حاملین قرآن کی معیت میں سفر ِحرمین کی پر نور یادیں

اداریہ:                                                                            پہلی قسط:

مولانا حذیفہ مولانا غلام محمد (صاحب )وستانوی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

            اللہ کے فضلِ خصوصی سے بندے کو دسیوں مرتبہ بیت اللہ شریف کی زیارت کا شرف حاصل ہوا ۔ کئی مرتبہ حرمین شریفین کا سفر نامہ لکھنے کے بارے میں سوچتارہا مگر ممکن نہ ہوسکا ۔ اس بار ” وفد حملة القرآن الکریم “ یعنی حاملین قرآن (حفاظ) کے ساتھ ایک یاد گار سفر رہا ، سوچا اداریہ کے بہانے اسے قلمبند کر ہی لوں؛ تاکہ ایک امید اور آرزو پوری ہوسکے ۔

            جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا نے مسابقاتِ قرآنیہ کا سلسلہ۲۷/ سال قبل شروع کیاتھا، جس وقت پہلا مسابقہ ہوا، بندہ جامعہ کے شعبہٴ حفظ کا طالب علم تھا اور بندے نے شرکت بھی کی تھی ۔ اس کے بعد ہر تین سال کے وقفے سے مسابقے کا انعقاد ہوتا رہا ہے ؛ یہاں تک کہ سال گزشتہ مارچ ۱۵/ تاریخ کو نویں کل ہند مسابقہ کا انعقاد ہوا، جس میں بڑی تعداد میں ملک وبیرون ملک سے مہمانانِ خصوصی تشریف لائے ،جس کی تفصیل اپریل ۲۰۱۸ء کے شمارے میں شائع ہوچکی ہے ۔

            بہرحال آنے والے مہمانوں میں حاجی اقبال صاحب وسئ والا اور ان کے ساتھ مکہ کے حسینی خاندان سے تعلق رکھنے والے سید عصام ابو خشبہ اور ان کے صاحبزادے سید علی ابو خشبہ بھی تھے ۔اور ان کے ساتھ ان کے کچھ دوست واحباب بھی ۔ جناب عصام ابو خشبہ مکہ کے بڑے تاجر وں میں سے ایک ہیں ، موصوف نے جب ہندستان کے مختلف خطوں سے آئے ہوئے طلبہ کا قرآن سنا تو ششدر رہ گئے اور اعلان کیا کہ کام یاب ہونے والوں کو میری طرف سے عمرہ کروایا جائے۔ان کے اس اعلان کے مطابق رمضان سے قبل اپریل یا مئی میں جانے کا پروگرام بنایا، مگر اکثر طلبہ کا پاسپورٹ تیار نہیں تھا لہٰذا ممکن نہ ہوسکا ۔پھر طے کیا کہ حج کے بعد جانے کا پروگرام بنایا جائے ۔ حج کے بعد بندہ ان سے رابطے میں رہا ؛یہاں تک کہ ششماہی کی تعطیلات سے قبل طے ہوا کہ تعطیلات میں جانا ہے اور پھر بندے نے اس کی تیاری شروع کردی ۔ سعودی سفارت خانہ کو خط لکھ کر ای میل کیا کہ ہمارے یہاں مسابقہ ہوا اور مہمانوں نے کام یاب طلبہ کو؛ جن کی تعداد ۲۰/ہے عمرہ کا اعلان کیا ہے ، لہٰذا آپ سے عمرہ ویزا جاری کرنے کی گزارش ہے ۔ الحمدللہ ! سفارت خانہ نے درخواست قبول کی اور تمام پاسپورٹ طلب کرلیے اور طے ہوا کہ ۳۰/ نومبر کو جانا ہے ۔ والد صاحب نے کہا کہ ٹھیک ہے تمام ساتھیوں کو رفیق دودھ والا کے مکاتب فائن ٹچ پہنچنے کے لیے کہہ دو اور پھر وہاں سے روانگی ہوگی ۔ مولانا عبد الرحیم صاحب فلاحی ممبئی پہنچے اور طلبہ کی ایک دن نگرانی کی اور ۲۶/ افراد پر مشتمل یہ قرآنی وفد مکہ مکرمہ کے لیے روانہ ہوا ۔ تقریباً عشا کے وقت جدہ ایئر پورٹ پہنچے ، ایئر پورٹ امیگریشن نے جیسے ہی ویزا دیکھا، تو کہا کہ یہ ویزا کہاں سے حاصل کیا تو بندے نے بتایا کہ اس اس طرح پروگرام میں کامیاب ہونے والے طلبہ کو عمرہ کے لیے سعودی سفارت خانہ نے ویزے جاری کیے۔ تو احقر سے کہا کہ آپ تحریر دو کہ فلاں تاریخ کو ہم جدہ سے واپس لوٹیں گے ۔ بندے نے لکھ کر دے دیا اور جلد ازجلد کار روائی مکمل کرکے اپنا اپنا سامان لے کر ہم ایئر پورٹ سے باہر آئے، تو اقبال بھائی اور ان کے سیکریٹری ناصر سوری استقبال کے لیے موجود تھے ۔علیک سلیک کے بعد اقبال بھائی لگژری لائے تھے” لَبَّیْکَ اَللّٰہُمَّ لَبَّیْک“َ کا ورد کرتے ہوئے سب اسی پر سوار ہوئے ۔ اقبال بھائی اور فرید بھائی کے گھر جاکر رات کا کھانا کھایا ، جہاں مصطفی بھائی ، فیصل بھائی، عبد العزیز بھائی اور سلمان بھائی جو اقبال بھائی اور فرید بھائی کے صاحبزادے ہیں؛ نے مہمانوں کو کھانا کھلایا ۔ کھانے کے بعد فرید بھائی کے گھر میں مختصر مجلس ہوئی جس میں طلبہ نے قرآن پاک کی تلاوت کی ۔اس کے بعد لگژری میں سوار ہوکر مکہ مکرمہ کی طرف چل دیے ۔ مکہ تقریباً رات ۳۰:۲ / بجے پہنچے ۔ جناب عصام ابو خشبہ کی ہوٹل میں قیام تھا، وہاں اترے ، تھوڑی دیر آرام کیا اور تقریباً ۹/ بجے عمرے کے لیے ہوٹل سے حرم کی طرف چل دیے ۔ راستے میں ناشتہ کیا اور اس کے بعد بندے نے ساتھیوں سے کہا کہ دیکھیے کعبہ پر پہلی نظر پڑتے ہی جو دعا مانگی جائے قبول ہوتی ہے ، اسی طرح حرمِ مکی میں داخل ہوتو یہ دعا پڑھنا مسنون ہے:

