حضرت مفکر ملت : خدمات وخصوصیات کے آئینے میں

محمد اقبال فلاحیؔ ندویؔ مدنیؔ

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم ، أما بعد!

                فقد قال اللہ تبارک وتعالیٰ : {اولٰئک الذین ہدی اللہ فبہدی ہم اقتدہ }

                 وروی عن الإمام أبی حنیفۃ رحمہ اللہ تعالیٰ قولہ :

                ’’ الحکایات عن العلماء ومحاسنہم أحب إلی من کثیر من الفقہ فإنہا أخلاق القوم وأوصافہم ‘‘

وللہ در من قال : الحکایات جند من جنود اللہ یثبت اللہ بہا قلوب أولیائہ ۔

                آیت کریمہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے انبیا کا تذکرہ کرنے کے بعد ان کے طریق کی اقتدا کرنے کو فرمایا ہے اور چوںکہ علما انبیا کے وارث ہیں اور وہ انبیا کے طریقوں پر ہوتے ہیں؛ اس لیے ضمنًا گویا کہ اس آیت میں کتاب وسنت کے پیرو کار علما کی خوبیوں کو اپنانے کی بھی دعوت دی گئی ہے اور امام ابو حنیفہ ؒ نے فرمایاکہ: علما کے واقعات اور ان کی خوبیاں بیان کرنا مجھ کو بہت سی فقہی بحثوں میں پڑنے سے زیادہ محبوب ہے ۔

                اور جیسا کہ سلف نے فرمایا : علما کے واقعات اور ان کی باتیں ایک طرح سے اللہ تعالیٰ کے لشکروں میں سے ایک لشکر ہے، جس سے وہ اپنے نیک بندوں کے دلوں کو ثابت رکھتا ہے ۔

حقیقی خراجِ عقیدت :

                تو آئیے کچھ وقت ہم اس مقبول بارگاہ ، راسخ عالم دین، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے وارث، داعی الی اللہ ، مصلح ومربی جلیل مفکر ،الحاج فضیلۃ الشیخ، رئیس الجامعہ حضرت مولانا عبد اللہ صاحب کاپودرویؒ کی کچھ روح پرور، منجمد طبیعتوں کو مہمیز دینے والی اور اہل علم کا حوصلہ بڑھانے والی باتوں اور یادوں کا ذکر خیر چھیڑ کر ان کو اپنی زندگی میں اپنا نے کا عہد کرکے حضرت و الا ؒ کو حقیقی خراج عقیدت پیش کریں ۔

لاکھوں عمروں کا ثواب :

                مشہور زماں مصری شاعر شوقی ؒ کا شعر ہے

دقات قلب المرء قائلۃ لہ

إن الحیاۃ دقائق وثوان

فارفع لنفسک قبل موتک ذکرہا

فالذکر للإنسان عمر ثان

                انسان کے دل کی دھڑکنیں اس کو پکار پکار کر ندا دیتی رہتی ہیں کہ زندگی چند منٹوں اور لمحات سے عبارت ہے؛اس لیے تو اپنی موت سے پہلے کچھ کارہائے نمایاں انجام دے کر چھوڑ جا، اس لیے کہ انسان کے لیے ذکر خیر نئی زندگی ملنے کے ہم معنی ہے ۔

                حضرتؒ بہ تاریخ ۲۵؍ شوال بروز سہ شنبہ ۱۴۳۹ھ مطابق ۱۰؍ جولائی ۲۰۱۸ء اپنے لاکھوں چاہنے والوں کو داغ مفارقت دے کر اس دار فانی سے دار جاودانی کی طرف اپنی زندگی بھر کی مخلصانہ دینی ، علمی ، دعوتی، تربیتی ، ملی اور رفاہی مساعی جمیلہ کے برگ وبار وصول کرنے کے لیے اگر چہ رحلت فرماگئے اور اب ہمارے درمیان اپنے جسمِ اطہر اور فقس عنصری کے ساتھ نہیں رہے ،لیکن اپنے پیچھے کارہائے نمایاں اور حسین علمی ودینی خدمات کا مشام جان کو معطر کرنے والا حسین گلدستہ چھوڑ گئے ہیں،جس کی خوش بو صدیوں تک پھیلتی رہے گی اور علم دین اور خدمت دین کے لاکھوں نہیں ؛بل کہ کروڑہا متوالے اس سے فائدہ اٹھاتے رہیںگے؛ یوں ان کو لاکھوں عمروں کا ثواب ملتا رہے گا ۔ان شاء اللہ تعالیٰ !

خوبیاں اور محاسن:

                حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے بے شمارخوبیوں سے نوازا تھا ،جن کے بارے میں لکھنے والوں نے ’’ گلدستۂ محبت ‘‘ نامی کتاب میں لکھا ہے اور آئندہ بھی لکھیںگے اور بیان کرنے والوں نے تعزیتی جلسوں میں بیان کیا اور آئندہ بھی ان کا ذکر خیر چھیڑ کر خوش بوپھیلائیںگے ۔ درحقیقت آپ نے اپنی زندگی کو دین کی سربلندی ، علم دین کی نشرو اشاعت ، مختلف شعبہ ہائے دین کے رجال کار تیار کرنے کے لیے وقف کردی تھی ۔ خدمت دین کا ہر شعبہ اور میدان آپ کی خدمت ، توجہات اور مشورورں سے مالا مال تھا۔

باذوق اور راسخ عالم دین :

