پر بارہا آپ کوحضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے حمیت وغیرت اسلام سے معمور تاریخی جملہ ’’ أینقص الدین وانا حی ‘‘ کو دہراتے ہوئے سنا اور اس جملہ کے وقت آواز میں وہ تیزی اور چہرہ پر ایسی تبدیلی پائی، جو حمیتِ دین کاہی اثر ہوسکتا ہے اور ان میں یہ کیفیت کیوں نہ پیدا ہوتی؟ اللہ نے آپ کو مفکرِ اسلام ،خانوادۂ نبوت کے غیور فرد حضرت مولانا ابو الحسن علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت اور مجلسوں کی حاضری کا شرف عطا فرمایا تھا ۔ اسی صحبت ِبااثر نے غیرت و حمیت اور مفکرِ اسلام کی فکروں کو آپ میں منتقل کردیا تھا ؛یہی وجہ تھی کہ مرحوم ؒ اپنی کسی تقریریا کسی مجلس میںحضرت علی میا ںندوی ؒ کی کوئی بات یا ان کی زندگی کا تذکرہ کیے بغیر نہ رہتے ۔

                دوسرا اہم وصف اور عظیم خوبی جو اِس وقت عنقا ہوچکی ہے کہ آپ مردم شناس بھی تھے۔قوم کے لعل وگہر اورجوہر مخفی کوبہت جلد پہچان کراورچھانٹ کر اس کو بنانے،سنوارنے، نکھارنے کے اِس وصف میں وہ اپنی مثال آپ تھے ۔

یہ کام ہرکوئی نہیںکرسکتا:

                افراد کو پہچاننا ،اس کے جوہر ِپوشیدہ کو تاڑ لینا ،پھر اسی کے مطابق تربیت کرکے اس کو کسی میدان کا شہ سوار بنانا اور اس کی صلاحیتوں کے مطابق اسے ذمہ داری دینا؛ یہ وصف ان کی زندگی کا وہ عظیم وصف ہے جس کا نمونہ جامعہ فلاح ِدارین ترکیسر کا تعلیمی وتربیتی استحکام اور اس میں پڑھانے والے باکمال حضرات مدرسین ہیں ۔ آپ نے اپنی مضبوط ادارت اور حکمت بھری قیادت سے ۲۷؍ سال تک ترکیسر اور اس کے نظامِ تعلیم وتربیت کو ایسا مستحکم اور مثالی بنایا ،جس کی شہادت ہر معلم و متعلم اورہرگلی وکوچہ دے رہا ہے۔

نااہلوںکواہل سمجھنابڑی حماقت ہے:

                آپ جہاں مردم شناس تھے وہیں آپ کا ایک بڑا خاصہ یہ بھی تھاکہ آپ کافیصلہ ہمیشہ ہر قسم کی تعصب سے پاک اورحق بجا نب ہوتا ،جو جس عہدے اور منصب کا اہل ہوتا اسے ہی وہ عہدہ دیا جاتا؛آپ نے نا اہلوں کو اہل سمجھنے کی بھول کبھی نہیں کی ؛بریں بنا آپ کا دو رِاہتمام فلاح دارین کی تاریخ کا ایک فلاحی باب ہے ۔آج اس خوبی اور وصف کی کمزوری ،بل کہ نہ ہونے کی وجہ سے افرادکی خوابیدہ صلاحیتیں ابھرنے سے پہلے ہی دم توڑ دیتی ہیں ۔’’حق بہ حق داررسید‘‘کاالٹامذاق اڑایاجاتاہے،اس لیے نہ ہی اصحابِ حق کو ان کی صلاحیتوں اور استعداد کے مطابق مقام مل پاتا ہے،بل کہ گھسیٹ کرمطعون کرنے کی مذموم کوشش کی جاتی ہے،جس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتاہے کہ نااہل افراد ایسے مناصب کے مالک اور ایسے امورکے ذمہ دار ہوجاتے ہیں کہ وہ مناصب خود اپنی یتیمی کا رونا روتے ہیں،اپنی بے بسی پرشکوہ کناںہوتے ہیں اور زبانِ حال سے ایسے نااہلوں سے خلاصی چاہتے ہیں ۔ اور فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ’’ اذا وسد الامر الی غیر اہلہ فانتظر الساعۃ ‘‘ کے پیش نظر اس مقام اور کام کی بربادی لازم ہوجاتی ہے ۔

