انیس احمد انبھیٹوی
خادم جامعہ رحمانیہ کھامبیہ عالی پور حدیث
حضرت مفتی صاحب اور غریبوں محتاجوں کے ساتھ حسن سلوک:
مفتی صاحب کی زندگی میں تو ہم نے دیکھا ہی تھا۔ پوری زندگی محتاجوں کے ساتھ جو حسنِ سلوک کیا وہ ہم جانتے ہی ہیں۔البتہ جیل میں جانے کے بعد بھی یہ سلسلہ منقطع نہیں ہوا۔ہر پیر اور جمعرات کو جب ڈایالیسس کے لیے تشریف لاتے تھے تو دونوں جیب پرچیوں سے بھرے ہوتے تھے۔کسی میں لکھا ہوتا تھا کہ چپل لینا ہے ،کسی میں لکھا ہوتا تھا کہ دوا لینی ہے،کسی میں لکھا ہوتا تھا بسکٹ لینا ہے، کسی میں لکھا ہوتا سیب لینا ہے، کسی میں لکھا ہے کپڑے لینا ہے۔ایک بڑی تعداد میں سامان جمع ہوجاتا تھا۔کسی میں لکھا ہوتا تھا کہ میرے گھر والے کو فون کرکے خیریت معلوم کرنا ہے۔حضرت مفتی صاحب آتے اور اپنے صاحبزادگان کو حکم فرماتے تھے کہ ان چیزوں کو خرید لو،بہت سی مرتبہ تو پیسے نہ ہو تو قرض لے کر بھی سامان خرید کر لے جاتے تھے،لیکن کبھی کسی کو منع نہیں کیا تھا۔
حضرت مفتی صاحب،نماز کی پابندی اور پانچوں نمازوں کی امامت:
گھر پر رہ کر تو ہم نے حضرت مفتی صاحب کو نماز کی پابندی کرتے ہوئے دیکھا ہی تھا ،لیکن معلوم ہوا کہ جیل کے اندر بھی مفتی صاحب کی کوئی نماز نہیں چھوٹتی تھی۔ ہر نماز کی امامت کرواتے تھے ،جیل کے ساتھیوں کے بتانے کے مطابق مفتی صاحب جب بھی جیل میں حاضر ہوتے تھے، تمام مسلمان قیدی ٹوپی پہنے رہتے تھے اور نماز کی پابندی کرتے تھے۔خود ایک قیدی جو بلیشور کا مقیم تھا مفتی صاحب کے ساتھ، اس نے بتایا کہ وہ نماز کی پابندی نہیں کرتا تھا ،لیکن جیل میں نماز کی پابندی کی،پھر جب جیل سے رہائی ہوئی تو معلوم ہوا کہ وہ تہجد گزار بن گیا۔جیل کے ساتھیوں کے بتانے کے مطابق روزانہ تہجد میں اٹھ جایا کرتے اور ذکر و اذکار میں مشغول ہوجاتے تھے۔کبھی تہجد کی نماز نہیں چھوٹی الا یہ کہ بہت بیماری ہو۔اور لوگوں کو نماز کی پابندی کی تلقین فرماتے ہی رہتے تھے،اتنی کم زوری کے باوجود خود امامت کرواتے تھے۔
حضرت مفتی صاحب اور تلاوتِ قرآن کا معمول :
مفتی صاحب جیل میں روزانہ تین پارہ کی تلاوت فرماتے اور اپنے ذاتی قرآن میں طویل حاشیہ تحریر فرمایا تھا ۔ معلومات قرآنی کے نام سے ایک مقالہ تحریر فرمایا تھا۔ نیز اورادو وظائف کے پڑھنے کا مستقل ایک معمول تھا ۔
حضرت مفتی صاحب اور بھروچ سب جیل میں کتب خانہ کی بنیاد:
بھروچ سب جیل کے انچارج سے بات کرکے ایک کتب خانہ کی بنیاد رکھی، جس میں اردو، عربی اور گجراتی زبان میں کتابیں جمع کروائیں۔اسلام سے واقفیت کروانے والی بہت سی کتابیں جمع کروائی گئیں۔
حضرت مفتی صاحب،نوارنی قاعدہ کی تعلیم اور تصحیح قرآن نیز اصلاح اعمال:
مفتی صاحب نے ایک بڑی تعداد میں نورانی قاعدے منگوائے اور مسلمانوں کے قرآن صحیح کرنے کی فکر فرمائی۔جیل کے ساتھیوں کے بتانے کے مطابق مفتی صاحب پہلی مرتبہ عصر کے وقت جیل میں تشریف لے آئے اور آتے ہی پہلے اصلاحی بیان فرمایا اور دعا کروائی۔ جن کو سورتیں یاد نہیں تھیں، ان کوسورتیں یاد کروا دیں ، جن کا قرآن صحیح نہیں تھا ان کا قرآن صحیح کروایا۔جن کے عقائد درست نہیں تھے، ان کے عقائد درست کیے۔ ہر نماز کے بعد دعا کا معمول تھااورسب مل کر دعا فرماتے تھے ۔ اور روزانہ کسی نہ کسی وقت وعظ بیان فرما کر بہت سوں کے اعمال کی درستگی کی ۔
حضرت مفتی صاحب اور اسلام کی تبلیغ :
