(حضرت اقدس مولانا شاہ یوسف متالا صاحبمہتمم دارالعلوم بری انگلینڈ)

 آخری پیار

(حضرت اقدس مولانا شاہ یوسف متالا صاحبمہتمم دارالعلوم بری انگلینڈ)

رشحات قلم : احمد علی لیسٹر

            ہمارے حضرت اقدس مولانا یوسف متالاصاحب قدس اللہ سرہ کو اپنے مرشدحضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب نور اللہ مرقدہ سے جو عشق و محبت اور حضرت شیخ کو اپنے مریدِ باصفا سے جوتعلقِ شدید تھا، وہ حضرت شیخ کے خلفا کے درمیان معروف تھا ،حضرت شیخ کے خلفاء نے اس کا اچھی طرح مشاہدہ کیا تھا۔ اس تعلق کا اندازہ کتاب ’محبت نامے‘ میں شائع شدہ خطوط کے مطالعہ سے ہو سکتا ہے۔ حضرت شیخ کے بعض خلفاء نے اس رشتہ کو حضورِاقدس صلی اللہ علیہ وسلم اورحبِّ رسول حضرت زید بن حارثہ  کے تعلق سے تشبیہ دی ہے۔ ہمارے حضرت اِس دُور افتادہ زمانے میں فنا فی الشیخ کی ایک زندہ مثال تھے۔پھر حضرت شیخ  کے وصال کے بعد سے لے کر اپنے وصال تک ہم سب نے اس کا خوب مشاہدہ کیا کہ ہمارے حضرت کو حضرت شیخ سے ایک خاص قسم اور امتیازی شان کا قلبی و روحانی تعلق حاصل رہا، حضرت  کا شاید ہی کوئی وعظ و بیان ہو جس میں حضرت شیخ  کا ذکر نہ ہو۔ حضرت فرماتے کہ میں ہر موقع و مناسبت سے حضرت شیخ کا کوئی نہ کوئی قصہ بیان کرسکتا ہوں ، اس سلسلہ میں ہمارے حضرت کا تو یہ حال تھا

غزل اس نے چھیڑی مجھے ساز دینا

ذرا عمرِ رفتہ کو آواز دینا

            ہمارے حضرت  کے کینڈا کے سفر کا ایک واقعہ قابِل ذکر ہے۔ہمارے حضرت کی زندگی کا آخری سفر کینڈا کا ہوا ،جس میں دیگر ساتھیوں کے ساتھ اس عاجز کو بھی معیت و مصاحبت کی سعادت حاصل رہی، بل کہ سفر سے قبل ہی نظم ونسق کی ذمہ داری عاجز ہی کے سپرد فرمائی تھی۔ سال کے شروع ہی میں ۱۸/جنوری ۲۰۱۹ء کو حضرت نے عاجز سے فرمادیا تھا کہ کینڈا سے دعوت آئی ہے، زندگی رہی تو پرسال کی طرح امسال بھی عید الاضحی کے بعد متصلًا سفر کا پروگرام رہے گا، لہٰذا کوئی اور پروگرام نہ بنائیں ، چناں چہ عیدکے تیسرے دن ۱۴/ اگست ۲۰۱۹ء کو وینکور، کینڈا کے لئے روانہ ہوئے، کِسے معلوم تھاکہ اب حضرت  انگلینڈ واپس تشریف نہیں لانے والے، تین چار روز وینکوور میں قیام رہا اور وہاں سے ٹورنٹو پہنچے، وہاں ایک ہفتہ گذرا کہ حضرت پر دل کا دورہ پڑا اور ہاسپٹل میں داخل کیے گئے ،دو ہفتہ ہاسپٹل میں گذار کر شبِ عاشورہ ۸/ ستمبر۰۱۹ ۲ ء کو جان جانِ آفریں کے حوالہ کردی۔ تو اس سفر کا واقعہ ہے کہ وینکوور شہر میں ہم سب ساتھی حضرت کے ساتھ کھانے کے لئے بیٹھے ہوئے تھے۔ میزبان اور صاحبِ خانہ جناب کامران صاحب حضرت کی خاطر کرتے ہو ئے کوفتے پیش کررہے تھے کہ ہمارے حضرت کو حضرت شیخ کا کوفتے کھلانا یاد آگیا پھرفرمانے لگے کہ:

            حضرت شیخ قدس سرہ کے یہاں جب دسترخوان لگتا تو پہلے ایک جماعت کے کھانے کی نشست ہوتی، پھر دوسری جماعت، پھر تیسری جماعت اور حضرت شیخ شروع تا آخر تشریف فرما ہو تے اور مہمانوں کا خیال کرتے ہوئے بہت توجہ کے ساتھ سب کو کھلاتے اور مجھے حکم تھا کہ حضرت شیخ کے پاس بیٹھا رہوں اور حضرت مجھے اس دوران کھلاتے رہتے۔ پھر فرمایا ہمارے ابّا تو ہمیں کم عمری ہی میں چھوڑ کر چلے گئے تھے، پھراللہ تعالی نے کتنے پیارے باپ دئیے۔

            یہ فرماکر ہمارے حضرت آبدیدہ ہوگئے اور دسترخوان سے اٹھ گئے۔ ہمارے حضرت کی حضرت شیخ نور اللہ مرقدہ کے ساتھ عشق ومحبت کی ایک طویل داستان ہے