                وہ با ذوق اور راسخ عالم دین تھے۔جامعہ ڈابھیل اور دیوبند کے علمی سوتوں سے قابل اور مخلص اساتذہ کرام کی رہبری اور شفقتوں کے سایوں میں اپنی علمی پیاس بجھائی ۔ حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ نے خود اپنی کتاب ’’رشد و ہدایت کے منار‘‘ میںان عنایتوں ، شفقتوں ، صحبتوں اور تعلقات کا تذکرہ کیا ہے۔ آپ نے درس نظامی میں مقررہ کتابیں باربار پڑھی اور پڑھائی ہیں ۔ مختلف علوم و فنون کی کتابیںدنیا کے گوشہ گوشہ سے تلاش کرکر کے خرید خرید کر پڑھی ہیں ، جن کتابوں کا پورا ایک مکتبہ علمیہ تیار ہوگیا ۔ اور عادت کے مطابق مسلسل مطالعہ سے حاصل ہونے والا علم ان کی ذات تک محدود نہ رہے، بل کہ دوسروں تک بھی اس کی خوش بو پھیلے، اس لیے ان کتابوں کا حوالہ دے کر اور اکثر دوسروں کو عاریتہ دے کر اس علم کو عام کرنے کی کوشش کرتے رہے ۔ وہ ان علمی کتابوں کی اولاد کی طرح حفاظت کرتے ، خوب صورت الماریوں میں ترتیب سے سجا کر ان کی ملاقات اور زیارت کرنے والے علمی ذوق رکھنے والے مہمانوں کو لذیذ خوان طعام وشراب سے خوشی خوشی لطف اندوز کرنے کے بعد ہشاش بشاش اور درخشندہ چہرہ کے ساتھ ان کتابوں کا معاینہ کراتے ۔ دیکھنے والوں کو ایسا محسوس ہوتا گویا حضرت والا مہمانوں کو مادی لذیذ دسترخوان سے محظوظ اور متمتع کرنے سے زیادہ اپنے اس خوب صورت مکتبہ علمیہ کی شکل میں لگائے ہوئے علمی دسترخوان پر لاکر ان کی علمی روحانی بھوک و پیاس بجھا کر زیادہ خوش ہورہے ہیں ۔

                حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کی علمی دریا دلی اور باذوق علمی آدمی تیار کرنے میں ان کے شوق و ذوق کا اس وقت عروج دیکھنے کو ملا، جب آپ نے لاکھوں کی مالیت کی علمی کتابوں کا یہ قیمتی مکتبہ ان کے نام سے موسوم ’’ شیخ عبد اللہ کاپودروی اکیڈمی ‘‘ کو وقف کردیا ۔اور تشنگان علم کے لیے ایک زمزم آبی نما سبیلِ سلسبیل چھوڑ گئے۔ ’’سقاہ اللہ تعالیٰ من حوض کوثر بید نبیہ صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘

مخلص داعی الی اللہ :

                حضرت والا مرحوم ایک مخلص داعی الی اللہ تھے۔دعوت دین کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے ۔ دعوت وتبلیغ سے تعلق رکھنے والے حضرات تبلیغی اجتماعات میں آپ رحمۃ اللہ علیہ کو لے جاتے ،آپ ؒ ان کو صحیح مشورے دیتے اور اس کار خیر میں عملًا بھی حصہ لیتے ۔ ہم نے حضرت مولانا اسماعیل گودھروی دامت برکاتہم کی زبانی سنا کہ ان کا پہلا چلہ حضرت والا ؒ کے ساتھ مالیگاؤں دھولیہ میں لگا۔ظاہر ہے حضرت والا نے اپنی عادت کے مطابق ضرور ان کی مربیانہ اورداعیانہ تربیت کی ہوگی ۔ مولانا اسماعیل صاحب دامت برکاتہم کو اس چلہ کی رو داد مزہ لے لے کے سناتے ہوئے بار بار سنا ہے ،اگر دعوتی بیان میں کسی داعی سے چوک ہوجاتی تو نرمی اور حکمت سے ان کو سمجھاتے ۔ ایک مرتبہ بیان کرنے والے نے بیان میں یہ کہہ دیا کہ تبلیغی تحریک سے پہلے ہندستان میں کوئی دعوتی کام نہیں ہوا تو حضرت مولانا ؒ نے ان کو ہندستان کی اسلامی تاریخ کے حوالوں سے بتایا اور سمجھایا کہ کام ہوا ہے ۔ شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی ؒ ، سید احمد شہید ؒ اور شاہ ولی اللہؒ جیسے مشائخ کے دعوتی واصلاحی کارنامے بیان کرکے ان کو نرمی سے سمجھایا ۔

                ۱۹۹۳ء میں کاپودرا میں یا ’’ والیہ ‘‘ تحصیل کے کسی گاؤں میں علاقہ کی دینی پسماندگی کو مد نظر رکھتے ہوئے گجرات کا تبلیغی اجتماع ہوا؛ ایسی حضرت والا ؒ کی تمنا تھی اور اس سلسلہ میں مشورہ کرنے کے لیے کاپودرا میں علاقہ  کے ذمہ داروں کا اجلاس رکھا تھا۔ حضرت والا ؒ نے بڑے شد ومد سے بیان کیا کہ اجتماع والیہ کے علاقہ میں ہو ، لیکن اس مشاورتی جلسہ میں ترکیسر والے بازی لے گئے اور اجتماع ترکیسر میں طے کرایا ،ہم نے بھی ترکیسر والوں کی بات کی تائید کی تھی ۔ حضرت والا نے مسکراتے ہوئے مجھ سے فرمایا تو نے بھی ہماری تائید نہیں کی ۔ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ حضرت والا دعوتی کام سے بھی دل چسپی لیتے تھے ؛اپنے اہتمام کے زمانہ میں دہلی نظام الدین سے مدرسہ کے سالانہ جلسہ سے ـپہلے جو اکابر تبلیغ طلبہ کی تشکیل کے لیے آتے ، ان کا خوب اکرام فرماتے اور اپنے گھر لے جاکر ان کی خوب خاطر مدارات فرماتے ، طلبہ کے جماعت میں نکلنے سے بہت خوش ہوتے ۔

