بسم اللہ الرحمن الرحیم
تعارف، اہمیت ، ضرورت
(مولانا) حذیفہ وستانوی (صاحب)
اللہ رب العزت نے ہمیں ہدایت ِایمانی سے سرفراز کیا، یہ رب ذوالجلال کی سب سے عظیم نعمت ہے،خاص طور پر فتنوں کے اس دور میں اس کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ ہمارے چہار جانب دہریت او رالحاد کا طوفان گردش کر رہا ہے،مادیت‘ عقلیت‘ منطق اور فلسفہ و سائنس کے نام پر ہماری روحانی زندگی کو نیست و نابود کیا جارہا ہے، اور جب روحانیت متأثر ہوتی ہے تو اس کے اثرات انفرادی و اجتماعی ظاہری احوال پر بھی پڑتے ہیں، اور انسان کا اس دنیا میں جینا دوبھر ہو جاتا ہے۔ حسد و عناد، بغض و عصبیت، ظلم وغیرہ جیسی ہلاکت خیز بیماریاں معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں اور معاشرہ کا وہ برا حشر ہوتا ہے، جو آج ہمارے سامنے ہے۔
وسائل علم و معلومات کی فراوانی کا تقاضا یہ تھا کہ پڑھ لکھ کر انسان اچھے برے کی تمیز کرتا، ایک دوسرے کا احترام کرتا اور علم کی روشنی میں محبت کے چراغ جا بہ جا روشن کرتا؛ مگر یہاں تو معاملہ برعکس ہے۔ محبت کی جگہ نفرت نے لے لی ہے ؛ اِس پر مستزاد لوٹ مار کا جو بازار گرم ہے، انسانی تاریخ میں اس کی نظیر شاید ملنا مشکل ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے ایسا کیوں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ مغرب اور یورپ نے جب دنیا کے مختلف خطوں کا رخ کیا تو اس کا مقصد ہی اپنی مادی برتری تھا؛ لہٰذا تعلیم کے نام پر لوگوں نے مہذب جاہل بنانے کا کام کیا اور انسانیت کو مذہب سے دور کردیا، سائنس اور فلسفہ کا بھوت ایسا سوار ہوا کہ کوئی طبقہ اس کے اثر سے بچ نہ سکا۔
اس دنیا میں اللہ کا دستور ہے ،جب بھی باطل سر اٹھاتا ہے ، چاہے وہ مادیت کی صورت میں‘ چاہے وہ فلسفہ اور سائنس کی صورت میں، اللہ اپنے ایسے بندوں کو کھڑا کرتے ہیں ،جو اس کے سامنے سینہ سپر ہو جاتے ہیں اور ڈٹ کر اس کا مقابلہ کرتے ہیں۔
اگر آپ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں گے تو اس کی دسیوں نہیں سیکڑوں مثالیں ملیں گی۔ کہیں ابوبکر، عمر، عثمان اور علی کی صورت میں، تو کہیں ابن شہاب زہری، عمر ابن عبدالعزیز، امام ابوحنیفہ، امام شافعی، ا مام مالک، امام احمد بن حنبل کی صورت میں، تو کہیں امام بخاری و مسلم او رطحاوی کی صورت میں، تو کہیں امام اشعری اور ماتریدی کی صورت میں، تو کہیں امام طبری، امام الحرمین الجوینی، امام غزالی کی صورت میں، تو کہیں سیف الدین قطز ،اسد الدین شیرکو ہ، صلاح الدین ایوبی، نورالدین زنگی کی صورت میں ، تو کہیں عزالدین ابن عبدالسلام، ابن دقیق العید، امام شاطبی، علامہ بلقینی، حافظ عراقی محمد الفاتح، علامہ سنوسی، امام سیوطی، زکریا الانصاری، سلیمان القانونی، علامہ رملی، ملا علی قاری، امام مجدد الف ثانی، شیخ سرہندی، علامہ ابراہیم الکورانی، علامہ عبداللہ الحداد، علامہ محمد الزرقانی، شاہ ولی اللہ محدث الدہلوی، علامہ محمد الصنعانی، علامہ مرتضیٰ الزبیدی، سید اسماعیل الشہید، علامہ رحمت اللہ الکیرانوی، مولانا رشید احمد گنگوہی، علامہ قاسم نانوتوی، حکیم الامت حضرت اشرف علی تھانوی کی صورت میں۔ اللہ نے ہر دور میں ایسے رجال ِکار کھڑے کیے ،جنہوں نے جم کر حق کا بول بالا کیا؛ غرض یکہ جس زمانہ میں جیسی اسلام کو ضرورت رہی انہوں نے ویسا ہی کام کیا۔
