حج اور عمرہ

مولانا افتخار احمد قاسمیؔ بستویؔ/استاذ جامعہ اکل کوا

            اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر نماز ، روزہ اور زکوٰۃ کے ساتھ حجِ بیت اللہ بھی فرض فرمایا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے : {وللّٰہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا}(پ:۴/۹۷) جوشخص بیت اللہ تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہے اس پر عمر میں ایک بار حج فرض ہے ۔ اور حج ایسا فریضہ ہے جو ایک مرتبہ فرض ہونے کے بعد بغیر ادا کیے ہوئے ذمے سے ساقط نہیں ہوتا ، چاہے خود کرے یا دوسرا شخص اس کی طرف سے حج ِبدل کرے ۔ حج بدل کی سہولت خداوند قدوس کی طرف سے اسی لیے رکھی گئی ہے تاکہ فریضۂ حج سے سبک دوشی حاصل ہوجائے ۔ اور حج بدل میں اللہ تعالیٰ ایک ساتھ تین لوگوں کی مغفرت فرماتے ہیں ۔ ایک حج بدل کا فریضہ انجام دینے والے کی، دوسرے رقم فراہم کرنے والے کی ، تیسرے اس شخص کی جس کی طرف سے حج بدل کیا جارہا ہے ۔ اور حج بدل کا فریضہ انجام دینے والے کو اللہ تعالیٰ دس حج کے برابر انعامی ثواب عطا فرماتا ہے ۔ جیسے سورۂ یٰس ایک مرتبہ پڑھنے والے کو دس مرتبہ قرآن مکمل کرنے کے برابر ثواب دیتے ہیں ۔

            معلوم ہوا کہ حج فرض ہونے کے بعد ادا کرنے ہی سے فریضہ ساقط ہوگا ۔ اسی لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ’’ جو شخص حج کا ارادہ رکھتا ہو اس کو جلدی کرنی چاہیے ۔ ‘‘ (ابو داؤد عن ابن عباسؓ )

            اسی طرح ارشاد نبوی ہے : ’’ فریضۂ حج ادا کرنے میں جلدی کرو کیوں کہ کسی کو نہیں معلوم کہ اسے کیا عذر پیش آجائے ۔ ‘‘ (مسند احمد عن ابن عباسؓ )

             آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ ایک عمرہ دوسرے عمرے تک ان گناہوں کی معافی کا ذریعہ ہے جو دونوں عمروں کے درمیان سرزد ہوں اور حج ِمقبول کا بدلہ بس جنت ہے ۔ ‘‘(متفق علیہ عن ابی ہریرۃ ؓ)

            آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ پے درپے حج و عمرہ کیا کرو ۔بے شک حج وعمرہ فقر ومحتاجگی اور گناہوں کو اس طرح دور کرتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے کے میل کچیل کو دور کردیتی ہے ۔ (ابن ماجہ عن عمر ؓ )

            لہٰذا ایک مسلمان کوبالغ ہوتے ہی جیسے ہی حج فرض ہوجائے اس کی ادائیگی میں پوری برق رفتاری سے دل چسپی لینی چاہیے اور جاننا چاہیے کہ حج تین طرح کا ہوتا ہے ۔ ایک کا نام ہے ’’ حج افراد ‘‘ دوسرے کا نام ہے ’’ حج قران ‘‘ اورتیسرے کا نام ہے ’’ حج تمتع‘‘ ۔

            ’’ حج افراد ‘‘ یہ ہے کہ حاجی ہونے کے لیے صرف حج کی نیت سے احرام باندھ کر ۸؍ ذی الحجہ سے ۱۲؍ ذی الحجہ تک حج کے سارے احکام کی بجا آوری کرے اور قربانی کے بغیر حج مکمل کرے ۔

             ’’ حجِ قران‘‘ یہ ہے کہ میقات سے عمرہ کی نیت سے احرام باندھے اور عمرے کے ارکان، طواف و سعی کو انجام دے کر احرام نہ کھولے ، سر منڈا ئے بغیر احرام کی حالت میں ۸؍ ذی الحجہ تک رہے ۔ پھر حج کی نیت کرے ۔ ۸؍ ذی الحجہ سے منی ، عرفات، مزدلفہ اورمکہ میں جاکر اپنے مناسک ِحج کی تکمیل کرے ۔

            اور’’ حج تمتع‘‘ کی توضیح یہ ہے کہ میقات سے احرام باندھ کر مکہ مکرمہ پہنچے ، طواف و سعی کے بعد سر منڈاکر عمرہ مکمل کرلے اور عام کپڑوں میں مکہ مکرمہ میں رہ کر ۸؍ ذی الحجہ کی تاریخ کا انتظار کرے ۔ ۸؍ذی الحجہ کو حج کا احرام باندھ کر ۱۲؍ ذی الحجہ یا ۱۳؍ ذی الحجہ تک حج کے ارکان مکمل کرلے ۔