کبھی فرصت سے سن لینا

عجب ہے داستاں میری

            حضرت کے مطبوعہ مواعظ و تالیفات کو پڑھ کر اس تعلق کا کچھ اندازہ ہو سکتا ہے۔اِس پیار و محبت کا ایک واقعہ’حضرت شیخ اور ان کے خلفاء‘ نامی کتاب میں ہمارے حضرت نے ذکر فرمایا ہے۔ حضرت شیخ نور اللہ مرقدہ کی زندگی کے آخری ایام کا یہ پیار بھرا واقعہ بیان فرماتے ہوئے ہمارے حضرت تحریر فرماتے ہیں:

آخری پیار:

            حضرت شیخ کی علالت کے آخری ایام میں انتقال سے چند روز قبل ہمارے دارالعلوم کے ایک طالبِ علم کا خط آیا جس میں اس نے اپنے احوال لکھے تھے ،جس کے ضمن میں اپنی گندگی اور تقاصیر کا پیشِ نظر رہنا اور عبدیت کا استحضار وغیرہ مذکور تھا، صوفی اقبال صاحب نے میری غیبت میں حضرت کو وہ خط سنایا، سن کر حضرت بہت مسرور ہوئے اور ان سے فرمایا کہ:

            ”یوسف آئے تو مجھے بتا دیجیو، میں اُس کا منہ چوموں گا۔“

             جب میں حاضر ہوا تو فرمایا:

            ”اِدھر آ، لا تیرا منہ چوموں۔“

             میں نے بڑھ کر حضرت کی پیشانی مبارک اور دست مبارک کو چوما، حضرت نے فرمایا:

            ”ارے! میں نے تجھے چومنے کے لئے بلایا تھا۔ تیرے لونڈے کا خط سن کر بڑا ہی جی خوش ہوا، اس کو میری طرف سے خوب دعائیں لکھ دیجیو اور یہ کہ جو اپنے کو اہل سمجھے وہی نا اہل ہے۔“ (جلد ۲،صفحہ ۳۱۸)

            حضرت شیخ نور اللہ مرقدہ کا وصال پہلی شعبان ۱۴۰۲ھ مطابق ۲۴/مئی ۱۹۸۲ء کو ہوا اور حضرت  کا مذکورہ واقعہ حضرت شیخ کی وفات سے ایک مہینہ قبل اپریل کا ہے ، اس وقت ہمارے حضرت کی عمر شریف ۳۶/ سال تھی۔ اِسی واقعہ سے متعلق اُنہی دنوں میں حضرت شیخ کے اجل خلیفہ حضرت صوفی اقبال صاحب رحمة اللہ علیہ نے ایک مکتوب اس عاجز کے نام تحریر فرمایا تھا، اُس زمانہ کا لکھا ہوا یہ مکتوب خوش قسمتی سے اب تک محفوظ ہے جوپیشِ خدمت ہے:

            مکرم و محترم مولوی احمد علی صاحب!

            بعد سلام مسنون ! میں اس وقت بہت بیمار ہوں اس لئے مشترکہ خط لکھ دیا، حضرت مولانا ہاشم صاحب والا مضمون ۶ /نمبر تک دوسروں سے بھی عرض کردیں۔

            آپ کا خط جو میرے نام تھا اور مولوی طاہر فیاض صاحب کا خط حضرت مولانا یوسف صاحب کے نام تھا اِن دونوں خطوں کا مضمون میں نے حضرت شیخ کو سنادیا تھا، آپ حضرات کی سعادت اور نیک جذبات سن کر حضرت کے آنسو نکل آئے، خوب دعائیں دیں اور اپنی طرف سے ہمیں بھی آپ حضرات کے لئے دعائیں کرنے کا حکم کیا اور حضرت مولانا یوسف صاحب کو بلاکران کا منہ چوما،فرمایا کہ:

            ”تمہارے طلباء کا حال صوفی نے سنایا بہت دل خوش ہوا، بہت دعاء کرتا ہوں۔“

            حضرت مولانا کی تربیت و توجہ پرخصوصی شفقت فرمائی، اب اس سے زیادہ اور کچھ لکھنا بے کار ہے، قطب الاقطاب کی توجہ و دعاء بس ہے، فقط والسلام۔

صوفی اقبال

۲۸/ جمادی الثانیہ۱۴۰۲ھ۔(۳۰/ اپریل ۱۹۸۲ء کو موصول ہوا )

            حضرت شیخ نوراللہ مرقدہ کو ہم سے جدا ہوئے ۴۰/سال ہونے کو ہے، حضرت صوفی اقبال صاحب رحمہ اللہ کو رخصت ہوئے۰ ۲/سال گذر گئے اور نَو مہینہ قبل ہمارے حضرت قدس اللہ سرہ بھی ہمیں داغِ مفارقت دے کر آخرت کی طرف چلدئیے ، اہل اللہ و اکابر علماء پے در پے رخصت ہو رہے ہیں، ہم نے بھی دیرسویر اُسی طرف کا رخ کرناہے، اللہ جل شانہ ہم سب کا خاتمہ ایمان پر فرمائے، زمرہٴ متقین وابرار میں ہمیں محشور فرمائے۔آمین ثم آمین ۔

 بجھا چراغ ،اُٹھی بزم ،کھل کے رو اے دل

 وہ سب چل دئیے جنہیں عادت تھی مسکرانے کی