پچھلی صدی میں اللہ نے امام قاسم نانوتوی کو کھڑا کیا، حضرت نے دو میدانوں میں اسلام کی بے مثال خدمت کی۔ ایک تو علوم ِاسلامیہ کے صحیح اسلوب میں بقاء کے لیے دارالعلوم دیوبند کی بنیاد ڈالی اور دوسرا مغربی اور ہندو فلسفہ کا مقابلہ کیا اور مناظرات اور اپنی بے مثال تصانیف کے ذریعہ بیسویں صدی عیسوی اور تیرہویں صدی ہجری میں اسلام کے خلاف مغرب کی نشأةِ ثانیہ فلسفہ اور عقلیت کے نام پر ،اسی طرح تقابلِ ادیان و مکالمہ بین المذاہب، فلسفہ تعلیم دنیوی ،حقوق انسانی، تجربیت، فطرت اور نیچر کے نام پر جو طوفان بلاخیز کھڑا کیا گیا تھا ،اس کا عقلی اصول ہی کی روشنی میں منہ توڑ ایسا جواب دیا جو براہینِ قاطعہ اور دلائلِ قویہ سے مزین ہے۔
یہ امر واقعہ ہے کہ حضرت نانوتوی کی کتابوں کو سمجھنے کے لیے فلسفہٴ قدیم و جدید دونوں کے اصول سے واقفیت بے حد ضروری ہے؛لیکن اِس باب میں یک گونہ تشنگی یہ رہی کہ اب تک حضرت کی کتابوں پر جو کام ہوا اس میں کام کرنے والے بعض حضرات کی جانب سے اس کی کمی محسوس کی گئی۔
اس لیے اب ضرورت تھی کہ حضرت کے کام کو عصری اسلوب میں خوب اچھے اور موٴثر انداز میں طلبہ، علما اور دانش وروں کی خدمت میں پیش کیا جائے۔ الحمدللہ! محض فضلِ خداوندی اور اس کی رحمت ِخاصہ سے اللہ نے بندے کو ایک بہترین علمی رفیق میسر کردیا ہے جو قدیم و جدید فلسفہ سے خوب واقف ہیں اور اپنے اکابرین کے نہج پر بھی مضبوطی سے قائم ہیں۔
ا نگریزی زبان بھی اچھی طرح سمجھ لیتے ہیں اور عربی بھی۔ بایں اوصاف اصل انگریزی مراجع سے اُن کے لیے فلسفہٴ مغرب کو سمجھنا، نیز عربی کتابوں سے استفادہ بھی آسان ہے۔موصوف کی خوبی یہ ہے کہ وہ ہمارے اکابرین کی کتابوں میں خوب غوطہ زن ہوئے اور خاص طور پر حجة الاسلام علامہ قاسم نانوتوی اور حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہما اللہ کی کتابوں کو گویا گھول کر پی گئے ہیں۔اورآں موصوف نے مکمل طور پر ان کے افکار کو گویا ہضم کر لیا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ علامہ قاسم نانوتوی اور حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے جس پس منظر میں اپنی تحریرات میں جن شخصیتوں کے جدت پسندانہ افکار کا رد کیا، ان کے افکارکو بھی آں محترم نے خوب اچھی طرح پڑھا؛ پھراہم بات یہ کہ جن اسلامی افکاروحقائق کو ہمارے اکابرین نے عقلی اندازمیں بیان کیا ہے، اس کاتقابل اور مقارنہ مغربی نام نہاد مفکرین سے بھی کرچکے ہیں؛لہٰذا امام قاسم نانوتوی اور حضرت تھانوی رحمہمااللہ کی تصنیفات و تالیفات کی تشریح وتوضیح او رافہام وتفہیم میں جورول وہ اداکرسکتے ہیں شایدوباید ہی کوئی ایساکرسکے،۔