            حج قران اور حج تمتع میں قربانی کرنا واجب ہے اور حج افراد میں واجب نہیں ۔ اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’ حج قران ‘‘ کی ادائیگی فرمائی تھی ، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل سے ’’حج قران‘‘ کی فضیلت زیادہ ہوگی ۔

حج کرنے کا طریقہ :

            عام طور پر ہمارے دیار کے لوگ حج تمتع انجام دیتے ہیں ، اس لیے اس کا طریقہ پیش خدمت ہے ۔

            جب اپنے گھر سے نکلے تو ضرورت کا سامان لے کر ایئر پورٹ پر پہنچ جائے ، راستے میں صدقہ دے ، ایئرپورٹ پر غسل کرکے سلا ہوا کپڑا اتار دے اوراحرام کی ڈھائی میٹر والی دونوں چادروں میںسے ایک لنگی بناکر پہن لے اور ایک اوڑھ لے ۔ سرڈھانک کر دورکعت نماز پڑھے ، دعاکرے ، پھر سرکھول کر عمرہ کی نیت کرلے کہ : اے اللہ ! میں عمرے کی نیت کرتاہوں اس کو آسان فرما اور قبول فرما۔ پھر لَبَّیْکْ اَللّٰہُمَّ لَبَّیْک آخر تک پڑھ کر جہاز میں بیٹھ جائے ۔ راستے میں میقات ’’ یَلَمْلَمْ ‘‘  آتی ہے اس سے پہلے ہی احرام باندھ کر تیار ہوجاناپڑتا ہے۔

            جدہ پہنچ کر انتظامی امور سے فارغ ہوکر مکہ میں داخل ہو ، داخل ہونے سے پہلے جدہ میں موقع نکال کر دخولِ مکہ سے پیشتر غسل کرلے ، بہت ثواب ہے ۔ مکہ میں داخل ہوکر اپنا سامان اپنی قیام گاہ پر رکھ کر خانہ کعبہ کے چاروں طرف بنی ہوئی مسجد ’’ مسجد حرام ‘‘ کی طرف روانہ ہوجائے ۔ مسجد میں داخل ہونے کی دعا ، اعتکاف کی نیت ، سب آداب بجالائے ۔ ہرادب ایک لاکھ کے برابر ثواب رکھتا ہے ۔ دھیرے دھیرے آگے بڑھتا جائے جہاں ازدحام نہ ہو وہاں کھڑے ہوکر خانہ کعبہ پرنظر ڈالے ، پہلی نظر پر جو بھی دعا کرے گا قبول ہوگی ۔ پھر حجر اسود کے سامنے آئے ، مسجد کی اس سمت میں ہری لائٹ لگادی گئی ہے، جو حجر اسود کے مقابل میں ہے ۔ وہاں حجر اسود کی طرف منہ کر کے کانوں تک ہاتھ اٹھاکر بِسْمِ اللّٰہِ ، اَللّٰہُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ  پڑھے ۔ پھر اپنے دونوں ہاتھ کو حجر اسود کی طرف اس طرح بڑھائے جیسے حجر اسود پر ہاتھ رکھے ہوں ، پھر دونوں ہاتھوں کے اندرونی حصے کے ہتھیلی کے نچلے حصے کو بغیر آواز کے چوم لے، اسی کو استلام کہتے ہیں۔ اور طواف کے سات چکروں کی نیت کرکے طواف شروع کرلے ۔ نیت اس طرح کرے کہ اے اللہ! میں طواف کے سات چکروں کی نیت کرتا ہوں اسے آسان فرمااور قبول فرما ۔ ہر چکر میں حجر اسود کے مقابل میں آکر حجر اسود کی طرف رخ کرے ۔ ہاتھوں کو بڑھاکر پہلے کی طرح چوم لے ۔ سات چکر مکمل ہونے پر آٹھویں بار بھی چومے۔ بعد ازاں دو رکعت واجب طواف مقام ابراہیم کے پاس یا کہیں بھی مسجد میں پڑھ کر زمزم پی لے ، پھر نواں استلام (حجر اسود کی طرف ہاتھ بڑھاکر چومنا ) کرے اور’’ اللّٰہُمَّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَتَجَاوَزْ عَمَّا تَعْلَمْ‘‘ پڑھے۔ صفا و مروہ کے درمیان سعی کے سات چکر لگائے ۔ ہری لائٹ کے درمیان جسے ’’ میلین اخضرین ‘‘ کہتے ہیں تھوڑا تیز چلے ۔ سات چکر مروہ پر پورا ہوجائے گا ، وہیں دو رکعت پڑھ کر اپنی رہائش گاہ آکر یا راستے میں سرمنڈالے ۔اور سلاہوا کپڑا زیب تن کرلے، عمرہ اس طرح مکمل ہوگیا ۔

