حضرت مولانا عبد اﷲ کاپودرویؒ سے ایک یادگار ملاقات

مسعود احمد الاعظمی، ایڈیٹر مجلہ ’’المآثر‘‘ سہ ماہی، مرقاۃ العلوم، مئو

                ۱۰؍ جولائی ۲۰۱۸ء بروز سہ شنبہ بوقت سہ پہر یہ افسوسناک خبر موصول ہوئی کہ گجرات کے مُقتدَر ومؤقر عالم اور اہل علم کے مربی حضرت مولانا عبد اﷲ کاپودروی صاحب سفر آخرت پر روانہ ہو گئے۔ اس خبر کو دیکھتے ہی دل ودماغ میں رنج وغم کی لہر دوڑ گئی، اور مولانا مرحوم کی قد آور شخصیت اور ان کا سراپا نگاہوں کے سامنے گردش کرنے لگا۔ یہ خاکسار دل ہی دل میں سوچنے لگا کہ علم ومعرفت کا ایک چراغ اور گل ہو گیا، اور ظلمتِ شب میں کچھ اور اضافہ ہو گیا، پھر نقار خانۂ ذہن ودماغ میں شاعر کا یہ شعر گونجنے لگا کہ:

اک دیا اور بجھا اور بڑھی تاریکی

شب کی سنگین سیاہی کو مبارک کہہ دو

                مولانا کاپودروی علیہ الرحمہ کے اسم گرامی سے یہ حقیر پہلی دفعہ آج سے تقریباً بیس برس پہلے اس وقت آشنا ہوا تھا، جب ان کا ایک مضمون ’’المآثر‘‘ میں اشاعت کے لیے موصول ہوا تھا، یہ ایک وقیع علمی وفکری واصلاحی مضمون تھا، جس کا عنوان ’’نایاب جواہر پارے، یعنی منتخبات الدرر الکامنۃ‘‘ تھا۔ یہ مضمون غالباً عربی میں رہا ہوگا، اس لیے کہ اس کے ترجمہ کا کام ’’مولانا عبد الرحمن ملی ندوی جامعہ اکل کوا‘‘ نے کیا تھا، جیسا کہ مضمون کے شروع میں درج تھا۔ اس مضمون کے عنوان سے ہی ظاہر ہے کہ اس میں تاریخِ اسلام کے عظیم المرتبت عالم ومحدث حافظ ابن حجر عسقلانی کی مشہور کتاب الدرر الکامنۃ في أعیان المائۃ الثامنۃ کے کچھ اہم اور سبق آموز واقعات کا انتخاب کر کے ان کو ایک لڑی میں پرویا گیا تھا۔ کتاب کا انتخاب، اس کے منتخبات اور اس مضمون سے ہی فاضل مضمون نگار کے علمی ذوق، وسعتِ مطالعہ، دقت نظر اور فہم وبصیرت کا اندازہ ہوتا تھا۔ مولانا مرحوم کا یہ مضمون ’’المآثر‘‘ جلد ۸، شمارہ نمبر ۲، بابت ربیع الثانی- جمادی الثانیہ ۱۴۲۰ھ = اگست – اکتوبر ۱۹۹۹ء کے شمارے میں طبع کیا گیا تھا۔

                گویا یہ حضرت والا کی شخصیت سے احقر کا پہلا تعارف تھا، اس کے چند سال بعد غالباً اگست ۲۰۰۳ء میں مولانا مرحوم کو اشاعت العلوم اکل کوا کے ایک مسابقاتی پروگرام میں دیکھنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ مسابقۂ قرآن کریم کے اس پروگرام میں راقم الحروف ایک مشاہد کی حیثیت سے (مساہم کی حیثیت سے نہیں) شریک ہوا تھا، اس کی اختتامی نشست میں مولانا مرحوم بھی تشریف فرما تھے اور انھوں نے نہایت جامع، پُر مغز اور پُر سوز انداز میں مجمع کو خطاب کیا تھا۔ ان کی باوقار، وجیہ اور دل آویز شخصیت کے ساتھ ساتھ ان کا فکر آمیز وعظ وبیان حاضرین وسامعین کے قلوب کو متاثر کیے بغیر نہیں رہ سکا، اور پھر جب یہ معلوم ہوا کہ حضرت والا گجرات کے مشہور ومعروف ادارے مدرسہ فلاح دارین ترکیسر کے مہتمم یا سر پرست، اشاعت العلوم اکل کوا کے بانی ومؤسس اور مسابقۂ قرآن کریم کے پروگراموں کے روح رواں حضرت مولانا غلام محمد وستانوی مد ظلہ اور صوبۂ گجرات وغیرہ کے بے شمار اہل علم وفضل کے استاذ ومربی ہیں، تو قلب میں ان کی عزت اور قدر ومنزلت کا بڑھ جانا ایک فطری بات تھی۔ ان سے ملاقات کا دل میں اشتیاق پیدا ہوا، لیکن اس وقت اس کا موقع نہیں مل سکا۔

