حضرت مولاناعبد الرحیم صاحب کے چند قابل تقلید؛

 فاضلانہ اخلاق اور حسن خاتمہ

مولانا مرشد قاسمی بیگوسرائے / استاذ جامعہ اکل کوا

            حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب فلاحی کی شخصیت یقینا ایک ہمہ گیراورہمہ جہت شخصیت تھی۔ آپ کی علمی ، تدریسی ، تقریری، نظامتی اور انتظامی صلاحیتوں کے تمام اکابر ،اصاغر اور معاصرین قائل ہی نہیں، بل کہ ثنا خواں نظر آئے ہیں۔ میری حضرت مولانا کے ساتھ تقریباً ۲۸/ سالہ رفاقت رہی۔ آپ کی حیات میں کیا کیا قابل عبرت چیزیں اور لائق مدح اوصاف نظر آئے، احقر ان کو بیان کرنے سے قاصر ہے اوریہ چند صفحات بھی ناکافی ہیں،لکھنے والوں نے بہت کچھ لکھا ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ اس لاک ڈاوٴن کے زمانے میں حضرت مولانا پر جتنے مضامین لکھے گئے ، موبائل ، واٹس ایپ کے ذریعہ مضامین ارسال ہوئے ، جتنی نظمیں بنائی اور جس قدر تعزیتی خطوط اور مضامین پہنچے اور مختلف چینلوں کے ذریعے وفات کی خبر اور اخلاقی خوبیوں کا تذکرہ ہوا۔

             شاید ہماری معلومات علم کے مطابق (باستثناء حضرت …صاحب پالن پوری )اتنا کسی کی ذات پر نہیں لکھا گیا۔ اگرلاک ڈاوٴن کا زمانہ نہ ہوتااور آپ کی نماز جنازہ جامعہ میں ہوتی توشاید جنازے میں شرکت کرنے والوں کے مجمع کو سنبھالنابھی مشکل ہوتا اور جامعہ کا وسیع احاطہ ناکافی ہوجاتا۔

            وہ چند خوبیاں جن سے میں نے سبق حاصل کیا اور ہم تمام علمائے کرام کی جماعت کے لیے قابل تقلید ہیں وہ یہ ہیں:

۱- خندہ پیشانی اوربشاشت :

             ہمیشہ حضرت کو مسکراتے ہوئے پایا۔ یقینا وقت کے آپ محدث تھے۔ اور” طلاقة الوجہ صدقة“ خندہ پیشانی سے ملنا بھی صدقہ ہے ۔ اس حدیث پر عمل کی نیت سے ہمیشہ ہرایک سے مسکراکرہی ملتے، باوجود یکہ شوگر کے مریض تھے اورکبھی کبھی شوگر ۵۰۰/ کے قریب پہنچ جاتی ،لیکن مجھے یاد نہیں آتا کہ کبھی بھی خندہ پیشانی کے بغیر ملے ہوں۔ سفر کی کتنی بھی تھکن ہو ، احاطہٴ جامعہ ہی میں تشریف لاتے۔ اکثر صبح کے وقت جب اساتذہٴ کرام جامعہ میں درس کے لیے آتے تومہمان خانہ کے پاس ملاقات ہوتی۔مسکراتے اور پوچھتے:” کیا قاری صاحب ! “یہ آپ کا تکیہ کلام بن چکا تھا۔ چوں کہ جامعہ کو قرآن اورعلوم قرآن سے زیادہ مناسبت ہے اور اشاعت قرآن کو اپنا خاص ہدف اور مقصد بنایا تو ہرملنے والے سے یہی لفظ بولتے ۔ حضرت مولانا طاہر خان صاحب  مالیگانوی(سابق استاذ جامعہ اکل کوا) کی عادت بھی ہر ایک کو قاری صاحب کہہ کرخطاب فرمانے کی تھی اوریہ جملہ ارشاد فرماتے :” من دخل الجامعة صار مقرئا “ جو جامعہ میں داخل ہوگیا وہ قاری بن گیا۔

