از اسماعیل بن یوسف کوثرکوساڑی فلاحی غفرلہ‘
خادمِ حدیث، افتا و ادب دار العلوم مرکزِ اسلامی انکلیشور
حضرت مفکرِ ملتؒ جہاں علم و فضل کے میدان میں یدِ طولیٰ رکھتے تھے وہیں تصوف و سلوک میں بھی مقامِ بلند پر فائز تھے، چوں کہ آپ کے والد ماجد حکیم الامت حضرت اقدس مولانا اشرف علی صاحب تھانویؒ کے دست گرفتہ اور حضرت مولانا عیسیٰ صاحب الٰہ آبادیؒ کے تربیت یافتہ تھے، نیز حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ و دیگر اکابرِ علمائے گجرات سے محبانہ و مخلصانہ تعلق تھے، اِس لیے صغرِ سِنّی ہی سے اکابر کی محبت آپ کی گُھٹّی میں پڑی ہوئی تھی، بزرگوں کے ملفوظات سننا بچپن کا محبوب مشغلہ تھا، چناںچہ آپ اپنی خود نوشت سرگذشتِ حیات میں تحریر فرماتے ہیں:
’’کاپودرا میں حضرت اقدس تھانویؒ سے بیعت کرنے والوں کی اچھی تعداد تھی، وہ سب حضرات میرے پھوپھا محمد پانڈور-جو مولوی صاحب کے نام سے مشہور تھے-کے مکان پر ظہر سے عصر تک حضرت تھانویؒ کے مواعظ کا مذاکرہ کرتے تھے، پھوپھا جان پڑھتے تھے اور دوسرے حضرات سنتے، کبھی کبھی خاص انداز میں مثنوی بھی پڑھتے تھے۔ میں کبھی کبھی والد صاحب کے ساتھ اُس مبارک مجلس میں شریک ہوتا، کم سنی کے سبب مواعظ تو سمجھ میں نہیں آتے تھے، مگر اُسی وقت سے مدرسے میں داخل ہو کر علم سیکھنے کا جذبہ پیدا ہوتا گیا، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس رجحان میں اُن مبارک مجلسوں کا اثر تھا۔‘‘
ستمبر۱۹۵۳ء میں ’’جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل‘‘ سے سندِ فراغت حاصل کرنے کے بعد’’مجلسِ خدام الدین سِملک‘‘ میں مکاتب کے ممتحن (وِزِیٹر) کے حیثیت سے ملازمت شروع فرمائی، اِس دوران دسمبر میں کروڈ (ضلع سورت) میں مجلس کا جلسہ ہوا، جس میں حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کی آمدِ میمون ہوئی، حضرت کی بے مثال و پرکشش شخصیت نے آتشِ عشق کو مزید فروزاں کر دیا اور دریائے محبت و عقیدت میں طوفان برپا کر دیا، چناں چہ آپ نے مجلس سے مستعفی ہو کر حضرت شیخ الاسلامؒ کی رفاقت و صحبت میں مکمل ایک ماہ گزارنے کی سعادت حاصل کی۔
مقامِ حیرت ہے کہ علومِ دینیہ سے رسمی فراغت کے بعد نئی نویلی ملازمت تھی، دوسری طرف معاشی حالات بھی قابلِ اطمینان نہ تھے، ایسے موقع پرمستقبل کے افکار و اندیشے رہ رہ کر آپ کا تعاقب کرتے ہوںگے؛ مگر آپ نے ان کی بالکل پروا نہ کی اور کوچۂ محبت میں چھلانگ لگا ہی دی ؎
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
سچی بات یہ ہے کہ عشق کی متاعِ لا زوال کے بغیر یہ سودا صرف خام خیالی ہی ہے۔ جناب مولانا عامر عثمانی مرحوم فرماتے ہیں ؎
یہ قدم قدم بلائیں، یہ سوادِ کوئے جاناں
وہ یہیں سے لوٹ جائے، جسے زندگی ہو پیاری
بہر حال یہ فکر و اندیشے کسی طرح آپ کی راہ میں حائل نہ ہوسکے، جس سے آپ کی طلبِ صادق اور جوشِ جنوں کا اندازہ ہوتا ہے۔اِسی سفر کے دوران جب کہ حضرت شیخ الاسلامؒ اپنے منتسبِ خاص جناب موسیٰ خان صاحب مرحوم مقیم واپی کے مکان پر فروکش تھے، آپ کے استاذِگرامی قدر حضرت مولانا عبد الرؤف صاحب پشاوریؒ -سابق شیخ الحدیث ’’جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل‘‘ جن کے حضرت مدنیؒ کے ساتھ بہت گہرے تعلقات تھے اور حضرت مدنیؒ ہی کے حکم پر جامعہ ڈابھیل میں آپ کی تشریف آوری ہوئی تھی-کی سفارش پر حضرت مدنیؒ نے اپنے حلقۂ ارادت میں داخل فرمایا، اِس سفر میں حضرت مدنیؒ کی تشریف آوری کاپودرا آپ کے دولت کدہ پربھی ہوئی۔ اس سفر کے واقعات اور حضرت مدنیؒ کے ملفوظات آپ رحمہ اللہ بڑالطف لے کر سناتے تھے۔
حضرت شیخ الاسلامؒ کے سانحۂ ارتحال کے بعد جگر گوشۂ شیخ الاسلام فدائے ملت حضرت اقدس مولانا سید اسعد مدنی صاحبؒ سے رجوع فرمایا تھا۔ ان کے علاوہ دیگر اکابر کی صحبت میں بھی بغرضِ اصلاح حاضری دیتے رہے، جن اکابر علما سے آپ نے کسبِ فیض فرمایا ہے اُن کی ایک طویل فہرست ہے، جن میں حضرت مصلح الامتؒ، حضرت مسیح الامتؒ، حضرت مولانا شاہ عبد القادر صاحب رائے پوریؒ، شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلویؒ، حضرت حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحبؒ، حضرت مولانا عبد الحلیم صاحب جون پوریؒ، حضرت مفکر اسلام مولانا علی میاں صاحبؒ، حضرت فقیہ الامت مفتی محمود حسن صاحب گنگوہیؒ، محی السنہ حضرت ہردوئیؒ، جنید وقت حضرت قاری صدیق احمد صاحب باندویؒ اور حاجی فاروق صاحب سِکّھرویؒ وغیرہ چند ممتاز نام ہیں، جن کی صحبت میں بار بار تشریف لے جاتے اور آتشِ قلب کی تسکین کا سامان فراہم کرتے، جس کی تفصیل آپ کی مقبولِ عام کتاب ’’رشد و ہدایت کے منار‘‘ میں دیکھی جا سکتی ہے۔
