جہیز تحفہ یا معاشرے کا ایک جبر

مقصوداحمدضیائی

جہیزکی تباہ کاریاں:

            گجرات سے تعلق رکھنے والی عائشہ نامی ایک خاتون نے سابرمتی ندی میں کود کر خود کشی کر لی اور خود کشی سے قبل خاتون نے ایک ویڈیو پیغام بھی چھوڑا، جس میں حتی الامکان خود کشی کی وجہ مخفی رکھنے کی کوشش کی گئی۔ خاتون کی گفتگو کا خلاصہ کسی صاحب ِنظر نے آنکھوں کو نمناک، دل کو رنجور اورضمیر کو جھنجوڑنے والا کہا ہے کہ ” میں اپنے خدا سے یہ کہوں گی کہ ان انسانوں میں اب کسی بیٹی کو نہ بھیجنا “ ذرائع ابلاغ کے مطابق لڑکی شادی شدہ تھی اور راضی خوشی ازدواجی زندگی گزارنا چاہتی تھی، لیکن سسرال والوں کی جانب سے جہیز کے مسلسل مطالبہ، گھریلو تشدد اور شوہر کی بے رخی سے تنگ آکر خاتون نے اپنی جان ضائع کر دی۔

             خود کشی کے بارے میں اسلامی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ ” یہ فعل حرام ہے اس کا مرتکب اللہ پاک کا نافرمان اور جہنمی ہے“

            قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس گھناوٴنے جرم کا ارتکاب کس وجہ سے ہوا؟ خود کشی کی بنیاد جو چیز بنی وہ کیا ہے؟ اس وقت تک اس حادثے سے متعلق بذریعہ سوشل میڈیا سے جتنی بھی اطلاعات موصول ہوئی ہیں وجہ ”جہیز” ہی بنا ہے۔ واللہ اعلم

            اگر یہ بات واقعہ کے عین مطابق ہے تو یہ دل دوز حادثہ اپنے اندر بہت بڑا سبق رکھتا ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے سماج میں جہیز کے طعنوں کی وجہ سے کس کس قسم کے سنگین حادثات رونما ہو سکتے ہیں اور مزید حوا کی بیٹیاں مجبور ہو کر اپنی جانیں گنوا سکتی ہیں۔ نہ جانے کتنی ایسی ہیں کہ جو جہیز کے رواج کی وجہ سے بن بیاہی عمر رسیدہ ہوگئیں ہیں اور کتنے نوجوان لڑکے ایسے ہیں کہ جو بایں وجہ نشے کی لعنت میں گرفتار ہو کر حرام کاریوں میں مبتلا ہو کر اپنی زندگیاں برباد کر رہے ہیں۔

             بہ ہرحال عائشہ کی خود کشی کے بعد خصوصیت کے ساتھ جہیز سے متعلق لڑیچر دیکھنے کا اتفاق ہوا ۔ورق گردانی کے دوران شیخ الاسلام مفتی محمدتقی عثمانی صاحب کا ایک مضمون ” کچھ جہیز کے بارے میں “ نظر نواز ہوا جس کی چند سطریں ہدیہٴ قارئین ہیں، جو اس سلسلہ میں بہترین رہبری فراہم کرتی ہیں۔ فرماتے ہیں کہ