بہ حیثیت مفکر ملت :

                آپ ؒ کا فکر بہت بلند تھا ۔ اسلامی تاریخ کے نشیب و فرازاور اتار چڑھاؤ سے بڑی واقفیت رکھتے تھے ۔ داعی الی اللہ اور اسلامی مفکر کے لیے اسلامی تاریخ سے واقف ہونا ضروری ہوتا ہے ۔ گویا کہ حضرت مولانا سید علی میاں ؒ کی مشہور زماں کتابیں ’’ عروج و زوال ، تاریخ دعوت و عزیمت ، اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش ‘‘کے اکثر مضامین آپ ؒ کو یاد تھے ۔ مشہور مقولہ’’ الجنس یمیل الی الجنس ‘‘ کے مطابق آپ ؒ چوں کے مفکر انہ اور مدبرانہ ذہن رکھتے اور تاریخی مذاق کے مالک تھے ؛اس لیے حضرت والا ؒ نے حضرت مولانا علی میاں ؒ کی تالیف کردہ کتابیں داخل نصاب کیں ، ان کی کتابیں منگواکر پڑھتے ، طلبہ کو دیتے ۔ آخر میں تو حضرت کی کتابوں کا پورا سیٹ منگوایا اور اس کو اپنے مکتبہ میں الگ خانہ میں سجا کر ’’ ابو الحسنیات ‘‘ کے نام سے موسوم کیا ۔ مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں ؒ کی کتابوں کے مطالعہ، ان کی بابرکت صحبتوں اور ان سے دیرینہ خط و کتابت کے سلسلہ نے حضرت والا ؒ کوبھی مفکر ملت بنادیا ۔

عالمی احوال سے واقفیت :

                وہ عالم اسلام اور دنیا میں پھیلی ہوئی ملت اسلامیہ پر گہری نظر رکھتے اورعالمی احوال سے بھی واقف رہتے ۔ فرق ضالہ ، باطل تحریکات اور اسلام مخالف دشمنوں کی ریشہ دوانیوں سے نہ صرف مطلع رہتے ،بل کہ ان کے توڑ اور اثرکو کم کرنے کے ـلیے طریقے اور نسخے بتاتے ۔ فلاح دارین کے طلبہ ایسے باطل نظر یات اور دشمنوں کی اسلام مخالف چلائی ہوئی اسکیموں اور ازموں سے واقف رہیں؛اس کے لیے نصاب تعلیم میں ’’الغزوالفکری‘‘ اور ’’مقارنہ الأدیان ‘‘جیسے مضامین داخل کرائے ۔ دارالعلوم میں اسلام میں عورت کا مقام ، قادیانیت اور شیعیت جیسے عناوین پر اس میدان میں ماہر اور سرگرمِ عمل شخصیات کو مدعو کرکے سیمینار کرائے۔

                جب ۱۹۷۹ء میں ایران میں شاہی نظام ختم ہوا اور شیعیت نے زور پکڑا، تو طلبہ کو اس فن سے واقف کرنے کے لیے کتابیں منگوائیں ۔ اس سلسلہ میں حضرت مولانا منظور نعمانی ؒ کی تالیف کردہ کتاب ’’ اسلام اور شیعیت ‘‘ کو خوب عام کیا ۔ طلبہ کو کتابی شکل میں جو سالانہ انعام دیاجاتا تھا اس انعام میں اس کتاب کو شامل کیا۔ اس زمانہ میں دارالعلوم میں’’ النادی العربی ‘‘ کے پلیٹ فارم سے عربی رسالہ ’’ صوت الحق ‘‘ نامی نکلتا تھا۔ حضرت ؒ نے اس کے لیے مجھ سے شیعیت اور سبائیت کے رد میں اداریہ لکھوایا ۔

                ۱۹۹۱ء میں جب پہلی خلیجی جنگ ہوئی اوراس میں عربوں کی شکست ہوئی اور ان کی عسکری کمزوری اور بے بسی سامنے آئی، تو مجھ سے عربی زبان میں آیت قرآنیہ {وأعدو لہم مااستطعتم}کی روشنی میں بعض عرب ملکوں کے متعلقہ اداروں کو عربی زبان میں خط لکھوایا ۔ اورعربوں کی عسکری طاقت کو مؤ ثر ، منظم اور مضبوط کرنے کا مشورہ دیا ۔

مختلف زبانوں کے ادیب :

                آپ ؒ ہماری متداول زبانوں عربی ، اردواور گجراتی پر اچھی پکڑ رکھتے تھے ۔ آپ ؒ جہاں ان زبانوں میں شیریں بیان خطیب و واعظ تھے ، وہیں ان زبانوں میں قلم کار بھی تھے ۔عربی، اردو اور گجراتی میں لکھی ہوئی آپ کی کتابوں میں اور صدائے دل کی چار جلدوں میں آپ ؒ کے بیان فرمودہ بیانات اس کے جیتے جاگتے شواہد موجود ہیں ۔

بہ حیثیت عربی ادیب :