بہت سے غیر مسلم حضرات کو بلاتے اور پوچھتے کہ آپ کے ذہن میں کوئی اشکال ہے؟وہ بیان کرتا تو اس کے اشکال کو دور کرتے اور اسے اسلام سے مانوس کرتے۔ بہت سے غیر مسلم حضرات ایسی کارگزاری بیان کرتے ہیں، جس کو سن کر تعجب ہوتا ہے۔ان شاء اللہ جیل کے ساتھیوں سے کارگزاری معلوم کی جائے گی اور اس کو منظر عام پر لایا جائے گا۔
حضرت مفتی صاحب اور پولس محکمہ کو دعوتِ اسلام :
جب کبھی پولس محکمہ کے حضرات سامنے ہوتے اور موقع ہوتا تو ان کے سامنے سورہٴ فاتحہ کی تلاوت فرماتے، اس کا ترجمہ کرتے ، اس کی تفسیر فرماتے اور ان کو اسلام سمجھانے کی کوشش کرتے تھے ۔ کبھی سورہٴ اخلاص پڑھ کر اس کا ترجمہ اور تفسیر سنا کر درسِ توحید دیتے تھے ۔
حضرت مفتی صاحب اور اطعام ِطعام پر عمل :
ہم نے ہانسوٹ میں تو دیکھا ہی تھا اطعام طعام پر عمل، لیکن جیل کے ساتھیوں نے بتایا کہ جیل میں رہتے ہوئے مفتی صاحب اپنا ٹفن دوسروں کو کھلا دیتے تھے اور بہت سے غریبوں کے ٹفن کا خرچ ادا کرتے تھے اور کوئی نئی چیز ہوتی تو سب کو کھلاتے تھے۔
حضرت مفتی صاحب اور صبر :
جیل میں رہتے ہوئے کوئی بھی تکلیف ہوتی، کبھی حرف ِشکایت زبان پر نہیں لاتے۔ کبھی کبھی بعض نادان بد تمیزی بھی کر لیتے تھے، لیکن ہمیشہ خاموش ہوجاتے تھے۔کبھی کسی کو جواب نہیں دیتے تھے، بہت سی مرتبہ بیماری بہت بڑھ جاتی تھی توبے ہوش ہو جاتے تھے۔بیماری بہت بڑھ جاتی اوربخار وغیرہ آتا، لیکن جیل کے ساتھیوں کو بار بار کہتے تھے کہ گھر والوں کو مت بتانا ۔وہ پہلے سے ہی تکلیف میں ہیں،وہ مزید تکلیف میں مبتلا ہو جائیں گے۔
حضرت مفتی صاحب اور قیدیوں کی خیر خواہی:
بہت سے جیل کے ساتھی وہ ہیں اور جن کے گھر والے کافی وقت سے ان کو ملنے نہ آئے ہوں تو ان کے گھر والے کا نمبر لیتے اور ان کو سمجھاتے تھے۔بہت سے لوگوں کے درمیان صلح کرواتے تھے۔ایک مرتبہ پیرول پر آئے اور آتے ہی ایک گاؤں میں روانہ ہوگئے اور دو پارٹیوں کو سمجھایا کہ کیس ختم کردو۔جیل کے ساتھیوں میں سے کسی کی گھریلو حالت ٹھیک نہیں ہوتی تو اس کی بھی مدد کرتے تھے۔ حتی کہ ان کے کھانے پینے ،بچوں کی شادی بیاہ میں بھی اچھا تعاون فرماتے تھے ۔جیل میں کوئی بھی پریشان ہوتا تھا وہ مفتی صاحب کے پاس آکر بیٹھ جاتااور مفتی صاحب اس کو اس طریقہ سے سمجھاتے تھے کہ وہ بہت مطمئن ہو جاتا تھا۔ اسی لیے جیل میں بھی جب وفات کی خبر پہنچی تو بہت سے ساتھیوں کے آنکھوں سے آنسو نکل گئے اور بعض ساتھی توبہت روکر افسوس کر رہے ہیں ۔
حضرت مفتی صاحب اور تصنیف و تالیف:
اپنی مقدمہ مشکوة نیز درس ِحسامی کا مطالعہ کیا اور تصحیح فرمائی۔ نیز درس شرح تہذیب کا مطالعہ کیا،جس پر فی الحال کام جاری ہے ۔قرآن کریم پر طویل حاشیہ تحریر فرمایا اپنی ذاتی ڈائری میں مختلف چیزیں تحریر فرمائیں۔ بخاری شریف کے آخری درس کے سلسلہ میں مستقل مشورہ دیتے رہے ، جو عنقریب چھپنے والا ہے ۔
نوٹ: یہ تمام حالات جیل کے ساتھیوں کے بتانے کے مطابق اور جن حالات کو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ان کو لکھا گیا ہے ۔ جن حضرات کی رہائی ہو چکی ہے، البتہ تفصیلی حالات مسلم و غیر مسلم حضرات جن کے ساتھ مفتی صاحب کا تعلق رہا اور انہوں نے کافی وقت مفتی صاحب کے ساتھ گزارا ہے، اِن شاء اللہ اُن سے باقاعدہ تحریر لی جائے گی۔اللہ کرے ان تمام کی رہائی ہو جائے اور ہمارے لیے یہ کام آسان ہوجائے ۔
آمین یا رب العالمین ۔تمت بالخیر