معارفِ کاپودروی
حصولِ علم کے لیے فنائیت ضروری ہے:
میرے دوستو! علم کے لیے سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو مٹائے، اپنے اساتذہ اور بڑوں کے ساتھ انکساری سے پیش آئے، اللہ تعالیٰ ہم سے یہی چاہتے ہیں کہ ہماری زندگی میں تقویٰ پیدا ہو اور تقویٰ پیدا ہونے کی راہ قرآن شریف میں یہ بتائی کہ صادقین کی معیت اختیار کی جائے۔﴿یَأَیُّہا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّہَ وَ کُونُوا مَعَ الصَّادِقِین﴾
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی اس آیت میں دوباتیں صاف صاف بتادیں﴿یَأَیُّہا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّہَ﴾ اے ایمان والو! تم اللہ سے ڈرو۔ اور ساتھ ہی فرمادیا ﴿وَ کُونُوا مَعَ الصَّادِقِینَ﴾ اورسچوں کے ساتھ رہو۔
بزرگانِ دین فرماتے ہیں کہ تقویٰ کے حصول کا راستہ اللہ والوں کی صحبت ہے، آدمی چاہے کتنا ہی علم حاصل کر لے، لیکن اگر اسے صادقین اور صالحین کی صحبت حاصل نہیں ہے تو وہ صحیح طور پر دین کا کام انجام نہیں دے سکتا؛ اسی لیے ہمارے بزرگوں نے اس پر بہت زور دیا ہے کہ جہاں آپ اکتسابِ علم کریں وہاں آپ صادقین کی صحبت بھی اختیار کریں۔
صحبتِ صالحین کی ضرورت:
حضراتِ صحابہ کرام کی زندگی میں جو اتنا زبردست انقلاب آیا، وہ جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت ہی کا اثر تھا۔ ایک آدمی اسلام قبول کرتا تھا، پھر وہ چند دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہتا تھا اور صرف چند دن کی صحبت کی وجہ سے اس کی زندگی میں تبدیلیاں آ جاتی تھیں، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ جو نورِ نبوت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں تھا اور آپ کو جو اللہ کے ساتھ نسبت ِقو یہ حاصل تھی، اس کا اثر ان کے دلوں پر اتنا زبردست ہوتا تھا کہ ان کی زندگیوں میں انقلاب آ جایا کرتا تھا۔
بہر حال صحبت کے بغیر چارہٴ کار نہیں، علم صرف نقوش کا نام نہیں ہے، صرف کتابیں پڑھ لینے سے اور کسی چیز کو یاد کر لینے سے اتنا نفع نہیں ہوتا جتنا نفع علم کے ساتھ صحبتِ صالح سے ہوتا ہے۔ آج بڑی ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم بزرگوں کی صحبت اختیار کریں۔ ہمارے بزرگوں کے نزدیک اس کی بڑی اہمیت ہے۔
امام احمد ابن حنبل کی خدمت میں بہت سے لوگ دور دراز کا سفر کرکے جایا کرتے تھے اور ان کے ہاتھ میں نہ کاغذ ہوتا نہ قلم ، بس وہ ایسے ہی بیٹھے رہتے، جو طلبہٴ علم ان کے پاس ہوتے سب کے پاس کاغذ ہوتا اور قلم ہوا کرتا تھا، تو بعض طلبہ نے ان سے پوچھا کہ تم لوگ کیوں آئے ہو؟ ”لیس عندکم ورق ولا عندکم قلم“ تمہارے پاس نہ ورق ہے نہ قلم، تو انہوں نے جواب دیا ہمارا اس وقت کا سفر تو صرف اس لیے ہے ؛ تاکہ ہم ان سے آدابِ زندگی سیکھیں، ہم صرف آدابِ زندگی سیکھنے کے لیے آپ کے یہاں حاضر ہوئے ہیں۔
میرے بھائیو! صحبت کا اثر تو لازماً ہوتا ہے، ہمارے بزرگوں نے اس کو مثالوں سے سمجھایا ہے۔
صحبت کا اثر:
حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب اپنی تقریروں میں ہمیشہ ایک بات یہ فرماتے تھے کہ بھائی دیکھو! اگر آپ نے کپڑوں کے صندوق میں چھوٹی چھوٹی گولیاں رکھ دیں، تو جب ایک ہفتہ کے بعد صندوق کھولیں گے تو ان کپڑوں میں سے ان کی بو آئے گی اور اگر آپ نے گلاب کے پھول ان میں رکھے ہیں تو گلاب کی خوشبو ان میں سے آئے گی؛ حالاں کہ کپڑوں میں خوشبو نہیں تھی، لیکن چوں کہ وہ پھول آپ نے ان میں رکھے ، اس کی وجہ سے ان میں گلاب کی خوشبو آنے لگی، یہ صرف صحبت کا اثر ہے۔ صحبت کے اثر کی یہ مثال حضرت حکیم الاسلام اکثر اپنی تقریر میں دیا کرتے تھے اور طلبہ سے ہمیشہ فرماتے تھے کہ صحبتِ صالحین اختیار کرو، طلبہ اور علما کو اس کی شدید ضرورت ہے۔
صرف علم کافی نہیں:
علم کی ضرورت یقینا پہلے ہے، لیکن صرف علم کافی نہیں، چوں کہ حضراتِ صحابہٴ کرام کو علم کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نصیب ہوتی تھی؛ اس لیے ان کے علم میں ایک قسم کی جلا اور روشنی پیدا ہوجاتی تھی۔ آج بہت سے لوگوں کے پاس علم ہے ، لیکن وہ علم ان کے لیے فتنہ کا باعث بنا ہوا ہے، کہیں تو آپس میں تقابل ہوتا ہے، کہیں کسی مسئلہ میں الجھے ہوئے ہیں، کبھی چھوٹی چھوٹی باتوں میں مناظرہ بازی پر آجاتے ہیں، اس وقت جتنی بھی گڑبڑیاں اہلِ علم کے حلقوں میں ہورہی ہیں یہ سب صحبت صالح نہ ہونے کی وجہ سے ہیں۔
دربان بھی ذاکر:
دارالعلوم دیوبند پر ایک زمانہ ایسا گذرا کہ وہاں کے شیخ الحدیث سے لے کر دربان تک سب ذاکر ہوا کرتے تھے، دن میں تو معلوم ہوتا تھا کہ دینی درس گاہ ہے اور اگر کوئی رات کو ساڑھے تین چار بجے اٹھ کر دار العلوم میں گشت لگاتا تھا ،تو ہر کمرہ سے ذکر کی آواز آتی تھی اور یہ بہت دور کی بات نہیں ہے، آپ لوگوں نے تو یہ کتابوں میں پڑھا ہوگا؛ لیکن میں تو خود اس کا شاہد ہوں۔ میں سب سے پہلے ۱۹۴۸ء میں تقسیمِ ہند کے بعد دارالعلوم دیو بند گیا تھا، مجھے ٹھیک یاد ہے کہ اس زمانہ میں بھی بعض دربان ذاکر شاغل تھے اور اگر دار العلوم کی مسجد یا چھتہ مسجد کے پاس سے فجر سے پہلے کبھی گذر ہوتا تھا تو ذکر کی آواز آیا کرتی تھی۔
میرے دوستو! یہ بہت ضروری ہے، ہمیں صالحین کی قدر کرنی چاہیے، اہل اللہ جہاں کہیں ہوں وقت نکال کر خاص طور پر ان کے پاس جانا چاہیے، یہ بھی ایک مستقل عبادت ہے کہ کسی اہلِ علم کے پاس یا کسی صاحبِ دل کے پاس مستقل سفر کر کے جایا جائے؛ تا کہ ان کی صحبت سے ہم کو فیض ملے۔
بزرگوں کا سکوت بھی مؤثر:
جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ نسبتِ قو یہ رکھتے ہیں ان کے پاس خاموشی کے ساتھ بیٹھے رہنے میں بھی فائدہ ہوتا ہے، ہمارے بعض اکابر کو ہم نے دیکھا کہ وہ مجلس کے وقت کوئی تقریر نہیں فرماتے تھے، میں نے حضرت رائے پوری کی خانقاہ میں دو تین مرتبہ حاضری دی، تو میں نے دیکھا کہ حضرت کچھ نہیں فرماتے تھے۔ حضرت چار پائی پر تشریف رکھتے تھے اور پورا مجمع عصر سے لے کر مغرب تک آپ کے پاس بیٹھتا تھا، پھر اخیر میں ایسا ہونے لگا کہ حضرت مولانا علی میاں صاحب کی یا کسی اور بزرگ کی کوئی کتاب پڑھ کر سنائی جاتی تھی، ورنہ حضرت خاموش رہتے تھے، لیکن لوگوں پر اس خاموشی کا بھی اثر ہوتا تھا۔
