نقوش وتأثرات
منیر الدین احمد عثمانی،نقشبندی ، استاذ دار العلوم دیوبند
۱۷/ شعبان المعظم ۱۴۴۱ھ مطابق ۱۲/ اپریل ۲۰۲۰ء ۱۲/ بجے دو پہر ہر طرف سناٹا تھا۔ اپریل کا مہینہ اپنے عروج پر دکھائی دے رہا تھا، شاہراہیں اور دیوبند کی گلیاں خاموشی کی چادر اوڑھے گہری نیند میں ڈوبی ہوئی تھیں ۔ ہر چہار سمت کورونا وائرس اپنے پیر پھیلائے ہوئے دندنا رہا تھا، مادر علمی دار العلوم دیوبند کورونا کی زد سے سسک رہا تھا کہ عاجز زادی ڈاکٹر عصمت جہاں عابدہ کی غم سے نڈھال آواز پردہ ٴسماعت سے ٹکرائی کہ آہ جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا کے ترجمان حضرت اقدس مولانا عبد الرحیم فلاحی اپنے رب حقیقی سے جا ملے۔یہ سننا تھا کہ اس عاجز کا وجود ساکت ہوگیا۔ ذہن ودماغ میں حضرت والا کی یادوں کی بارات بن گئیں، مگر وجود غم واندوہ سے نڈھال ہوگیا ۔
ہے دل کی محفل بھی سونی سونی، اُچٹتی آنکھیں سلگ رہی ہیں
یہ سب کی روح بھی ہے شمع کشتہ کہ وہ گیسوئے عنبری نہیں ہے
کبھی حافظہ میں حضرت والا کی بیوہ کی سسکتی ہوئی آواز گونجتی کہ ہمارے غمگسار اوررفیق حیات بچھڑ گئے، کبھی اولاد احفاد کی آہ وپکار درد میں ڈوبی ہوئی یہ صدا سنائی دیتی کہ ہمارے سرپرست ، درد کے درماں ، ہماری ضرورت برآری کرنے والے ہمیں چھوڑ کر کیوں چلے گئے۔ اعزا، اقربا کی تڑپتی ہوئی آواز کانوں میں آتی کہ ہماری قرابت کو سہارا دینے والے کہاں چلے گئے، جن کی آوازوں میں اپنائیت کی بو ہوتی تھی ۔ جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا کے بانی مبانی، غم گسار امت، خادم القرآن والسنة حضرت اقدس مولاناغلام محمد وستانوی# کا جسم اطہر سراپا غم، درد وغم کی کسک سے نڈھال ، مگر صبر وسکون کے پہاڑ، ایک مخلص رفیق کے گم ہونے پر زار وقطار ، راہِ وفا کے ہمدم کی جدائیگی پر صامت، جامعہ کی ہر فکر کو اپنی فکر سمجھنے والے کی رخصتی پر ساکت،خواہر زادہ مولانا حذیفہ وستانوی ، مولانا اویس وستانوی اور خواہر زادیاں شکستہ قلب وجگر اور ریختہ جوارح واعضا سے اپنے مشفق ومربی کو اپنی نم دیدہ آنکھوں سے یاد کرنے پر مجبور، اساتذہٴ جامعہ اپنے رہنما ومربی کے اس جہانِ فانی کو خیر آباد کہنے پر انتہائی غمناک ، آنکھیں اشک بار، طلبہ اور تلامذہ کے اپنے محبوب استاذ فلاحی صاحب کے اُس جہاں جاودانی کی طرف منتقل ہونے سے قلب وجگر پارہ نہ قول وفعل کی سکت ،نہ کچھ ہمت، بس ہر طرف غم ہی غم بکھرا پڑا ہے۔
جدھر بھی دیکھو ہے نوحہ ، ماتم عجب مچی ہے یہاں پہ ہنگم
ٹھہر گیا ہے سارا عالم ، فلک پہ چرخ بریں نہیں ہے
سکوت سا چھایا زیر ساحل ، یوں دھک سے بیٹھا قیس محمل
ہوا ہے اوجھل نشانِ منزل ، وہ ہمسفر ہمنشیں نہیں ہے
حتی کہ جامعہ کا ہر پھول مرجھایا ہوا ہے، کلی کھلنے سے رک گئی، چمن کی ہر شاخ جھکی ہوئی اپنے پرورش کرنے والے نگہباں کو حسرت بھری نگاہوں سے تک رہی ہے اور خراجِ عقیدت پیش کر رہی ہے۔ خود حضرت مولانا فلاحی صاحب کے دل میں جامعہ کے لیے تڑپ واضطراب تھا، محبت تھی، اس کی ہر اینٹ سے عشق کے درجہ کا تعلق تھا، اس کی ترقی کے لیے ہمہ وقت فکر منداور سفروحضر میں اس کے لیے کوشاں رہتے تھے۔
