حدیث کے لیے چند متقارب یا ہم معنی الفاظ بھی مستعمل ہیں مثلاً روایت خبر اثر اور سنت۔ یہ تمام الفاظ اصحابِ حدیث کی اصطلاح میں بطور ِمرادف رائج ہیں اور بکثرت باہم دیگر معنی میں استعمال ہوتے ہیں،لیکن بعض ارباب حدیث نے ان اصطلاحات میں فرق کیا ہے، اس کی اصل وجہ علم ِحدیث کا تنوع ہے۔ جہاں تک روایت کا تعلق ہے،اس کا اطلاق حدیث کے لغوی مفہوم پر ہوتا ہے،کوئی واقعہ کسی کا قول اور فعل روایت کہلاتا ہے۔ باقی حدیث، اثر، خبر اور سنت کے معانی کے تعین میں اربابِ سنت و حدیث میں اختلاف ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، افعال اور احوال کو بعض محدثین حدیث سے تعبیر کرتے ہیں اور خبر کو دیگر لوگوں یعنی اصحاب ِرسول رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین، تابعین وغیرہ کے ساتھ مختص کرتے ہیں؛ لیکن بعض اصحابِ علم (خبر) کو ہی اس علم کا جامع مانتے ہیں؛یہی وجہ ہے کہ قدیم مصادرِ شریعت میں ”حدثنا “کے بجائے ”اخبرنا“ ہی کے الفاظ مستعمل ہیں۔ مثال کے طورپر کتاب الآثار قاضی ابو یوسف و محمد رحمہ اللہ، سنن ِدارمی، مسانید الامام الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ، مسند بن الجعد،موطا محمد و الجوہری و سوید بن سعید وغیرہ۔قدیم مآخذ میں اخبرنا کثرت سے مستعمل ہے اور اہل علم نے اخبرنا اور حدثنا کے خلیج کو پاٹنے کے لیے اخبرنا اور حدثنامیں ایک خفیف فرق بتادیا ہے،اگر صاحب ِحدیث خود ہی حدیث بیان فرمائے تو اخبرنا استعمال ہوتا اور اگر مستملی یا شاگرد کسی حدیث کی تلاوت کرے اور اس کی سندات پر صاحب حدیث بحث کرے تو حدثنا کا لفظ مستعمل ہوتا ہے۔ یہ ایک جملہ معترضہ تھا ؛تاکہ خبر اور حدیث کے معانی سمجھنے میں آسانی ہو۔
حدیث اور اثر میں بعض ارباب حدیث نے ایک فرق یہ بھی کیا ہے کہ حدیث مرفوع کے لیے اور اثر موقوف کے لیے استعمال ہوگا(ان الحدیث اسم للمرفوع والاثر موقوف علی الصحابة والتابعین رضوان اللّٰہ تعالی علیہم اجمعین)لیکن جمہور سلف وخلف کے ہاں حدیث و اثر میں کوئی فرق نہیں، دونوں کا اطلاق مرفوعہ،موقوفہ اور مقطوعہ سب پرہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ امام محمد رحمہ اللہ اور قاضی ابو یوسف رحمہ اللہ نے کتاب الآثار میں ہر قسم کی احادیث کو نقل کیا ہے ۔امام طحاوی رحمہ اللہ نے اپنی عظیم کتابِ حدیث کا نام (معانی الآثار) رکھا ہے، اگرچہ اس میں اکثر احادیث مرفوعا مروی ہیں۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ جو بیک وقت مفسر،محدث اور مؤرخ گزرے ہیں اپنی کتاب حدیث کا نام (تہذیب الآثار) رکھا ہے ۔
اصطلاحی طور پر سنت ِرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عملی پہلو سے بحث کرتی ہے، لیکن کتب سنن کے مرتبین نے اپنی سنن میں بکثرت قولی احادیث درج کی ہیں؛ جیسا کہ سنن ترمذی دارمی، ابوداود، نسائی،ابن ماجہ، بیہقی،دارقطنی وغیرہ کے مطالعہ سے ظاہرہے۔ حدیث کے لیے یہ ہم معنی الفاظ ہر دور میں فقہاء، محدثین، ارباب اصول اور شراح حدیث کے پیش نظر رہے ہیں اور ان سے ازحد اعتناء کیا گیا ہے۔ علم حدیث کی تعریف کی طرف پھر سے اشارتاً قارئین کی توجہ مبذول کرنا چاہتے ہیں،اگرچہ اس پر کسی قدر سطور بالا میں ذکر کیا گیا ہے۔ حافظ بدر الدین عینی اپنی عظیم شرح بخاری میں حدیث کی تعریف یوں فرماتے ہیں:
(علم یعرف بہ اقوال رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم و أفعالہ وأحوالہ)
وہ علم جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، افعال اور احوال کی معرفت ہو۔علامہ اکفانی رحمہ اللہ نے”ارشاد المقاصد“ میں علم حدیث کو دو انواع میں تقسیم کیا ہے۔ علم روایة الحدیث اور علم درایة الحدیث۔
علم رویة الحدیث کی تعریف یہ ہے:
(ھو علم بنقل اقوال النبی صلی اللہ علیہ وسلم و افعالہ وأحوالہ بالسماع المتصل وضبطہا وتحریرہا)
یعنی وہ علم جس میں اقوال و افعال واحوال پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے بحث ہو اور سننا،یاد رکھنا اور پھر تحریر میں لانا اسکی غایت ہے۔
اسی طرح علم درایة الحدیث کی تعریف یہ ہے:
(ھو علم یتعرف بہ أنواع الروایة وأحکامہا وشروط الرواة وأصناف المرویات واستخراج معانیہا)
یعنی وہ علم جس سے روایت کی اقسام اس سے مستنبط احکام، رواة و روایات کی شرائط اور اس سے اخذ معانی ممکن ہوسکے۔
علم حدیث کا موضوع کیا ہے؟
مختلف آراء ہیں، لیکن علامہ کرمانی رحمہ اللّٰہ شارح بخاری نے علم حدیث کاموضوع ذاتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرار دیا ہے،جس میں اقوال، افعال،احوال، سیرت، شمائل، غزوات، سیاسی کردار، سماجی راہنمائی،مہارتِ فقہ و قانون، عائلی زندگی، معاشی زندگی، عبادت، معاشرت، معاملات، اخلاق وغیرہ تفصیلات سے بحث ہوتی ہے۔
علم حدیث کی غرض و غایت:
علم حدیث کی غرض و غایت کے بارے میں ارباب فن رقمطراز ہیں :
(الاہتداء بھدی النبی صلی اللہ علیہ وسلم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی ہدایت سے بہرہ مند ہونا، اگرچہ تمام علوم ِدینیہ کی غایت ایک ہی ہے یعنی”الفوز بسعادة الدارین“ دونوں جہانوں کی کامیابی،اس علم کا شرف و فضل انتہائی بڑا ہے۔اس علم کے ساتھ تعلق مسلمان کو درود و سلام کی برکات سے بہرہ ور کرتا ہے اور درود و سلام کے فضائل دفتر ِسنت میں تفصیل سے موجود ہیں۔ علومِ نقلیہ میں علم ِحدیث کا مقام دوسرے نمبر پر ہے۔ پوری امت کا اس پر اجماع ہے کہ قرآن ِمقدس کے بعد حدیث و سنت ہمارا اہم ترین مصدر ِشریعت ہے۔جس سے قران میں غوطہ زن ہونے کے لیے اور درر وجواہر کے حصول میں مدد ملتی ہے۔