حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب فلاحی دامت برکاتہم العالیہ کے ساتھ گزارے ہوئے آخری لمحات:

از : مفتی انیس احمد انبھیٹوی، استاذ حدیث و فقہ جامعہ رحمانیہ کھانبیہ عالیپور گجرات

            بندہ کو خادم القرآن و المساجد حضرت مولانا غلام محمد وستانوی# صاحب نے بتایا کہ مولانا عبد الرحیم صاحب کی طبیعت زیادہ خراب ہے ،آپ بھی فون کر لینا میں نے فوراً حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب فلاحی کو فون لگایا، کئی مرتبہ رنگ بجتی رہی فون ریسیو نہ ہوا، تو میں نے مفتی ریحان کو فون کیا، انہوں نے فون ریسیو فرما کر والد صاحب کی صحت کے احوال بیان کیے۔رات میں بے چینی رہی کیوں کہ مولانا عبد الرحیم صاحب کے ساتھ بات چیت نہیں ہوئی تھی صبح ہوتے ہی بندہ نے دوبارہ فون کیا۔ حضرت نے ریسو فرماکر سب سے پہلے معذرت کی کہ کل آپ کا فون آیا تھا لیکن میں ریسو نہیں کر پایا تھا ۔میں نے حضرت سے احوال دریافت کئے حضرت نے اطمینان بخش جواب دیا،پھر بندہ سے پوچھا کہ مفتی صاحب کی رشیدیہ کی جو شرح غیر مطبوعہ ہے اس کی فائل مجھے دیجیے۔میں نے کہا ان شاء اللہ میں آپ کو پہنچاوٴنگا۔پھر کافی دیر تک بات چیت ہوتی رہی،بندہ تین سال سے مستقل حضرت کے کونٹیکٹ میں تھا، جب سے حضرت مفتی عبد اللہ صاحب مظاہری پر نامرضیہ حالات پیش آئے،کوئی ہفتہ ایسا نہیں تھا جس میں حضرت سے بات چیت نہ ہوئی ہو۔ان شاء اللہ بندہ ضرور ایک مفصل احوال پر مشتمل مضمون لکھے گا،جس میں ساری چیزیں بیان کی جائیں گی ۔

            بہر حال جب حضرت نے مجھے بتایا کہ میں آج انار والا ڈاکٹر کے پاس کھروڈ آ رہا ہوں۔میں نے کہا میں ضرور بالضرور ملاقات کے لئے آونگا،عصر کی نماز سے فارغ ہوکر بندہ نے مولانا عبید الرحیم پٹیل کو کہا کہ چلیے ہم مولانا عبد الرحیم سے ملنے جا رہے ہیں۔مولانا کے ساتھ ہم گاڑی پر روانہ ہوئے ، ہاسپیٹل پہنچ کرمولانا کے ساتھ کافی دیر تک بات چیت ہوتی رہی۔وہ ہنستا ہوا چہرہ اب تک یاد ہے۔بندہ نے حضرت مفتی صاحب کی آخری درس پر چھپنے والی کتاب کا تذکرہ کیا تو مولانا نے اس کی پی ڈی ایف فائل مجھ سے دیکھنے کو مانگی،حضرت نے اس کے ایک ڈیڑھ صفحہ کا مطالعہ کیا ،یہی وہ آخری کتاب تھی جو حضرت کی نظر سے سب سے آخر میں گزر۔آخری حدیث پڑھ رہے تھے کیا معلوم تھا یہی حدیث میری زندگی کی بھی آخری حدیث ہے،پھر حضرت نے حدیث ِمسلسل بالاولیة کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ مفتی صاحب اس کے دو نام بیان فرماتے ہیں، ایک سندی نام جو کہ حدیث مسلسل بالاولیة ہیاور دوسرا حدیث ِرحمت جو متنی ہے۔پھر فرمایا بہت کم لوگ ایسی باتیں بیان کرتے ہیں۔کیا معلوم تھا اس حدیث کو پڑھ کر اب وہ خود اللہ کی رحمت میں جانے والے ہیں، پھر بندہ نے اس کتاب کی طباعت کے سلسلہ میں دریافت کیا کہ اس کو کب چھپوایا جائے ، مولانا نے بتایا کہ ابھی اس کو چھپانے میں جلدی نہ کرتو عید بعد اس کو ان شاء اللہ چھپوائیں گے ۔ پھر بندہ نے اجازت طلب کی اور وعدہ کیا کل دوبارہ حاضر خدمت ہو جاؤنگا۔لیکن رات 10 بجے کے قریب مولانا عبید اللہ صاحب پر فون آیا حضرت کی طبیعت زیادہ خراب ہے ،مولانا عبید اللہ صاحب ہاسپیٹل جلدی جلدی تشریف لے گئے۔مجھے سکون نہیں ہوا میں نے بھی مولانا عبید الباسط کو کہا ہم بھی جاتے ہیں،وہاں گئے تو دیکھا مولانا بستر پر لیٹے ہوئے ہیں،پھر تقریبا دو بجے تک ہم وہیں پر رہے۔

