حذرائے چیرہ دستاں کہ سخت ہے قدرت کی تعزیریں

(فلسطین کے تناظرمیں)

بقلم:مولانا ناظم صاحب ملی /استاذ جامعہ اکل کوا

                قرآن و حدیث کا گہرا ئی سے مطالعہ کرنے کے بعد یہ مترشخ ہوتا ہے کہ اس جہانِ رنگ وبو کا فتنۂ کبریٰ دجّال اکبرہے۔ اوریہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اس فتنہ کا مرجع وماوٰی ارضِ مقدس ہوگی ۔دجّالِ اکبر کا ظہور بھی یہی ہوگا اور وہ ناپید بھی اسی ارضِ مقدس خاکِ فلسطین پر ہوگا ۔ اس سرزمین کے صحیح حق داروں اور جھوٹے دعویداروں کے درمیان صدیوں سے پیکار جاری ہے اور مستقل تثلیث کے علم برداروں اور یہودِ بے بہود کی ملی جلی سازش سے ایک طویل عرصہ سے جنگ کا ماحول بنا ہوا ہے اور مؤرخین  کے بقول انسانی خوں آشام تاریخ یہاں ہمیشہ اپنے آپ کو دہراتی رہی ہے۔

                یہ محقق ہے کہ عیسائیت ویہودیت ان کی اپنی خرمستیاں، نادانیاں اور بدبختیاں لے ڈوبی۔ از منۂ قدیم میں خالقِ ارض وسمانے ان دونوں ناہنجار قوموں کو ارضِ مقدس کی تولیت خصوصاً مسجدِ اقصیٰ کی خدماتِ جلیلہ تفویض فرمائی تھی، لیکن یہودبے بہود اور نصاریٰ خاسرہ نے اس کے تقدس وحرمت پر تیشہ چلایا اور اس کی خدمت کا کما حقہٗ پاس ولحاظ اور پاسبانی کا احساس نہ کیا، تو خدائے پاک ا وربزرگ برتر نے اس کی تولیت ان سے چھین لی اور امتِ محمدیہ اکو اس کا امین وپاسبان بنادیا۔تاریخ کا یہ ایسا عظیم سچ ہے جس کو کوئی جھٹلانہیں سکتا، چناں چہ حرمین شریفین کے بعد امتِ محمدیہ کے لیے یہ اب تیسرا اہم اور باعظمت مقام ہے۔

امتِ محمدیہ اکے لیے بیت المقدس کی اہمیت:

                نصوصِ قطعیہ سے یہ ظاہر ہے کہ ارِ ض مقدس ہی میں حشر برپاہوگا اور آخر زمانہ میں ملکِ شام ہی میں اسلام کا بول بالا سب سے نمایا ںہوگا ، جس ملکِ شام کے سلسلہ میں کہا گیا ہے کہ یہ آج کا ملک شام نہیں، جس کا جغرافیہ سکڑ گیا ہے، بل کہ قدیم زمانہ میں ملک شام کا رقبہ ارضِ مقدس بشمول اسرائیل واردن وغیرہ پر مشتمل تھا۔ علامہ ابن تیمیہؒ ایک جگہ ر قم طراز ہیں: ارضِ شام ہی میں مسجدِ اقصیٰ ہے اور یہیں انبیائے بنی اسرائیل کی بعثت ہوئی اور اسی کی طرف حضرت خلیل اللہ ؑ نے ہجرت فرمائی۔ اور یہیں آپ اکی امت کی جماعتِ منصورہ پائی جائے گی، یہیں محشر ومعاد رو بہ عمل آئے گا، یہ طائفۂ منصورہ والی حدیث جس کے متعلق محدثین عظامؒ فرماتے ہیں: یہ حدیث متواتر ہے اور مختلف الفاظ کے ساتھ وارد ہوئی ہے۔

                 امام مسلمؒ اپنی تصنیف میں ان الفاظ کے ساتھ نقل فرماتے ہیں:’’لاتزال عصابۃ من أمتی‘ تقاتلون علی أمر اللّٰہ وہم کذلک‘‘ میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حکمِ الٰہی پر قائم رہے گا ، ان کے مخالفین انہیں ضرر نہیں پہنچاسکیں گے، وہ قیامت تک اسی روش پر قائم رہیں گے۔

                اس حدیث کے پیشِ نظر امت کے وہ اکابرین ؛جو کتاب وسنت میں درک وتبحّر رکھتے اور وہ اس فن کے عارفین وکاملین میں سے ہیں، وہ فرماتے ہیں: آج کے اس پُرفتن اور دجَل وشیطنت کے پُرفریب ماحول میں دشمنانِ دین متین اور وعدوان اسلام کا مضبوط پوزیشن میں ہونے کے باوجود ان کا نت نئے ہتھیاروں سے لیس ہونے کے باوجود آج بھی فلسطینی مسلمان اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کر دشمنوں کے نئے اسلحہ جات کا جواب غلیل اور ابابیل کے کنکروں اور پتھروں سے دے کر میدان میں سینہ سپَرہیں۔تو وہ اسی طائفہ منصورہ کا تسلسل ہے، اس سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس مقدس سر زمین کا مسلمانوں کے پاس کیا مقام ومرتبہ ہے؟ ان کااس سرزمین سے پیار ومحبت، انسیت اور لگاؤ یوں ہی نہیں ہے، بل کہ مسلمانوں کا اسلامی ورثہ، اس کا کلچر اور اس کی ا سلامی روایات کا ایک بڑا ذخیرہ اس سے وابستہ ہے۔ ہاں! وہ خطہ صرف زمین کا ایک قطعہ اور ٹکڑا ہی نہیں، بل کہ وہ مسلمانوں کا قبلۂ اول بھی ہے۔ بخاری شریف کی روایت کے مطابق آپ انے ۱۶؍یا۱۷ ؍مہینے اس طرف رخ کرکے نمازیں ادا کیں۔ ۱۵ھ مطابق ۶۳۶عیسوی میںخودخلیفہ ثانی وہاں قدم رنجہ ہوئے اور اس مقام پر قیام فرمایا اورمسجد صخرہ کا نقشہ تیار کیا۔

