حضرت مولانا سید واضح رشید صاحب تاریخ وسیرت اور ادب کے رمز شناس

مولانا عبد الرحمن ملی ندوی ایڈیٹر مجلہ ” النور“

            یقینا حضرت الاستاذ، موٴرخ و ادیب اور اداشناس قلم کار حضرت مولانا سید واضح رشید ندوی رحمة اللہ علیہ کی وفات پوری علمی ،ادبی اور دینی دنیا کے لیے بہت بڑا جھٹکا ہے ۔لیکن ظاہر ہے کہ اللہ کے نظام اور قانون کو کون بدل سکتا ہے؟ اور اس کی ناقابل انکار حقیقت کو کون ٹال سکتا ہے کہ دنیا جی لگانے کی جگہ نہیں ہے اور نہ ہمیشہ کے لیے مستقر ہے ۔ یہاں جو آیا وہ اپنی میعاد پوری کرکے چلتا رہا۔ جب کہ انبیائے کرام علیہم السلام اس دنیا کا ابدی حصہ نہ بن سکے تو بھلا دوسروں کے لیے دنیا کا قیام کیوں کر ممکن ہوگا ۔

            لیکن کچھ جانے والے اپنی تاریخ ، اپنا نام ، اپنا کردار اور ملت کے لیے اپنا درد چھوڑ جاتے ہیں ۔ یہی کچھ کیفیت حضرت مولانا سید واضح رشید ندوی  کے وصال سے ہوئی کہ یقینا ”موت العالِم موت العالَم “کے مصداق ہیں ۔ حضرت کے وصال سے ملت اسلامیہ کا عظیم ترین خسارہ ہوا ۔ مولانا  جہاں ایک عظیم المرتبت انسان تھے وہیں ایک مفکر ، مدبراور مشفق مربی بھی تھے ، تربیت کرنے کا فن کوئی ان سے سیکھے ۔

            عجیب انداز تربیت تھا حضرت رحمة اللہ اپنے شاگردوں کی عزت نفس اور عرفی مقام کا بھی خیال رکھتے اور عجیب انداز سے تربیت بھی کرتے تھے ۔ اسی طرح راہ سلوک واحسان کے بہت بڑے مقام پر فائز تھے۔ گرچہ حضرت کی زندگی کا یہ پہلو زمانہ سے مخفی ہی رہا یا یہ کہ حضرت نے اپنے آپ کو کھولاہی نہیں ۔

            حضرت  کی نظر تاریخ ، سیرت، ادبیات اور اسلامیات پر بہت گہری تھی ۔جو لوگ حضرت سے متعلق رہے اور جوآپ کے مزاج شناس تھے وہ یقینا جانتے ہوں گے کہ حضرت مولانا سید واضح رشید صاحب ندوی  کا قرآن کریم اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے کس قدر گہرا تعلق وربط تھا ؟حضرت  جہاں کتابوں کے مصنف وموٴلف تھے، وہیں مغربی دنیا کی فکری یلغار پر بہت نزدیک سے نظر رکھتے تھے ۔ اپنی مفکرانہ تحریروں اور مدبرانہ امور سے نہ صرف ہندستان بل کہ عرب ممالک میں بھی مشہور تھے ، ان کی تحریر کو زمانہ قدر کی نگاہ سے دیکھتاتھا ۔

            دوسری طرف حضرت نیک طبیعت ، نرم مزاج اور بلند اخلاق وکردار کے حامل تھے اور جب کوئی علمی مشورہ طلب کرتا تو اپنا کام سمجھتے ہوئے اس کی ہر طرح سے رہ نمائی کرتے ۔

            خود اس کا تب سطور نے ندوہ میں اپنے تخصص کے مقالہ لکھنے میں حضرت ہی سے مشورہ کیا تھا اور دفتری طور پر حضرت  نے ہی موضوع منتخب فرمایا تھا اور پھر پوری نگرانی بھی فرماتے رہے اور مقالہ کے اختتام پرتحسینی وتشجیعی کلمات سے بھی نوازا تھا۔

