مولانا عبد الوہاب ندویؔ مدنیؔ
ہندستان کے موجودہ حالات سے جو مایوسی ، سراسیمگی اور پست ہمتی مسلم معاشرے میں پیدا ہورہی ہے ، وہ ایک طبعی امر ہے ، آئے دن رونما ہونے والے ظلم کے واقعات ،مسلمانوں پر دائرۂ حیات تنگ کرنے کی کوششیں غیروں کی جانب سے مسلمانوں میں خوف وہراس کی کیفیت پیدا کررہے ہیں ۔ ان ناگفتہ بہ حالات میں معاشرہ کے ہر فرد کو عزم واستحکام اورصبر و تحمل کے ساتھ دین پر مضبوطی سے قائم رہنے اور دوسرں کو جمانے کی سخت ضرورت ہے۔ اورایک مسلمان کے ایمان کا یہ تقاضا ہے کہ مایوسی ، ڈر وخوف سے دور رہ کر بگڑتے ہوئے حالات کو بدلنے کی کوشش کرے، یقینا حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں ،لوگوں کے دل سے بغض و عناد نکل کر اب عملی طور پر ظلم و ستم کی داستان رقم کررہے ہیں ۔
ان سخت حالات میں نفرت کا جواب نفرت اور عداوت کا جواب عداوت نہیں ، بل کہ حکمت سے ہونا چاہیے ۔ کیا کبھی سخت چلچلاتی دھوپ میں گرمی کا علاج گرم ہوا ، ہیٹر یا آگ سے ممکن ہے ؟ ہر گز نہیں ! بل کہ سخت گرمی میں ٹھنڈی ہوا، کولر یا اے، سی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ کسی جگہ آگ لگنے پر لکڑیاں ڈالنے کے بجائے اسے پانی سے بجھایا جاتاہے ۔بس اسی طرح معاشرہ میں لگی نفرت کی آگ کو بجھانے کے لیے محبت کا طریقہ ہی کار گر ہوسکتا ہے۔یہ عداوت حسن اخلاق کے اظہار ہی سے دور ہوسکتی ہے۔ اور یہی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے:{ادفع بالتی ہی احسن فاذا الذی بینک و بینہ عداوۃ کانہ ولی حمیم}
مسلمانوں کو اپنے تحفظ اوردینی ذمہ داری کے تئیں سب سے پہلے اسی اصول پر کار بند ہونا پڑے گا۔ مسلمانوں کی بگڑی ہوئی شبیہ کو سنوارنا ہوگا ۔ ذرا غور کریں کہ ایک مسلمان کے سلسلہ میں غیر مسلم بھائیوں کا کیا تصور ہے ، وہ مسلمانوں کو غدار ، دھوکہ باز، وعدہ خلاف اور معاملات کی صفائی سے بالکل عاری سمجھتے ہیں ۔ اور یہ سب ہمارے اپنوں کے کرتوت کا نتیجہ ہے کہ یہ برائیاں معاشرہ کی پہنچان بن گئی ہیں ؛ حتیٰ کہ خود مسلم لوگ آپس میں اپنے دینی بھائیوں سے معاملات کرنے سے ہچکچاتے ہیں ۔ صرف یہ سوچ کر کہ کہیں دھوکہ نہ ہوجائے ، لہٰذا وہ غیرمسلم سے معاملہ کرنے ہی کو بہتر اور محفوظ طریقہ سمجھتے ہیں ۔ جب برائی کسی معاشرہ کی پہچان بن جائے ، دھوکہ دہی ، دغابازی ، جھوٹ وفریب اس کی عام نشانی ہوجائے تو پھر کونسی چیز ایسی ہوگی جو دوسروں کو اپنی طرف مائل کرے ۔ دوسروں کے اعتماد کو بحال کرے۔ ظاہری اعمال تو ایسے ہیںکہ پورے معاشرے کے لیے بدنامی اور رسوائی کا سبب بن گئے ہیں ۔ ایسے موقع پر قرآنی تعلیمات اور نبوی طرزِ زندگی کو سامنے رکھ کر ہمیں سب سے پہلے اپنی روش بدلنا ہوگا۔ مکہ کی سرزمین پر پھیلی ہوئی عداوت ،محبت میں کیسے تبدیل ہوئی ۔ جوق در جوق لوگ اسلام میں کیسے داخل ہوئے ۔ جو لوگ اسلام اور مسلمانوں کے سخت دشمن تھے کیا چیز انہیں اسلام کی طرف لے آئی؟!