                قرآن پاک کے اس ارشاد {سُبْحٰنَ الَّذِيْ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلاً  مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُo}کے بموجب یہاں کا چپّہ چپّہ خدائی برکتوں، نوازشوں اور اس کی عنایتوں سے معمور ومزیّن ہے۔ یہ بھی محقق ہے کہ اس ارضِ مقدس کو یہ تقدس اور مقام بھی حاصل ہے کہ یہاں کی خاک کا ذرہ ذرہ درختوں کا پتّا پتّا انبیائے صادقین، سابقین ،عارفین اور کاملین کے دیدار کا شرف حاصل کر چکا ہے۔ زمانۂ سابقہ میں یہاں اسلام پھلا پھولااور پھیلا ،برگ بار لایااور ثمر آور ہوا، دعوت وعزیمت کی بڑی بڑی نامی گرامی شخصیات نے یہاں جبیں سائی کی، وحیٔ ربانی کا نزول جبرئیل ومیکائیل اور کروّبیاں کی آمد اور ملائکہ مقربین کے نزول کا ازدحام یہاں کا خاصہ رہا ہے۔

                {یٰقَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَۃَ الَّتِي کَتَبَ اللّٰہُ عَلَیْکُمْ}کہہ کر قرآن کریم نے اپنے اچھوتے انداز میں اس کی تقدیس وتحریم پر مہر ثبت کی۔اسی طرح {ہنالک دعا زکریا ربہ} حضرت زکریا کی الحاح وزاری اپنے رب کو پکارنے ، راضی کرنے کار از وانداز پھر {إنا نبشرک بغلام اسمہ یحیٰ} حضرت یحییٰ کی پیدائش کی خوش خبری، پھر حضرت عیسیٰ ابن مریمؑ کی پیدائش کے سلسلہ میں فرشتہ کا آنا اور نفخ صور کرنا{ وَاذْکُرْ  فِی  الْکِتٰبِ مَرْیَمَ  اِذِانْتَبَذَتْ مِنْ اَھْلِھَا  مَکَانًا  شَرْقِیًّا oفَاتَّخَذَتْ  مِنْ دُوْنِھِمْ حِجَابًا، فَاَرْسَلْنَآاِلَیْھَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَھَا بَشَرًا سَوِیًّاo قَالَتْ اِنِّیْٓ اَعُوْذُ بِالرَّحْمٰنِ مِنْکَ اِنْ کُنْتَ تَقِیًّاoقَالَ اِنَّمَآ اَنَا رَسُوْلُ  رَبِّکِ لِاَھَبَ لَکِ غُلٰمًا زَکِیًّاo}عرشِ بریں سے جبرئیل ؑ کی آمد ،اسلام کی رحمت اور اس کی خوشن نودی کے معاً ساتھ ہی رزق دینے کا ایسا انوکھا انداز ؛کہ جاڑے کے موسم میں گرمی کے پھل اور گرمی کے موسم میں جاڑے کے پھل، سوکھے تنے سے تازہ اور شیریں کھجوروں کاجھڑنا، پھر حضرت مسیح علیہ السلام کا گہوارۂ مادر میں اپنے روبرو کھڑے لوگوں سے صاف ستھرے لفظوں میں {قَالَ  اِنِّیْ  عَبْدُ اللّٰہِ اٰتٰنِیَ الْکِتٰبَ  وَجَعَلَنِیْ نَبِیًّاo  وَّجَعَلَنِیْ مُبٰرَکًا اَیْنَ مَا کُنْت}کہہ کرتمام حقائق کا انکشاف کرنا، اسی سرزمین سے یہود بے بہود کے باطل عقیدے کی تردید یہ کہتے ہوئے{ وما قتلوہ وما صلبوہ اور بل رفعہ اللہ إلیہ} کہ نہ عیسیٰ علیہ السلام قتل ہوئے نہ ان کو صلیب پر لٹکایا گیا بل کہ اللہ نے ان کو اپنی طرف اٹھا لیا۔

                قرآن مجید کا ان کے سروں پر ہتھوڑے لگانا، پھر لوگوں کی فرمائش پر عیسیٰؑ کا دعا مانگنا اور اس کے صلہ میں جنتی دسترخوان کا آسمان سے اترنا{ اللہم أنزل علینا مائدۃ من السماء} یہ تمام حقائق اور نظائر برکتوں اور عنایتوں کے مخفی خزانے اور پوشیدہ راز سب تو اسی سرزمین سے وابستہ ہیں، پھر ان سب سے بڑھ کر جب حضور ا کا عہد سعید آیا تو خلاقِ عالم حضور جل وعلیٰ نے معراج کے بابرکت سفر کے لیے اسی ارضِ مقدس کا انتخاب فرمایا، یعنی اسراء ومعراج کا حسین سنگم مسجدِ اقصیٰ ہی کو قرار دیا۔

ع             زنجیر میں بھی تھی جُنبش بستر میں بھی تھی گرمی     حیرت میں ہے عالم تیرے اقصیٰ کے سفر سے