                آپ ؒ پورے گجرات میں خاص طور پر اور ہندستان میں عموماً جو عربی زبان کا صاف ستھرا ذوق رکھنے والے معدودے چند ادبا پائے جاتے ہیں ، ان میں سے ایک تھے؛ چوں کہ عربی زبان کتاب وسنت اور اسلامی  تہذیب وثقافت کی زبان ہے ، حضرت ؒ کو اس سے حد درجہ محبت تھی ،اس کی تعلیم و ترویج اور طلبہ میں عربی لکھنے، بولنے اور مافی الضمیر کو عربی میں ادا کرنے کی صلاحیت پیدا ہو ، اس پر خوب زور دیتے تھے ۔ مدارس اسلامیہ میں طلبہ کے سامنے ہونے والا آپ کا کوئی بیان عربی زبان میں ہر قسمی استعداد پیدا کرنے پرزور دینے سے خالی نہیں ہوتا تھا۔ فلاح دارین کے طلبہ میں عربی کا بہترین ذوق پروان چڑھے اس کے لیے خصوصی اہتمام کیا ۔ اسلامی عربی مصادر کی فراہمی کے لیے انہوں نے عرب ممالک کے دورے کیے اور وہاں کے تجارتی کتب خانوں سے چن چن کر بہت قیمتی اسلامی ادبی کتابوں کا ذخیرہ فلاح دارین کے کتب خانہ میں جمع کرا کے اس کو مدارس اسلامیہ میں پائے جانے والا مکتبوں میں معیاری مکتبہ بنایا ۔

                حضرت ؒ اس کتب خانہ سے خود کتابیںنکال نکال کر طلبہ کو پڑھنے کے لیے دیتے، چھٹیوں میں محنتی طلبہ کو ان کے بعض مضامین کا اردو میں ترجمہ کرنے کا مکلف فرماتے ۔ کتب خانہ میں عربی کے جو مجلات اور جریدے آتے وہ طلبہ کو پڑھنے کے لیے دیتے ۔ایک مرتبہ تو جتنے عربی مجلات اورجرائد عرب ممالک میں چھپتے تھے اور سعودی ، مصری اور کویتی سفارت خانوں میں آتے تھے ان سفارت خانوں میں کام کرنے والے اپنے علمی دوستوں کے توسط سے ان کو منگوایا اور فلاح دارین میں ’’ معرض ‘‘ یعنی نمائش قائم کرکے نہ صرف فلاح دارین کے طلبہ کو ان سے مطلع کیا ، بل کہ قرب و جوار کے مدارس کے باذوق طلبہ بھی کو دعوت دے کر ان کو بھی ان مجلات سے واقف کرایا ۔

فلاح دارین میں النادی العربی کا قیام :

                سر زمین گجرات پر پائے جانے والے مدارس میں فلاح دارین کو یہ شرفِ اولیت حاصل ہے کہ طلبہ میں عربی بولنے لکھنے کی صلاحیت پیدا کرنے کے لیے’’ النادی العربی‘‘ نامی عربی انجمن کا قیام ۱۹۶۷ء میں سب سے پہلے عمل میں آیا ۔ جس کی تاسیس کا سہرا حضرت والا ؒ کے سرہے اور اس کے نشاطات اور سرگرمیوں اور پروگراموں کو چلانے کے لیے حضرت والاؒ نے ادیب زماں حضرت مولانا وحید الزماں کیرانوی ؒ کے ایک مایہ ناز شاگرد حضرت مولانا نور محمد دیوریاوی قاسمی دامت برکاتہم کو مدعو کیا ۔ عربی میں لکھنے بولنے کی مشق کے سلسلہ میں اس ناچیز کو بھی ان کا مشفقانہ تعاون حاصل رہا ۔

                استاذ محترم حضرت مولانا نور محمد صاحب اس وقت مکۃ المکرمہ میں مقیم ہیں اور اپنے کارو بار کے ساتھ عربی میں تصنیف کا کام بھی فرماتے ہیں ۔ ’’ ادام اللہ فیوضہم ‘‘

عربی کا ذوق بنانے میں میرے ساتھ خصوصی عنایت کا معاملہ :

                یہ ناچیز چوں کہ زمانہ طالب علمی میں حضرت والا ؒ اور مشفق اساتذہ کرام کے توجہ دلانے سے عربی بولنے ، لکھنے اور سیکھنے میں دل چسپی لیتا تھا ۔ اورالنادی العربی کے پروگراموں میں نمایاں طور پر حصہ لیتا تھا ، تو حضرت والاؒ نے مجھ کو اپنی خصوصی عنایتوں سے نوازا اورعربی زبان میں میرا کچھ ذوق بن جائے اس کے لیے قدم قدم پر رہنمائی کی ۔ ہم جب عربی کے ابتدائی درجات میں تھے اور کوئی استاذ صاحب چھٹی پرہوتے تو دفتر اہتمام میں ہم کو طلب فرماتے ۔ سبق یا آموختہ سنتے اور صرفی نحوی سوالات کرتے ۔ اگر ہم صحیح جوابات دیتے تو بہت خوش ہوتے ورنہ تحقیق کے لیے فرماتے ۔اللہ کے فضل سے میںاکثر صحیح جوابات دے پاتا یا تحقیق کرکے بتاتا ، اس لیے حضرت والا ؒ بھی خصوصی توجہ فرماتے رہتے ۔