مذکورہ اکابر میں سے حضرت شیخ الاسلام مدنیؒ اور حضرت مفکر اسلامؒ کی ہشت پہلو شخصیات نے آپ کو سب سے زیادہ متاثر کیا تھا؛ چناںچہ آپ کی زندگی میں حضرت مدنیؒ کی سادگی، خاک ساری، جفا کشی اور دینی حمیت کوٹ کوٹ کر بھری تھی تو حضرت مفکرِ اسلامؒ کی آفاقیت، وسعتِ ظرفی، رکھ رکھاؤ، ادب کی چاشنی اور غیرت و حمیت نے آپ کی شخصیت کو کَندن بنا دیا تھا، یہی وجہ ہے کہ ہند و پاک کے درجِ ذیل نو مشایخِ طریقت نے آپ کو اجازت و خلافت سے نوازا جس کی تفصیل حسبِ ذیل ہے:
(۱) شیخ الحدیث حضرت اقدس مولانا محمد یونس صاحب جون پوریؒ
(خلیفہ و جا نشین شیخ الحدیث حضرت اقدس مولانا محمد زکریا صاحبؒ و مُجازِ خاص حضرت اقدس مولانا اسعد اللہ صاحب رام پوریؒ)
آپ اپنے ایک سفرِ گجرات کے موقع پر کاپودرا تشریف لائے تھے، اُس وقت حضرت کے صاحبزادے حضرت مولانا اسماعیل صاحب کو اجازت و خلافت یہ فرما کرعطا کی تھی کہ اپنے والد کی خدمت شیخ سمجھ کر کرو، والد سمجھ کر نہیں۔ حضرت شیخ کی واپسی کے تقریباً ایک ہفتہ بعد حضرت مفکرِ ملتؒ نے حضرت کی خیریت معلوم کرنے کے لیے فون کیا تو حضرت شیخ ؒ نے بذریعہ فون حضرتؒ کو بھی اجازت مرحمت فرمائی، نیزدرود شریف کے اہتمام اور تلاوتِ کلام پاک کی خاص تاکید فرمائی۔
حضرت شیخ ؒحضرت مفکرِ ملتؒ کا غایت درجہ اکرام فرماتے تھے، ’’فیوضِ سبحانی‘‘پر حضرت مفکرِ ملتؒ کے مقدمہ کو دیکھ کر حضرت شیخ یونس صاحبؒ نے فرمایا تھا کہ اِس آدمی کو مجھ سے محبت معلوم ہوتی ہے، حضرت شیخ ؒ کا مزاج تو شاہانہ تھا، اور رعب و ہیبت کا یہ عالَم تھا کہ حضرت کے سامنے کسی کو دَم مارنے کی ہمت نہ تھی؛ مگر حضرت مفکرِ ملتؒ سے محبت کا یہ حال تھا کہ حضرتؒ جب ملاقات کے لیے تشریف لے جاتے، اُس وقت اگر حضرت شیخ ؒٹیک لگا کر تشریف فرما ہوتے یا استراحت فرما رہے ہوتے؛ توجیسے ہی حضرت کی آمد کا علم ہوتا فوراً سیدھے بیٹھ جاتے اور حضرت مفکرِ ملتؒ کو ملاقات سے نوازتے؛ حالاں کہ حضرت مفکرِ ملتؒ اُسی حالت میں ملاقات کرنا چاہتے مگر حضرتؒ اُس کے لیے تیار نہ ہوتے؛ بل کہ ایک بار تو یہ بھی ارشاد فرمایا کہ میرے سفرِ گجرات کے موقع پر اگر آپ کاپودرا میں رونق افروز ہوں تو میری ملاقات کی زحمت نہ فرمائیں، میں خود آپ کی ملاقات کے لیے حاضر ہو جاؤں گا۔ رحمھما اللّٰہ رحمۃً واسعۃً۔
(۲) حضرت اقدس مولانا ہاشم صاحب جوگواڑی دامت برکاتہم
(مُجازِ بیعت شیخ الحدیث حضرت اقدس مولانا محمد زکریا صاحبؒ)
اجازتِ بیعت کے سلسلے میں حضرت مفکرِ ملتؒ فرماتے ہیں:
’’میں بولٹن گیا ہوا تھا تو اُن کا مولوی اسماعیل پر ایک دِن فون آیا کہ تم اپنے والد صاحب کو لے کر میرے پاس آ جاؤ، میں نے سوچا شاید کچھ کام ہوگا؛ مگر جب اُن کے گھر گئے تو اُنہوں نے میرے سر پر رومال باندھا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں یہ بات القا فرمائی کہ میں آپ کو اجازتِ بیعت دوں۔‘‘
حضرت مولانا ہاشم صاحب دامت برکاتہم نے حضرت مفکرِ ملتؒ کو ’’دار العلوم زکریاجوگواڑ‘‘ میں حدیث شریف کی تدریس کے لیے بھی اصرار فرمایا تھا؛ مگرحضرت مفکر ِملتؒ کو اُس کا موقع نہ مل سکا؛ نیز حضرت مولانا مدظلہ کے حکم پر حضرت مفکرِملتؒ نے ایک رمضان میں’’دار العلوم زکریا‘‘ کی مسجد میں اعتکاف بھی فرمایا تھا۔
مکتوبِ اجازت از حضرت اقدس مولانا ہاشم صاحب جوگواڑی دامت برکاتہم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
محترم و مکرم الحاج حضرت مولانا عبد اللہ صاحب زاد مجدکم
بعد سلام مسنون! میں آج بتاریخ …………آپ کو چاروں سلسلوں میں بیعت اور خلافت کی اجازت دیتا ہوں۔ کوئی اللہ کا بندہ آپ سے بیعت ہونا چاہے اس کو آپ بیعت فرما لیں اور چشتیہ سلسلہ میں معمولات بتائیں۔ اللہ جل شانہٗ ظاہری،باطنی ہر نوع کی ترقیات عطا فرمائے اور یہ اجازت اور خلافت حضرت مرشدی و استاذی شیخ الحدیث قطب الاقطاب مولانا محمد زکریا نور اللہ مرقدہ کی طرف سے ہے۔ معمولاتِ اربعہ یعنی پاسِ انفاس، ذکر قلبی، مراقبۂ معیت اور مراقبۂ دعائیہ پندرہ پندرہ منٹ تخلیہ میں کرتے رہا کریں۔ اس کا طریقہ ملفوظات میں لکھا ہے، اس سے روحانی، باطنی ترقیات کی امید ہے۔ اللہ جل شانہ استقامت و ترقیات عطا فرمائے۔
