حال دل بر وفات مولانا عبد الرحیم صاحب فلاحی

پیشکش:انیس احمد انبھیٹوی

چل دیے اب چھوڑ کر ہمیں اے حضرت فلاحی

اے محدث ومفسر خطیب و با وفا

کہاں دیکھیں اب تیری وہ مسکراہتیں

دل مضطرب نے پکارا اے فلاحی کہاں ہے تو

دل سے نکلی ایک ہی صدا اے فلاحی

کہاں چل دئے ہمیں چھوڑ کر تنہا تنہا

یقین نہیں ہمیں تیری وفات کا

رہتا ہے انتظار ہر مجلس میں تیرے کلام کا

تو ہی تھا علوم مظاہری کا پاسباں

تو ہی تھا فیض وستانوی کا ترجماں

اپنے برادر کبیر دے دیا تونے صدمہ عظیم

نہ معلوم تیری یادوں کا ہوگا کس دوا سے علاج

مفتی ریحان کو دیکھ کر ہوتی ہے تیری یاد تازہ

کہاں لائیں اب ان جیسا مفکر و منتظم

حضرت وستانوی کو کہہ گئے الوداع

 اپنے خون سے جس نے سینچا تھا گلشن وستانوی

کیا معلوم تھا کہ یہ آپکی آخری ملاقات ہے

کیا معلوم تھا کہ یہ تیرا آخری دیدار ہے

کیا معلوم تھا چھوڑ کر چل بسے گے ہمیں

کیا معلوم تھا کل ملاقات کا وعدہ کیسے ہوگا پورا

بس تیری یادیں رہیں گی دل میں ہمیشہ زندہ

نہیں بھول پائیں گے تیرے صدمہ کو کبھی

یاد رکھیں گے تیری باتوں کو ہمیشہ

یاد کریں گے تیری باتوں کو ہمیشہ

خدا رحمت کرے آپ کی قبر پر

خدا جنت بنائے آپ کی مرقد کو

دل تو روتا ہے آنکھیں اشک بہاتی ہے

پھر بھی ہوتا نہیں سکون تیری یادوں سے بھلا