حضرت مفکرِ ملتؒ کے متعلق چند مبشرات

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

                                                اسماعیل بن یوسف کوثر فلاحی عفا اللہ عنہ

                                                خادمِ حدیث و افتا دار العلوم مرکز اسلامی، انکلیشور

                                                و ریسرچ اسکالر شیخ عبد اللہ کاپودروی اکیڈمی

خواب کے سلسلہ میں فلاسفہ اور اطبا کی آرا مختلف ہیں اور ان کا نقطۂ نظر مشہور ہے۔ علمائے اسلام سے بھی اس سلسلے میں متضاد اقوال منقول ہیں ،جنھیں حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے اپنی مایۂ ناز کتاب ’’فتح الباری، کتاب التعبیر‘‘ میں ذکر فرمایا ہے۔

علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے ’’کتاب الروح‘‘ میں حضرت سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ روایت نقل فرمائی ہے :نبی ٔ کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جب آدمی سوتا ہے تو اس کی روح چلتی ہے، اگر عرش پر پہنچنے سے پہلے آنکھ کھل جاتی ہے تو خواب کاذب ہوتا ہے اور اگر عرش پر پہنچنے کے بعد کھلتی ہے تو خواب سچا ہوتا ہے؛ مگر یہ روایت ضعیف ہے۔

علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے ایک اورحدیثِ مرفوع نقل فرمائی ہے کہ ’’ان رؤیا المؤمن کلام یکلم بہ العبد ربہ في المنام‘‘ مؤمن کا خواب کلام ہوتا ہے جس سے بندہ اپنے رب سے خواب کی حالت میںہم کلام ہوتا ہے۔   (کتاب الروح ، ص:۳۰)

بعض علما کا خیال ہے کہ نوم کی حالت میں روح ملأ اعلیٰ پر سجدے کے لیے جاتی ہے، کبھی روح کو روک لیا جاتا ہے تو موت واقع ہو جاتی ہے، اِس آمد و رفت کے دوران کبھی لوحِ محفوظ میں کسی چیز پر نظر پڑ جاتی ہے تو اس سے جو صورت منقش ہوتی ہے اسی کو منام کہتے ہیں۔

 شریعت میں خواب کا ایک مقام ہے، جس کا اندازہ درج ذیل حدیثوں سے ہوتا ہے:

حضرت سمرہ بن جندبؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم صبح کی نماز کے بعد عموماً صحابہؓ سے دریافت فرماتے کہ تم میں سے کسی نے خواب دیکھا ہے؟ اگر کسی نے خواب دیکھا ہوتا تو وہ بیان کرتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس کی تعبیر ارشاد فرماتے۔(بخاری شریف، رقم الحدیث: ۷۰۴۷)

اسی طرح جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم خواب دیکھتے تو بیان فرماتے، ایسی احادیث سے خواب کی اہمیت پر بخوبی روشنی پڑتی ہے اور یہ کہنا بجا ہوگا کہ یہ بھی سیرتِ طبیہ کا ایک اہم باب ہے، بل کہ ترمذی شریف میں حضرت انسؓ سے مروی ہے: 

قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم: ان الرسالۃ و النبوۃ قد انقطعت، فلا رسول بعدي و لا نبي، فشق ذالک علیٰ الناس، فقال: لاکن المبشرات، قالوا: یا رسول اللّٰہ! و ما المبشرات؟ قال: رؤیا المسلم و ھي جزئٌ من أجزاء النبوۃ۔            

(ترمذی رقم الحدیث: ۲۲۷۲)

 یعنی نبوت و رسالت کا سلسلہ میرے اوپر منقطع ہوگیا، میرے بعد کوئی نبی ہوگا اور نہ رسول۔ یہ بات حضرات صحابہؓ پر بہت زیادہ شاق گزری (اس لیے کہ جب نبوت کا سلسلہ ختم ہو جائے گا تو لا محالہ وحی بھی منقطع ہو جائے گی، پھر امورِ خیر و شرپر اطلاع کیسے ہوگی؟) اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایاکہ اگرچہ وحی منقطع ہو جائے گی؛ لیکن مبشرات کا سلسلہ تو جاری رہے گا۔ صحابۂ کرامؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ( صلی اللہ علیہ و سلم) ! مبشرات کیا چیز ہیں؟ ارشاد فرمایا:  رؤیا المسلم و ھي جزئٌ من أجزاء النبوۃ  یعنی مسلمان جو خواب دیکھتا ہے وہ مبشرات کے قبیل سے ہے اور وہ نبوت کا ایک جزہے۔ گویا اس حدیث پاک میں خواب کو وحی کا قائم مقام فرمایا گیا ہے، جب وحی افضل ہے تو اس کا قائم مقام بھی ضرور افضل ہوگا۔