            اب سلے ہوئے کپڑے میں حرم شریف میں آکر روزانہ پنج وقتہ نمازیں جماعت کے ساتھ آداب وسنن کی رعایت کے ساتھ ادا کرتا رہے ۔ ہر نماز کے بعد جنازے کی نماز ہوتی ہے ، اس میں شرکت کرے کہ ایک نماز ایک لاکھ کے برابر ثواب رکھتی ہے ۔

            بعد ازاں ۷؍ ذی الحجہ کو انتظامی امور کے ذمے دار حضرات منی میں لے جانے کے لیے تیار ہوںگے ، بس پر یا پیدل منی روانہ ہوجائے ۔ منیٰ جانے سے پہلے ایک ہینڈ بیگ تیارکرلے ، جس میں ایک نیا سلا ہوا کپڑا ، ایک احرام ، کھانے کا سوکھا ناشتہ ، ایک بوتل پانی ، گلاس ، پتلی چٹائی اور سرمنڈانے کا بلیڈ ۔ ہوائی تکیہ اور ضروری دوائیں وغیرہ بیگ میں رکھ لے۔ اس کو لے کر منی روانہ ہوجائے ، منی روانہ ہونے سے پہلے غسل کرے ، احرام کی دونوں چادریں پہنے ، دورکعت نماز سرڈھانک کر پڑھے ، سر کھول کر نیت کرے کہ ’’ اے اللہ ! میں حج کے ارکان کی نیت کررہا ہوں ، اس کو آسان فرما اورقبول فرما۔ پھر تلبیہ پڑھ کر احرام میں داخل ہوجائے ۔ یہاں سے حج کے ارکان کی ادائیگی ۸؍ ذی الحجہ سے شروع ہوگی ۔

            منیٰ میں ذی الحجہ کی ۸؍ تاریخ کو ظہر سے پہلے پہنچ کر اپنے اپنے اوقات میں مقیم ہے تو پوری ورنہ قصر نماز پڑھے ، ظہر ، عصر ، مغرب ، عشا اور فجر منیٰ میں پڑھنی ہے۔ ۹؍ ذی الحجہ کو فجر پڑھ کر عرفات جائے ، وہاں زوال سے مغرب تک وقوف کرے ، عرفات میں بھی موقع نکال کر غسل کرے ، اپنے خیمے میں ظہر کو ظہر کے وقت اور عصر کو عصر کے وقت اپنا کوئی امام بناکر نماز ظہر وعصر باجماعت ادا کرے ، پھر خطبہ حجۃ الوداع سنے جو وہاں کے امام صاحب مسجد نمرہ سے دیںگے ۔ اور پورا وقت ذکر و دعا میں مشغول رہے ۔ مغرب کے وقت عرفات سے مزدلفہ روانہ ہوجائے ، مزدلفہ میں عشا کے وقت میں مغرب وعشا دونوں نمازوں کو ایک ساتھ جماعت کے ساتھ ادا کرے اور پھر اول وقت میں فجر پڑھ کر وقوف مزدلفہ کرے ، یہیں سے کنکری ۷۰؍ کی تعداد میں چن لے ، سورج نکلنے تک وقوف مزدلفہ واجب ہے ، یہاں سے اب منیٰ جانا ہے ، ذی الحجہ کی ۱۰؍ تاریخ ہے ، پوری دنیا میں مسلمان بقرعید کی نماز کے لیے تیاری کررہے ہوںگے ، لیکن حاجی پر بقرعید کی نماز واجب نہیں ہے ۔ وہ ۱۰؍ ذی الحجہ کو اپنے خیمہ میں منیٰ آجائے آج جمرہ عقبیٰ کو ۷؍ کنکری ظہر سے پہلے افضل وقت میں مارنی ہے ۔ ظہر کے بعد مغرب تک نہیں تو ازدحام کی وجہ سے مغرب کے بعد صبح صادق تک کنکری مارنے کی اجازت ہے۔ ۱۰؍ ذی الحجہ کو اپنے خیمے سے ۱۰؍ بجے کے قریب نکلے ، زوال سے پہـلے کنکری مارلے ، پھرقربانی کرلے یا قربانی کا پیسہ سرکاری یاغیر سرکاری معتبر مقام پر جمع کردے اور قربانی کا صحیح وقت معلوم کرـلے۔ قربانی کے بعد راستے میں یا خیمے میں آکر سر منڈا لے ، ساتھ میں جو صاحب بھی یہ سب ارکان انجام دے چکے ہوں ، وہ بھی سرمونڈ سکتے ہیں ۔ پھر غسل خانے میں جاکر نہالے ، احرام اتارکر سلا ہوا کپڑا پہن لے۔ شام بل کہ رات ہوجائے گی ، وقت پر نمازیں پڑھتا رہے ، نمازوں کے بعد تکبیر تشریق بھی پڑھے ۔ نویں ذی الحجہ کی فجر سے ۱۳؍ ذی الحجہ کی عصر تک ۲۳؍ نمازوں میں حاجی پر بھی تکبیر تشریق واجب ہے ۔ ۱۰؍ ذی الحجہ  کا دن گزر جائے گا ، رات منی میں گزارے ۔ ۱۱؍ ذی الحجہ کی صبح کو مکہ مکرمہ طواف ِزیارت اور سعی کے لیے آجائے ، طواف میں صرف رمل کرے ، اضطباع نہیں، کیوں کہ سلاکپڑا پہن لیا ہے ، سعی سے فارغ ہوکر منیٰ آجائے ، ساتھ میں ۲۱؍ کنکریاں بھی لے لے ، ظہر کے بعد آج منیٰ میں جمرہ اولیٰ ، جمرۂ وسطیٰ اور جمرۂ عقبیٰ تینوں کو سات سات کنکریاں مارنا ہے ۔ رات منیٰ میں گزارے اور ۱۲؍ ذی الحجہ کو بھی سات سات کنکریاں تینوں جمرات کو مارے ۔ گھیرے کے اندر ہی کنکری گرے باہر نہ گرے ورنہ اس کنکری کو دوبارہ مارنا پڑے گا ، اسی طرح سات کنکری ایک ایک کرکے مارے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تمام صحابہ کے ساتھ ۱۳؍ ذی الحجہ کو بھی کنکری ماری ہے تو افضل اور مسنون طریقے عمل پر عمل کرتے ہوئے ۱۲؍ ذی الحجہ کو بھی منی میں رک جائے ۔ سارے لوگ مکہ مکرمہ چلے آتے ہیں اور سنت نبوی متروک ہوجاتی ہے ۔ اس لیے ۱۳؍ ذی الحجہ کی رمی کرکے اس سنت کو زندہ کرلے ، ایک لاکھ سنتوں کے زندہ کرنے کا ثواب حاصل کرے ۔