                اچھی اچھی عربی کتابیںاور رسائل مطالعہ کے لیے عنایت فرماتے ۔ عبد اللہ بن مقفع کی ’’ کلیلۃ دمنۃ ‘‘ دکتور احمد امین ؒ کی ’’ زعماء الاصلاح، حیاتی ، إلی ولدی‘‘ مکہ سے شائع ہونے والا عربی مجلہ ’’رابطہ العالم الاسلامی ‘‘ مجلہ ’’ الحج‘‘ اور بغداد سے شائع ہونے والا ’’ التربیۃ الاسلامیۃ ‘‘ ندوہ سے شائع ہونے والا ’’ البعث الاسلامی ‘‘ اور ’’ الرائد ‘‘ جمعیۃ العلماسے شائع ہونے والا مجلہ ’’الکفاح‘‘ وغیرہ۔ رسائل اور دیگر علما وادبا ئے معاصرین کی کتابیں پڑھنے کے لیے دیتے۔ میں کبھی کبھی حضرت مولانا سید ابو الحسن علی میاں ؒ کی ’’ ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمین، الصراع بین الفکرۃ الغربیۃ والفکرۃ الاسلامیۃ ‘‘ وغیرہ کتابوں سے کچھ صفحات دفترمیں جا کر سنا تا۔ النادی کے پروگراموں کے لیے جو تقریریں اورمکالمات لکھتا ان کی تصحیح کراتا تو آپ بہت مسرور ہوتے اور مناسب رہنمائی فرماتے ۔ عرب شخصیات اور اداروں کو بھیجے جانے والے خطوط مجھ سے لکھواتے ، النادی کے پروگراموں میں شرکت کے لیے مدعو علمی شخصیات کے لیے عربی میں سپاس نامے تیار کراتے ۔ یہ سلسلہ ۱۹۹۳ء میں فلاح دارین سے حضرت والا ؒ کے ضابطہ کی علیحدگی اور اس کے بعد بھی کئی سالوں تک جاری رہا ۔ ہم جو کچھ ٹوٹی پھوٹی عربی میں لکھنے اور بولنے کے قابل ہوئے اس میں حضرت والا ؒ کی توجہات کا بڑا دخل ہے۔

                مجھ ناچیز میں عربی کا مزید ذوق پروان چڑھے اس کے لیے بندوبست کرکے دارالعلوم ندوۃ العلما  میں عربی ادب کا کورس کرنے کے لیے بھیجا ۔ وہاں کے ذمہ داران اور اساتذہ ٔ کرام کو میری طرف خصوصی توجہ دینے کے سلسلہ میں خطوط لکھتے رہتے ،جس سے مجھ کو وہاں کے مایۂ ناز اساتذۂ کرام کی خصوصی عنایتیں حاصل رہیں ، ان اساتذۂ کرام نے ہی جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ جانے والے طلبہ میں میرا انتخاب کیا ۔ فجزاہم اللہ تعالیٰ احسن الجزاء

                چار سال جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں گزارنے کے بعد فلاح دارین میں میرا تقرر فرماکر مجھ کو ممنون کیا ۔ حضرت والا ؒ کو النادی کی سرگرمیوں کو فعال بنانے اور نصاب میں نئے مضامین داخل کرنے کے سلسلہ میں جو بھی مشورے دیئے حضرت والا ؒ نے خوردوں کی ہمت افزائی کرنے کی اپنی عادت کے مطابق ان مشوروں کو قبول کیا ۔

بہ حیثیت مصلح ومربی :

                حضرت والا ؒ ایک بڑے مصلح و مربی تھے۔ بزرگوں کی صحبتوں سے مستفیض ہوئے ۔ حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ؒ ، حضرت شیخ زکریا ؒ، حضرت مولانا سید علی میاں ندوی ؒ ، حضرت مولانا مسیح اللہ خان صاحب ؒ ، حضرت مولانا علامہ قاری صدیق باندوی ؒ وغیرہ اکابرین سے مراسلانہ مراسم رہے ۔ ان کی صحبتیں اٹھائیں اور بہت سوں نے ان پر اعتماد کرکے ان کو خلعت خلافت سے نوازا۔ کچھ سال رمضان المبارک میں اپنے وطن کاپودرا میں خانقاہی نظام بھی چلایا ۔ ان دنوں عشا و تراویح کے بعد معتکفین اورقرب و جوار سے آنے والوں کو اپنے اصلاحی بیانات سے نوازتے ، شادی بیاہ ، اصلاح معاشرہ ، مدارس ومکاتب کی سنگ بنیاد اوران کے سالانہ جلسوں کی مناسبت سے عوام میں بیان فرماتے ۔ اپنے بیانوں میں عقائد واخلاق کی درستگی وصفا ئی معاملات پرو زور دینے کے ساتھ آنگنوں اور محلو ں کی صفائی ستھرائی پر بھی زور دیتے ۔فضول خرچی ، نام و نمود ، تضیع اوقات وغیرہ جیسی سماجی برائیاں چھوڑنے کی تاکید فرماتے ۔

سماجی خدمات:

                آپ سماج سیوک بھی تھے ۔ اسپتال ،عصری اسلامی اسکول وغیرہ اورر فاہ عام کے کام کرنے والوں کی ہمت افزائی فرماتے ، اپنے گاؤں کاپودرا میں ایک معیاری عصری اسلامی اسکول قائم کیا ۔ ۲۰۰۱ء میں کچھ بھوج میں جب زلزلہ آیا تومتاثرین کی سازو سامان بھیج کر کافی امداد فرمائی ۔ قومی فساد ، سیلاب یا زلزلہ جیسی ناگہانی آفتوں سے متاثر لوگوں کی امدادکے لیے علاقہ میں ایک رفاہی انجمن قائم کی ، نوجوانوں کا ذہن دینی بنے ، ان میں اسلامی اخلاق وتہذیب آئے اس کے لے مختلف علاقوں میں دینی کتابوںکی لائبریریاں قائم کرنے کی فکر کی ۔ آپ ؒ ہمیشہ ایسے کاموں کے افتتاحی اجلاسوں میں یہ حدیث سناتے ’’ الخلق عیال اللہ وأحب الناس الی اللہ انفعہم لعیالہ ‘‘ اور فرماتے ’’ خیرالناس من ینفع الناس ‘‘ ۔

۲۷؍ سالہ دور اہتمام :