نیز ایک روایت میں اس چیز کو جزئِ نبوت بھی فرمایا گیا ہے، چناں چہ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: رؤیاالمؤمن جزء من ستۃ و أربعین جزئً ا من النبوۃ،یعنی مؤمن کا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے۔  

  (بخاری شریف رقم الحدیث: ۶۹۸۷)   

نبوت انسان کے روحانی کمالات کا منتہیٰ ہے اور یہ وہبی کمال ہے، محنت و ریاضت سے حاصل نہیں ہوتا، اسی طرح خواب بھی زبردستی آدمی لانا چاہے تو ممکن نہیں، رؤیا صالحہ بھی وہبی چیز ہے؛ نیز نبوت سب کمالات میں افضل و اعلیٰ کمال ہے تو اچھا خواب افضل و اعلیٰ جز ہوگا ؛ لہذا وہ بھی لائقِ ستائش ہوگا۔

بعض علما کے نزدیک جزئِ نبوت سے وہ خاص نسبت مراد ہے جو عامۃ المؤمنین کی ابتدائی استعداد کو حضرات انبیائے کرام علیہم السلام کی انتہائی استعداد سے ہے، نوع بشر میں یہ استعداد بہت کم رکھی گئی ہے اور اس قلت کے ساتھ ساتھ حواسِ ظاہرہ کی بڑی بڑی مشکلات حائل و در پیش رہتی ہیں، اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کے اندر ایسی فطرت ودیعت فرما دی کہ عالمِ رؤیا میں بقدرِ استعداد اس کے حجابِ استعداد مرتفع ہو جاتے ہیں، ایسی کیفیت میں اس کا نفس جس چیز کی طرف بھی متوجہ ہوتا ہے اس کا علم حاصل کر لیتا ہے، اسی مناسبت سے جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خوابوں کو مبشرات سے تعبیر فرمایا ہے۔

یہ تو روایت سے ثابت ہے کہ قبل از نبوت آپ صلی اللہ علیہ و سلم بکثرت خواب دیکھا کرتے، اِدھر خواب دیکھتے اُدھر فلقِ صبح کی طرح اس کی تعبیر ظہور پذیر ہو جاتی۔ 

  (بخاری شریف، رقم الحدیث: ۳)

  حضرات انبیا علیہم السلام کے خوابوں کو تو وحی اور حجتِ قطعیہ قرار دیا گیا ہے، جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا حضرتِ اسماعیل علیہ السلام کو بارگاہِ حق میں قربان کرنا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے  {قد صدقت الرّء یا انا کذٰلک نجزي المحسنین} (الصّٰفّٰت:الآیۃ:۱۰۵)

 (اے ابراہیم! آپ نے اپنا خواب سچ کر دکھایا، بے شک ہم محسنین کو ایسا ہی بدلہ عطا کیا کرتے ہیں) کے ذریعہ سندِ قبولیت کا مرحمت فرمانااس کا شاہد عدل ہے۔

حضرت یوسف علیہ السلام کا خواب: {إنی رأیت أحد عشر کوکبا و الشمس و القمر رأیتھم لي سٰجدین} (سورۃ یوسف:الآیۃ:۴)تو ’’احسن القصص في القرآن الکریم‘‘ کی بنیاد ہے۔

اور خود جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق حق تعالیٰ شانہٗ کا ارشادِ گرامی ہے{ لقد صدق اللہ رسولہ الرء یا بالحق، لتدخلن المسجد الحرام ان شاء اللّٰہ اٰمنین محلقین رئوسکم و مقصرین لا تخافون، فعلم ما لم تعلموا فجعل من دون ذٰلک فتحًا قریبًا}  (سورۃ الفتح:الآیۃ:۲۷)اس تمام ’’فتحِ قریب‘‘ کی بنیاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا خواب مبارک ہی تھا۔                                                                                                                  (المبشرات بہ حذف و اضافہ ، ص/۴۲-۸۲)