                 جس شانِ یکتائی وزیبائی کے ساتھ حبیب نے اپنے محبوب کو اپنی ہمکلامی اور شرفِ دیدارِ سے مشرف فرمانے کے لیے اپنے محبوب کو اپنی ذات کا کھلے بندوں جلوہ دکھانے کے لیے، جنت وجہنم کا نظارہ عجائبات سماوی کی سیر اور نظروں سے اوجھل انکشافات اپنے پاس چھپے بھیدوں کو اپنے محبوب پرواشگاف کرنے کے لیے فرشتوں کی نورانی کہکشاں (جھرمٹ) میں بڑے تپاک سے بلایا، پھر حضور ساقی کوثر نے یہیں سے فرشتوں کے درمیان آسمان کی طرف صعود کیا، پھر اسی پر بس نہیں، ایک مشہور روایت کے مطابق اسی مسجدِ اقصیٰ میں جبین نیاز جھکا کر بارگاہِ ایزدی میں ایک نماز ادا کرنا پچاس ہزار نمازوں کا ثواب رکھتا ہے، بس اسی بنا پر مسلمانوں کے لیے ارضِ مقدس ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اور اس کی اسلامی روایات کا ایک خاص عنصر ہے، اسی لیے مسلمانوں کا اسی پر پورا پورا حق ہے اور اس خطہ سے فلسطینیوں کی، بل کہ تمام امتِ مسلمہ کی وابستگی ایک والہانہ اور جذباتی قسم کی ہے، اسی لیے فلسطین کا بچہ بچہ، جوان، بوڑھا ،مرد، عورت وہ قابل مبارک باد ہیں اور ہرطرح قابل احترام اور لائق اکرام ہیں اور ان کی امداد بہر صورت دامے درمے اور سخنے فرض ہے۔ اور مسلمانوں کا اسلامی اور اخلاقی فریضہ ہے کہ اہلِ فلسطین بالخصوص حماس اور اہلِ انتفاضہ قربانیاں پیش کرکے ساری امت کی طرف سے فرض کفایہ ادا کررہے ہیں ، بل کہ اتمام حجت بھی کررہے ہیں۔

ع             وہ فریب خوردہ شاہیں جو پلا ہو کر گسوں میں     اسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ ورسمِ شاہبازی

                یہ سیاسی مسئلہ نہیں ہے۔دنیا یہ سمجھتی ہے کہ یہ مسلمانوں کا اپنا سیاسی مسئلہ ہے، بل کہ بعض نامراد مسلمان اپنی لاعملی کی بنا پر اس کو عربوں کا علاقائی مسئلہ سمجھتے ہیں۔ ہرگز نہیں، حاشا وکلا! اس کو سیاست سے جوڑنا ہی حماقت ہے۔ نا ہی یہ علاقائی مسئلہ ہے، نہ صرف عربوں کا اپنا مسئلہ ہے، بل کہ یہ توسارے عالمِ اسلام کا ، ایک اٹوٹ اور اہم مسئلہ ہے۔

                 اسلامی حکومتیں اور ہر سنجیدہ مسلمان اس پر سنجیدگی سے سوچنے کا مجاز ہے اور اس وقت تک اپنی ذمہ داری ٍسے عہدہ برآاور سبکدوش نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی بازیابی نہ ہوجائے، ٹرمپ کی اس نادانی سے مسلمان کبھی بھی بے حوصلہ نہیں ہوں گے۔

فلسطین اسلام کے سایۂ عاطفت میں:

                اور اخیر عہد صدیقی میں یارِ غار حضرت خلیفۃ المومنین سیدنا صدیق اکبرؓ نے ملک شام کی اسلامی قلمرو کا حصہ بنانے کے لیے اسلام کے مردان کار کے چار لشکر روانہ فرمائے۔جس میں صوبۂ فلسطین کی فتح کے لیے اسلام کے بطل جلیل سیدنا عمروبن العاصؓ کو مقرر فرمایا تھا، جس زمانہ میں سیدنا ابو عبیدہ ابن الجراح ؓ شمالی روم پر پیش قدمی کررہے تھے، ادھر سیدنا عمروبن العاصؓ کے شریک کار شرحبیل ابن حسنہؓ بھی امیرِ طائفہ ٔاسلامی کے اشارہ پر مصروف جہاد تھے۔

                جن کے مقابلہ پر رومیوں نے اپنے ایک بہادر جانباز جیالے جرنیل کو بھیجا تھا ،جو انتہائی فعال ،جہاں دیدہ اور جنگ آزمودہ جرنیل تھا، جس نے نت نئے ہتھیاروں اور اسلحہ جات کے ساتھ بے شمار افواج کے ہمراہ میدان کا رخ کیا تھااورجس کا نام ’’اطربون‘‘ تھا۔پورا ملک شام اور وہاں کی عوام اطربون کی دور اندیشی اور پیکار کی صلاحیت پر مطمئن تھی، بل کہ ان دیار میں اس کاکوئی حریف تصور ہی نہیں کیاجاتا تھا، وہ بڑا ہی خرانٹ اور ماہر جنگجو تھا، اس لیے اس کے ہوتے ہوئے فلسطین پر قبضہ کوئی آسان کام نہ تھا۔مگراللہ کی استعانت کہ عمروبن العاص اس کے مقابلہ پر پہنچے اور اس کو شکستِ فاش دی اور آگے قدم بڑھائے۔

                 مؤرخین لکھتے ہیں: رملہ اور یروشلم دونوں ایسے شہر تھے جہاں رومی قلعہ بند ہو کر لڑ سکتے تھے۔چناں چہ عمروبن العاص نے آگے بڑھ کر شہر القدس کا محاصرہ کر لیا۔یہ محاصرہ شیطان کی آنت کی طرح لمبا ہوتا گیا۔ شہر کا اُسقُفِ اعظم ان کو یہ حوصلہ دیتاتھا کہ گھبراؤ مت یہ شہر ان سے فتح نہیں ہوگا۔ اس لیے کہ اس کا فاتح کوئی اور ہے جس کے ذریعہ یہ فتح ہوگا وہ توریث وانجیل میں موجود ہیں اور وہ نشانیاں اس لشکر میں کسی میں نہیںپائی جاتی ہیں۔

                ایک دن پادری نے قلعہ کی فصیل پر کھڑے ہو کر آواز لگائی اے بدوؤ! تم یہاں سے چلے جاؤ تم اس شہر کو فتح نہیں کرسکتے ہو۔ اس لیے کہ اس کا فاتح عمر ہوگا، جس کا حلیہ ہماری کتابوں میں موجود ہے اگر خلیفہ وہی آدمی ہے تو ہم بغیر جنگ وجدل کے ہی چابیاں ان کے حوالہ کردیں گے۔

فلسطین کی طرف حضرت عمرؓ کی روانگی:

                جب عمروبن العاصؓ اور صحابۂ کرام کی طرف سے حضرت عمرؓ کو بتلایا گیا تو عمربن الخطابؓ نے یہ سوچ کر کہ بندگانِ خدا کا خون نہ بہے اتنے لمبے اور دور دراز سفر کے لیے حامی بھرلی۔دوری ،مسافت اور راستہ کے نشیب وفراز ایک طرف عمر کا تقاضہ مانع تھا ،تو دوسری طرف قبلۂ اول کی بازیابی اور اس کی تحویل وتسخیر اور بچھڑے ہوئے وہ مردانِ کار جب کبھی مدینہ کی گلیوں میں ،بازاروں میں،محفلوں اور مجلسوں میں ہم پیالہ وہم نوالہ ہو ا کرتے تھے ان سے ملاقات کا شرف وشوق بھی کسی قدر حضرت عمرؓ کے دل کو آمادہ ٔسفر کررہا تھا۔ ادھر غازیانِ اسلام کی خوشیوں اور مسرتوں میں جیسے شباب آچکا تھا وہ بَلیّوں اچھل رہے تھے اورتکبیر وتہلیل کے فلک بوس نعروںپر نعرے لگ رہے تھے، ان نعروں سے رومی چونک گئے اور ان کو بھی رومی مڑک آہی گئی۔ انہوں نے اپنے پیشوا سے پرعزم لہجہ میں کہا اے مقدس باپ! مذہبی کتاب کی روشنی میں اس شخصیت کی صحیح شناخت کیجیے ورنہ ان صحرانشین بدؤوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیجیے، ہم مٹ جائیں گے یا ان کو مٹا دیں گے، مگرپوپ نے تسلی دی اور ابو عبیدہؓ سے فرمایا کہ اگر آپ کے کعبہ مقصود خلیفۃ المومنین تشریف لاچکے ہیں تو ہمارے سامنے لائیں تاکہ ہم ان کے دیدار سے مشرف ہوں اور بیت المقدس کی چابیاں ان کے سپرد کرکے اطمینان کرلیں۔

کسی ایسے شہر سے پھونک اپنے خرمنِ دل کو  کہ خورشید قیامت بھی ہو تیرے خوشہ چینوں میں

                امین الامت حضرت ابو عبیدہ نے عرض کیاکہ امیر المومنین اس وقت آپ ایک بڑی سلطنت کے سربراہ ہیں۔ اگر سواری اور لباس ذرا دیدہ زیب ہو تو کوئی مضائقہ نہیں، یہ جملے ابھی پورے بھی نہ ہوئے تھے کہ امیرالمومنین نے جلال آمیز لہجہ میں فرمایا: ابو عبیدہ! کیا تم نے دورِ نبوت نہیں دیکھا؟ اور پھر اسی انداز سے فرمایا: یا ابا عبیدہ! اعزنا اللّٰہ بالإسلام فمہما نطلب العزّ بغیر مااعزنا اللّٰہ اذلنا اللّٰہ،

                 یہی اصول ہے جو آج ساری امت سے چھوٹ چکا ہے، جس کی پاداش میں ہم پر ذلت ہے، ہر محاذ پر ہم مات کھارہے ہیں اور اقبال کے فلسفیانہ کلام کا سہارا لوں تو کہا جاسکتا ہے    ؎

دلِ مردہ دل نہیں زندہ کردوبارہ                              یہی ہے امتوں کے مرض کہن کا چارہ

                فرمایا ابو عبیدہ یاد رکھو! مسلمان دائرہ ٔاسلام میں رہ کر ہی محترم ومکرم رہ سکتا ہے، اس کے علاوہ کوئی اور راستہ تلاش کرنا محرومی وبدبختی ہوگی۔

                اس کے بعد وہ منظر سامنے آیا کہ پوپ آپ ؓ کے سراپا کودیکھتا جاتا اور تصدیق کرتا جاتا تھا۔جب پوپ کی تصدیق پوری ہوگئی تو رومی امیر المومنین کی طرف امن وامان کے لیے دوڑ پڑے۔

                یہ پرانی زمین اور بوڑھا آسمان اپنی چشم وابرو سے یہ نظارہ کررہے تھے کہ دنیا جہاں کی ایک مثالی بادشاہت وشہنشاہیت ، ایک ایسی اقلیم جس کو زیرکرنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا، جس کا شہرۂ آفاق دبدبہ اور سطوتِ سلطانی آسمان سے باتیںکرتی تھیں، وہ کس طرح ڈھیر ہوچکا تھا؟ سچ ہے

                بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے               مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے

انوکھی وضع ہے سارے زمانے سے نرالے ہیں       یہ عاشق کون سی بستی کے یارب رہنے والے ہیں

                دنیا کا یہ بارہا مشاہدہ ہے کہ دنیا میں جب جب بھی امن وامان آیا اسلام کے راستہ ہی سے آیا ہے۔

                مؤرخین لکھتے ہیں کہ عہد خلیفہ ٔثانی میں بیت المقدس پر باقاعدہ اسلامی پھریرا لہرایا جو اسلامی وسعت کاز کی صبا رفتاری کا عندیہ جس کے بعد پورا ملک شام خلافت راشدہ کا حصہ بن گیا۔