                حضرت والا کا سب سے بڑا کار نامہ؛ جس نے آپ کو دنیا میں چمکایا اور مفکرِ ملت اور تعلیمی رفارمر بنایا، وہ فلاح دارین کا آپ ؒ کا دور اہتمام ہے ۔جس مدت میں آپ نے فلاح دارین کو شبانہ روز کی فکروں اور کاوشوں سے ترقی کے بام عروج پر پہنچایا ،آپ نے اس میں تدریسی خدمات انجام دینے والے ہر فن کے ماہر اساتذہ جمع کیے، مختلف شعبے اور طلبہ کی انجمنیں قائم کیں ، فلاح دارین میں شعبۂ قرأت وتجوید کا قیام اورقرأت سبعہ کے دروس کو شروع کرایا ؛یہ آپ ؒ کی زبردست سنت حسنہ ہے ۔سبعہ کا درس شروع ہو،اس کے لیے ماہر فن قاری کی خدمات حاصل کرنے کے لیے آپ نے لمبا سفر کیا ، جس میں آپ کو استاذ القرأت حضرت قاری مقری انیس صاحب ؒ جیسا ماہر فن اور استاذ کریم دریافت ہوا ،اس طویل سفرکی روداد آپ اپنے البیلے انداز میں سناتے رہتے تھے ۔ گجرات میں بل کہ پورے ہندوستان میں فن تجوید وقرأت کی جو نشأۃ ثانیہ ہوئی ہے ، اس میں حضرت والا ؒ کی توجہات اور کوششوں کا بہت بڑا حصہ شامل ہے ۔ اس سے متعلق اساتذۂ کرام حضرت قاری مقری انیس صاحب ؒ ، حضرت قاری عباس دھرم پوری ؒ، حضرت قاری صالح صاحب دامت برکاتہم اور حضرت قاری انیس ؒ کے مایہ ناز شاگرد حضرت قاری مقری صدیق احمدصاحب سانسرودی دامت برکاتہم کی ہمت افزائی اورحوصلہ بڑھاتے رہے اور الحمد للہ آج سیکڑوں قرائے حفص وسبعہ وعشرہ ہندستان اوربیرون ملک میں اس فن کی نشرواشاعت میں لگے ہوئے ہیں ۔ دعا ہے کہ یہ سب خدمات اللہ تعالیٰ حضرت کے لیے صدقہ جاریہ بنائے ۔

عربی زبان کے بارے میں خدمات:

                اسی طرح فلاح دارین میں عربی زبان سکھانے والے ماہر فن اساتذہ ٔ کرام کی خدمات حاصل کیں اور النادی العربی جیسی انجمن قائم فرمائی،جس کی بہ دولت آپ کے ذوق عالی اور خاص نہج و طریقہ کار پر کام کرنے والے عربی زبان کے باذوق اورقابل اساتذۂ کرام تیار ہوگئے ؛جو گجرات کے مختلف مدارس میں عربی کی تعلیم دے رہے ہیں ۔ بہت سے مدارس میں اردو انجمن کے ساتھ النادی العربی یعنی عربی انجمن کا قیام بھی عمل میں آیا ہے ،جس کے تحت طلبہ میں عربیت کا ذوق پیدا کرنے اوربڑھانے کی محنتیں ہورہی ہیں ۔ اور دھیرے دھیرے عربی میں لکھنے اور کلام کرنے والے اساتذہ تیار ہورہے ہیں۔

                یہ ناچیز تقریباً ۲۰؍ سالوں سے گجرات کے مختلف مدارس میں ان کے نادی عربی کے سالانہ جلسوں اور مسابقتی پروگراموں میں بہ حیثیت مہمان خصوصی یا حکم کے مدعو کیا جاتا ہے اور پروگرام کے اختتام پر موقع محل کے مناسب حال عربی میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے کلمات پیش کرتا ہے ۔ عربی زبان کی تعلیم اور اس میں ہرقسمی مہارات طلبہ میں پیدا ہو، اس سلسلہ میں حضرت والاؒ سے جو کچھ سیکھا اس کی روشنی میں اپنے معروضات اور تجربات پیش کرتا ہے ، جس سے طلبہ کو فائدہ ہوتاہے ۔  والحمد للہ علی ذالک !

                اور جیسا کہ بیان کیا کہ دھیرے دھیرے گجرات کے مدارس میں عربی زبان کوبہ حیثیت زندہ زبان پڑھانے کا رجحان پیدا ہورہا ہے۔ طلبہ بھی عربی سے دل چسپی لینے لگے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ جو دھیرے دھیرے عربی کا ماحول بن رہا ہے ،اللہ تعالیٰ حضرت والا ؒ کو ان کاوشوں اور فکروں کا بھر پور اجر دے گا ۔ ان شاء اللہ تعالیٰ !

دینی علمی اور اصلاحی شخصیات سے ربط :