                مبشرات حق تعالیٰ کا اپنے بندوں پرخصوصی انعام ہوتا ہے جس سے اُن کے قلوب کو تقویت حاصل ہوتی اور مزید محنت و ریاضت کا حوصلہ ملتاہے، مبشرات کی اہمیت کا انکار نہیں کیا جا سکتا، مگر انبیائے کرام علیہم السلام کے علاوہ امت میں سے کسی کا خواب حجتِ قطعیہ نہیں ہے، اس سے زیادہ سے زیادہ طمانینتِ قلب اور نیک فالی لی جا سکتی ہے۔ مبشرات شریعت میں فضیلت کا معیار نہیں ہیں؛ بل کہ اصل تو شریعت پر استقامت کے ساتھ عمل کرنا ہے، اِسی لیے مشایخ صوفیا فرماتے ہیں ’’الاستقامۃ فوق ألوف الکرامات‘‘ استقامت ہزاروں کرامتوں سے بہتر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکابر و مشایخ اپنی کرامات کو اس طرح چھپاتے ہیں جس طرح عوام الناس اپنے گناہوں سے خائف رہتے ہیں،  ’’زبدۃ المقامات‘‘ میں بعض اولیائے کرام کا یہ ملفوظ نقل کیا گیا ہے کہ’’عقوبۃ الأنبیاء حبس الوحي، و عقوبۃ الأولیاء اظہار الکرامات، و عقوبۃ المؤمنین التقصیرفي الطاعات‘‘ یعنی انبیائے کرام علیہم السلام کی آزمائش وحی کا بند ہو جانا ہے، اولیائے کرام رحمہم اللہ کی آزمائش کرامات کا ظاہر ہونا ہے اور عامۃ الناس کی عقوبت طاعات میں کوتاہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت مفکر ملتؒ بھی اس طرح کے مبشرات و منامات کا اخفا فرماتے تھے؛ بل کہ آپ تو اس قدر محتاط واقع ہوئے تھے کہ اس قسم کی چیزوں کا اظہار بہت مشکل تھا۔

                 الحمد للہ! مفکر ملت حضرت مولانا عبد اللہ صاحب کاپودرویؒ کو استقامت اور کرامت دونوں چیزیں حاصل تھیں۔ استقامت کا تو یہ حال تھا کہ ستائیس سال کے دورِ ریاست و اہتمام میں شاید ہی کسی نے صفِ اولیٰ فوت ہوتے ہوئے دیکھا ہو؛ نیز سحر خیزی کا دائمی معمول تھا، جو انتقال سے دو چار دن پہلے تک باقی رہا، اسی طرح بلا ناغہ تلاوتِ کلام پاک کا اہتمام رہا، جس سے آپ کی بے مثال استقامت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔اس کے علاوہ جن صبر آزما حالات میں آپ نے ’’فلاحِ دارین ‘‘ کو ترقی دی اور اس کے لیے عظیم جاں فشانی فرمائی جس کے نتیجے میں انتہائی مختصر مدت میں اس ادارہ کو صفِ اول میں پہنچا دیا جو آپ کی کرامت سے کم نہیں ہے۔ حالات و مصائب پر صبر ہی کا نتیجہ تھا کہ اللہ نے پھر اس طرح کے مبشرات و انعامات سے نوازا اور یہ مبشرات دوسروں کے واسطے سے بھی موصول ہو سکتے ہیں جیسا کہ درج ذیل حدیث پاک سے معلوم ہوتا ہے:

ابن ماجہ کی روایت ہے: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم: أیّھا النّاس! انہ لم یبق من مبشرات النبوۃ الا ما یراھا المسلم أو تری لہ۔   (ابن ماجہ رقم الحدیث: ۳۸۹۹)

  چناں چہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حضرت کی حینِ حیات اور رحلت کے بعد اپنے چند بندوں کو مبشرات اور منامات سے نوازا، جس کو نیچے طمانینتِ قلب کی غرض سے نقل کیا جا رہا ہے، اس سے مقصود نہ تو حضرت کے مقام کی پیمایش کی بے جا جرأ ت ہے اور نہ ہی  اظہارِفخر۔  اِس ضروری تفصیل کے بعد چند مبشرات پیش خدمت ہیں:

دربارِ نبویؐ سے پیغامِ عیادت:

 پیرامن (انکلیشور، گجرات)کے مشہور صاحبِ کشف بزرگ اور حضرت شیخ محمد یونس صاحب جونپوری علیہ الرحمہ کے خلیفہ و مُجاز جناب حافظ محمد یحیٰ صاحب پیرامنی رحمۃ اللہ علیہ ایک مرتبہ عمرہ کے لیے تشریف لے گئے تو واپسی میں دولت کدہ پر پہنچتے ہی کاپودرا کا رخ کیااور حضرت والاؒ کو یہ بشارت سنائی کہ حضرت نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ حضرت مولانا عبد اللہ صاحب بیمار ہیں، اُن کے لیے دعا کرو۔

مقامِ ابدالیت کی بشارت:

حضرت مفکر ملتؒ کے خلیفۂ اجل و لختِ جگرحضرت مولانا اسماعیل صاحب پٹیل مد ظلہ العالی جن دنوں برطانیہ میں قیام پذیر تھے، ایک شب حضرت نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تمہارے والد کا درجہ ابدالوں سے قریب تر ہے اور آگے ترقی کر رہے ہیں؛ نیز دوسری زیارت کے موقع پر ارشاد فرمایا کہ تمہیں کہیں اور جانے کی ضرورت نہیں، تمہیں سب کچھ انھیں سے مل جائے گا۔ اِس بشارت کے بعد حضرت مولانا اسماعیل صاحب مد ظلہ نے حضرتؒ کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو فارغ فرما دیا۔

حضرتؒ کے لختِ جگر اور خادمِ خاص کی دل داری:

حضرت مولانا اسماعیل صاحب مد ظلہ کا بیان ہے کہ اکتوبر ۲۰۱۰ء میں جس روز اُن کا سامان انگلینڈ سے روانہ ہوا سید الطائفہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ نے ان کو والدصاحب کی خدمت کے لیے فارغ ہونے پر مبارک باد دی؛ نیز ایک مرتبہ حضرت حاجی صاحبؒ نے خواب میں آ کر مولانا سے یہ فرمایا کہ حضرت کا خیال رکھنا اور عیادت کے لیے آنے والے حضرات کی ناراضگی کا فکر نہ کرنا۔

دربارِ نبوتؐ میں ضیافت:

ایک دفعہ حضرت مفکر ملتؒ حضرت مولانا اسماعیل صاحب کے ساتھ سفرِ عمرہ کے لیے تشریف لے جارہے تھے، مولانا اسماعیل صاحب فرماتے ہیں کہ ہوائی جہاز میں بیٹھ کر جب میں نے درود شریف پڑھنا شروع کیا تو غنودگی کے دوران دیکھا کہ احقر وہیل چیئر پر حضرت والد صاحب کو لے کر جا رہا ہے اور سامنے سے حضرت نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ و سلم آپ کا استقبال فرما رہے ہیں، پھر حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اِس بار مولانا ہمارے مہمان رہیں گے؛ چناں چہ پورا سفر بعافیت گزارنے کے بعد جب واپسی ہوئی تو حضرت علیہ الرحمہ فرمانے لگے کہ اب کی بار سفرِ عمرہ میں بڑا لطف آیا، حتیٰ کہ سر درد بھی نہیں ہوا، جس پر حضرت مولانا اسماعیل صاحب نے مذکورہ خواب سنایا۔

اکابرینِ امت کا اشتیاق:

وفات سے تقریباً ایک مہینہ پہلے سے اکثر اوقات غنودگی طاری رہنے لگی تھی، اِس دوران کئی مرتبہ اہلِ خانہ نے حضرتؒ کی زبانِ مبارک سے کچھ عجیب و غریب احوال سنے۔چناں چہ ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ جیسے ہی حضرتؒ کو افاقہ ہوا، حضرت مولانا اسماعیل صاحب کو بلا کر فرمانے لگے کہ خطیب بغدادیؒ تشریف لائے ہوئے ہیں، اُن کی ضیافت کا انتظام کرو، کبھی فرماتے: حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ تشریف لائے ہیں۔ ایک مرتبہ فرمانے لگے کہ حضرت قاری سید صدیق احمد صاحب باندوی  ؒتشریف لائے ہیں، اُن کو گھر میں بلائیے اور خاطر تواضع فرمائیے ۔

فرشتوں کا نزول:

جس روز حضرتؒ کو نوساری کے مشہور ہسپتال ’’یشفین‘‘ لے جایا گیا، اُسی روز حضرت مولانا فاروق صاحب کاپودروی  مد ظلہ، مُجازِ بیعت حضرت اقدس مولانا محمد قمر الزماں صاحب الٰہ آبادی دامت برکاتہم نے خواب دیکھا کہ فرشتوں کی ایک بڑی جماعت حضرتؒ کو لینے کے لیے پہنچی ہے، اِس خواب کے تقریباً ایک ہفتہ بعد حضرتؒ کا سانحۂ ارتحال پیش آیا۔

حسنِ خاتمہ:

نیز حضرتؒ پچھلے چند سالوں سے ہر وقت ذکر و اذکار اور ادعیۂ مسنونہ میں رطب اللسان رہتے، جس دن حضرتؒ کے انتقال کا حادثۂ جاں کاہ پیش آیا، اُس روز بھی صبح سے ذکر ہی میں مشغول تھے، طائرِ روح نے قفسِ عنصری کو تین بج کر پچپن منٹ پر الوداع کہا؛ لیکن تقریبًا ظہر کے وقت سے آپ کا چہرۂ مبارک بے اختیار قبلہ رُخ ہو گیا تھا، جو اخیر تک اِسی حالت میں رہا، یوں خاتمہ بالخیر کی جو تمنا ایک مدت سے لگی ہوئی تھی اللہ تعالیٰ نے اُس کی تکمیل فرمادی۔