            اب ۱۲؍ ذی الحجہ یا ۱۳؍ ذی الحجہ کو کنکری مارنے کے بعد مکہ واپس آجاے ، گھر واپسی سے پہلے ’’ طواف وداع ‘‘ کرلے ، یہ واجب ہے ۔ طواف وداع میں سعی نہیںہے ۔ جو بھی طواف آخر میں کرے گا وہ طواف وداع شمار ہوگا ، اپنی طرف سے اورزندہ ومردہ حضرات اہل اسلام سب کی طرف سے اہل سنت والجماعت کے نزدیک طواف کیا جاسکتا ہے۔

            اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :

            ’’ من حج فزار قبری بعد وفاتی فکأنما زارنی فی حیاتی ‘‘

            ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو حج کرے اس کے بعد میرے روضے کی زیارت میری وفات کے بعد کرے تو وہ ایسا ہے جیسے میری حیات میں میری زیارت کررہا ہے ۔

             اس لیے حج کے بعد یا پہلے جب بھی مدینہ منورہ حاضری ہو تو مدینے کے پورے قیام میں درود شریف کثرت سے پڑھے ۔ مسجد نبوی میں روضہ اقدس میں حاضری دے ۔ اپنی طرف سے اور دوست و احباب کی طرف سے سلام پیش کرے ۔ ریاض الجنہ میں دو رکعت نفل پڑھنے کی کوشش کرے۔ اگر عصر یا فجر کے بعد موقع ملے تو نفل کے بجائے قضائے عمری پڑھ لے ۔ جنت البقیع میں صحابہ کرام مدفون ہیں ، وہاں حاضری دے اور چالیس نمازوں کا مسجد نبوی میں باجماعت اہتمام کرے ۔ مسجد قبا میں جاکر دورکعت پڑھے ۔ عمرہ کے برابر ثواب ملتا ہے ۔ مدینے کی کسی چیز کو برا نہ کہے ۔

            اس طرح اپنی طرف سے اور پوری امت کی طرف سے مکہ میں طواف وعمرہ کرکے اور مدینہ کے آداب بجالاکر اپنے وطن لوٹ آئے ۔ اب حاجی گناہوں سے پاک ہوچکا ہے ، گھر آکر اپنے آپ کو گناہوں کی پلیدی سے بچائے اور پوری زندگی سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے خطوط پر چل کر زندگی گزارے ۔ اللہ ہم سب کو اتباع نبوی نصیب فرمائے ۔ آمین!