            ” شرعی اعتبار سے جہیز کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ اگر کوئی باپ اپنی بیٹی کو رخصت کرتے وقت اسے کوئی تحفہ اپنی استطاعت کے مطابق دینا چاہے تو دے دے۔ اور ظاہر ہے تحفہ دیتے وقت لڑکی کی آئندہ ضروریات کو مدنظر رکھا جائے تو زیادہ بہتر ہے، لیکن نہ وہ شادی کے لیے کوئی شرط ہے اور نہ ہی سسرال والوں کو کوئی حق بنتا ہے کہ وہ اس کا مطالبہ کریں اور اگر کسی لڑکی کو جہیز نہ دیا جائے یا کم دیا جائے تو اس پر برا منائیں یا لڑکی کو مطعون کریں اور نہ ہی یہ کوئی دکھاوے کی چیز ہے کہ شادی کے موقع پر اس کی نمائش کرکے شان و شوکت کا اظہار کیا جائے۔ اس سلسلے میں معاشرے میں جو غلط تصورات پھیلے ہوئے ہیں، وہ قابل ِتوجہ ہیں بعض حضرات یہ تجویز پیش کرتے ہیں کہ جہیز کو قانوناً بالکل غلط قرار دے دیا جائے، لیکن دراصل یہ ایک معاشرتی مسئلہ ہے اور اس قسم کے مسائل معاشرتی مسائل ہوتے ہیں، جو قانون کی جکڑ بند سے حل نہیں ہوتے اور نہ ایسے قوانین پر عمل کرنا ممکن ہوتا ہے ،اس کے لیے تعلیم و تربیت اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے ایک مناسب فضا تیار کرنی ضروری ہے۔

             حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو سادگی کے ساتھ جو کچھ جہیز عطا فرمایا تھا، شرعی اعتبار سے اس قسم کے جہیز کے لیے کوئی بھی مقدار مقرر نہیں ہے۔ اگر دوسرے مفاسد نہ ہوں تو باپ اپنے دلی تقاضے کے تحت جو کچھ دینا چاہے دے سکتا ہے؛ لیکن خرابی یہاں سے پیدا ہوتی ہے کہ اول اسے نمود و نمائش کا ذریعہ بنایا جاتا ہے اور دوسرے لڑکے والے اسے عملًا اپنا حق سمجھتے ہیں زیادہ سے زیادہ جہیز کی امیدیں باندھتے ہیں اور انتہائی گھٹیا بات یہ کہ اس کی کمی کی وجہ سے لڑکی اور اس کے گھر والوں کو مطعون کرتے ہیں۔ جہیز کی ان خرابیوں کو ختم کرنے کے لیے معاشرے کے تمام طبقات کو ان تصورات کے خلاف جہاد کرنا پڑے گا ،تعلیم و تربیت ذرائع ابلاغ اور وعظ و نصیحت کے ذریعے ان تصورات کی قباحتیں مختلف انداز و اسلوب سے متواتر بیان کرنے اور کرتے رہنے کی ضرورت ہے یہاں تک کہ یہ گھٹیا باتیں ہر کس و ناکس کی نظر میں ایک ایسا عیب بن جائیں ،جس کی طرف نسبت سے لوگ شرمانے لگیں۔ کسی بھی معاشرے میں پھیلے ہوئے غلط تصورات یا بری عادتیں اسی طرح رفتہ رفتہ دور ہوتی ہیں کہ اس معاشرے کے اہل ِاقتدار، اہل ِعلم و دانش اور دوسرے با رسوخ طبقے مل جل کر ایک ذہنی فضا تیار کرتے ہیں یہ ذہنی فضا رفتہ رفتہ فروغ پاتی ہے اور لوگوں کی تربیت کرتی ہے ،لیکن اس کے لیے درد مند دل اور انتھک جدوجہد درکار ہے ۔“

             عائشہ نامی اس خاتون کی جہیز کے طعنوں سے تنگ آکر خود کشی کرنے کا المناک، دردناک ،شرمناک اور دلدوز حادثہ ہو یا منشیات کی لعنت میں لت پت اور تباہ حال ہماری نوجوان نسل کی حالت ِزار ہو، سماج میں ناسور کی طرح پنپتی برائیوں کو دیکھ کر یہی زبان پر آتا ہے کہ” روئیں دل کو یا پیٹیں جگر کو“ !!