میری مراد ”مولانا حکیم فخرالاسلام صاحب الہ آبادی“ سے ہے۔ آپ نے مظاہر علوم سے ”فضیلت“ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ”بی یو ایم ایس“ جامعہ ہمدرد سے ایم ۔ڈی کرنے کے بعد ہمارے ادارے کے تحت چلنے والے طبیہ کالج میں طویل عرصہ تک تدریس کی خدمت انجام دی اور اب جب کہ اِدھر چند سالوں سے دیوبند کے طبیہ کالج میں خدمت انجام دینے کے حوالے سے،وہ دیوبند ہی میں قیام پذیر ہیں،تومزید اکابرین کی کتابوں کی مراجعت اوراُن سے سے براہِ راست استفادہ ان کے لیے آسان ہو گیا ہے۔
اس میں بھی کوئی دورائے نہیں کہ دورِ حاضر میں فلسفہٴ مغرب کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ اپنے فکر انگیز خطاب میں مولاناعلی میاں ندوی نوراللہ مرقدہ نے اس جانب خاص توجہ دینے کے لیے کہا ہے :
”إن جھاد الیوم و إن خلافة النبوة و إن أعظم القرُبات وأفضل العبادات أن تقاومَ ہذہ الموجة اللادینیة التي تجتاح العالم الإسلامي و تغزو عقولہ ومراکزہ“ – أبوالحسن علي الندوي، ردة ولاأبا بکر لہا․
حضرت مفکراسلام مولانا علی میاں ندوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
عصرحاضرکی سب سے اہم ترین عبادت اور نبوی مشن کی تکمیل کے لیے سب سے زیادہ ضروری کا م اور سب سے عظیم جہاداس لادینیت، الحاد،بے دینی او ردہریت کے طوفان کامقابلہ کرناہے، جو عالم اسلام اور دنیابھر میں بسنے والے مسلمانوں کواپنی لپٹ میں لیے ہوئے ہے اور جو مسلمانوں کی عقل کی چولیں ہلارہاہے۔ (ردة و لا أبا بکر لہا)
اللہ ہماری اور ہماری نسلوں کی اس پُرخطر اور ایمان سوز فتنہ سے حفاظت فرمائے اور اس کاڈٹ کرمقابلہ کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین!
ایک اور موقع پر مفکر اسلام سیدابوالحسن ندوی رحمہ اللہ علما سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اب نیا میدان ہے جس کی طرف آپ کو توجہ کی ضرورت ہے، وہ یہ کہ عوام آپ کے اثرسے نکلنے نہ پائیں،یقینا سوچنے اور سمجھنے کی بات ہے کہ امت کے نوجوان الحاد اور تشکیک جیسے مہلک روحانی امراض کاشکارہورہے ہیں۔
مفکر اسلام نے اپنی دونوں تحریروں میں موجودہ الحاد کے رد کی طرف خاص توجہ دینے کو کہا ہے۔
لہٰذاہم نے مجمع الفکرالاسلامی الدولی ( فکرِ اسلامی اکیڈمی) کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا، جس کی یہ پہلی کاوش”حجة الاسلام“ ہے ،جو ۲۴۱ / صفحات پر مشتمل ہے،اور اس پر تحقیق و تشریح کا زور دار کا م مولانا حکیم فخرالاسلام صاحب مظاہری نے کیا ہے۔
قارئین سے گزارش ہے کہ فکر ی ارتدادکے سدباب کے لیے یہ ادارہ امت کے حق میں مفید ثابت ہو،اِس کے لیے دعافرمائیں۔
ملنے کے پتے
مہاراشٹر : مجمع الفکرالاسلامی الدولی فکرِ اسلامی انٹرنیشنل اکیڈمی انڈیا (IAIT)
جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا، ضلع نندوربار –
دیوبند : مکتبہ ظفر اشرف، تھانوی، مدنیہ،نعیمیہ ،زم زم،دینی کتاب گھر،فیصل
سہارنپور : مجمع الفقہ الحنفی، مکتبہ امدادالغرباء، مکتبہ دارالسعادة