                لیکن دو سال بعد ہی اس محرومی کی تلافی ہو گئی اور بتوفیق الہی ایک مناسب موقع سے مولانا کی زیارت وملاقات سے بہرہ مند ہونے کی صورت نکل آئی۔ اس کا باعث یہ ہوا کہ احقر نے احمد آباد کی پیر محمد شاہ لائبریری کا نام اور اس کا شہرہ سن رکھا تھا، جس کی وجہ سے اس کو دیکھنے کی خواہش دل میں کروٹ لیتی رہتی تھی، اس کے علاوہ جامعہ مظہر سعادت ہانسوٹ ضلع بھروچ کے بعض اساتذہ کا ہانسوٹ کے سفر کے لیے کئی سال سے اصرار تھا۔ ان دونوں باتوں کو پیش نظر رکھ کر احقر نے اگست ۲۰۰۵ء میں ہانسوٹ کے سفر کا ارادہ کیا، اس موقع پر ہانسوٹ میں تین روز قیام کا اتفاق ہوا، اور اس دوران قرب وجوار مثلاً سورت اور بھروچ ضلع کے اکثر مدارس کی زیارت سے مشرف ہوا۔ حسنِ اتفاق سے مولانا عبد اﷲ کاپودروی صاحب -جن کے بارے میں سن رکھا تھا کہ ان کا زیادہ تر قیام ہندوستان سے باہر رہتا ہے- اُن دنوں کاپودرا میں واقع اپنی رہائش گاہ پر تشریف فرما تھے۔ مجھے مولانا کی زیارت کا اشتیاق تو پہلے ہی سے تھا، ہانسوٹ کے احباب نے میرے کہے بغیر کاپودرا جاکر مولانا سے ملاقات وزیارت کو ہمارے پروگرام کا حصہ بنا دیا؛ چنانچہ ایک شام حضرت والا کی زیارت کے مقصد سے ہم کاپودرا کے لیے روانہ ہوئے، مولانا کو ہمارے آنے کی پہلے ہی سے اطلاع ہو چکی تھی، ہم جب پہنچے تو ایسا معلوم ہوا کہ وہ سراپا انتظار ہیں۔ مولانا مرحوم ہمارے اندازے سے کہیں زیادہ بلند اخلاقی، خندہ پیشانی اور بشاشت سے پیش آئے، عصر کے وقت ہم ان کی خدمت میں پہنچے تھے، اور مغرب تک حاضر ِخدمت رہے، وہ انتہائی محبت اور شفقت بھرے انداز میں گفتگو فرماتے رہے، ان کے محبت آمیز برتاؤ، مشفقانہ رویہ، کرم گستری اور بے تکلف ملاقات سے یہ محسوس نہیں ہوتا تھا کہ ان کی خدمت میں یہ اولین حاضری ہو، بلکہ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ان سے برسوں کی شناسائی ہو۔ حضرت محدث الاعظمی ، ان کے علم وفضل، ان کی تصنیفات وتحقیقات اور ’’المآثر‘‘ وغیرہ کے حوالوں سے دیر تک گفتگو فرماتے رہے۔ دورانِ گفتگو حضرت والا نے مئو کے اپنے ایک سفر کا واقعہ بھی بیان کیا، جب ان کو فلاحِ دارین ترکیسر کے لیے کسی مدرس کی ضرورت تھی، اور اسی سلسلے میں حضرت محدث الاعظمی سے ملاقات اور کسی ذی استعداد اور باصلاحیت عالم ومدرس کی بابت مشورہ اور رہنمائی حاصل کرنے کے لیے انھوں نے مئو کا سفر کیا تھا۔ ان کی گفتگو سے معلوم ہوا کہ مئو شہر میں پیدا اور نشو ونما پانے والے ممتاز عالم ومحقق ڈاکٹر محمد مصطفی الاعظمی -جو بعد میں سعودی عرب کے شہری اور ریاض میں مقیم ہو گئے تھے، اور اب سے سات مہینے قبل دسمبر ۲۰۱۷ء میں جن کی وفات ہو گئی ہے- دار العلوم دیوبند کی طالب علمی کے زمانے میں ان کے ساتھ تھے، اور ان سے ان کے بہت اچھے مراسم تھے۔ اس محبت آمیز ملاقات، اکرامِ ضیف اور معلومات افزا گفتگو کے علاوہ مولانا نے المآثر کا خصوصی زر تعاون اور بطور سوغات اپنی کچھ تصانیف عنایت فرمائیں۔