آپ نے اپنے وصف خاص کی بھرپورقدرکی:

                حضرت کاپودروی ؒ کو مذکورہ خوبی اللہ نے خوب عطا فرمائی تھی اور آپ نے بھی اس خوبی اورخداداد وصف سے بھرپوراستفادہ کرتے ہوئے افرادسازی کابڑاکارنامہ انجام دیا۔جس کے نتیجے میںمدارس کواچھے مدرسین،کام یاب منتظمین اورہرمیدان کے رجالِ کارملے۔یہی وصفِ خاص اللہ رب العزت نے امام الانبیا، معلمِ کائنات اورداعیٔ اعظم حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوبھی بڑی سخاوت کے ساتھ عطافرمایاتھا۔جس کافائدہ اٹھاتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنگ پاروںکوتراش کر،ان کی خوابیدہ صلاحیتوں اورجوہرِمخفی کوپہچان کراپنے دردِدل اورپوری توانائی کوصرف کرکے ایک ایسی جماعت تیار فرمائی جو اسلام کے اولین محافظین کہلائے۔ اور دنیا کے ہر خطے اور ہرمیدان میں انہوں نے اپنے علمی ، عملی اور روحانی کمالات واوصاف سے انسانیت کے قلوب فتح کرلیے اور کام یابی کے جھنڈے نصب کردیے۔

                اسی لیے مؤرخینِ اسلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور سیرت پر کلام کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ افراد سازی اور صحابہ جیسی بے مثال جماعت کو بنانا ؛یہ آپ کی حیاتِ مبارکہ کا سب سے بڑا اور اہم کارنامہ ہے ۔ جو کوئی نبی نہ کرسکا ۔

ہرجانے والاقابل تذکرہ نہیںہوتا:

                قصہ مختصر یہ ہے کہ ایسے افراد ؛امت کو ہرقدم پراورہروقت نہیں،بل کہ ایک لمبی مدت اور عرصۂ دراز کے بعد ملا کرتے ہیں ۔

بڑی مدت میںساقی بھیجتاہے ایسافرزانہ

بدل دیتاہے جو بگڑ اہوا دستورِ مے خانہ

                ان کے جانے سے امت کو بڑا نقصان ہوتا ہے، لیکن حیات و ممات کا یہ سلسلہ قادرِ مطلق کا جاری کردہ ہے جس سے کسی کو مفر نہیں ۔ البتہ ہر جانے والا لائقِ افسوس اور قابل تذکرہ نہیں ہوتا ۔ لیکن حضرت مرحوم نہ صرف لائقِ تذکرہ بل کہ ان کی زندگی کے بہت سارے پہلو ہمارے لیے قابلِ عبرت ہونے کے ساتھ ساتھ قابلِ تقلید بھی ہیں۔ کسی نے سچ کہا ہے   ؎

موت اس کی ہے جس کا زمانہ کرے افسوس

یوں تو دنیا میں آئے ہیں سبھی؛جانے کے لیے

                ربِ کریم مرحوم کی مغفرت فرمائے اور اپنی رضا ئے کامل سے نوازے ۔ ان کے تمام علمی ،عملی اور ادبی کارناموں کو قبول فرماکر صدقۂ جاریہ بنائے اور ان کی رحلت سے ہونے والے خلاکو اپنی قدرت سے پر فرمائے ۔ آمین !

وما ذلک علی اللّٰہ بعزیز ۔