ناکارہ ہاشم عفا اللہ عنہ
(۳) حضرت اقدس ڈاکٹر اسماعیل میمن صاحب دامت برکاتہم
(مُجازِ بیعت شیخ الحدیث حضرت اقدس مولانا محمد زکریا صاحبؒ)
آپ حضرت شیخ زکریاؒ کے خلیفہ ہیں،ایک مدت تک بفیلو (امریکہ) میں مقیم رہے، اب کینیڈا ہجرت فرما گئے ہیں اور ’’چیٹم‘‘ میںایک دار العلوم قائم فرمایا ہے، حضرت مفکرِ ملتؒ حضرت ڈاکٹر صاحب سے اجازت کے سلسلے میںیوں فرماتے ہیں:
’’ڈاکٹر صاحب کا معمول تھا کہ ہر ماہ میں ایک رات ’’کینیڈا‘‘ تشریف لاتے، مغرب کے بعد ذکر ہوتا، پھر ختمِ خواجگان ہوتا، اُس کے بعد کتاب کی تعلیم ہوتی، اِس مجلس میں میں بھی شرکت کرتا تھا، ایک دن حضرت مد ظلہ نے بلا کر فرمایا کہ میرے دل میں یہ بات آ رہی ہے کہ میں آپ کو اجازت دوں، پھر ایسا ہوا کہ امریکہ میں بارڈر پر کچھ حالات خراب ہوئے تو بڑی سخت چیکنگ شروع ہوگئی، جس کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب کو آمد و رفت میں بڑی پریشانی ہوئی تو حضرت نے آنا موقوف فرما دیا اور فرمایا کہ بھئی! یہ لوگ جو مجھ سے تعلق رکھتے ہیں ان کو ذرا سنبھالا کرو؛ چناں چہ وہاں ’’ٹورنٹو‘‘ میں ’’مسجدِ زکریا‘‘ ہے جو حضرت ہی کی کوشش سے تیار ہوئی ہے، اُس کے قریب حیدر آباد کے لوگ رہتے ہیں، جو تعلیم یافتہ حضرات ہیں اور حضرت کے متعلقین ہیں، اُسی مسجد میں حضرت کی خانقاہ چلتی تھی؛ چناںچہ ہم بھی وہاں کبھی کبھی چلے جایا کرتے ہیں۔ ایک رمضان میں ہم نے وہاں اعتکاف بھی کیا تھا اور کتاب سنایا کرتے تھے، جیسے حضرت شیخ ؒکے وہاں دس بجے کتاب سنانے کا معمول تھا؛ چناں چہ حضرت ڈاکٹر صاحب کے وہاں بھی دیڑھ دو گھنٹے کتاب کی تعلیم ہوتی تھی، میں نے دیکھا کہ حضرت شیخ ؒ کے وہاں کتاب پڑھنے کا معمول تھا، اُس میں اکثر لوگ کتاب کو بالکل سمجھتے نہیں تھے، بس تبرکاً بیٹھے رہتے تھے، چناں چہ میں نے سوچا کہ ایک ایک پیراگراف پڑھ کر اُس کو آسان لفظوں میں سمجھا دیا کروں؛ چناں چہ میں ایسا ہی کیا کرتا تھا۔‘‘
(۴) شفیق الامت حضرت اقدس حاجی فاروق صاحب سِکّھرویؒ
(مُجازِ بیعت مسیح الامت حضرت اقدس مولانا مسیح اللہ خان صاحب جلال آبادیؒ)
آپ کا اصل وطن ’’علی گڑھ‘‘ ہے،پاکستان کے سِکّھر شہر میں مقیم تھے، حضرت مسیح الامتؒ کی طویل صحبت پائی تھی، آپ کے سلسلے میں حضرت مفکرِ ملتؒ یوں ارشاد فرماتے ہیں:
’’حاجی فاروق صاحبؒ حضرت مسیح الامتؒ کے بڑے خلیفہ تھے، اُن کی بڑی تعریف سنی تھی کہ اُن کا بہت اونچادرجہ ہے، میں نے کہہ رکھا تھا کہ جب اُن کا انگلینڈ کا سفر ہو تو مجھے فون کرنا، میں بھی اُن کی ملاقات کے لیے آؤں گا؛ چناں چہ مولوی اسماعیل صاحب اور مولانا سلیم صاحب دھورات نے فون کیاکہ حاجی صاحب کا پروگرام بن چکا ہے، تو میں انگلینڈ پہنچا اور حضرت سے اجازت چاہی کہ حضرت میرا اِس وقت سفر کا کوئی دوسرا مقصد نہیں ہے، میں صرف آپ کے ساتھ پندرہ دن رہنا چاہتا ہوں، اِس پر حاجی صاحب نے فرمایا کہ بہت شوق سے رہیں؛ چناں چہ میں پندرہ دن تک پورے سفر میں حضرت کے ساتھ رہا، پھر حضرت تو چلے گئے، میں بھی ٹورنٹو واپس ہو گیا، حضرت نے مکہ مکرمہ سے عزیزم مولوی اسماعیل سلمہ-جو اُس سال حج کے لیے تشریف لے گئے تھے-کے ساتھ مکتوب ارسال فرمایا کہ میں نے مولانا مسیح اللہ خان صاحبؒ کو خواب میں دیکھا کہ آپ فرما رہے ہیں کہ مولانا کو اجازت دے دو، اُس کے بعد میں نے سوچا تھا کہ پاکستان جا کر حضرت کے ساتھ وقت گزاروں گا؛ لیکن پاکستان کے حالات خراب ہوگئے جس کی وجہ سے نہ جا سکا اور حضرت کو قلب کا عارضہ لاحق ہوا اور کراچی جاتے ہوئے رات میں انتقال فرما گئے۔ حاجی فاروق صاحبؒ بڑے عجیب آدمی تھے، حضرت مسیح الامتؒ کے ملفوظات سے اُن کی کوئی تقریر خالی نہ ہوتی تھی۔‘‘
مکتوبِ اجازت از شفیق الامت حضرت اقدس حاجی فاروق صاحب سِکّھرویؒ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
حضرت مولانا عبد اللہ کاپودروی دامت برکاتہم و اطال اللہ عمرھم
(سابق رئیس فلاحِ دارین ترکیسر)
السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہٗ!