حضرت مولانا عبد الرحیم فلاحی ان موٴفق بالخیر اور بافیض علما میں ہیں، جن سے اللہ رب العزت نے کتاب وسنت کی اشاعت اور شریعت وطریقت کے پھیلاوٴ کا خوب کام لیا ۔ ۱۸/ اگست ۱۹۶۳ء میں رویدرا، ضلع بھروچ گجرات میں ان کی ولادت با سعادت ہوئی ۔ پہلے گاوٴں کے مکتب سے اکتساب فیض کرکے گجرات کی مشہور و معر وف دانشگاہ ”جامعہ فلاحِ دارین ترکیسر“ میں داخلہ لے کر سندِ فضیلت حاصل کی اور فلاحی نسبت کے حامل بنے۔ مزید علمی تشنگی کو دورکرنے کے لیے اپنے برادر بزرگ حضرت مولانا ومفتی عبد اللہ صاحب مظاہری کی زیر سرپرستی مظاہر علوم سہارن پور میں داخلہ لے کر کسب فیض کیا اور خوب کیا۔
بچپن سے سعادت مندی مقدر تھی۔ مزید قیام مظاہر علوم کے دوران شیخ شریعت وطریقت ناظم مظاہر علوم حضرت اقدس مولانا اسعد اللہ صاحب نور اللہ مرقدہ کی نہایت با فیض ذات کی صحبت میسر آئی اور خوب آئی۔ توجہات ظاہری وباطنی سے مستفیض ہوتے رہے، حضرت ناظم صاحب کی صحبت وخدمت نے حضرت والا کو مصفی ومزکیٰ بنا دیا۔ حضرت ناظم صاحب کی خدمت میں حاضری اور حضرت ناظم صاحب کے وجودِ مسعود کو غنیمت جان کر روزانہ قرآن کریم بھی سناتے، حضرت ناظم صاحب کی مستجاب شخصیت کی دعا اور توجہات سے قرآن حکیم سے ایسا مضبوط رشتہ قائم ہوگیا کہ خدمت ِقرآن آپ کی زندگی کا حسین عنوان بن گیا۔چناں چہ جب ایک صحرا بیاباں وادیٴ غیر ذی زرع ”اکل کوا“ میں خادم قرآن وسنت حضرت اقدس غلام محمد وستانوی حفظہ اللہ نے علم وعرفان کی تخم ریزی اور عملی پیش رفت کرکے منصوبہ بندی کی تو اس کاروان عزیمت میں اس نوجوان فاضل کو ۱۹۸۹ء میں شامل کر لیا، جس نے اپنے حوصلہ ، اولوالعزمی، اخلاص اور دیانت سے اس کاروان علمی کے صف اول میں جگہ بنائی۔ اس کے بعد اخیر تک مکمل ۳۳/ سال تک جامعہ کے زیر اہتمام جتنے پروگرام ہوتے ان سب میں آپ کا حصہ ہوتا تھا۔
تصحیح حروف اور تجوید کی رعایت کے ساتھ قرآن مقدس کی تعلیم عام کرنے کی غرض سے جامعہ اشاعت العلوم نے صوبائی اور ملکی سطح پر مسابقات قرآنی کی جو تحریک چلائی اس کا انتظام وانصرام آپ کے سپرد ہوتا اور ان پروگراموں کی نظامت آپ ہی کے سپرد رہتی تھی۔
حضرت اقدس مولانا عبد الرحیم فلاحی راہِ سلوک کے ایسے راہی اور مسافر تھے کہ جب اس راستہ پر قدم رکھا تو منزل مقصود پر پہنچ کر ہی دم لیا۔ اولاً مختلف بزرگوں سے منزل تصوف طے کرتے رہے، آخر میں حضرت اقدس مولانا محمد الیاس صاحب پپلی مزرعہ پنجاب پر نگاہ ٹھہر گئی اور ان سے منازل سلوک میں رہبری حاصل کرتے ہوئے منزل مقصود پر پہنچ گئے۔ حضرت مولانا محمد الیاس صاحب ہی سے اجازت وخلافت سے سرفراز ہوئے، پھر اللہ رب العزت نے باطن کو نورِ نسبت سے ایسا منور فرمایا کہ بڑے بڑے مجمع کے دل کی دنیا بدل دیتے۔ایک مرتبہ سین پور گڈا ، جھارکھنڈ میں ایک بڑا اجتماع تھا، پہلے اس عاجز کا بیان ہوا اور کچھ اہل اللہ کی باتیں آگئیں، جس سے مجمع دل گیر ہوگیا اور جب فلاحی صاحب کا بیان شروع ہوا تو پورا مجمع زار وقطار رونے لگا حتی کہ شیخ طریقت مولانا احمد نصر بنارسی نے آبدیدہ آنکھوں سے گلے لگا لیا اور فرمایا کہ آپ جیسے صالح جوان سے صالح انقلاب برپا ہوجائے گا۔ ایک عمدہ خطیب کی عمدگی یہی ہے کہ مجمع اس کے خطاب کے اثر کو قبول کر لے اور دل کی ویرانی آبادی سے بدل جائے۔فلاحی صاحب اپنے یومیہ معمولات کے بڑے پابند تھے، حضر وسفر دونوں حالتوں میں اپنے معمولات ضرور پورے فرماتے، بل کہ بہت سی مرتبہ یومیہ معمولات پورے نہ ہونے پر خفگی کا اظہار فرماتے۔