دعوت الی اللہ کے ساتھ مسلمانوں کے حسن اخلاق ہی نے ان اعدا پر اثر ڈالا ۔ مشرکین مکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے منکر ہوئے، خدا کی ذات کا انکار کیا، لیکن کسی نے آپ علیہ الصلاۃ والسلام کے صدق وامانت داری پر انگلی نہ اٹھائی ، بل کہ آپ کو صادق وامین کے لقب سے نوازا ۔ نبوت کے اعلان کے بعد دینی عداوت کے باوجود مشرکین خود اپنی ا مانتیں آپ کے پاس رکھتے آپ کی ذات پر کلی اعتماد کرتے۔
قرآن پاک کی بھی یہی تعلیم ہے کہ اگر کسی قوم سے دینی عداوت اور بغض فی اللہ ہو تب بھی انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے ۔ اور حکم ہے :
{ولا یجرمنکم شنان قوم علی ان لا تعدلوا اعدلوا ہو اقرب للتقویٰ }
نیز صحابۂ کرامؓ جب حلقہ بگوش اسلام ہوئے اور ان کے رشتہ دار ابھی تک اس شرف سے محروم تھے اور ان سے ملاقات کے لیے آتے تو آپ علیہ السلام نے ان مشرک رشتہ داروں سے بھی حسنِ سلوک کا حکم دیا۔ چناں چہ حضرت اسما رضی اللہ عنہا نے جب اپنی والدہ جو کہ مشرکہ تھیں کے اپنے گھر آنے سے متعلق سوال کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ بھی صلہ رحمی کرنے کا حکم فرمایا ۔
(بخاری باب الہدیۃ للمشرکین: ۲۴۷۷)
نیز صلح حدیبیہ کے بعد اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو عہد شکنی سے منع فرمایا تھا، اور مدینہ منورہ میں یہودیوں کے ساتھ جو معاہدہ ہوئے تھے اس پر بھی مسلمان پوری طرح سے کاربند رہے جب تک کہ خود یہودیوں نے بد عہدی اور عہد شکنی نہ کی۔ غرض یہ کہ اسلامی تعلیمات مسلمانوں کو ہمیشہ ہر حال میں عہد و پیمان پر برقرار رہنے ، دوسروں کے ساتھ انصاف کامعاملہ کرنے اور ظلم وزیادتی سے بچنے کی پرزوردعوت دیتی ہے۔ ہر ایک کے ساتھ حسن ِاخلاق سے پیش آنے کی اہمیت احادیث نبویہ میں اس انداز اور الفاظ میںبیان کی گئی کہ حسن اخلاق ہی کو اصل نیکی قرار دیا گیا۔ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نیکی اور گناہ کے بارے میں دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نیکی حسن اخلاق کا نام ہے ۔(مسلم ۲۵۵۳، باب تفسیر البر والاثم)
دوسری حدیث میں ہے کہ مومن اچھے اخلاق کی وجہ سے قائم اللیل اور صائم النہار لوگوں کے درجات پالیتا ہے۔(ترمذی باب ما جاء فی حسن الخلق ۲۰۰۳)
ایک اہم بات احادیث میں غور کرنے سے معلوم ہوتی ہے کہ اسلام نے حسن ِاخلاق کی تعلیم میں مسلم و غیر مسلم کی تفریق نہیں کی ، بل کہ اس کی نظر میں ہر انسان حسنِ خلق کا معاملہ کیے جانے کا مستحق ہے ۔ اگر کوئی غیر مسلم پڑوسی ہوتو اسے بھی تکلیف دینا گناہ ہے ۔ اگر کوئی غیر مسلم ضرورت مند ہوتو اس کی ضرورت پوری کرنا بھی باعثِ اجرو ثواب ہے ۔ ان تعلیمات کی روشنی میں اگر مسلمان اپنے ہم وطن بھائیوں کے ساتھ معاملات کو درست کرلیں اور ہر ایک کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آئیں اور سب کے لیے دل میں خیرخواہی کا جذبہ پیدا کرلیں اور اپنے اعمال کے بگاڑ کو ختم کرکے اچھی تربیت کا مظاہر ہ کریں؛ تو یقینا جو غلط فہمیاں غیر مسلم بھائیوں کے ذہنوں میں ہیں وہ دور ہوسکتی ہیں ۔ نفرتیں آج بھی محبتوں میں تبدیل ہوسکتی ہیں۔ بس اس کے لیے محبت کا راستہ اپنانا ہوگا۔