            حضرت  کی نظام تعلیم اور نصاب تعلیم دونوں پر مدبرانہ ومفکرانہ گہری نظر تھی ۔ اس لیے حضرت مولانا عبد اللہ عباس ندوی  کے بعد ندوہ میں آپ کو تعلیم کا اعلیٰ ذمہ دار بنایا گیا ۔ اس لیے علمی وادبی حلقہ آج آپ کی وفات کو امت کے بہت بڑے خسارہ سے تعبیر کررہا ہے ۔ مولانا  کی زندگی میں غرور وپندار دور تک نہیں تھا ۔ پوری زندگی تواضع ،انکساری اور بے نفسی سے تعبیر تھی ۔ قرآن مجید سے حد درجہ شغف اور گہرا لگاوٴ تھا ،کئی کئی پارے یومیہ تلاوت کا معمول تھا ، باجماعت نماز کا اہتمام تھا ، بہ قول حضرت مولانا برہان الدین سنبھلی کہ: حضرت مولانا  اپنے علمی کمالات ، دور بینی ، عربی زبان پر غیر معمولی قدرت اور حالات کا صحیح تجزیہ کرنے کی صلاحیت میں اپنے معاصر ین میں ممتاز و نمایاں تھے ۔ ان سب خوبیوں کے ساتھ حضرت کی اخلاقی بلندی ، ایثار وسادگی اور بے نفسی ہمیشہ قابل رشک تھی اور موت بھی ایسی آئی کہ فجر کی اذان کے وقت کہ ہر بندہ ایسی موت پر رشک کرے ۔

            جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا نے چند سالوں قبل اپنے احاطہ میں عالمی ادب اسلامی کا سیمینار منعقد کرنے کی پیش کش کی تو حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم اور حضرت مولانا سید واضح رشید ندوی  نے بڑی فراخ دلی اور محبت کے ساتھ پیش کش قبول فرمائی اور پھر حضرت مولانا سید رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم کی صدارت، حضرت خادم کتاب و سنت مولانا غلام محمد صاحب وستانوی کی سر پر ستی اور ناظم تعلیمات حضرت مولانا حذیفہ صاحب وستانوی کی نگرانی میں تاریخی سیمینار منعقد ہوا ، جس میں موٴرخین ومفکرین ہند وبیرون ہند نے شرکت فرمائی ،جس میں حضرت مولانا سید واضح رشید صاحب ندوی نے ایک مفکرانہ خطاب فرمایاتھا ۔حضرت مولانا وستانوی صاحب کی خدمات کو نہ صرف سراہا تھا بل کہ پورے علما برادری کے لیے آئیڈیل اور نمونہ قرار دیا تھا اور عصری کلیات اور دینی شعبہ جات ہردو کو دین ہی کا ایک حصہ قرار دیاتھا ۔

            آج ہم جامعہ برادری حضرت مولانا  کے سانحہ ارتحال پر گہرے رنج و الم کا اظہار کرتے ہیں کہ امت نے ایک عظیم دانشور اور سلیم الفکر مفکر اور رحم دل انسان کو کھودیا، جواپنی مشفقانہ طبیعت ، سادگی، منکسر المزاجی اور تواضع کا پیکر تھا ، یقینا وہ رجل رشید تھے ۔حضرت کی باتیں صاف و دل لگتی ہوتی تھیں ، آپ کے جذبات وخیالات شریعت کے قالب میں ڈھلے ہوتے تھے ۔ بس آخر میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ” مدتوں رویاکریں گے جام و پیمانہ تجھے“ ۔

اللہ تعالیٰ آپ کی خوب خوب مغفرت فرمائے اور اعلیٰ علیین میں مقام رفیع عطا فرمائے ۔آمین!

 یا ایتہا النفس المطمئنة ارجعی إلی ربک راضیة مرضیة فادخلی فی عبادی وادخلی جنتی ۔