ٹھنڈی ہوا کا جھونکا:

حضرت مفتی محمود صاحب بارڈولی مد ظلہ استاذِ حدیث’’جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل‘‘ و مجازِ بیعت حضرت فقیہ الامتؒ کو تدفین کے لیے حضرتؒ کی مرقد مبارک میں اترنے کا شرف حاصل ہوا، اِس دوران انھوں نے جو کچھ محسوس فرمایا اس کا اظہار ’’دار العلوم فلاحِ دارین ترکیسر‘‘ کے تعزیتی اجلاس میں یوں فرمایا:

’’جب ہم تدفین سے فارغ ہوئے پسینے میں شرابور تھے، اللہ پاک کو حاضر رکھ کر کہتا ہوں کہ قبر کی طرف سے ایک نہایت ٹھنڈی اور مفرح ہوا کا جھونکا آیا جس نے دل و دماغ کو معطر کر دیا۔ حضرت مفتی محمود صاحب مد ظلہ نے اپنی بات کو مؤکد کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر میں غلط ہوں تو محشر میں میرا دامن پکڑ لینا‘‘۔

بہترین حالت میں:

 ’’جامعہ حقانیہ کٹھور‘‘ کے شیخ الحدیث جناب حضرت مفتی محمد صاحب سارودی زید مجدہ نے بذریعہ فون اربابِ فلاح دارین کو مطلع کیا کہ رات کو خواب میں حضرت والا ؒکی زیارت ہوئی، دیکھا کہ ایک بہت بڑا ادارہ ہے جس میں مسجد طلبا سے کھچا کھچ بھری ہوئی ہے، ایک کرسی لگی ہوئی ہے جس پر حضرت والاؒ رونق افروز ہو کر خطاب فرما رہے ہیں اور حضرت اتنے نوجوان ہیں کہ گویا تیس سال کی عمر ہو، بغل میں کوئی مولانا صاحب بیٹھے ہوئے ہیں جن کو میں  نہیں پہچان سکا،میںنے حضرت سے پوچھا کہ آپ کو اتنی ساری بیماریاں لاحق تھیں اور ابھی میں آپ کی یہ عمر دیکھ رہا ہوں، یہ سب کیسے ہوگیا؟ فرمایا: بس یہاں آ کر ساری بیماریاں ختم ہوگئیں۔

اسی طرح کا ایک خواب حضرتؒ کے ایک شاگرد جناب مولانا عبد الصمد صاحب موسالی فلاحی زید مجدہ نے دیکھا کہ حضرت والا بہت اچھی حالت میں ہیں اور کسی پر فضا مقام پر رونق افروز ہیں، میں نے حاضر ہو کر عرض کیا کہ حضرت! آپ کی طبیعت بہت بہتر معلوم ہوتی ہے؛جب کہ آپ تو بہت علیل تھے؟ اس پر حضرت نے فرمایا کہ یہاں آنے کے بعد الحمد للہ! ساری بیماریاں اور پریشانیاں کافور ہو گئیں اور میں بہت اچھی حالت میں ہوں۔

جنت النعیم میں ٹھکانہ:

دار العلوم مرکز اسلامی انکلیشور، گجرات کے سابق استاذِ حدیث اور حضرت مرحوم کے شاگردِ رشید جناب حضرت مولانا یعقوب صاحب آنکروڈی فلاحی مد ظلہ نے حضرت کی خواب میں زیارت کی، پوچھا حضرت! کیا گزری؟ فرمایا: میں بہت اچھی حالت میں ہوںاور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ’’نعیم‘‘میں ٹھکانہ دیا۔

اِسی طرح اور بھی مبشرات ہیں جن کو تطویل کے خوف سے قلم انداز کر رہا ہوں۔ مذکورۂ بالا بشارتوں کی روشنی میں ہم اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے حسنِ ظن رکھتے ہیں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حضرتؒ کے ساتھ ضرور اپنے فضل و کرم کا معاملہ فرمایا ہوگا، دعا ہے اللہ تعالیٰ حضرتؒ کی بال بال مغفرت فرمائے، کروٹ کروٹ چین نصیب فرمائے اور فردوسِ بریں میں سکونت بخشے۔

آمین یا رب العالمین!