اگر ہمارے معاملات میں صفائی ، دلوں میں پاکیزگی اور اخلاق وکردار میں عمدگی پیدا ہوجائے تو وہی لوگ جو ہمیں ناپسند کرتے ہیں خود ہمیں چاہنے لگے گیں۔ جس وقت مسلمانوں نے روم وفارس ، شام وعراق کو فتح کیا تھا وہاں کی عوام مسلمانوں سے نہایت ہی بدظن اور متنفر تھی، لیکن جب ا ن کے اخلاق وکردار کو دیکھا تو خود حلقہ بگوش اسلام ہوئے ۔ اور جنہیں وہ غاصب سمجھ رہے تھے اور یہ خیال کرتے تھے کہ مسلمان ہمارے علاقہ پر قبضہ کرنے آئے ہیں؛ اب و ہ لوگ ملکی نظام بہتر ہونے کے بعد ذمہ داریاں تقسیم کرکے جانے لگے ،تو لوگ آبدیدہ ہوگئے، انہیں واپس جانے سے یہ کہہ کر روکنے لگے کہ ہم نے آپ جیسے خوش طبع اور ایمان دار لوگ نہیں دیکھے ۔ خدارا! آپ نہ جائیں ، آپ کا وجود ہمیں عزیز ہے ۔ آپ کے آنے سے یہ ملک لٹا نہیں ، بل کہ اس میں بہار آگئی۔ آج بھی اگر ہم وہ اخلاق وکردار لوگوں کے سامنے پیش کریں، تو یقینا سب ہمارے چاہنے والے بن جائیںگے۔ع
ہوس نے کردیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوع انسان کو
اخوت کا بیاں ہوجا، محبت کی زبان ہوجا
مزید ایک قابل توجہ پہلو جس کی طرف اقدام نہایت ہی ضروری ہے وہ یہ کہ وطنِ عزیز میں غیر مسلموں کا ایک وہ طبقہ بھی ہے ،جو مسلمانوں سے کھلم کھلا دشمنی کا اظہار کرتاہے۔ وہ لوگ اپنے پروگراموں اور ٹی وی چینلس پر ہمیشہ مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے ہیں ۔ ان سے رابطہ کرنا ، انہیں اپنے اداروں اور مساجد کا دورہ کرانا؛ تاکہ ان کی غلط فہمی دور ہوسکے،نہایت ضروری ہے۔ نیز انہیں تالیف ِقلب کے طور پر کبھی کبھار ہدیہ وتحفہ بھی پیش کیا جاسکتا ہے ، تا کہ ان کے شر سے محفوظ رہا جاسکے ۔
حضرت صفوان بن امیہ فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک محمد سے بڑا مبغوض کوئی نہ تھا ، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ پر احسانات کرتے رہے ، مجھے نوازتے رہے ، یہاں تک کہ آپ کی محبت میرے دل میں بیٹھ گئی ۔
(ترمذی باب ماجائی فی اعطاء المؤلفۃ قلوبہم ۶۶۶)
اسی طرح ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میںآیا تو آپ نے اسے بکریاں دیں، تو وہ واپس جاکر اپنی قوم سے کہنے لگا لوگو! اسلام قبول کرلو اس لیے کہ محمد ایسے ہدیہ وتحائف دیتے ہیں کہ فقر و محتاجگی کا ڈر نہیں ۔
(مسلم ۲۳۱۲)
غرض یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار ومشرکین کے شرسے بچنے یا ان کے اسلام کی امید پر انہیں مال و زر سے نوازا۔ مسلمان بھی زکاۃ کے علاوہ خیرات اورتالیف قلب کی نیت سے غیر مسلم ہم وطن بھائیوں کو خیر خواہی اوران کے شر سے بچنے کی نیت سے انہیں ہدیہ وتحائف دے سکتے ہیں ۔ خصوصاً جب کہ اس کا فائدہ پوری قوم کو ہو۔