                 زخم کیسے لگا: اسلام کے مردانِ کار جن کا مقصد زندگی دین کی سرفرازی تھا، انہوں نے پورے خطہ شام پر جو حکومت قائم کی وہ مثالی تھی۔ بقول مؤرخین۴۵۰؍سال تک خلافت بنوامیہ وعباسیہ کے سنہرے دور تک تثلیث کے علم برداروں اور ناہی یہود بے بہود نے ترچھی نگاہ سے بھی فلسطین کی طرف دیکھا۔مگر گیارہویں صدی عیسوی میں جب سلطنتِ بنوعباسیہ جب شیعی تسلط اہل فارس کی سازباز سے ضعف واضمحلال کا شکار ہوگئی تو نصاریٰ خاسرہ کی امیدیں روشن ہوگئیں اور مسلمانوں کی آپسی رقابتوں نے عیسائیوں کو حملہ آور ہونے کا حوصلہ بخشا۔ اور اس طرح عیسائی دنیا مسلمانوں پر قابض ہونا شروع ہوگئی اور بقول مؤرخین ۱۰۹۹ میں تثلیث کے علم بردار بیت المقدس موجودہ (یروشلم) کو ہتھیا کے، وہ مشاقِ عمر جس کو ۴۵۰؍ سال تک عملی جامہ پہناتے رہے، مگر صلیبی جیسے ہی غالب آئے ،انہوں نے ساری انسانیت کوبالائے طاق رکھتے ہوئے ظلم وجبر کا بازار گرم کردیا۔ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ یہودیوں کو بھی مسجد کے صحن میں زندہ جلادیا گیا، مسجدیں ،مدرسے، چوپالیں، سرائے خانے اور مہمان خانے سب تباہی کا شکار ہوگئے۔جب ۱۶ھ میں خلیفۂ ثانی داخل بیت المقدس ہوئے تو انتہائی امن وامان تھا ، ایک آدمی کو بھی بے عزت نہیں کیا گیا، مگر یہ حیوان فطرت نصاریٰ تھے، جنہوں نے ہرطرف قہرہی قہر ڈھایا۔ یہ حقیقت ہے کہ اناکی حاکمیت پر زمانہ میں قوموں اور ملتوں کو تبا ہ وبرباد کرتی رہی ہیں۔

یارب اپنے خاکستر میں ایسی چنگاری بھی ہے:

                پھر اسی ملبہ سے حوصلہ مند علمائے کرام نے نفسِ تازہ کے ساتھ کروٹ لی۔ علما اٹھے، قوم کے خفتہ بختوں کو بیدار کیا ، علماکی دیوانگی رنگ لائی۔ اللہ رب العالمین کو ان اندرونی خلش اور چبھن پر پیار آیا اور اللہ نے یکے بعد دیگرے تین اسلام کے مردانِ کار ابطال جلیلہ اُفقِ شام پر نمودار ہوئے، دنیا جنہیں عماد الدین زنگی، نور الدین جنگی اور صلاح الدین ایوبی ؒکے نام سے جانتی ہیں۔

یارب زبان پر یہ کس کا نام آیا                کہ میرے نطق نے بو سے میرزبان کے لیے

                تینوں اسلام کے شیر خاصۂ خاصانِ خدا تھے۔تینوں علوم وفنون کے ماہر کامل تقویٰ وللہیت کے علم بردار، دن کے شہسواراوررات کے تہجد گزار حالات کو سمجھ کر عماد الدین زنگیؒ نے اپنی پوری صلاحیت عباسیوں اور سلجوقیوں سے مل کر صلیبیوں کے مقابلہ پر لگادی اور ۱۱۲۷ء میں صلیبیوں کے سامنے سدِ سکندری ثابت ہوئے۔ اور صلیبیوں کوناکوں چنے چبوادئیے۔ مسلمانوں کا کارواں عماد الدین زنگیؒ کی قیادت میں رواں دواں تھا۔مگر ’’مادرچہ خیالیم  فلک درچہ خیال‘‘ کے مصداق امتِ مسلمہ کو پھر باطینیوں کی شکل میں سیندھ لگا اور ان بدبخت باطینی فرقہ نے صلیبیوں سے سازباز کرکے عمادالدین زنگیؒ کو رات سوتے میں حملہ کرکے شہید کردیا ۔إن للہ وإنا إلیہ راجعون۔

خدا ان کی لحد پر رحمت افشانی کرے:

                لیکن سچائی یہ ہے کہ عماد الدین زنگیؒ اپنے حصہ کا کام کرکے دنیا سے سدھارے تھے، مگر وہ شجر طوبیٰ جس کی آبیاری انہوں نے کی تھی، وہ نورالدین زنگیؒ کی شکل میں خوب پھلا پھولا، برگ وبار لایا۔ نور الدین زنگیؒ جو اپنے والد کے سچے جانشیں تھے، انہوں نے اپنے باپ سے ورثہ میں ملی بہادری وشجاعت اور حمیت وغیرت اسلامی فرزانگی کا سبق خود پڑھا تھا، فتی وحربی صلاحیتوں کو خوب صیقل کیا اور گر مایا تھا، عماد الدین زنگیؒ کی تربیت کی بھٹی میں رہ کر کندن بن کر نکھرے تھے، انہوں نے حالات کا بڑی گہرائی سے مطالعہ کیا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ کن بنیادوں پر معاشرے کی تعمیر کی جانی چاہیے اور متحدہ قوی موومنٹ کس طرح باقی رکھا جاسکتا ہے، گویا وہ اقبال کی زبان میں:

                سبق پڑھ شجاعت کا صداقت کا عدالت کا              لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

                نورالدین زنگیؒ نے اپنی خدا داد صلاحیتوں سے کام لیتے ہوئے عیسائیوں کے دانت کھٹے کردئیے۔ بقول مؤرخین پہلا حملہ عماد الدین زنگیؒ اور دوسرا حملہ نور الدین زنگیؒ نے صلیبیوں کا ناکام بنا دیا، یہ دونوں اسلام کے مردانِ کار وہ تھے جو ہر محاذ پر عیسائیوں کو ناکام بنا رہے تھے۔

                ابن اثیرؒ جو نور الدین کے عہد کے مایہ ناز مؤرخ ہیں وہ اپنی کتاب ’’الکامل فی التاریخ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’میں نے اسلام سے قبل اور اس کے بعد جتنے بادشاہوں کی زندگی کا مطالعہ کیا، مجھے خلفائے راشدین اور عمربن عبد العزیزؒ کے بعد نور الدین جیسا اعلیٰ سیرت وکردار کا کوئی حکمراں نظر نہیں آیا‘‘۔(انقلابِ شام:ص۳۴)