            پھر دو بجے گھر روانہ ہو گئے۔کیا معلوم تھا یہ مولانا کے ساتھ آخری ملاقات ہے ،آٹھ بجے بندہ لیٹا ہوا تھا مجھے اہلیہ نے اٹھایا کہ جلدی اٹھو مولانا عبد الرحیم صاحب کی طبیعت بہت خراب ہے،بندہ بھاگا بھاگا ہاسپیٹل پہنچا تو دیکھا ایک عجیب سما بن چکا تھا،رونے والوں کا ایک شور برپا تھا،کوئی اپنے والد کی جدائی پر رو رہا تھا تو کوئی اپنے چچا اور خسر کی جدائی پر رو رہا تھا تو کوئی اپنے رفیق حیات کی جدائی پر رو رہا تھا، تو کوئی مشفق و مربی دوست کی جدائی پر رو رہا تھا ،یقین ہی نہیں ہو رہا تھا مولاناہمیں داغ فراق دے گئے ہیں۔جی چاہ رہا تھا پھوٹ پھوٹ کر روئیں لیکن ایک سکتہ طاری ہو گیا تھا،سمجھ میں نہیں آ رہا تھا، کچھ دیر بعد حضرت کو رویدرہ لے جانا طے ہوا ،شیخ حنیف صاحب تشریف لائے اور فرمایا کہ غسل ہم کھروڈ میں دے دیتے ہیں۔لہذا بہت سے علماء اور شیخ حنیف صاحب نے غسل دیا اور بعد میں مولانا کو رویدرہ تشریف لے آئے۔گزشتہ مہینہ میں مولانا کے ساتھ ہم کھروڈ آئے تھے مولانا عاقل صاحب کو لیکر، آج بھی مولانا کے ساتھ ہی جا ہے رہے ہیں لیکن ہائے افسوس ! ہمیں کیا معلوم تھا دو بارہ کس کام کے لئے آنا ہوگا، حضرت مولانا عاقل صاحب نے مولانا کے بارے میں فرمایا تھا کہ مولاناکا انداز گفتگو بہت اچھا ہے ،جسے دوبارہ حضرت مولانا عاقل صاحب فون پر دوہرا رہے تھے کہ میں نے تو ان کو یہ بھی کہا تھا۔کیا معلوم تھا اس انداز گفتگو کو دیکھنے کا وقت اب ختم ہونے والا ہے،پھر حضرت کو رویدرہ تشریف لے آئے۔لوک ڈاؤن کی وجہ سے زیادہ لوگ نہیں پہنچ پائے،البتہ جولوگ پہنچے ہوئے تھے،ان کو ظہر بعد مولانا عبیداللہ کی امامت میں نماز ادا کروا کے روانہ کر دیا۔پھر عصر سے پہلے پہلے دوسری نماز جنازہ مفتی ریحان کی امامت میں ادا کی گئی۔پھر جنازہ اپنے والدین کے جوار میں قبر میں دفنا دیا گیا۔ شیخ مجتبی صاحب نے مختصر وعظ بیان کیا اور کہا کون ہے جسکا ماموں میرے ماموں جیسا ہو؟شیخ مجتبی صاحب ہی کی دعا پر ہم تدفین سے فارغ ہوئے۔ایک عجیب کیفیت بنی ہوئی تھی کہ ہم کسے چھوڑ کر جارہے ہیں، آنکھیں نم تھیں دل مغموم تھا،جھکی ہوئی آنکھوں کے ساتھ ہم گھر کی طرف روانہ ہوگئے۔اے اللہ! مولانا کے افادات کو ہمیشہ کے لئے زندہ فرما، مولانا کی خدماتِ جلیلہ ور فیعہ کو شرفِ قبولیت عطا فرما،حضرت کی قبر کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنا۔اور اعلی علیین میں جگہ عطا فرما۔آمین یا رب العالمین۔