مولانا عبدالرحمن ملی ندوی ،استاد جامعہ اکل کوا
مدتوں سے یہ تمنا دل میں گھر کر رہی تھی کہ راجستھان کی راجدھانی میں واقع ”جامعہ ہدایہ “کے دیدار سے جسم و روح کو تسکین بخشیں۔ بالآخر وہ مبارک گھڑی اس طور پر مقدر ہوئی کہ وہاں عالمی رابطہ ادب اسلامی کے ذمہ داروں نے اس کا سالانہ مذاکرہٴ علمی منعقد کرنے کا فیصلہ کیا، اور تاریخیں بھی طے ہو گئیں کہ ۱۵،۱۶،۱۷/ نومبر۲۰۲۴ء کو منعقد ہونا طے پایا گیا ہے، دعوت نامے ارسال کئے جانے لگے، ہماری جانب بھی رابطہ نے ”جامعہ ہدایہ “کے توسط سے دعوت نامہ ارسال کیا ،مزید یہ کہ ہمارے کرم فرما برادرم جناب مولانا شمشاد صاحب ندوی استاد جامعہ ہدایہ جے پور نے دعوت نامہ ارسال بھی کیا اور موبائل سے شرکت کی محبتانہ تاکید بھی کی۔
بالآخر ہم قبلہ رئیس الجامعہ حضرت مولانا غلام محمد وستانوی اور ناظم جامعہ حضرت مولانا حذیفہ وستانوی دامت برکاتہم کے ایما پر رابطہ کے سالانہ اجلاس میں شرکت کے لیے عازم سفر ہوئے۔
۱۵/ نومبر کی شام ساڑھے گیارہ بجے ”جے پور“ شہر کے تاریخی ریلوے اسٹیشن پر پہنچ گئے، پلیٹ فارم پر پہلے سے برادرم محمد عبدالسمیع طالب علم عربی چہارم کے بھائی محمد امان اور ان کے ساتھی استقبال کے لیے تیار تھے، ان حضرات کی مصاحبت میں عزیزم عبدالسمیع کے گھر قیام و طعام طے تھا، عزیزم کے والد صاحب نے بہت ہی محبتانہ استقبال کیا، دوسرے روز صبح چائے نوشی سے فراغت کے بعد عزیزم عید محمد اشاعتی اور عزیزم محمد جاوید اشاعتی کے ہمراہ جامعہ ہدایہ کے لیے روانہ ہو گئے، اور پھر ”جامعہ ہدایہ“ کی پر شکوہ بلند گنبد کی دلکش عمارت کا دیدار کیا، خوشی کی انتہا نہ رہی، اصولی کارروائی کے بعد ناشتہ سے فراغت ہوئی ،ناشتہ میں نامی گرامی علمی شخصیات سے ملاقاتیں اور شناسائی ہوئی، جن میں سر فہرست ہمارے کرم فرما بزرگ دوست جناب ڈاکٹر سعید الرحمن فیضی ندوی مقیم حال کینیڈا ،اور جناب ڈاکٹر محسن عثمانی ندوی صاحب اور ہمارے استاد زادے جناب مولانا زکی نور عظیم ندوی شامل تھے۔
علاوہ ازیں ہماری خوش بختی رہی کہ ناظم ندوة العلماء حضرت مولانا بلال عبدالحئی حسنی ندوی دامت برکاتہم اور عالمی رابطہ ادب اسلامی بر صغیر کے صدر جناب حضرت مولانا جعفر مسعود صاحب ندوی سے شرف نیاز حاصل ہوا، ان دونوں حضرات نے حضرت رئیس الجامعہ حضرت مولانا غلام محمد وستانوی صاحب اور مدیر جامعہ حضرت مولانا حذیفہ وستانوی مدظلہ العالی کی خیریت و عافیت دریافت کی۔
امیر ”جامعہ ہدایہ“ جناب مولانا فضل الرحیم نقشبندی مجددی دامت برکاتہم سے پرانی شناسائی نہ ہونے کے باعث زیادہ گفت و شنید اور مل بیٹھ نہ ہو سکی ، موصوف بڑے مصروف نظر آئے، ۱۶/ تاریخ کی نشست میں ہم نے اپنا مختصر سا مقالہ بزبان عربی پڑھا، جس کا موضوع کچھ اس طرح تھا”فَقَدْنَا عَالِماً رَبَّانِیاً صَنَعَ التَّارِیْخَ بِحِکْمَتِہ“ کہ ہم نے ایسا عالم ربانی کھو دیا، جس نے اپنے حکمتی کاموں سے ایک تاریخ رقم کی، واقعتا بانی جامعہ حضرت مولانا عبدالرحیم نقشبندی مجددی رحمة اللہ علیہ نے جے پور جیسے تاریخی شہر اور راجستھان کی راجدھانی میں ایک تاریخی علمی تاج محل قائم کیا ہے، لب ِسڑک ہونے کی وجہ سے ایک الگ ہی دل کشی اور روحانیت رکھتا ہے، اس ادارے کے خوشہ چینوں میں علمیت اور فکری دور رسی نظر آتی ہے۔
اس عظیم علمی مرکز میں دینی و عصری علوم کا حسین سنگم ہے طلبہ میں شائستگی اور طالب علمانہ قرینہ دیکھنے ملا، یقینا یہ ادارہ ہر اعتبار سے بانی جامعہ حضرت مولانا عبدالرحیم نقشبندی مجددی رحمة اللہ علیہ کے خواب کی حسین تعبیرہے اور اس علمی تاج محل کو امیر” جامعہ ہدایہ “ حضرت مولانا فضل الرحیم صاحب نقشبندی مجددی دامت برکاتہم نے اپنی لیل و نہار کی انتھک کاوشوں سے نکھارا بھی ہے۔
۱۷/ نومبر کو امیر جامعہ حضرت مولانا فضل الرحیم صاحب نے جے پور کی تاریخی عمارتوں کی سیاحت و زیارت کا نظام ترتیب دیاتھا، بحمدللہ ہم مختلف تاریخی عمارتوں سے لطف اندوز ہوئے ،چوں کہ ہماری ٹرین اجمیر سے تھی اس لیے ہم ۱۲/بجے برادرم جناب مولانا ندیم مظاہری کی سرپرستی اور جناب مولانا نظام الدین صاحب پونہ اورمولانا بشیر احمد کوپر گاوں کی مصاحبت میں اجمیر کے لیے روانہ ہو گئے اور ہم مغرب کے قریب اجمیر پہنچ گئے۔ اجمیر آئیں اور سلطان الہند حضرت خواجہ اجمیری رحمة اللہ علیہ کی قبر پر فاتحہ خوانی نہ کریں ممکنات میں سے نہیں، مغرب کے بعد فاتحہ خوانی کی اور آٹھ بجے ہم گجرات کے شہر بھروچ کے لیے روانہ ہو گئے اور پھر ۱۸/ نومبر کی دوپہر جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم حاضر ہوئے اور اپنی تدریسی گھنٹے میں سبق بھی پڑھایا ،مجموعی اعتبار سے ہمارا یہ سفر بڑا کامیاب رہا کہ علمی شخصیات سے نیاز بھی حاصل ہوا اور مقالات سے مستفید بھی اور دونوں تاریخی شہر (جے پور، اجمیر) کی تاریخی عمارتوں کی سیاحت بھی ہوئی۔
حضرت مولانا شاہ عبدالرحیم نقشبندی مجددی سے متعلق اس شعر پر اپنے تأثرات ختم کرتے ہیں۔
عالم تھا با عمل و تقوی شعار تھا
اس دور میں سلف کی وہ یادگار تھا