آج بے ساختہ بین النوم و الیقظہ ایک خاص حالت میں امام الاولیا، قطب العالم، مسیح الامت حضرت مولانا شاہ محمد مسیح اللہ صاحب قدس سرہٗ کی زیارت و ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ آں مکرم کا ذکر چِھڑ گیا، حضرت والا نے آں مکرم پر بہت اعتماد کا اظہار فرمایا، مزید ارشاد فرمایا: بندہ کے دل میں مولانا عبد اللہ صاحب کی بہت محبت ہے، ان کو بندہ کی جانب سے بیعت و تلقین کی اجازت دی جائے؛ لہذا بتوفیقہٖ تعالیٰ بتوسّل حضرت مرشدی رحمۃ اللہ علیہ بندہ آں معظم کو بیعت و تلقین، اصلاح و تبلیغ کی اجازت دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ بہت برکات سے نوازیں، خلقِ کثیر کو نفع و فیضِ کثیر ہو۔ آمین!
اللہ تعالیٰ نسبت و حیات میں خاص افزونی و ترقی عطا فرمائیں۔ آمین!
والسلام
احقر محمد فاروق عفی عنہٗ،خانقاہِ مسیحیّہ، سِکّھر
۲۲/۱۱/۱۴۱۹ھ
(۵) حضرت اقدس آصف حسین فاروقی صاحب دامت برکاتہم
(مجازِ بیعت حضرت اقدس خواجہ عبد المالک صدیقی نقشبندیؒ)
حضرت اقدس آصف حسین فاروقی صاحب مدظلہ خواجہ عبد المالک صدیقی نقشبندیؒ کے خلیفۂ مجاز اور حبیب الامت حضرت اقدس مولانا غلام حبیب صاحب نقشبندیؒکے پیر بھائی ہیں، بولٹن (یوکے) میں مقیم ہیں، مانچسٹر میں آپ کا خانقاہی فیض جاری و ساری ہے، حضرت مفکر ملتؒ کے جگر گوشہ حضرت مولانا اسماعیل صاحب پٹیل مد ظلہ کے دولت کدہ پر تشریف لائے، اور حضرت مفکر ملتؒ سے معانقہ فرما کر سلسلۂ نقشبندیہ میں اجازتِ بیعت سے نوازا۔
(۶) مفتیٔ اعظم گجرات حضرت اقدس مفتی احمد صاحب خانپوری دامت برکاتہم
(مجازِ بیعت فقیہ الامت حضرت اقدس مفتی محمود حسن صاحب گنگوہیؒ)
اجازت کا پس منظر حضرت مفکرِ ملتؒیوں بیان فرماتے ہیں:
’’حضرت مفتی صاحب کی خدمت میں رمضان المبارک میں حاضر ہوا تھا تو حضرت نے اپنے معتکف میں بلا کر فرمایا کہ میں ایک ہفتہ کے لیے جا رہا ہوں، یہاں عشا کے بعد بیان ہوتا ہے تو آپ روزانہ تھوڑی دیر بات کر لیا کریں اور معتکفین کی نگرانی فرمائیں، میں نے کہا: میں آپ کی جگہ پر کیسے بیٹھوں؟ میں تو خود نابلد قسم کا آدمی ہوں۔ اس پر حضرت نے فرمایا کہ میں آپ کو اجازت دیتا ہوں۔‘‘
حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم کی طرف سے تحریری طور پر اجازت نامہ موصول نہیں ہوا تھا؛ البتہ حضرت مفکرِ ملت نور اللہ مرقدہ‘ کے ذخیرۂ مکتوبات میں حضرت اقدس مفتی احمد صاحب دامت برکاتہم کا ایک بیش قیمت مکتوب موجود ہے، جو اپنے مشمولات کے اعتبار سے عظیم افادیت کا حامل ہے، جسے حضرت مفکر ملتؒ نے قابلِ طباعت مکاتیب میں شامل فرمایا تھا، اُس کا ایک اقتباس ہدیۂ قارئین کیا جا رہا ہے۔ ناقص خیال میں یہ مکتوب خود حضرت اقدس مفتی صاحب اطال اللہ بقاء ھم کی قلبی کیفیات کا آئینۂ جمیل بھی ہے:
’’آپ کے بیعت ہونے سے لے کر اب تک کی مختصر کیفیت معلوم ہوئی، اللہ تعالیٰ کے کئی بندوں نے آپ پر اپنے اعتماد کا جو اظہار فرمایا ہے وہ مبارک ہے اور قابلِ رشک بھی، آپ کے دل میں امت کے لیے جو درد اور دل سوزی و ہمدردی ہے وہی اس کی بنیاد ہے۔ حضراتِ انبیائے کرام اور مقبولانِ بارگاہِ خدا وندی کا ہر زمانہ میں یہ طرۂ امتیاز رہا ہے، اب جب کہ یہ امانت مختلف حضرات کی وساطت سے آپ تک پہنچی ہے تو اُس کا جو حق آپ پر عائد ہوتا ہے وہ بھی ادا کرنا ہے اور اُس کی ادائیگی کے لیے بھی قدرت اپنا کام کرے گی۔’و وجدک ضالًّا فھدیٰ‘کی تفسیر و تشریح اور ارشادِ نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم ’و ان أوتیتھا عن غیر مسئلۃ اُعِنْتَ علیھا‘ (بخاری شریف) کو پیشِ نظر رکھئے۔ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب نور اللہ مرقدہ‘ نے ’آپ بیتی‘میں اجازتِ بیعت پر جو کچھ لکھا ہے اُس کو بھی پیشِ نظر رکھئے اور اجازتِ بیعت ملنے پر اِن حضرات (حضرت شیخ الاسلامؒ، حضرت شیخ الحدیثؒ) پر جو کیفیات طاری ہوئی تھیں اُنھیں بھی تازہ کر لیں، طریقۂ بیعت تو ملفوظاتِ حضرت شیخ ؒ ’ساعتے با اولیا‘ کے آخر میں موجود ہے، اُس کے الفاظ میں حالات و ظروف کے مطابق اضافہ و ترمیم بھی کر سکتے ہیں۔ ایک بات ملحوظ رہے (جس پر میرا اپنا عمل ہے اور اِس لیے لکھ رہا ہوں کہ آپ کے لیے بھی مفید ثابت ہو) کبھی اپنے دل میں یہ داعیہ اور خیال پیدا نہ ہو کہ لوگ مجھ سے بیعت ہوں؛ بل کہ اپنے متعلق دل سے یہ سمجھیں کہ ’صلاحِ کار کجا و من خراب کجا‘ نیز’احمد تو عاشقی بہ مشیخت ترا چہ کارالخ‘ اِس کے باوجود اللہ تعالیٰ کا کوئی بندہ آ جائے تو پوری ہمدردی اور خیر خواہی سے اُس کے لیے موجودہ اکابر میں سے جس کے ساتھ تعلق مفید معلوم ہو اُس کا مشورہ دیں، اس کے باوجودکوئی اپنے اصرار پر قائم رہے تو اُس کو کہہ دیں کہ استخارۂ مسنونہ کر لو، اُس کے بعد بھی تمہارے دل میں میلان باقی رہے تو بتلاؤ، جب وہ اِس مرحلہ کو بھی پورا کر لے تو یہ سمجھ کر کہ ممکن ہے اُس کے خلوص و طلب کی برکت سے میرا بھی بیڑا پار ہو جائے بیعت فرما لیں، اور اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کریں کہ اے اللہ! میری نا اہلیت کے باوجود آپ نے اُس کو یہاں پہنچا دیا ہے تو آپ ہی اُس کا کام بنا دیجیے۔ جب بھی کوئی اِس نسبت سے آئے تو ہمیشہ اُس کی خیر خواہی اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ اُس کا تعلق قائم ہو جائے ایسی سعی دل سے ہو، ذاتی مفاد ہرگز ہرگز پیشِ نظر نہ رہے۔ جب کوئی اصلاحی معاملہ لے کر حاضر ہو یا خط کے ذریعہ دریافت کرے تو اولین وہلہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو کر دل سے یہ دعا کریں کہ اے اللہ! یہ آدمی جو معاملہ لے کر آیا ہے اُس میں اس کے لیے جو مناسب و بہتر ہو وہ میرے دل میں ڈال۔
آپ نے چوں کہ یہ معاملہ بڑے اہتمام و توجہ کے ساتھ اپنے مکتوب میں پیش فرمایا؛بل کہ جہاں تک میں سمجھا ہوں، اِس گرامی نامہ کی شانِ صدور ہی یہ ہے، اِس لیے مندرجۂ بالا چند سطور جو وقت پر دل و دماغ میں آئیں، لکھ دی ہیں؛ ورنہ ایسی بات بولنے سے عوام کے سامنے حیا مانع ہوتی ہے؛ چہ جائے کہ علما (اور وہ بھی آپ) کے سامنے (اور وہ بھی تحریرًا) مجھے اپنے متعلق سلوک و تصوف کی لائن سے کبھی غلط فہمی یا خوش فہمی بحمد اللہ تعالیٰ نہیں ہوئی کہ اِس راہ کے رموز و اسرار سے ہمیں بھی واقفیت ہے؛ بل کہ ہمیشہ یہ سوچتا رہتا ہوں کہ نہ معلوم مجھے کہاں ڈالا گیا، اور کیا اکابر کو بھی دھوکہ ہوتا ہے جو مجھ نابکار و نا اہل کو یہ ذمے داری حوالہ فرما دی ؎
خلق اللّٰہ للحروب رجالًا
و رجالًا لقصعۃ و ثرید
اور کبھی یہ خیال آتا ہے کہ مالک السموات و الارض کے فیصلوں میں دخل دینے والا تو کون؟ وہ چاہے تو اصحابِ کہف کے کتے کو جنتی بنائے اور بے جان تنے (اسطوانۂ حنانہ) میں جان ڈال دے ’یفعل ما یشاء، لا یسئل عما یفعل و ھم یسئلون، ؎
دادِ او را قابلیت شرط نیست
بل کہ شرطِ قابلیت ‘ دادِ اوست
بس چپ چاپ اپنا کام کرتا رہ اوراس کی ہدایت و توفیق مانگتا رہ ’اعملوا فکل میسر لما خلق لہ‘ (حدیث)
شاید میرا قلم بہک رہا ہے، اللہ تعالیٰ مجھے معاف فرمائے، آپ بھی در گزر سے کام لیں۔
میرا خیال یہ ہے کہ آپ وہاں مجلسِ ذکر قائم فرمائیں، آپ کے قرب و جوار میں جو لوگ مقیم ہیں اُن کے ساتھ تو یومیہ ہو تو مناسب ہے اور جو دور کے علاقے میں آباد ہیں اُن کے لیے ہفتہ میں ایک بار، ساتھ ہی درسِ حدیث کی ایک مجلس قائم فرما لیں، اُس کے لیے میرے خیال و تجربہ کے مطابق ریاض الصالحین موزوں ہے، یہ مجلس مسجد ہی میں ہو اور ہفتہ میں ایک بار ہو اور ایک وقت (چوبیس گھنٹے میں) مقرر فرمائیے، جس میں وہاں مقیم حضرات کے معاشرتی، ذہنی، جنسی اور دیگر مسائل (مشکلات) میں اُن کو مناسب دینی رہنمائی اور مشورہ دیں، بہر حال باقاعدہ اعلان یا اندرونی اطلاعات سے لوگوں کو باخبر کر دیا جائے، اِس میں حیا مانع ہو تو یہ کام (اطلاع و اعلان) آپ کے قریبی احباب کریں (اصل تو اس میں نیت ہے، اس کا اہتمام فرما لیں، باقی خطرات و وساوس قابلِ توجہ نہیں)‘‘۔
(۷) داعیٔ سنت حضرت اقدس مولانا منیر احمد صاحب بمبوی دامت برکاتہم
(مجاز بیعت مرشد امت حضرت اقدس مولانا عبد الحلیم صاحب جون پوریؒ)
۲۰۱۱ ء میں حضرت والا دامت برکاتہم کوساڑی میں ہونے والے سہ روزہ اصلاحی اجتماع کے موقع پر تشریف لائے تھے، اِسی دوران کاپودرا تشریف آوری ہوئی، تخلیہ فرما کر حضرت والانے حضرت مفکرِ ملتؒ کو چاروں سلسلے میں بیعت کی اجازت مرحمت فرمائی، بعد میں۲۰۱۲ء میں درجِ ذیل مکتوب ارسال فرمایا:
مکتوبِ اجازت از حضرت اقدس مولانا منیر احمد صاحب بمبوی دامت برکاتہم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
محترم مکرم جناب مولانا عبد اللہ صاحب مد ظلہ کاپودروی
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ!