                حضرت والا ؒ میں ایک بڑاہ عمدہ وصف یہ بھی تھاکہ موقع بہ موقع ہندستان کی دینی، علمی اوراصلاحی شخصیات کو مدعو فرماتے ۔ خود بھی تعلیم و تربیت کے میدان میں ان سے مشورہ لیتے اور طلبہ کے لیے بھی ان سے استفادہ کا موقع فراہم کرتے۔ ان کے زمانۂ اہتمام میں فلاح دارین میںبہ بحیثیت مہمان خصوصی یا بہ حیثیت محاضر؛ جن کا ورود مسعود ہوا ، ان میں سے حضرت مولانا قاری طیب صاحب ؒ ، حضرت مولانا سید علی میاں ؒ ، حضرت مولانا شاہ مسیح اللہ خانؒ ، علامہ قاری صدیق صاحب باندوی ؒ، حضرت مولانا سید رابع صاحب ، حضرت مولانا قمرالزماں صاحب دامت برکاتہم اور عصری تعلیم سے تعلق رکھنے والوں میں حضرت مولانا سعید اکبر آبادی سابق وائس چانسلر مسلم علی گڑھ یونی ور سٹی ، سید حامد میاں دارالعلوم ندوۃ العلما اور جامعہ دیوبند کے بہت سے قابل اساتذۂ کرام ؛جن میں حضرت مولانا وحید الزماں کیرانوی ؒ، حضرت مولانا نذر الحفیظ دامت برکاتہم وغیرہم، جن کی اصلاحی باتوں، تجارب اور مشوروں سے طلبہ کا علمی و اخلاقی معیار بلند کرنے میں مدد ملی اور ان کے ہمت افزاتاثرات ،جو نوٹ بک میں ریکارڈ ہیں ذمہ داران کو بڑا حوصلہ ملا ۔

محسنین کا ممنون رہنا:

                ایک نمایاں وصف جس کو محسوس کرنے والوں نے ان میں محسوس کیا ، وہ محسنین کے احسانات کا ہمیشہ ممنون ومشکور رہنا ہے ۔ راوت فیملی کے افراد کا بہ طور خاص الحاج یوسف راوت ؒ ،الحاج موسیٰ راوت ؒ اورالحاج غلام راوت کا بڑاہی اکرام کرتے۔اس لیے نہیں کہ ان سے کو ئی مادی منفعت ان کو حاصل ہو تی تھی ، بل کہ اس لیے کہ یہ اصحاب خیر حضرات فلاح دارین کی جملہ ضروریات چاہے وہ تعمیری لائن کی ہو یا تعلیمی لائن کی ،حضرت ؒ کی مرضی کے مطابق اس کو خندہ پیشانی کے ساتھ پوری فرماتے اور مالیات کی فراہمی کے بارے میں آپ ؒ کو فارغ البال کرکے طلبہ کے تعلیمی اورتربیتی امور کے لیے یکسو کردیا تھا ؛یوں آپ ؒ کے اکثر اوقات اورفکریں طلبہ کا معیار تعلیم بڑھا نے اور ان کی دینی ، اخلاقی تربیت کرنے پر مرکوز ہوگئیں۔

                نیز راوت فیملی کی دوسری نوجوان نسل میں دارالعلوم سے محبت باقی رہے ، اس کی خدمت کرکے اس کے کاموں کو آگے بڑھانے کا جذبہ ان میں موجزن رہے اس کی بھی انہوں نے فکر کی،راوت فیملی کے نوجوانوں کو علم دین اورخدمت دین کی اہمیت سمجھائی ، مدرسہ کی خدمات سے ان کو واقف کراتے ۔جب وہ ہندسان آتے تو انگریزی اورتجوید قرآن کی درس گاہوں میں لے جاتے اور طلبہ کے پرفومنس(کارکردگی) ان کے سامنے لاکر ان کو اعتماد دلاتے ۔ یوں الحمدللہ ! روات فیملی کی دوسری نسل مدرسہ کے کاموں سے دل چسپی لینے والی تیار ہوگئی ۔ ان میں سر فہرست حضرت مولانا خلیل بن الحاج موسیٰ راوت ، الحاج فاروق بن الحاج یوسف راوت اور الحاج عبد الخالق بن الحاج غلام راوت ہیں ۔

                اللہ تعالیٰ ان کی عمروں میں عافیت کے ساتھ برکت عطا فرمائے ۔ اور امید ہے کہ مولانا خلیل راوت صاحب جو اب بہ قول حضرت مولانا غلام محمد صاحب وستانوی رئیس الجامعہ کی جگہ پر ہیں۔ وہ بھی حضرت والاؒ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے راوت فیملی کے نوجوانوں کی تیسری نسل تیار فرمائیںگے۔

چھوٹوں کی حوصلہ افزائی :

                حضرت والاؒ کو جب اپنے تربیت اورتعلیم یافتاؤں کی علمی ، دعوتی اور دینی کسی کاوش کے بارے میں معلوم ہوتا تو بہت خوش ہوتے ،ان کی حوصلہ افزائی فرماتے ، اس بارے میں مناسب مشوروں سے نوازتے ، دوسروں کے سامنے اس کا ذکرِ خیر فرماتے ۔ کامیابیوں پر مبارک باد دیتے ، میرے بارے میں جب حضرتؒ کو معلوم ہوا کہ میں مدارس میںنادی کے جلسوں میں کچھ عربی بول لیتاہوں تو بہت ہمت افزائی فرمائی۔ نادی کے جلسوں میں مجھ کو اپنے ساتھ رکھتے اور کبھی نادی کے جلسہ میں دعوت دینے والوں کو یہ کہہ کہ معذرت فرماتے کہ اب یہ کام آپ لوگ مولوی اقبال صاحب سے لیجیے، وہ عربی اچھا بول لیتے ہیں اور اچھا لکھ لیتے ہیں،اس لیے ان کو استعمال کیجیے ۔ فجزاہم اللہ تعالیٰ علی ہذا التشجیع والحفیز۔

                یہ ہمت افزائی صرف فلاحی حلقہ سے تعلق رکھنے والے اہل علم تک محدود نہیں تھی، بل کہ ہر ایک کے ساتھ ان کا یہ مشفقانہ اور مشجعانہ معاملہ تھا ؛جوبھی ان سے اپنی عملی کاوش پر تقریظ لکھوانے کے لیے گیا یا اس بارے میں رہبری کا خواست گار ہوا ؛حضرت والا ؒ نے دل کھول کر تعریفی اورتائیدی کلمات لکھ کر یا رہبری فرماکر اس کو ممنون ومشکور کیا ۔ کتابوں پر لکھے ہوئے تقریباً سوسے زائد مقدمات اس کا بین ثبوت ہیں۔