            معاف کیجیے!! ہمارا مزاج کچھ اس قسم کا ہوگیا ہے کہ جب بھی اس قسم کے دلدوز حادثات رونما ہوتے ہیں، بجائے عملی اقدامات کے فقط وقتی طور پر زبان و بیان کی حدتک اظہار ِافسوس کرکے ہم سمجھتے ہیں کہ فریضہ ادا ہوگیا ہے، ہمیں اپنی اس روش پر نہایت ہی سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا سماجی خرابیوں کے انسداد کا واحد حل یہی ہے کہ اصلاحِ احوال مگر سب سے پہلے اپنی ذات؛ جاننا چاہیے کہ جو بھی اصلاحی تحریک اپنے آپ سے بے خبر ہو کر صرف دوسروں کو اپنا ہدف بناتی ہے اس تحریک میں دوسروں کے لیے کوئی کشش اور تاثیر نہیں ہوتی اور وہ محض ایک رسمی کارروائی ہو کر رہ جاتی ہے۔

             خلاصہ یہ کہ قوم مسلم کے ہر فرد بطور خاص سماج کے باثر اور دین دار طبقہ کو اصلاح ِمعاشرہ کے سلسلے میں اول فرصت میں اپنی ذمہ داری نبھانے کی ضرورت ہے چونکہ ہر انسان جب تک اپنے اپنے حصے کا چراغ نہیں جلائے گا اجالا کیسے ہوگا ۔دعا ہے رب ِکریم ہمیں نیکو کاروں کے قافلے میں شامل ہونے کی توفیق نصیب فرمائے۔آمین!


خودکشی کا حکم: بعض نادان اس جسم کو اپنی ذاتی ملکیت قرار دے کر اسے ختم کردینے کوبھی اپنا بنیادی حق سمجھتے ہیں ؛جب کہ جان ایک قیمتی امانت ہونے کے ناطے اس کی حفاظت کرنا لازمی ہے۔ اللہ کے احکامات اور فرمان و اجازت کے بغیر اس امانت کی ہلاکت جرم ِعظیم ہے، یہ جرم جس کو خود کشی سے تعبیر کیا جاتا ہے کی سزا انتہائی دردناک ہے۔ ارشاد باری جل جلالہ ہے:

            ولا تقتلو انفسکم (ترجمہ) اپنے جانوں کو قتل نہ کرو۔ (سورة نساء‘آیت نمبر ۹۲)

            اسی طرح آنحضرت ﷺ کا فرمان ہے: عن ابی ھریرة قال قال رسول اللہ ﷺمَن تَرَدَّی مِن جَبَلٍ فَقَتَلَ نَفْسَہُ، فَہو فی نَارِ جَہَنَّمَ یَتَرَدَّی فیہ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِیہَا أَبَدًا، وَمَن تَحَسَّی سُمًّا فَقَتَلَ نَفْسَہُ، فَسُمُّہُ فی یَدِہِ یَتَحَسَّاہُ فی نَارِ جَہَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِیہَا أَبَدًا، وَمَن قَتَلَ نَفْسَہُ بِحَدِیدَةٍ، فَحَدِیدَتُہُ فی یَدِہِ یَجَأُ بِہَا فی بَطْنِہِ فی نَارِ جَہَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِیہَا أَبَدًا۔ (بخاری ومسلم)

. (ترجمہ) حضرت ابوہریرہسے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا: جس شخص نے اپنے آپ کو پہاڑ سے گرا کر خودکشی کی وہ شخص ہمیشہ جہنم میں گرایا جائے گا۔ اور وہاں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا اس سے کبھی نہیں نکلے گا۔ اور جو شخص زہر پی کر اپنے آپ کو ہلاک کرے گا، اس کا زہر اس کے ہاتھ میں ہوگا ،جسے وہ دوزخ کی آگ میں پیے گا، وہ اس جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رہے گا اس سے کبھی نہیں نکلے گا۔ اور جس شخص نے لوہے کے ہتھیار (مثلاً چھری‘ گولی وغیرہ) سے اپنے آپ کو مار دیا، اس کا وہی آلہٴ قتل دوزخ کی آگ میں اس کے ہاتھ میں ہوگا، جس کو وہ اپنے پیٹ میں داخل کرے گا او ردوزخ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے داخل ہوکر اس سے کبھی نہ نکلے گا۔“