توکلاً علیٰ اللہ! آپ کو چاروں سلسلے میں بیعت و ارشاد کی اجازت دی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے، اپنے تعلق میں اضافہ اور دینی اصلاح کا ذریعہ بنائے۔
ہدایات:- یہ چند باتیں تحریر ہیں ان پر عمل کی کوشش کریں
۱
اجازت اعزاز نہیں بل کہ ذمہ داری ہے
۲
پوری زندگی میں شریعت اور سنت کا اہتمام اور اجتنابِ معصیت کی فکر کریں۔
۳
اپنی تکمیلِ اصلاح کے لیے فکر مند رہیں۔
۴
خود بینی اور بد بینی سے بچتے رہیں۔
۵
حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کی بھی فکر کریں۔
۶
امتِ مسلمہ کے ساتھ اپنے اہل و عیال کی بھی دینی تربیت کرتے رہیں۔
۷
میرے لیے بھی دعا کرتے رہیں۔
۸
اِخلاص اور حسنِ اخلاق کا اہتمام کریں، اخلاص حقِ خالق اور اخلاق حقِ مخلوق ہے۔
۹
دو دوستوں کو اس کی اطلاع کر دیں۔
۱۰
اپنا مکمل پتہ اور فون نمبر تحریر کریں۔
۱۱
شب و روز کے نظام الاوقات تحریر کریں۔
نوٹ: یہ تحریر قدیم و جدید سب مجازین حضرات کو روانہ ہے۔
فقط والسلام
منیر احمد
۶/شوال المکرم۱۴۳۳ ھ-۲۵/اگست ۲۰۱۲ء
جامع مسجد کالینا، بمبئی، نمبر-۹۸
(۸) حضرت اقدس مولانا نعیم اللہ صاحب فاروقی نقشبندی دامت برکاتہم
آپ حضرت اقدس مولانا غلام حبیب صاحب نقشبندیؒ کے خلیفہ ہیں، باٹلی (انگلینڈ) میں مکاتب کے مدرسین کا اجلاس تھا ،جس میں حضرت مفکر ملتؒ کا خطاب ہوا تھا، اُسی موقع پر دورانِ اجلاس حضرت مولانا عبد الرؤف صاحب صوفی لاجپوری اور جناب زاہد پٹیل نقشبندی صاحبان نے حضرت مولانا نعیم اللہ صاحب نقشبندی مد ظلہ کی وکالت میں اجازت نامہ پیش فرما کر دستار بندی فرمائی تھی۔
مکتوبِ اجازت از حضرت اقدس مولانا نعیم اللہ صاحب فاروقی نقشبندی دامت برکاتہم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الحمد للّٰہ ربّ العالمین، والصلاۃ وا لسلام علیٰ خاتم المرسلین۔
احقر العباد محمد نعیم اللّٰہ فاروقی بن محمد صدّیق الحنفي مذھباً و النقشبندي المجدّدي مشرباً عرض کرتا ہوں(ہے) کہ شیخ الحدیث مولانامحمد عبد اللہ بن محمد اسماعیل کاپودروی مدّ ظلہ سے تعلقِ دیرینہ رکھتا ہے۔ اس دوران اُن کی علمی خدمات اور للہیت قریب سے دیکھنے میں آئیں۔ والحمد للّٰہ علیٰ ذالک۔
آج بتاریخ۲۳ /ربیع الاول۱۴۲۷ ھ بمطابق ۲۲ /اپریل۲۰۰۶ء قلب میں داعیہ پیدا ہوا کہ حضرت موصوف اپنے مزاج کی انکساری اور فروتنی کے باعث سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ میں بہتر کام کر سکتے ہیں۔
اس لیے راقم حضرت موصوف کی خدمت میں یہ التماس کرتا ہے کہ طالبین سے بیعت لیں اور للہ فی اللہ اُن کی اصلاح کی طرف توجہ فرمائیں۔ مخلوقِ خدا روحانی اعتبار سے پیاسی ہے اور روحانیت سے ناواقف لوگ روحانی طالبین کا استحصال کر رہے ہیں، ایسے میں اگر حضرت مولانا محمد عبد اللہ کاپودروی مد ظلہ جیسی شخصیات محض درس اور وعظ پر اکتفا کر کے بیٹھ رہے تو خطرہ ہے آخرت میں مؤاخذے کا۔
حضرت مولانا محمد عبد اللہ کاپودروی مد ظلہ کے ہم سفر حضرات حاضرین کو مناسب ترغیب دیں اور ترغیبی کلمات میں روح اور روحانیت کے تقاضوں اور شیخ کی ضرورت اور اہمیت سے لوگوں کو آگاہ کریں۔
میں محمد نعیم اللّٰہ فاروقی بن محمد صدّیق الحنفي مذھباً و النقشبندي المجدّدي خلیفۂ مُجاز حضرت مولانا پیر غلام حبیب نقشبندی رحمۃ اللّٰہ علیہ بذریعہ عریضہ ھٰذا شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد عبد اللہ بن محمد اسماعیل کاپودروی مد ظلہ کو سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ حبیبیہ کی اجازت و خلافت دیتا ہوں۔
میں امید کرتا ہوں کہ حضرت مولانا محمد عبد اللہ کاپودروی مد ظلہ اپنی ذاتی طبع پر سلسلۂ عالیہ کی ضرورت کو فوقیت دیں گے، انشاء اللہ۔
میں امید کرتا ہوں کہ حضرت مولانا محمد عبد اللہ کاپودروی مد ظلہ طالبین کو خوابوں اور خیالوں کی دنیا سے نکال کر حقائق کی راہ پر گامزن کریں گے۔
میں بوجہ اپنی غیر حاضری کے جناب حضرت مولانا عبد الرؤف صوفی مد ظلہ اور جناب زاہد پٹیل نقشبندی کو یہ اجازت نامہ پیش کرنے اوردستار بندی کی سنت پوری کرنے کے لیے اپنا وکیل مقرر کرتا ہوں اور حضرت مولانا عبد اللہ صاحب مد ظلہ کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
واللّٰہ الموفّق و المُعین، و بہٖ نستعین۔
فقط و السلام محمد نعیم اللہ فاروقی نقشبندی عفا اللّٰہ عنہ و عن والدیہ
22-04 -2006
(۹) حضرت اقدس مولانا ولی آدم صاحب لیسٹر (یوکے)
(مجازِ بیعت مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں صاحب ندویؒ)