نفرت کی پھیلتی ہوئی آگ کو بجھانے کے لیے غیر مسلم سیکولر لیڈران اور رؤسائے قوم تک پہنچنا بھی مفید ہوسکتا ہے ۔ خالص انسانی رشتے اور ہندستانی ناطے سے ملک میں عام محبت و بھائی چارے کی فضا قائم کرنے اوراخلاقی گراوٹ کا ماحول ختم کرنے کے لیے مشتر کہ محنت کی تجویز پیش کرنا ، ملکی حالات کے تناظر میں ملکی مسائل جس سے ہر شخص پریشان ہے ۔ ان موضوعات کو زیر بحث لاکر مہنگائی ، کرپشن اور گھوٹالے وغیرہ امور سے نجات کی ہر ممکنہ کوششوں میں ان کا ساتھ دینا اور ملک میں بھائی چارے کا ماحول قائم کرنا بھی نہایت ہی ضروری ہے ۔ انہیں یہ تاثر دینابھی ضروری ہے کہ زندگی کی جس کشتی میں ہم سب سوار ہیں وہ جب ڈوبے گی تو سب کو لے ڈوبے گی اس سے نہ ہماری پارٹیاں بچ سکتی ہیں نہ ہی ہمارے ادارے ، نہ ہی قائدین اور نہ ہی سیاسی لیڈران ؛ لہٰذا اس کشتی کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے ہم سب کو مل کر ساتھ رہنا ہوگا۔
اسی طرح معاشرے کے غیر مسلم غریب و نادار طبقہ کی طرف توجہ کرنا ، ان کی حاجت روائی کرنا، انسانی بنیادپر ان سے ہمدردی کرنا، ان سے میل جول رکھنا ، ان کی تعلیم وترقی اسی طرح صحت وبیماری ہر میدان میں ان کے ساتھ خیر خواہانہ جذبہ کا اظہار کرنا بھی ناگزیر ہے ؛تاکہ انہیں معلوم ہو کہ انسانیت سے سچی ہمدردی کرنے والا، مخلوق کی خدمت کرنے والا اور انسانیت کا محافظ اور مدد گار کون ہے؟ لٹیرا کون ہے ؟ اس طبقہ سے ہمدردی ، خیر خواہی کا معاملہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ ملک میں ہونے والے فسادات اور شر انگیزی کے واقعات میں رؤسا وصنادید مشرکین ان ہی غریب ونادار لوگوں کا استعمال کرتے ہیں ۔ انہیں مسلمانوں کے خلاف یہ کہہ کر بھڑکا تے ہیں کہ یہ تمہارے دشمن ہیں ۔ ملک کو لوٹ کھانے والے لوگ ہیں ، یہ تمہارے حقوق چھین کر اپنا پیٹ بھرتے ہیں وغیرہ۔ لیکن جب یہی لوگ مسلمانوں کی انسانیت نوازی وہمدردی کو دیکھیں گے ، اخلاق وکردار کا مشاہدہ کریںگے تو پھر کبھی وہ پروپیگنڈوں کا شکار نہ ہوںگے ، بل کہ ان لیڈران کی مخالفت کریںگے اور مسلمانوں کے خلاف لڑنے اور ان سے برسر پیکار ہونے سے بچیںگے۔ اس سے جہاں مسلمانوں کے جان ومال محفوظ ہوںگے؛ وہیں انسانیت کی بڑی خدمت بھی ہوگی۔
لہٰذا آج ہمیں ان حالات کے پیش نظر ایک نئی امنگ ، حوصلہ ، الولعزمی ، جرأت وجسارت کے ساتھ اسلامی تشخص کو فروغ دینے اور ملک کے حالات بدلنے کی بھر پور کوشش کرنی چاہیے؛یہی مطلوب ہے اور یہی مقصود بھی ۔ حکومتیں بنتی رہیںگی ، حکمراں تبدیل کیے جاتے رہیںگے، عروج وزوال کی تاریخ رقم ہوتی رہے گی ، لیکن اگر ہم دین ومذہب کے وفادار اور انسانیت کے خدمت گزار رہے اور اپنی اسلامی شناخت پر ڈٹے اور جمے رہے، تو ان شاء اللہ ہم کام یاب وبامراد رہیںگے۔