خاردار ، شعلہ بار اور پرکٹھن راہوں سے گذر کر نرم گرم کو جھیلتے ہوئے، موجِ حوادث میں بھی ہنستے اور کھیلتے ہوئے شبانہ روز کی جد وجہد اور محنت ومشقت کے ذریعہ صبح تمنا کی کرن تک پہنچنے کے عادی تھے۔ اپنے ماتحتوں کی ترقی اور احت رسانی کے لیے تڑپنا، پھڑکنا، گھلنا اور اپنی تمام تر توانائیوں کو صرف کرنا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔جامعہ میں مسابقة القرآن الکریم کے حوالہ سے پورے ہندستان کا بہت بڑا اجتماع تھا،رات و دن ایک کیے ہوئے تھے، کبھی انتظام وانصرام میں مصروف، کبھی ضیوف کرام کی ضیافت میں مشغول ، مہمانوں کے لیے ہر چھوٹی بڑی چیز پر نگاہ ، کھانا، ناشتہ اور چائے وغیرہ کا خیال ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ وہ مہمانوں کے لیے بچھے جارہے ہیں اور اپنی سب چیز کو اپنے واردین کے لیے نچھاور کر دینا چاہتے ہیں۔
وہ اپنے عزم وہمت کے کوہِ گراں تھے، جس چیز کا عزم مصمم کر لیتے اس کے حصول کے لیے کتنی ہی خاردار وادیوں سے گذرنا پڑے ، کتنے ہی دشت وجبل کو پار کرنا پڑے اور کتنے ہی بیاباں وصحرا کو عبور کرنا پڑے وہ عبور کرکے منزل کو پانے کی سعی کرتے۔ گڈا، جھار کھنڈ سے کشمیر کا سفر در پیش تھا، سردی پورے شباب پر تھی، ٹرین میں سلیپر کلاس کا ٹکٹ ملا، مزید یہ کہ عرب مہمان ہمراہ ہیں مگر پائے استقامت میں ذرا بھی لرزہ نہیں آیا، سفر پر روانہ ہوگئے اور کشمیر پہنچ گئے۔
تدریس ، خطابت اور نظامت کی ہنگامہ خیزیوں کے ساتھ تصنیف وتالیف کی عظیم نعمت سے سرفراز رہے۔ نظامت ہنگامہ خیزیوں سے عبارت ہے تو تصنیف وتالیف اس کے خلاف ساکت اور گوشہ نشینی کا متقاضی ہے ۔ نظامت ہمہ اوقات افکار وانتشار کے ہجوم کا نام ہے اور تصنیف وتالیف افکار وخیالات کے اجتماعیت سے مترادف ہے۔ تدریس، تصنیف وتالیف مقام محبوبیت ہے تو نظامت اور اہتمام مقام مبغوضیت ، خلاصہ یہ کہ دونوں کے درمیان بونِ بعید ہے ۔ اس عاجز کے دوش نا تواں پر دار العلوم دیوبند کی مختلف ذمہ داریاں رہتی ہیں، جو شب وروز ساری توانائیوں کو مصروف رکھتی ہیں اس سے نکلنے نہیں دیتی ہیں۔یہ عاجز اس وادی سے خوب واقف ہے، آپ اس کے باوجود قلم وقرطاس سے اپنا رشتہ مضبوط بنائے رہے اور آپ کی جانب سے مختلف اوقات میں کتب ورسائل وجود میں آتے رہے۔ مسابقات کی تیاری کے لیے مذاکرات اور گائڈ بک خود ہی تیار کرتے۔ اس کے علاوہ سماجی ومعاشرتی موضوعات پر ان کا قلم رواں دواں تھا، اب انہوں نے مسابقی پروگرام کے لیے ایک عمدہ اور ضرورت پر مبنی عنوان کی طرف رہنمائی فرمائی اور ایک مختصر بلاغتِ قرآن کے عنوان سے کتاب تصنیف فرمائی اس کے علاوہ مکتبہ جبرئیل میں آپ کی پانچ کتابیں موجود ہیں ،جن سے بآسانی آن لائن استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ (۱)تحفہٴ تراویح(۲) تحفہٴ اذان وموٴذنین (۳) تحفہٴ حفاظ (۴) سعادتِ دارین (۵) نگارشات فلاحی ۔
حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب فلاحی ایسے خاندان کے فرد فرید تھے، جو بزرگوں سے مربوط اور مضبوط رشتہ رکھتے تھے۔ آپ کے والد گرامی قدر حاجی محمد ابراہیم صاحب حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی کے ارادت مند اور عقیدکیش تھے، حضرت مدنی سے نسبت کے بعد ان کی زندگی یکسر بدل گئی تھی، ان کے حالات میں غیر معمولی تغیر آگیا تھااور انہوں نے اپنی اولاد حضرت مفتی عبد اللہ صاحب مظاہری، مولانا عبد الرحیم صاحب فلاحی اور مولانا عبد الرحمن صاحب کو خدمت ِعلم دین کے لیے وقف کر دیا تھا۔ ان کا خلوص تھا کہ اللہ رب العزت نے ان تینوں کودین مبین کی سعادت بھری خدمات سے بہرور فرمایا۔
مولانا فلاحی صاحب اپنے بزرگوں اور بڑوں کے بے حد معتمد تھے۔خادم قرآن وسنت حضرت اقدس مولانا غلام محمد وستانوی کے دست ِراست تھے، تعلیمی وتنظیمی تمام امور کو اپنے پیچھے ان ہی کے حوالہ کرتے تھے، حضرت مفتی عبد اللہ صاحب مظاہری بانی جامعہ مظہرسعادت بانسوٹ بھی کسی لمبے اور طویل سفر پر جاتے تو جامعہ ہانسوٹ کی ساری ذمہ داری ان کو سونپ کر جاتے۔
مولانا اکل کوا میں حسبِ معمول خدمت دین میں مصروف تھے کہ اچانک ۱۱/ اپریل ۲۰۲۰ء میں الٹی کچھ زیادہ مقدار میں ہوگئی۔طے ہوا کہ کسی بڑے ڈاکٹر سے رجوع کیا جائے اور کھروڈ کا فیصلہ ہوا ۔وہاں سے کھروڈ ڈاکٹر اویس کے یہاں داخل ہونا طے ہوا ، جب روانگی کی بات ہوئی تو فرمایا کہ ایمبولینس نہیں میں بائک پر چلا جاوٴں گا، میری طبیعت ٹھیک ہے۔ چناں چہ بائک پر روانگی عمل میں آئی۔ کسے پتہ تھا کہ یہ سفر؛ دار آخرت کا سفر اور آخری سفر ہے، اس کے بعد کبھی واپس نہیں آئیں گے۔ مگر ہوا وہی جو مقدر تھا ،یعنی یہ ۱۱/ اپریل کا سفر محبوب حقیقی سے ملاقات کے لیے آخری سفر ثابت ہوا۔ اور ۱۲/ اپریل ۲۰۲۰ء ۸/بجے صبح اپنے مربی حقیقی اللہ رب العزت کی آواز پر لبیک کہہ دیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔اب ہم تقدیری فیصلے کے سامنے سرِ تسلیم خم کرتے ہیں، جس طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صاحب زادے حضرت ابراہیم کی وفات پر اپنے غم کا اظہار فرماکر اللہ کی مرضی پر رضا ظاہر فرمائی تھی۔
ان العین تدمع، والقلب یحزن ولا نقول إلا ما یرضی ربنا وانا لفراقک یا ولدنا لمحزون۔
۱۷/ شعبان ۱۴۴۱ھ میں وفات کے بعد” رویدرا“ کے آبائی قبرستان میں تدفین عمل آئی۔ آج ہم وہی کہتے ہیں کہ ہماری آنکھیں اشک بار ہیں ، دل غمگین ہیں ، ہم اپنی زبان پر وہی لائیں گے جو ہمارے رب کی خوش نودی کا سبب ہو ۔
اللہ رب العزت قرآن حکیم کے اس دیرینہ خادم کی جملہ حسنات قبول فرمائے، اعلیٰ مقام میں جگہ نصیب فرمائے ، فرزندان، برادران ، اعزا واقارب ، تمام تلامذہ ومتعلقین اور خود اس عاجز کو صبر جمیل عطا فرمائے اور جامعہ اکل کوا اور پوری امت کو نعم البدل عطا کرے۔
آمین یا رب العالمین !