             کبھی مولانا سے ظہر بعد ملاقات ہوجاتی ، ہاتھ پکڑلیتے اپنے درالمطالعہ کی طرف لے جاتے۔ اکثر کوئی نہ کوئی قیمتی کتاب یا رسالہ پیش کرتے۔ یا جیب میں کوئی قیمتی عطر ہوتا وہ پیش کرتے۔ عطر پیش کرنا بھی زندگی کا ایک لازم حصہ تھا۔ اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت شریفہ میں ذکر آتا ہے : ” کان یحب الطیب “ خوشبو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت پسند تھی۔ تین چیزیں آپ ﷺکوبڑی محبوب تھیں۔ خوشبو، نماز اورنیک عورت۔مسکراکر ملنا صدقہ ہے،اس سے ایک مومن کا دل خوش ہوجاتا ہے، کسی کے دل کو خوش کرنا بھی عبادت ہے۔

۲- خدمت خلق اور ہدایا کا اہتمام:

             اس کا بھی آپ کو وافر حصہ ملا تھا۔ عوام تو عوام؛ کتنے طلبہ تھے جن کوآپ کی طرف سے ہفتہ واری وظیفہ ملتا۔ پانچ سو ، ہزار روپے کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ ہم علما جن کی تنخواہیں قلیل ہوتی ہیں۔ سو دوسو روپے کبھی کبھی بوجھ معلوم ہوتا ہے کسی کو دینا، لیکن حضرت مولانا  چلتے چلتے کسی طالب علم کو خاموشی سے ۵۰۰/ روپے پکڑا دیتے۔ کئی اسفار میں دیکھاکہ شاخوں کے بعض اساتذہ یاان کے بچوں کو اچھی رقم ہدیةً عنایت فرمائی۔ علما اور طلبہ پرخصوصی نظررہتی ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ۲۰۰۸ء میں میرا حج کا سفر تھا،روانگی کے وقت مجھے اپنے کمرے میں لے گئے اورتقریباً ۳۰۰۰/ یا ۵۰۰۰/ روپے عنایت فرمایا، جب کہ اس وقت صرف ۷۵/ ہزار میں حج ہورہا تھا۔ ہمارے سفر حج کے لیے یہ قیمتی ہدیہ تھا۔ میرے چھوٹے بھائی غالباً ۲۰۰۵ء میں مکة المکرمہ ”عالمی مسابقةالقرآن الکریم“ میں جامعہ کی طرف سے شرکت کے لیے جارہے تھے۔ مجھے دلی ایئر پورٹ چھوڑنا تھا، روانگی کے وقت ملنے کے بعد ۵۰۰۰/روپے اس مبارک سفر کے خرچ کے لیے عنایت فرمایا۔ اس طرح نہ جانے کس کس کے ساتھ خاموش عنایتیں ہوتی رہتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ ان خدمات کو مولانا مرحوم کے لیے صدقہ جاریہ بنائے۔

۳- فکر راحت رسانی:

             ہر ایک کوراحت پہنچانے کی فکر؛ کہ ہماری ذات سے کسی کو نفع ہوجائے اور راحت مل جائے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث” خیر الناس من ینفع الناس“ کے سچے مصداق تھے۔سفر ہو یا حضر کوشش پوری ہوتی کہ ہم اس کے کچھ کام آجائیں۔