ہر مدرسہ کو اپنا مدرسہ سمجھا :

                اگر چہ آپؒ نے اپنی عمر مستعار کا اکثر حصہ فلاح دارین کے اہتمام اور اس کی سرپرستی میں صرف کیا ، لیکن آپ ہر دینی ادارہ کو بھی اپنا ہی ادارہ سمجھتے ۔کئی مدارس کے آپ سرپرست اوربعض کی مجالس شوریٰ کے رکن رکین تھے ؛کسی بھی ادارہ کے ذمہ داران کو کبھی بھی مناسب رائے دینے سے گریز نہیں کیا ، بہت سے مدارس کی تعمیری ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی اصحاب خیرکو متوجہ کیا ۔ مدارس کے تعلیمی معیار کو بلند کرانے کے لیے اہل مدارس کو اپنے گاؤں کا پودرا میں جمع کرکے توجہ دلائی ،جب بھی کسی مدرسہ کا سفیر آپ ؒ سے ملنے گیا خود بھی کچھ نہ کچھ عنایت فرماکر مالی تعاون کیا اور اس کی رہبری کی ۔ ایک مرتبہ ’’بھاڑ بھت‘‘ میں حضرت ربیع بن صبیح تابعی ؒ سے موسوم مدرسہ کے سنگ بنیاد کے لیے تشریف لے گئے ،تو بیان کے بعد جب حاضرین سے مالی تعاون کی اپیل کی تو سب سے پہلے اپنا چندہ پیش کرکے ابتدا کی ۔

آپ ؒ کی تالیف کردہ کتابیں :

                حضرت والا ؒ فلاح دارین کے ۲۷؍ سالہ دور اہتمام میں اگر چہ تصنیفی وتالیفی کام کی طرف زیادہ توجہ نہ دے سکے ، لیکن ۱۹۹۳ء کے بعد جب آپ نے اپنے نجی اعذار کی وجہ سے فلاح دارین کی باضابطہ خدمت سے معذرت کرلی توآپ ؒ اس کام کی طرف متوجہ ہوئے۔ اور کئی کتابیں عربی ، اردو اورگجراتی زبان میں تالیف فرماکر شائع کیں ،اس وقت ان کے تفصیلی جائزہ کا موقع نہیں ۔ حضرت والا ؒ کی حیات و خدمات اوراوصاف پر اکتوبر ۲۰۱۸ء میں دارالعلوم فلاح دارین میں سیمینار ہونا طے پایا ہے ،امید ہے کہ ضرور کوئی ’’حضرت مفکر ملت اپنی تالیفات وتصنیفات کے آئینہ میں ‘‘ اس عنوان کو اپنے مقالہ کا عنوان بنائے گا ؛یہاں صرف چند کتابوں کے نام ذکر کیے جاتے ہیں :

(۱) اضوا علی تاریخ الحرکۃ العلمیۃ فی غجرات (۲) علامہ بدرالدین عینی ؒ اور علم حدیث میں ان کا نقش دوام (۳) افکار پریشاں (۴) صدائے دل بیانات کا مجموعہ ۴؍ جلدیں (۵) دیوان امام شافعی ؒ

کانفرنسوں ،علمی اور ادبی سیمیناروں میں شرکت :

                حضرت والاؒ چوں کہ راسخ عالم دین ، مفکر ومدبر ، ایک علمی اسکالر ، تعلیمی رفارمر اورعربی، اردو اورگجراتی کے بہترین ادیب تھے؛اس لیے ملک اوربیرون ملک میں منعقد ہونے والے اکثر علمی ، دینی ،فکری اورادبی کانفرنسوں ، سیمیناروں اورکنونشنوں میں مدعو کیے جاتے ۔ آپ ان میں کبھی اپنا قیمتی مقالہ پیش فرما کر یا موضوع سے متعلق وقیع توجیہی کلمات فرماکر شرکت فرماتے ۔ اخیرمیں پیش کی جانے والی توصیات اور پاس کی جانے والی قرار دادوں کو تیار کرنے میں حصہ لینے ۔ ’’صدائے دل نامی ‘‘ آپ کے بیانوں پر مشتمل کتاب کے جز اول کے شروع میں حضرت والا ؒ کے مختصر احوال زندگی کے ضمن میں ان کانفرنسوں اور سیمیناروں کا تفصیلی ذکر  ہے۔

اختتامیہ :

                یہ ہیں آپ ؒ کے وہ نمایاں اوصاف اور خصوصیات؛ جن کو میں نے تقریباً ۴۸؍ سالوں کی حضرت والاؒ کی شفقتوں کے سایہ میں رہ کر محسوس کیا ،جن کو میں نے عجلت میں اختصار اً ’’ مشتے نمونہ ازخروارے‘‘ کے طور پر سپر د قلم کیا ہے ۔ باقی’’ سفینہ چاہیے اس بحر بے کراں کے لیے ‘‘۔ اوریہی کہہ سکتا ہوں

’’کبھی فرصت سے سن لینا بڑی ہے داستاں میری ‘‘۔

                اللہ تعالیٰ غریق رحمت کرے حضرت والا کو کہ آپ ؒ اپنے پیچھے اپنے بہت سے تابندہ نقوش اور کارہائے نمایاں ذکر خیر چھوڑ کر زندہ جاوید ہوگئے۔ 

اللہم اغفرہ وارحمہ واکرم نزلہ

ہرگز نہ میرد آں کہ دلش زندہ شد بہ عشق

ثبت است بر جریدۂ عالم دوام ما