             ” اللہم ہذا حرم حرمک والأمن امنک فحرمنی علی النار وأمِنّی من عذابک “

            مکمل استحضار قلب کے ساتھ یہ دعا پڑھیں اور قیامِ مکہ کے دوران جب بھی کعبة اللہ پر نظر پڑے تویہ دعا مسنون ہے :

            ” اللہم زد بیتک ہذا تشریفاً و تعظیماً وتکریماً، وبراً ومہابةً، وزد من شرفہ وعظمہ ممن حجہ واعتمرہ تعظیماً وتشریفاً و براًومہابةً “

             اور جو چاہے دعا مانگے ۔

            مذکورہ دعا کے ساتھ بعض روایات میں یہ اضافہ بھی ہے :

             ” اللہم انت السلام ومنک السلام فحینا ربنا بالسلام “

             اسی طرح مسنون ہے کہ باب بنی شیبہ سے داخل ہو ، اپنا دایاں پیر پہلے داخل کرے اور یہ دعا پڑھے :

            ” اعوذ باللہ العظیم وبوجہہ الکریم وسلطانہ القدیم من الشیطان الرجیم․ بسم اللہ والحمدللہ اللہم صل علی محمد وعلی آل محمد وسلم ، اللہم اغفرلی ذنوبی وافتح لی ابواب رحمتک “۔

            بہر حال طلبہ کو کچھ ضروری ہدایات دے کر ہم حرم مکی میں داخل ہوئے ۔ مطاف کے قریب پہنچنے پر سب نے خوب گڑگڑا کر دعا کی اور طواف شروع کردیا ۔ الحمد للہ ! تقریباً ایک گھنٹے سے کم وقت میں کعبة اللہ کے سات چکر لگاکر سعی کے لیے قافلہ پہنچا ، ہم سعی سے فارغ ہوئے اور جمعہ کا خطبہ شروع ہوا۔ خطبہ اور نماز کے بعد قافلہ حلق کے لیے روانہ ہوگیا ، حلق سے فارغ ہوکر اپنے کمرے کی طرف چل دیے ، راستہ میں کھانا کھاکر کچھ دیر آرام کیا ، اس کے بعد عصر ،مغرب اور عشا حرم میں ادا کی ۔ بندے نے طلبہ سے کہا کہ مکہ کی سب سے افضل ترین عبادت طواف اور تلاوت قرآن پاک ہے ، لہٰذا دونوں عبادتیں خوب اہتمام سے ادا کریں اور تحدیث بالنعمة کے طور پر کہا کہ بندہ جب کم عمری میں والد صاحب کے رفاقت میں آتا تھا تو روزانہ ایک یا ڈیڑھ قرآن ختم کرتا اور میں ۲۵/ طواف کرتا تھا ۔ وللّٰہ الحمد علی ذلک!

            یوم السبت یعنی شنبہ کے دن طلبہ کو صبح جلدی بیدار کیا اور کہا کہ قیامِ مکہ کے دوران تہجد کا اہتمام ہونا چاہیے ، جب ہوٹل سے نکلے تو طلبہ سے کہا کہ تہجد کے وقت پڑھنے کی مسنون دعا یہ ہے :

            ” اللہم لک الحمد انت نور السموات والارض ولک الحمد انت قیم السموات والارض ولک الحمد انت رب السموات والارض ومن فیہن انت الحق ووعدک حق وقولک حق ولقائک حق والجنة حق والنار حق والنبیون حق والساعة حق ولقائک حق ، اللہم لک اسلمت وبک آمنت وعلیک توکلت وإلیک انبت وبک خاصمت والیک خاتمت فاغفرلی ما قدمت وماأخرت وما اسررت وما اعلنت انت الحق لاالہ الا انت ۔(البخاری)

            پھر روزانہ کا یہ معمول تھا کہ ہوٹل اور حرم کے درمیان تہجد میں جاتے ہوئے، میں طلبہ کو یہ دعا پڑھاتا اور وہ میرے پیچھے پڑھتے تھے ۔                                                       (جاری…)