                اپنے والد کی شہادت کے بعد کل ۲۸ ؍سالہ سفر میںانہوںنے وہ کارنامہ انجام دیا ،جو اسلامی تاریخ کا عہد زرّین کہلاتا ہے۔ ۱۱ ؍شوال ۵۶۹ ھ مطابق ۱۵ ؍مئی ۱۴۷۴ء کو اسلام کایہ بطل جلیل اپنے خدا کے دربار میں پہنچ گیا۔إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔

تلاطمِ خیز طوفاں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے:

                یوں تو اسلامی تاریخ اسلامی اعلیٰ کردار کے حامل انسانوں سے بھری پڑی ہیں۔ کیسے کیسے لعل وگوہر لؤلؤ ومرجان اس بحر ذخار میں پڑے ہوئے ہیں، ایسے ہی اسلام کے مردانِ کار کی فہرست میں صلاح الدین ایوبیؒ کا نام بھی روشن نظر آتا ہے جن کا نام سن کر آج بھی تثلیث کے علم برداروں کا وضو ٹوٹ جاتا ہے۔

نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر            توشاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

                ان اسلام کے مردانِ کار حضرات کا مطمحِ نظر قصر سلطانی کبھی بھی نہیں رہا۔ صلاح الدین ایوبیؒ نے مصر پر ۲۴ ؍اور شام پر ۱۹؍ سال کی مدت میں ۱۶؍ سال گھوڑے کی پیٹھ پر گزارے، اسی کے ساتھ انابت الی اللہ ان کا ا ہم وصف تھا، ان کی شان میں اگر کلامِ اقبال سے مدد لوں تو کہا جاسکتاہے کہ

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے                   بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

                مؤرخین لکھتے ہیں کہ صلاح الدین ایوبیؒنے جب خلافت سنبھالی وہ دورِ عالم کی نکبت وپستی اور ذلت کا دور تھا۔ چوں کہ اس وقت ملک شام میں دوایسی طاقتیں تھیں جو عالمِ اسلام کے لیے بڑی دردِ سر تھی۔ مصر کی فاطمی شیعی حکومت اور دوسرے صلیبی۔ مگر ایوبی نے ان تمام کو خاک چٹادی، سلطان کی ایمانی صلابت ،عبقری قیادت اور مجاہدین کی دادِ شجاعت نے عیسائیوں کی کمرتوڑ دی  ع

عزم وعمل سے جب بھی مسلمان نے کی سعی     ٭             رفتارِ وقت تھم گئی حالات بدل گئے

                مؤرخین لکھتے ہیںکہ عسقلان بھی عِکہ، ناصرہ، نابلس ، طرابلس،حیفا، پسپاں ، یافا ،بیسان،صیدا، بیروت ، ہیبرون ،راملّہ اور دیگر ریاستوں کو فتح کرتے ہوئے صرف دو مہینوں کے اندر وہ کر دکھایا ،جو تاریخ کے اُفق پر شاید وباید ہی نظر آتا ہے۔ تاہم ابھی سلطان کی اہم منزل ارضِ مقدس فلسطین باقی تھا، شہر القدس (یروشلم) جہاں ابھی بھی تثلیث کے علم بردار قابض تھے اور پوری قوت اس پر لگائے ہوئے تھے۔ (بالیان جو وہاں کا صلیبی حکمران تھا اس نے پوری قوت جھونک دی اور تمام علاقوںکے مفرورین یہیں آگئے تھے کہ شہر القدس کوبچانا ہے، تاہم مسلمان بھی عزم راسخ کر چکے تھے، سلطان نے آگے بڑھ کر شہر القدس کا محاصرہ کر لیا ۔۱۲؍دن محاصرہ رہا کسی نے سامنے آنے کی ہمت نہیں کی، عیسائی صلح کے لیے آمادہ ہوگئے اور شہر القدس پر سلطانی جھنڈا بغیرقتل وقتال کے لہرادیا گیا۔ بقولِ مؤرخین ۲۷؍رجب۵۳۸ھ مطابق ۱۲؍اکتوبر ۱۱۸۷ء بروز جمعہ حسن اتفاق جس شہر کو معراج کی رات کا حسین سنگم قرار دیا گیا، خدا نے ۹۱؍ سال بعد پھر اس کو معراج ہی کے دن فتح سے سرفراز فرمایا، جس سے اسلامی دنیا اور خصوصاً صلاح الدین ایوبی ج کی خوشیوں کی انتہا نہ رہی، ایسے ہی بندوں کی شان میں مرحوم اقبال گویا ہوئے۔  ع

یہ غازی یہ تیرے پُر اسرار بندے                          جنہیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی

دونیم ان کی ٹھوکر سے دریا وصحراء                  سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی

                سلطان کے سامنے وہ تمام صورت موجود تھی، جو ۱۰۹۹ء میں جب ان قزاق صلیبیوںنے صلیبی فتح کی خوشیوں میں چور ہو کر القدس کے تقدس کو پامال کیا تھا، مسجدِ اقصیٰ کی خوب بے حرمتی کی تھی، مردوں، عورتوں اور بچوں کے ساتھ برا سلوک کیا تھا، آج سلطان چاہتے تو انتقامی کارروائی کر سکتے تھے، مگر نہیں! آج سلطان اسلام کی بیکراں رحمتوں کا پیکر ثابت ہوئے، سلطان صرف سلطان ہی نہ تھے، بل کہ وہ خدا رسیدہ سلطان تھے۔

                تاریخ کے رپورٹر بتلاتے ہیں کہ صلیبیوں نے جو حملے کیے ہیں (ان کی تعداد سا ت ہیں) سب سے خطرناک حملہ صلاح الدین ایوبیؒ کے دور میں ہوا، جس کا جواب ایوبی نے اپنے رب کی مدد واستعانت سے بھرپور دیا۔

سقوطِ خلافت:

                قارئینِ کرام! قضیہ فلسطین اور اس کی تاریخی ادوار کے ضمن میں کچھ اضافی چیزیں بھی درمیان میں آتی رہیں، چوں کہ ان چیزوں کا براہِ راست تعلق فلسطین سے تھا۔اور سقوطِ خلافت بھی فلسطین سے مربوط ہے۔ چناں چہ مؤرخین لکھتے ہیں: وصال نبوی ا کے بعد سے لے کر سقوطِ خلافت تک ،جب تک خلافت قائم رہی دنیا میں مسلمانوں کی آب وتاب ، چمک دمک باقی رہی، اسلام کا وقار بحال رہا، سقوطِ خلافت امت کے لیے پیغام موت ہے، شیطنت اور طاغوت کی طاقت کو بھسم کرنے اور اس پر قدغن لگانا صرف خلافت اسلامیہ ہی سے ممکن ہے۔ یہ بات یہودیت، نصرانیت اور دنیا کی غیر اسلامی قومیں اچھی طرح جانتی ہیں،پوری تاریخ میں صرف ۳؍ماہ ایسے گزرے تھے کہ امت بغیر خلافت کے مرغ بسمل کی طرح تڑپتی رہی، لیکن جلد ہی ظاہر بیبرسؒ نے اس فریضہ کو انجام دے کر خلافت بحال کرادی اور پھر عباسیوں نے اپنی دانائی سے ترکوں کو خلافت سونپ دی اور سلطان سلیم پہلے عثمانی خلیفہ بن گئے۔لیکن سچائی یہ ہے کہ نصرانیت ویہودیت پر زمانہ میں خلافت اسلامیہ کو سبوتاز کرنے کی کوشش کرتے اور منہ کی کھاتے رہے۔تاہم ماضی میں ایک زمانہ ایسا بھی گزرا ،جس میں یہودیوں نے اپنی شاطربازیوں اور عیسائیوں اور فرق باطلہ نے اپنی منافقانہ قلابازیوں میں خلافتِ عثمانیہ ترکیہ میں سیندھ لگانے اور نقب زنی کرنے میں کامیاب ہوگئے، جو ایک بڑی درد آمیز داستانِ دلخراش ہے ۔زبان ساکت ہے، قلم لڑکھڑا رہا ہے، قویٰ ہے کہ جواب دے رہے ہیں، زبان کو یارا نہیں کہ سقوطِ خلافت کا قصۂ درد میں اپنی زبان سے سنا سکوں ۔جب اپنے اپنے ہی بیگانے بن کر غیروں کا کردار نبھانے لگے تو شکوہ کس سے؟ شکایت کیسی؟ سوا اس کے کیا کہا جاسکتا ہے ۔  ع

کہ دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے               اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

                خلافت درحقیقت امتِ محمدیہ کے اتحاد کی علامت تھی ۔اور ترکی میں اپنی ساری توانائی صرف کی جس میں وہ کامیاب رہے اور اتحاد وترقی کے نام پر ایک تحریک چلائی، جو سچ پوچھو بے دین اور الحاد پرستوں کاٹولہ تھا اور ان کی رگ جان پنجۂ یہود میں تھی۔ اور اس بے دین ٹولہ نے اپنے آقاؤں کے اشارہ پر خلافت کو بشکل خلیفہ معزول کرکے ختم کردیا۔اس کے اثر سے پورا عالم اسلام سوگوار ہوگیا، اہل نظر پر تو گویا قیامت ہی ٹوٹ پڑی اور دین بے زار ٹولے کا سربراہ کمال اتاترک سربراہِ ملک بن کر بیٹھ گیا ۔جو یہودیوں کا اپنا منصوبہ بند پروگرام تھا اور پھر بڑی بے شرمی سے ۳؍مارچ ۱۹۲۴ء کو کمال اتاترک نے یہودیوں اور نصرانیوں کی دلی خواہش اور دیرینہ تمنا اپنی زبان سے پوری کرکے سقوطِ خلافت کا اعلان کردیا۔ سقوطِ خلافت کیا ہوا؟ عالم اسلام تاش کے پتوں کی طرح بکھر گیا اور ایسا بکھرا کہ تادمِ تحریر ابھرنا نصیب نہ ہوا۔ خلافت کے سقوطِ کے بعد جیسے یہودیت اور نصرانیت کے تن مردہ میں جان آگئی، چند مہرے عالم اسلام میں ان کے ہاتھ لگے ، اتاترک محمد علی پاشااور شریف حسین جیسے ہوَس کے بندوں سے وہ سب کچھ کرایا گیا جو یہودی اور نصرانی چاہتے تھے۔ اسی کے ساتھ خلافتِ عثمانیہ کے ترکہ کی بندربانٹ شروع ہوگئی اور اسی ضمن میں برطانیہ اور فرانس نے یہودیوںکو فلسطین میں لا بٹھایا، جوتاریخ وعدہ بالفور کے نام سے جانا جاتا ہے۔ عیسائیوں نے یہودیوں کو قلب عرب فلسطین پر لاکر بٹھایا اور ایک تیر سے کئی شکار کر لیے اور جب ۱۹۲۰ء میں مسلمان اور یہودیوں کے بیچ فساد ہوا تو اس کو بہانہ بنا کر برطانیہ نے یہودیوں کے لیے کالونیاں بنا بنا کر الرٹ کرکے یہودیوں کو محفوظ کردیا اور ہر طرح ان کی پاسبانی کرتا رہا اور ۱۴؍مئی ۱۹۴۹ء کو وہاں سے رخصت ہوگیا جو آج یہ قصہ درد بنا ہوا ہے۔

قصۂ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم:

                مذکورہ بالا عبارتوں سے قارئین سمجھ گئے ہوں گے کہ دردِ سر کیسے ہوا؟ عوامل کیا پیش آئے ؟اور آج تک ان عوامل کو قابو میں نہیں کیا جا سکا، بل کہ آئے دن اس میں اضافہ ہی ہورہا ہے۔ اس درد کا علاج سوائے رجوعِ الی اللہ اور اتحادِ اسلامی کے قیام کے کچھ نہیں ہے، لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔

ہوَس کے بندے: 