آپ کا اصل وطن ستپون گجرات ہے، حضرت مفکرِ اسلام مولانا علی میاں صاحب ندویؒ کے مجاز ہیں، آں محترم نے حضرت کے دولت کدہ پر تشریف لا کر یہ کہتے ہوئے اجازت مرحمت فرمائی کہ حضرت مولانا علی میاں صاحبؒ کی طرف سے جو امانت مجھے پہنچی ہے، دل میں یہ داعیہ پیدا ہو رہا ہے کہ میں اُسے آپ کے حوالے کردوں۔ اور یہ بات معلوم ہے کہ حضرت مولانا علی میاں صاحبؒ کو حضرت مولانا شاہ عبد القادر صاحب رائے پوریؒ کی طرف سے سلسلۂ قادریہ اور چشتیہ میں خصوصی اجازت حاصل تھی، اِس معنیٰ کر حضرت مفکرِ ملتؒ کو حضرت مولانا مد ظلہ کے واسطے سے دونوں سلسلوں میں با ضابطہ طور پر اجازت حاصل ہوئی۔
مذکورہ فہرست پر نظر دوڑانے سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کو سلاسلِ ثلاثہ عالیہ: چشتیہ، نقشبندیہ اور قادریہ میں باقاعدہ اجازت حاصل ہوئی ہے؛ نیز چوں کہ ہمارے مشایخ کا معمول یہ ہے کہ اپنے مجازین کو چاروں سلسلوں میں اجازت دیتے ہیں، اِس حیثیت سے سلسلۂ سہروردیہ میںبھی آپ مجاز تھے؛ البتہ حضرتؒ پر چشتیہ رنگ ہی غالب تھا، اُسی کے نہج پراپنے متعلقین کی تربیت فرماتے تھے، جیسا کہ خود حضرت مفکر ملتؒ نے احقر کے استفسار پر ارشاد فرمایا تھا۔بہر حال مذکورہ بالا تفصیل سے مشایخِ طریقت کے اعتماد اور آپ کی مقبولیت و محبوبیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ؎
ایں سعادت بزورِ بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
اور یہ اجازتیں محض خانہ پری کی نہیں ہیں؛ بل کہ اِن کے پیچھے آپ کی عظیم قربانیاں اور مجاہدات کار فرما رہے ہیں۔ آپ نے ستائیس سال تک اِنتہائی نا مساعد حالات میں ’’دار العلوم فلاحِ دارین‘‘ کا بے مثال اہتمام فرمایا جو آپ کا سب سے بڑا مجاہدہ ہے۔ پھر سحر خیزی آپ کا دائمی معمول تھا، ’’دار العلوم فلاحِ دارین‘‘کے اساتذہ وطلبا اِس پر شاہد ہیں کہ ستائیس سالہ دورِ ریاست و اہتمام میں شاید ہی کبھی آپ کی صفِ اولیٰ فوت ہوئی ہو۔ فجر کی اذان سے پہلے تشریف لا کر تہجد و تلاوت میں مشغول ہو جاتے اور یہ معمول زندگی کے آخری ایام تک بر قرار رہا، صرف آخر کے دوچار روز جب آپ کی حالت انتہائی ناساز تھی اور ہر وقت غنودگی کی کیفیت طاری رہتی تھی، چند نمازیں قضا ہوگئیں، دواز دہ تسبیح کا انتہائی اہتمام تھا جس سے قُبیلِ فجر ہی فارغ ہو جاتے۔ اِس وصفِ استقامت پر ہزاروں کرامتیں قربان! اکابرین کا ارشاد ہے: ’’الاستقامۃفوق ألوف الکرامات‘‘۔
یہ آپ کے غایت درجہ اعتدالِ فکر و نظر اور تواضع کی علامت ہے کہ آپ نے ہر سلسلے کے اکابر کی خدمت میں جا کر کسبِ فیض کیا اور اِس سلسلے میں کسی قسم کے تعصب و تحزب کو گوارا نہ کیا۔ نیز اکابر کی ایک جماعت سے اجازت و خلافت کے باوجود خود اپنا حلقہ قائم کرنے کی فکر نہیں کی؛ بل کہ طالبین کو بڑی ہمدردی کے ساتھ قرب و جوار کے مشایخ کی جانب متوجہ فرماتے رہے، اگر کوئی بہت ہی بضد ہوتا تو انتہائی شرمندگی کے جذبات کے ساتھ اسے بیعت فرمالیتے اور اس کی روحانی تربیت کے لیے سراپا متفکر رہتے، اس سے جہاں حضرت کی فراخ دلی، سیر چشمی اور فکری اعتدال کا پتہ چلتا ہے وہیں آپ کے اِس عمل میں بعد والوں کے لیے درسِ موعظت بھی ہے۔
بہر حال بزرگوں کے ساتھ والہانہ محبت اور وارفتگی آپ کی زندگی کا روشن باب ہے، زندگی کے ہر نازک موڑ پر آپ نے اکابرین سے مشورہ کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھایا، ان کی خدمت میں ہزاروں میل کا سفر کر کے نیاز مندانہ حاضری دیتے اور اُن کی مقبول دعاؤں اور توجہات سے اپنے دامن کو بھر کر واپس ہوتے۔ اکابر و مشایخ کی ایک بڑی جماعت کو ’’دار العلوم فلاحِ دارین ترکیسر‘‘ میں بلا کر خود بھی کسبِ فیض فرمایا اور دیگر ہزاروں لوگوں کے لیے استفادہ کی راہ ہموار فرمائی۔
زیرِ نظر سطور میں حضرت مفکر ملتؒ کی مقبول کتاب ’’رشد و ہدایت کے منار‘‘ سے حضرت مصلح الامتؒ اور حضرت فقیہ الامتؒ کی بارگاہ میں حاضری کی کیفیت مختصر انداز میں پیش کی جارہی ہے۔
حضرت مصلح الامتؒ کی بارگاہ میں حاضری:
حضرت مفکر ملتؒ کی حاضری حضرت مصلح الامت نور اللہ مرقدہ کے وہاں دوبار ہوئی، پہلی دفعہ حضرت مولانا ایوب صاحب اعظمیؒ، سابق شیخ الحدیث ’’جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل‘‘ کے ہمراہ ہوئی، دوسری دفعہ جب فلاحِ دارین کی درس گاہ والی عمارت تیار ہوگئی تو اس کے افتتاحی اجلاس میں تشریف آوری کی دعوت دینے کی خاطر سفر فرمایا۔ اِس حاضری کی منظر کشی حضرت والا نے اپنے بہار آفریں قلم سے کچھ اِس طرح فرمائی ہے:
’’راقم الحروف بمبئی حاضر ہوا اور حضرت شاہ صاحبؒ کی خدمت میں اِس جلسہ میں شرکت کرنے اور دعا سے نوازنے کی درخواست کی، تھوڑی دیر سکوت فرمایا، پھر ارشاد فرمایا: ’آپ کی دعوت سے خوشی ہوئی، میں اصولی طور پر دعوت قبول کرتا ہوں؛ مگر اِس وقت حاضر نہیں ہو سکتا، کسی اور موقعہ سے حاضری ہوگی؛ اگر اللہ تعالیٰ کو منظور ہوا ایک ہفتہ قیام کروں گا اور سفر اپنے خرچ سے کروں گا۔مزید ارشاد فرمایا کہ جب کسی جلسہ میںبہت سے علما جمع ہوتے ہیں تو عموماً سامعین تقابل میں لگ جاتے ہیں کہ کس عالم کی تقریر اچھی ہوئی اور اُس سے خاطر خواہ نفع نہیں ہوتااور مقصود اللہ تعالیٰ کی مخلوق کونفع پہنچاناہے، ویسے دعا ضرور کروں گا۔ جب واپسی کا مصافحہ کرنے حاضر ہواتو حضرت نے اپنا ہاتھ ناچیز کے ہاتھ سے رگڑا اور فرمایا جاؤ مولوی صاحب کام کرو،کام کرو! اللہ تعالیٰ کامیاب فرماوے! ناچیز کے پورے جسم میں جیسے بجلی کوند گئی اور اِن دو تین کلمات نے بڑی دھارس بندھائی، افسوس کہ اُس کے بعد حضرتؒ کا حجاز کا سفر ہوا اور اُسی سفر میں اپنے رب سے ملنے تشریف لے گئے۔‘‘
حضرت فقیہ الامتؒ کی خانقاہ میں:
حضرت اقدس مفتی محمود حسن گنگوہیؒ کے وہاں بار بار تشریف لے جاتے رہے، حضرت بھی کرم فرماکر ترکیسر تشریف لائے،آخری حاضری کی تفصیل کچھ اِس طرح تحریر فرمائی ہے:
’’آخری ایام میں دیوبند کی ’’چھتہ مسجد‘‘ آپ کی قیام گاہ اور خانقاہ تھی، دو تین بار وہاں بھی حاضری کی توفیق ہوئی، آخری حاضری کے وقت کمرے میں حاضر ہوا،مولانا ابراہیم پانڈور صاحب نے فرمایا: عبد اللہ کاپودروی آیا ہے، حضرت چارپائی سے بمشکل کھڑے ہوئے، بہت لجاجت سے عرض کیا: حضرت تشریف رکھیں؛ مگر حضرت کھڑے ہوئے اور عجیب کیفیت تھی کہ ہاتھ پکڑ کر اللہ! اللہ! اللہ! فرماتے رہے، بدن کانپ رہا تھا، دل پر عجیب کیفیت طاری ہو گئی، تشریف فرما ہوئے اور بندے کی اور مدرسے کی خیریت دریافت فرمائی، کھانا بھی ساتھ میں کھلایا، بس یہ حضرت کی آخری ملاقات تھی۔‘‘
خانقاہی نظام:
آپ نے حضرت ڈاکٹر اسماعیل میمن صاحب مد ظلہ، حضرت مفتی فاروق صاحب میرٹھیؒ اور حضرت مفتی احمد صاحب خانپوری مد ظلہ وغیرہ اکابرین کے حکم پر تقریباً تین سال ’’مسجد عائشہ کاپودرا‘‘، ایک سال ’’مسجد ابو بکر ٹورنٹو‘‘، ایک سال’’مسجد زکریا ٹورنٹو‘‘ اور ایک سال ’’دار العلوم زکریا جوگواڑ‘‘ میں اعتکاف فرما کر مخلوقِ خدا کو فیض پہنچایا، اِس کے علاوہ کچھ روز ڈابھیل خانقاہِ محمودیہ میں بھی معتکف ہوئے تھے، اس قیام سے عوام و خواص کے ایک بڑے حلقہ کو اصلاح و تربیت اور اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کا زریں موقع میسر آیا۔
خلفائے عظام:
یوں تو آپ کے میخانۂ محبت و معرفت سے اِس طویل ترین مدت میں ہزاروں افراد نے جامِ معرفت نوش کئے، سیکڑوں نے راہِ ہدایت کا سُراغ پایا اور صدہا لوگوں نے علم و عمل کے گیسوئے برہم کو سنوارا؛ مگر چند وہ ممتاز شخصیات جنھوں نے آپ سے خصوصی کسبِ فیض فرما کر اپنے قلب و جگر کو جِلا بخشی اور حضرت والا نے اُن پر اعتماد فرما کر خلعتِ خلافت سے نوازا۔ اُن پانچ شخصیات کے اسمائے گرامی تاریخِ خلافت کی ترتیب کے اعتبار سے حسبِ ذیل ہیں:
(۱) حضرت مولانا اسماعیل پٹیل صاحب دامت برکاتہم، خادمِ خاص و جگر گوشۂ حضرت مفکرِ ملتؒ
(۲)حضرت مولانا سلیم صاحب دھورات دامت برکاتہم، بانی و شیخ الحدیث اسلامک دعوہ اکیڈمی، لیسٹر
(۳) حضرت مولانا محمد حنیف صاحب لوہاروی دامت برکاتہم، شیخ الحدیث جامعہ قاسمیہ عربیہ، کھروڈ۔
(۴) خادم القرآن و المساجد حضرت مولانا غلام محمد صاحب وستانوی دامت برکاتہم، بانی و مہتمم جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم، اکل کوا۔
(۵) حضرت مولانا مفتی یوسف صاحب ٹنکاروی دامت برکاتہم، شیخ الحدیث دار العلوم فلاحِ دارین، ترکیسر۔
ماشاء اللہ! یہ سب حضرات حضرت مفکر ملتؒ کی نیابت میں ایک وسیع ترین حلقہ میں مصروفِ خدمت ہیں، اللہ تعالیٰ اِن حضرات کی عمروں میں برکت عطا فرمائیں اور کثیر تعداد کو اُن سے فیض یاب فرمائیں۔
آمین یا رب العالمین!
(زیرِ نظر مضمون کی تیاری میں اپنی نجی معلومات کے علاوہ جگر گوشۂ مفکرِ ملت حضرت مولانا اسماعیل صاحب پٹیل دامت برکاتہم کا خصوصی تعاون حاصل رہا جس پر حضرت کا نہایت شکر گزار ہوں۔ اِسی طرح شیخ طلحہ منیار، شیخ عبید اللہ منیار، مولانا عبد المنان منیار، مولانا صہیب منیار وغیرہ حضرات پر مشتمل ایک وفد حضرتؒ کی زیرِ قیادت’’پٹن‘‘ گیا تھا، دورانِ سفر حضرتؒ نے اپنے سلوک کے سلسلے میں جو باتیں ارشاد فرمائی تھیں، اِن حضرات نے اسے محفوظ کر لیا تھا، خوش قسمتی سے وہ ریکارڈنگ حضرت مولانا اسماعیل پٹیل صاحب مد ظلہ کے واسطے سے احقر کو موصول ہوئی، جس سے مضمون کی تیاری میں خاصی مدد ملی، لہذا حضرت کے اِن تمام رفقائے سفر کا بھی تہہ دل سے مشکور ہوں۔ احقر اسماعیل بن یوسف کوثر غفر لہ‘)