حضرت شیخ الحدیث صاحب اپنے زمانہ کے بہت بڑے محدث گذرے ہیں، انہوں نے بڑی زبردست خدمات انجام دی ہیں اور پورے عالم میں ان کا فیض جاری ہے، لیکن میری آنکھوں نے یہ منظر دیکھا ہے کہ جب حضرت رائے پوری سہارن پور تشریف لاتے اور بھٹ ہاؤس میں حضرت کا قیام رہتا تھا، تب حضرت شیخ اپنی مجلس ترک فرما کر حضرت رائے پوری کی مجلس میں شریک ہو جاتے، چار پائی کے ایک طرف حضرت رائے پوری تشریف فرما ہوتے تھے اور دوسری طرف حضرت شیخ اور وہاں دار العلوم دیو بند اور سہارن پور کے اساتذہ بھی موجود ہوتے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے اکابر کے نزدیک اس کی بڑی اہمیت تھی کہ اہل اللہ کے پاس جایا جائے اور ان کی صحبت میں اپنا کچھ وقت گزارا جائے اور جب حضرت رائے پوری ہوتے تھے تو حضرت شیخ مہینہ میں ایک مرتبہ مستقل سفر کر کے رائے پور تشریف لے جاتے تھے۔
قلب کی حالت کیسے تبدیل ہو؟
اگر ہمارے طلبہ اور ہمارے اساتذہٴ عظام اس کا معمول بنائیں اور علمی جد و جہد کے ساتھ صحبتِ صالحین کو اختیار کریں تو یقینا قلب کی حالت تبدیل ہو جائے گی اور قلب کی حالت تبدیل کیے بغیر ہم دوسروں پر اثر انداز نہیں ہو سکتے، اب جو لوگ تصوف کے منکر تھے جن کی تحریروں میں تصوف کے بارے میں مضحکہ خیز جملے پائے جاتے ہیں، جو یہ کہتے تھے کہ اسی تصوف نے امت کو بیمار کر دیا ہے اب وہ لوگ اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ اگر یورپ میں تبلیغِ اسلام صحیح طریقہ سے ہو سکتی ہے، تو وہ اسی لائن سے ہو سکتی ہے، یہ تعجب کی بات ہے۔
ذکر کی مجالس قائم کرو!
اب ہمیں اپنے اکابر کی باتیں یاد آتی ہیں اور سمجھ میں آتی ہیں، حضرت شیخ الحدیث صاحب اخیری زندگی میں جہاں کہیں خط بھیجتے تھے تو تحریر فرماتے کہ اپنے یہاں ذکر کی مجلس قائم کرو، جب خود دار العلوم دیو بند میںStrike(اسٹرائک) ہوئی تو حضرت کا مکتوب گرامی پہنچا کہ مولویوں میں ذکر کی کمی ہو چکی ہے، ذکر کی مجلس قائم کرو، اس سے فتنے دفع ہوں گے؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر جہاں کہیں ہوتا ہے وہاں سے شیطان کے اثرات دور ہوتے ہیں۔ بہر حال حضرت نے خاص طور پر صادقین کی صحبت اختیار کرنے اور ذکر کی مجالس قائم کرنے کی تاکید فرمائی اور علما کو اس کی اہمیت سمجھائی یہ کتنی بڑی بات ہے اور صحیح ہے کہ جب تک ہمارے قلب کی اصلاح نہیں ہو گی ہمارے حالات ٹھیک نہیں ہوں گے۔
اپنے آپ کو مٹانے سے فیض جاری ہوتا ہے:
حضرت اقدس تھانوی کی متوسلین میں سے ایک صاحب نے جن کو حضرت نے اجازت بھی مرحمت فرمائی تھی اپنے خط میں لکھا کہ حضرت! آپ نے تو مجھے اجازت دی، لیکن میری تو یہ حالت ہے کہ میں اپنے آپ کو ایسا سمجھتا ہوں کہ کاش! میں کسی گندی نالی میں پڑا ہوتا اور لوگ مجھ پر تھوکتے، میں اپنے آپ کو اتنا کمتر پاتا ہوں، تو اس پر حضرت نے مسرت کا اظہار فرمایا اور حضرت نے لکھا کہ میں اپنے تعلق والوں سے اس کی امید رکھتا ہوں کہ وہ اپنے آپ کو ایسا ہی سمجھیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب تک آدمی اپنے آپ کو اس طرح نہیں مٹائے گا اس وقت تک اس سے فیض نہیں ہوگا، اللہ والے چھوٹے چھوٹے جملوں میں بڑی بڑی باتیں کہہ دیا کرتے ہیں۔
ابھی حضرت مولانا فاروق صاحب تشریف لائے تھے اور ہم نے چالیس دن ان کے ساتھ گزارے تو بہت سی کام کی باتیں جاننے کو ملیں؛ حالاں کہ ہم برسوں سے مدرسوں میں پڑھتے پڑھاتے ہیں، ہم کتابیں پڑھتے رہتے ہیں اور میں تو ہمیشہ کتابوں کا مطالعہ کرتا ہوں، لیکن میں نے محسوس کیا کہ بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جو ان بزرگوں کی صحبت ہی میں حاصل ہو سکتی ہیں۔
( صدائے دل: جلد سوم ص: ۴۱-۴۶)