                مغرب نے ہمیشہ ملت فروشوں اور ہوَس کے بندوں کو ڈھونڈ نکالا ہے اور ہوَس کے بھکاری ہرزمانے میں ملتے رہے ہیں میر جعفروں اور میر صادقوں کی کمی نہیں، اس زمانہ میں بھی ایک ناخلف اور نا ہنجار شخص شریف حسین کی شکل میں ملا، جس نے ہندوستان سے لے کر حجاز تک وہ غیر شریفانہ سلوک کیا جس کا خمیازہ آج تک پورا عالم اسلام ؛خصوصاً برصغیر ترکی، حجاز اور فلسطین بھگت رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ جہاں امتِ مسلمہ کی تاریخ ، عقابوںاور شاہینوں کا جگر رکھنے والے جانبازوں،شیر کی دھاڑ سنانے والے جوانمردوں اور پیکر خلوص اسلام کے ابطال جلیلہ سے لبریز ہیں ،وہیں ضمیر فروشوں ،غداروں، سودائیوں اور پرجائیوں عبد الدنیا وعبد الدینار کسی نہ کسی گوشہ کھڑے نظر آتے ہیں، یہ ضمیر فروشی ہی تھی، جس نے فلسطین کے لیے مصیبت کا جال پھینکا جس میںآج تک فلسطینی پھنسے ہوئے ہیں۔

                ترکوں کی اسلام سے محبت حرمین شریفین کی خدمت اور دنیا بھر کے مسلمانوں سے خیر خواہی، اسی پر دنیا کے مسلمان خلافتِ عثمانیہ سے محبت کرتے تھے۔ اور انگریز سلطنت عثمانیہ سے محاذ آرا تھا، دوسری طرف جزیرۃ العرب کی قیادت سلاطین آلِ عثمان کے ہاتھوں سے جاتی رہی، تاکہ فلسطین کے اردگرد اپنے من پسند حکمراں بٹھا کر صیہونی ریاست کو تحفظ فراہم کرسکیں۔ اس لیے انگریز ہر طرح کے پلان بناتا رہا، اسی کی ایک کڑی شیخ الہند کا حجاز شریف سے گرفتار کروانا بھی ہے، اس لیے کہ اس زمانہ میں ہندوستان میں حضرت شیخ الہند محمود دیوبندیؒ انگریزکے لیے برقِ بے اماں بن کر ریشمی رومال کی تحریک شروع کرچکے تھے، جو اگر گرفتار نہ ہوتے تو کب کا انگریز کاہندوستان میں پانچہ ہوجاتا۔ یہی وہ شریف حسین ہے جس نے آپ کو گرفتار کروا کے انگریزوں کے حوالے کیا اور پھر آپ مالٹا کی اسیری میں پہنچ گئے، مگر شریف حسین کے ہاتھ خالی اور آلِ سعود نے حجاز پر غلبہ پالیا اور نا مراد بھاگا بھاگا ملک شام پہنچ گیا۔ اور اسی کی ذریات ہے، جو آج تک امتِ مسلمہ خصوصاً فلسطینیوں کے لیے دردِ سر بنی ہوئی ہے اور یہود ونصاریٰ آج تک ان کی ذریات سے کام لے رہی ہیں۔ مگر فلسطین آج بھی باوجود ملت فروشوں کی زد میں ہونے کے؛ طاغوت کے مقابلے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔

 واہ فلسطین تیری جرأت کو سلام:

                آگ وخون ،تباہی وبربادی ہو، گوـلوں، بموں، راکٹوں ،ٹینکوںاوراپاجی ہیلی کاپٹروں، قسم قسم کے میزائلوں اور ایف ۱۶ ؍لڑاکا طیاروں کا سامنا اور گر ینڈوں کا گرنا تو جیسے فلسطینیوں کا رات دن کا مشغلہ ہوگیا ہے جس فضا میں وہ سانس لے رہے ہیں، وہی ان کا دانہ پانی ہے ۔جس سے وہ پیاس بجھارہے ہیں ان کے درد کا درماں اور زخم کا مرہم بھی گویا یہی ہے اور یہ مصائب کوئی دن دو دن، ہفتہ دو ہفتے یا مہینوںکے نہیں ہیں، بل کہ ۵؍ سالوں سے زائد کا عرصہ ہورہا ہے ۔بے قصور فلسطینی بچے، بوڑھے، عورتیں اسی بھٹی میں جل رہے ہیں، اسی وادیٔ پُر خار میں سانس لے رہے ہیں، کوئی اور قوم ہوتی،تو ریت کے ذروں کی طرح بکھر جاتی ،تاش کے پتوں کی طرح منتشر ہوجاتی۔مگر واہ فلسطین تیرے عزم واستقلال کوسلام، تیری جرأت وبیباکی کو سلام، تونے دنیا کو سکھا دیاکہ اپنے آستھا اور عقیدے کی کس طرح حفاظت کی جاتی ہے؟ اپنے آبائی ورثہ اور اسلام کا تحفظ کس طرح کیا جاتا ہے؟ تیرے آستانہ یار سے تمسک نے دنیاکو ایک نیا رُخ ،نیا رجحان اور ایک نئی سمت دی ہے۔ان شاء اللہ یہ غموں کی طویل رات جلد ہی بدلے گی۔{ان مع العسریسراً}

                کانٹوں کی زباں سوکھ گئی پیاس سے یارب          کوئی آبلہ پا وادی ٔپُرخار میں آئے

                یہ غموں کی شام ختم ہوگی، یہ سیاہیوں کا ازدحام سپیدۂ سحر سے بدلے گا۔ اس لیے کہ تاریخ بتاتی ہے کہ {ضُرِبَتْ عَلَیِہِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃُ وَباَؤُوْا بِغَضَبِ مِّنَ اللّٰہِ}کا دوریہودکے ساتھ ہرزمانہ میں ہوتا رہا ہے اور ہوتا رہے گا ۔اس لیے دجالِ اکبر کے نقیب شیرون یاہو ٹرمپ؛ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ مادی طاقت کے بوتے پر فلسطینیوں کو دھمکایا جائے گا تو یہ خام خیالی ہے۔حذرائے چیرہ دستاں کہ سخت ہے قدرت کی تعزیریں۔