            شاندار گاڑی پر بٹھاتے ہوئے ردیف بتاتے ہوئے کبھی عار محسوس نہ کرتے۔ اکثر اساتذہ کو چلتے ہوئے گاڑی پر بٹھا لیتے ، خصوصاً سفر میں اس کا اہتمام ضرور کرتے ۔ میں ایک مرتبہ ایک گاڑی والے کے انتظار میں جامعہ ناکہ پر کھڑا تھا، گاڑی والے نے دھوکہ دے دیا تواب میں پریشان کھڑا تھاکہ کیاکروں؟ ایک نکاح میں شرکت کرنا ضروری تھا۔ مولانا ادھر سے گزرے بلایا اور فرمایا:” کہاں جانا ہے؟ “ میں نے کہا :شہادہ ! حضرت نے بٹھایا ، پھر فرمایا : میں اندور جارہا ہوں ۔میں نے اپنے سفر کا مقصد بتایا اور حضرت کو اصرار کیا اب نکاح آپ کو پڑھانا ہے تو حضرت نے فرمایاکہ نہیں نکاح تو آپ ہی پڑھائیں گے ۔ میں تھوڑی دیر بیان کردوں گا؛چناں چہ خدیجہ مسجد شہادہ میں نکاح کی مجلس میں خطاب فرمایا،مسجد کی تعمیر جاری تھی، آپ نے ایک دروازے کی قیمت کا اعلان اپنی طرف سے کیا اور اسی مجلس میں تینوں دروازے کا بھی انتظام ہوگیا۔اس وقت ایک دروازے کی قیمت ۲۵۰۰۰/ ہزار روپے تھی۔ پھر سفر میں جانے والے اساتذہٴ کرام کے لیے سفر کے دوران مختلف اسٹیشنوں پر توشے کا انتظام یہ آپ کے لیے ایک معمولی سی بات تھی۔

۴- غیبت سے اجتناب :

             بہت سے سفر میں حضرت مولانا  کے ساتھ جانا ہوا۔زندگی کا ایک اورآخری سفر حیدر آباد کا ہوا۔ میں نے ہی ایک جلسہٴ دستار بندی کی دعوت پیش کی کہ جامعہ کے ایک ہونہار فارغ قاری شہاب الدین پورنوی حیدرآباد میں ایک مدرسہ چلاتے ہیں اور نابینا ہیں ، لیکن بڑے فعال ہیں۔ تقریباً ۲۰۰/ طلبہ اس مدرسے میں زیر تعلیم ہیں، ۱۵/ طلبہ کی غالباً دستار بندی تھی،قاری صاحب کی طرف سے میں نے دعوت پیش کی ؛ بغیر کچھ مطالبہ اور شرائط کے فوراً دعوت قبول کرلی۔ تاریخ دے دی مجھے بھی ساتھ ہی جانا تھا، لیکن میرا شولاپور کا سفر تھا، میں بہ ذریعہ ٹرین وہاں پہنچ گیا مولانا کو لینے میں ایئر پورٹ آیا اس سفر میں کافی دیر ساتھ رہنا ہوا۔ تو مولانا نے ایک سوال کیا کہ ہم سب کے سفر کی ایک خصوصیت ہے وہ بتائیں کیا ہے ؟ پھر خود فرمایا کہ غور کریں ہم میں سے کسی نے کسی کی غیبت نہیں کی۔ حضرت مولانا افتخار صاحب سمستی پوری بھی اس سفر میں موجود تھے۔لہذا ہماری مجلسوں اور سفر کا حال ایسا ہی ہو کہ غیبت اوربرے تذکرے سے پاک ہو۔

۵- اکرامِ علما واساتذہ :

             ہمیشہ علما اور اساتذہٴ کرام کا بے حد اکرام کرتے۔ جامعہ کے جلسوں کے موقعہ پر کوئی استاذ پیچھے بیٹھ جاتاتو انہیںآ گے بلواتے اور اکرام کرتے۔ شاید جامعہ کا جب کبھی بڑا پروگرام ہو ضرور حضرت کی زندکی یاد آئے گی۔طلبہ کوہنسانا ، رلانا، بروقت اشعار کہنا وہ نظامت خصوصاً سالانہ جلسے کی نظامت سب کو یاد آئے گی۔

۶- فکر مساجد:

             مساجد کو آباد کرنے کی بھی فکراتنی کہ اکثر تہجد کے وقت اپنے گھر سے تہجد ادا کرنے کے بعد طلبہ کو تہجد کے لیے اور فجر کے لیے بیدارکرنا آپ کا وصف خاص تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ دیہاتوں اور بہت سے شہروں میں تعمیر مساجد کی فکر،ہمہ تن آپ کو ستاتی رہتی تھی۔ آج کتنے دیہاتوں اور شہروں میں مولانا کے ذریعے تعمیر مساجد کی فکروں کی آثار موجود ہیں۔ قریب میں آپ ”کوکر منڈا“ چلے جائیں ،وہاں ایک عا لی شان مسجد کھڑی ہے۔ آپ نندور بار جائیں توریلوے اسٹیشن سے قریب” پٹیل وا ڑی کالونی“ میں مسجد عمر موجود ہے۔

۷- فکر قرآن :

             قرآن کریم سے آپ کو والہانہ لگاوٴ تھا۔ مسابقة القرآن کے موقع پر یہ صفت اچھی طرح نظر آتی تھی ۔ ملک کے مختلف علاقوں کا سفر مسلسل کئی کئی راتوں کو جاگنا،پھر گھنٹوں جج کی حیثیت سے پروگرام میں بیٹھے رہنا، یہ مولانا ہی کا حصہ تھا۔ ہم لوگ کبھی حکم ہوتے تو کافی تھکن ہوجاتی، لیکن حضرت مولانا میں ہم نے تھکن کے آثار کبھی محسوس نہیں کیے۔ نہ آواز میں کوئی ایسی خرابی اور کم زوری نظر آتی ۔ مسابقة القرآن کی مبارک خدمات کی برکت سے کئی کتابیں ؛مذکرات تفسیریہ کے نام سے آپ نے تیار کیں اور کروائیں۔ یقینا سب اعمال آپ کے لیے صدقہ جاریہ ہیں۔

حسنِ خاتمہ :

            درسی مصروفیات اورقرآن کریم سے والہانہ لگاوٴ کا نتیجہ تھاکہ جب ”کورونا“ کی وجہ سے پورے ملک بل کہ پورے عالم میں لاک ڈاوٴن ہوا۔ جامعہ کے طلبہ گھر نہیں جاسکے تو بڑا اچھا سلسلہ شروع کیا۔ مغرب بعد طلبہ مسجد میمنی میں جمع رہتے ، امام صاحب مغرب کی نماز میں جن سورتوں کی تلاوت کرتے اس سے متعلق طلبہ کو تفسیر لکھنے کو کہتے۔ اچھا لکھنے والوں کو اگلے ہی دن مغرب بعد ۵۰۰/۵۰۰/روپے انعام سے نوازتے۔ کئی دنوں تک یہ سلسلہ جاری رہا۔

             اخیر میں وفات سے صرف دو دن پہلے فرمایا کہ آج طلبہ کو سورة النصر کی تفسیر لکھ کر لانا ہے۔ ﴿اذا جاء نصر اللہ والفتح ﴾ یہ وہی سورت ہے، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی طرف اشارہ ہے۔بہت سے طلبہ نے تفسیر تیار کی ۔ انتظار میں رہے، لیکن اچانک مولانا کی طبیعت خراب ہوگئی۔ الٹی ہوئی حضرت کو اسپتال لے جایا گیا، اور ایک دو دن بعد آپ کی روح قبض ہوگئی ۔

            اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی خصوصی جوار رحمت میں جگہ نصیب فرمائے اور ہم علما کو آپ کے نقش ِقدم پر چلنے کی توفیق نصیب فرمائے۔

            یہ مضامین آپ کی وفات ہی کے وقت ذہن میں آئے تھے، لیکن سپرد قرطاس کرنے میں۴/ماہ کاعرصہ لگ گیا۔ جب کہ ” شاہراہ علم “ چھپنے کو تیار ہے ،اس وقت عشا ادا کرنے کے بعد عربی ششم (ب) کی کلاس میں بیٹھ کر یہ مضمون لکھ رہا ہوں، اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔

 تغمدہ اللہ بغفرانہ واسکنہ فسیح جناتہ۔