                حضرت والا کی عنایت فرمودہ کتابوں میں ایک دیوان الامام الشافعي تھی، جس کے ترجمہ وتشریح کا کام انھوں نے انجام دیا تھا۔ یہ کتاب ۲۵۶؍ صفحات پر مشتمل ہے، اور جامعہ علوم القرآن جمبوسر سے شائع ہوئی ہے۔ اشعار کے ترجمہ وتشریح کا کام سخت مشکل ہے، اس طرح کے کام کو انجام دینے کا حوصلہ وہمت وہی شخص کر سکتا ہے، جس کو زبان وبیان اور ادب ولغت پر قدرت اور دسترس حاصل ہو، اور مولانا مرحوم نے اس مشکل اور دشوار کام کو جس حسن وخوبی اور کامیابی سے پایۂ تکمیل تک پہنچایا ہے، اس کا صحیح اندازہ کتاب کے مطالعہ اور ورق گردانی کے بعد ہی ہو سکتا ہے، یہ کتاب عربی واردو دونوں زبانوں میں مولانا کی دست گاہی کی شہادت دیتی ہے۔

                دوسری کتاب جو حضرت مرحوم نے عنایت فرمائی تھی وہ ’’افکار پریشاں‘‘ کے نام سے موسوم ان کے مقالات ومضامین کا بیش قیمت مجموعہ ہے، جو ۳۸۴ صفحات پر مشتمل ہے، اور اسی سال طبع ہو کر مجلس معارف کاپودرا سے اشاعت پذیر ہوئی تھی۔ یہ کتاب بھی مولانا مرحوم کے علم وفضل، وسعت مطالعہ، تلاش وجستجو، دقت نظر، رسوخ فی العلم، تصنیف وتالیف کی بھر پور صلاحیت اور مآخذ ومراجع سے مفید اور کارآمد معلومات کا عطر کشید کر کے ان کو مربوط ومرتب طریقے سے قارئین کے سامنے پیش کرنے پر قدرت کی آئینہ دار ہے۔ احقر نے ۲۰۰۷ء میں اس کتاب کے مشمولات میں سے ایک اہم اور معلومات افزا مضمون بعنوان: ’’امام اہل سنت احمد بن حنبلؒ اور ان کی کتاب المسند‘‘ کو المآثر جلد ۱۶ شمارہ نمبر ۳ و۴ میں شائع بھی کیا تھا۔

                کاپودرا، شہر کے ہنگاموں سے دور نسبتاً الگ تھلگ مقام پر واقع ایک پر سکون اور یکسوئی پسند کرنے والوں کے لیے نہایت مناسب اور موزوں بستی ہے۔ وہاں جا کر اور مولانا سے ملاقات کر کے ہمیں ایک عجیب طرح کا قلبی انبساط حاصل ہوا،بستی کا سکون واطمینان دیکھ کر اس کے مکینوں پر رشک ہونے لگا۔ مولانا مرحوم کے ساتھ ان کے فضیلت کدے کے قریب ہی مسجد میں ہم نے مغرب کی نماز ادا کی، پھر ان سے دعا اور دوبارہ ملاقات وزیارت کی آرزو لے کر اجازت طلب کی اور واپس اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گئے۔

                حضرت مولانا کاپودروی علیہ الرحمہ سے یہ خوش گوار اور یادگار ملاقات، ان کا حسنِ سلوک، محبت آمیز رویہ، خوش اخلاقی اور خاطر مدارات کے ساتھ ان کا عالمانہ وقار، متانت وسنجیدگی، تواضع وفروتنی، سادگی وبے لوثی اور عجز وانکساراحقر کے لوح قلب پر اب تک مرتسم ہے، اور یہ ایسا نقش ہے جو شاید کبھی زائل اور فراموش نہ ہو سکے۔

                یہ سیہ کار بارگاہ رب العزت میں دست بدعا ہے کہ پروردگار عالم مولانا مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائے، ان کی قبر پر رحمت ورضوان کی بارش نازل فرمائے اور اپنے مقبول ومحبوب بندوں میں ان کا حشر فرمائے، آمین ثم آمین۔