جھوٹ کے پاؤں

شفیع احمدقاسمیؔاِجرا،مدھوبنی/جامعہ اکل کوا

جھوٹ بولنابھی ایک ہنر :    

            یہ بڑاہی عجیب وغریب دورہے کہ آج کل کے ترقی یافتہ معاشرے یابزعم خودمہذب کہلانے والی تہذیب باختہ دنیامیں جھوٹ کوبھی رفتہ رفتہ ایک اہم مقام حاصل ہوچکاہے۔یہ بڑاہی دل خراش اوردردناک المیہ ہے ،جس سے ملک ومعاشرہ دن بہ دن تباہی کے غارمیں گرتاچلاجارہاہے ۔یہی وجہ ہے کہ آپ معاشرتی راہوں کے کسی شعبے میں بھی قدم رکھ دیجیے،اُس کاتعلق چاہے دینیات سے ہویاعصریات سے،اقتصادیات سے ہو یا معاشیات وسیاسیات سے ۔ہرشعبہ میں آپ کوجھوٹ کاڈنکابجتاسنائی دے گا،جھوٹ کانغمۂ جانفزاکانوں میں رَس گھوـلتامحسوس ہوگا۔خالق ِکائنات کی سجائی ہوئی کائنات کے نقشہ پرہماری چارروزہ زندگی کی فصل ِبَہار میں کوئی بھی میدان اِس کی فراوانی سے محروم اورخالی نظرنہیں آئے گا۔کمال کی بات تویہ ہے کہ اِس کی شناعت وقباحت سے دل کے گھروندے بھی یکسرخالی ہوچکے ہیں،جسے بھرنے کے امکان نداردہیں۔اِس لیے موجودہ وقت میں آپ ہر قدم پریہ مشاہدہ کریں گے کہ جھوٹ بولنابھی ایک ہنرکادرجہ رکھتاہے۔اِس کاخوش نمانتیجہ یہ نکلا کہ اب جھوٹ کی کھیتی کرناحلوہ چبانے کی طرح بہت آسان لگنے لگاہے ۔انسانی کرم فرمائی سے اتنے ہی پرکہانی کا اکتفا نہیں ہو جاتاہے،بلکہ اپناالّوسیدھاکرنے کے لیے اُسے پھیلانے میں بھی مزاآنے لگاہے ۔

جھوٹ کے پاؤں:

            اردومیں ایک مَثل مشہورہے کہ ’’جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے‘‘مگراب اِس کے پاؤں نہیں،بلکہ پَر ایسے نکل آئے ہیں کہ اس نے پورے معاشرہ کوبری طرح اپنی لپیٹ میں لے لیاہے اورزندگی کاکوئی گوشہ اِس سے خالی نہیں رہا۔کھلاجھوٹ توخیرایسی چیز ہے،جسے ہرشخص براسمجھتاہے۔اِس میںمسلمان اورکافرکی بھی قید نہیں،بلکہ وہ دہریے بھی جواللہ تعالیٰ کے وجودتک کاانکارکرتے ہیں،وہ بھی نظریاتی طورپرجھوٹ کوبراہی سمجھتے ہیں۔جولوگ عملاً دن رات جھوٹ بولتے رہتے ہیں،اُن سے اگرپوچھاجائے کہ جھوٹ بولناکیساہے؟ تویقینا اُن کاجواب بھی یہی ہوگاکہ بہت براہے ۔لہٰذاایسے لوگوںکوجب کبھی اپنے کردارکی درستی کا خیال آئے گاتووہ جھوٹ سے بھی توبہ کرسکیں گے،لیکن زمانے میں جھوٹ کی ایسی بہت سی شاخیں وجودمیں آگئی ہیں،جنھیں بہت سے لوگ جھوٹ سمجھتے ہی نہیں۔(ذکروفکر:ص۱۵۲)

بے پَرکی اڑاتے ہیں:

            آج ہماری حالت یہ ہے کہ اڑانے والے بے پَرکی اڑادیتے ہیں اورہم اُس پراپنے اعتماد و یقین کا محل تعمیرکرکے اُسے نقل کرنے لگ جاتے ہیںاوربسااوقات آدمی خودہی ایک بات بول لیتاہے اورکمالِ چالاکی سے الزام سے بچنے کاآسان طریقہ بھی کھوج کرنئی دنیا(امریکا)کاپتالگانے والے کرسٹوفرکولمبس کوبھی مات دیتا ہے۔طریقہ کاریہ ہوتاہے کہ بغیرتحقیق اوربے سندباتوں کودوسروں کے سرڈال دیتاہے اورکہتاہے کہ: ’’لوگ یوں کہتے ہیں،فلاں لوگوں سے سناہے،فلاں جگہ پریہ بات ہورہی تھی،لوگوں کاکہنایہ ہے‘‘۔ یادرکھنا چاہیے کہ یہ لفظ جھوٹ کی سواری ہے،اس سواری پرجھوٹ شاخِ برگدیاجنگل میں لگی آگ کی طرح پھیلتاچلا جاتا ہے ۔حالات کے رخ کاصحیح ڈھنگ سے جائزہ لیجیے گاتویہی انکشاف ہوگاکہ ہماری روزمرہ کی زندگی میں شاید ہی کوئی ایسی محفل ملے گی،جس میں کسی کی ذات وصفات اورحالات پرتبصرے نہ ہوتے ہوں۔سننے والے بھی اتنے عالی دماغ اور ظرفِ عالی کے مالک ہوتے ہیں کہ بلاتحقیق ہی اُسے قبولیت کی سندفراہم کردیتے ہیں اور اتنے وثوق واعتمادکے ساتھ عوامی گلیاروں میں بیان کرتے ہیں،جیسے کہ پوری طرح اُن کواِس بات کاذاتی علم حاصل ہو ۔اِس لیے جو کچھ بھی کانوں سے سناجاتاہے،اُسے بلاتاخیرآگے بڑھانے کی کوشش کی جاتی ہے،تاکہ کوئی دوسرااُچکّاہم سے اِس میدان میں سبقت نہ کرجائے ۔ویسے بھی آپ نے دیکھاہی ہوگاکہ جب کسی کا جھوٹ عوامی پکڑ میں آجاتا ہے تواُس وقت طرح طرح کی تاویلیں پیش کرنے لگتے ہیں۔کیوںکہ بہت مشہور کہاوت ہے کہ’’ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے سترجھوٹ بولنے پڑتے ہیں‘‘۔

سراسر جھوٹ وہ بھی بے سبب حیرت نہ کر اِس پر

ہے یہ بھی آج کل کے دور میںانسان کی ہابی

ہرایک سے پوچھ ہوگی:

            قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کاارشادہے:{لاَ تَقْفُ مَالَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ اِنَّ  السَّمْعَ  وَالْبَصَرَ  وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُوْلًا۔} اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم!جس بات کاآپ کوعلم نہیں ہے اُس کے پیچھے نہ پڑیں،بے شک کان،آنکھ اوردل(تو)ان سب کے بارے میں سوال کیاجائے گا۔آیت مذکورہ کے ذیل میں شیخ الاسلام علامہ شبیراحمدعثمانیؒ تحریرفرماتے ہیں:’’یعنی بے تحقیق بات زبان سے مت نکال نہ اُس کی اندھادھن دپیروی کر۔آدمی کوچاہیے کہ کان،آنکھ اوردل ودماغ سے کام لے کراوربہ قدرِ کفایت تحقیق کر کے کوئی بات منہ سے نکالے یاعمل میں لائے۔سنی سنائی باتوں پربے سوچے سمجھے یوںہی اٹکل پچوکوئی قطعی حکم نہ لگائے یاعمل درآمدشروع نہ کردے۔اِس میں جھوٹی شہادت دینا،غلط تہمتیں لگانا،بے تحقیق چیزیں سن کرکسی کے درپے آزارہونایابغض وعداوت قائم کرلینا،باپ داداکی تقلید یا رسم ورواج کی پابندی میں خلافِ شرع اورناحق باتوں کی حمایت کرنا،اَن دیکھی یااَن سنی چیزوں کودیکھی یاسنی ہوئی بتلانا۔غیرمعلوم اشیاکی نسبت دعویٰ کرناکہ میں جانتا ہوں،یہ سب صورتیں اِس آیت کے تحت میں داخل ہیں۔یادرکھناچاہیے کہ قیامت کے دن تمام قویٰ کی نسبت سوال ہوگاکہ اِن کوکہاں کہاں استعمال کیاتھا،بے موقع توخرچ نہیں کیا؟‘‘۔(تفسیرعثمانی:ج ۲/ص۳۸۹)

یہی توسندپیش کریں گے:

              اگراُن سے کوئی پوچھ لے کہ جناب عالی!آپ کے معلوماتی سمندرمیں یہ باتیں کیسے اورکہاں سے نازل ہوگئیں توآپ جانتے ہیں کہ کیاجوابِ لاجواب ملے گا؟یہی جواب ملے گاکہ ’’لوگ کہتے ہیں‘‘۔اب یہ سمجھ میں نہیں آتاکہ یہ لوگ ہیں کون؟اورلگتاہے کہ اب اِس تحقیق کی کوئی ضرورت ہی باقی نہیں رہ گئی ۔اس وقت ہماراجوحالِ بے حال ہے ،اُس پرتواللہ کے رسول صلوات اللہ علیہ وسلامہ کی یہ حدیث بالکل فِٹ بیٹھ رہی ہے، جس میں  فرمایاگیاہے کہ:’’بِئْسَ مَطْیَۃُ الرَّجُلِ زَعَمُوْا‘‘جھوٹ کی سب سے بری سواری یہ ہے کہ کہاجائے کہ ’’لوگ کہتے ہیں‘‘۔(ابوداؤد:ص۶۷۹)

            زعمواکامعنی ہے:’’کہتے ہیں‘‘یا’’لوگوں نے کہاہے‘‘۔یہ کہہ کرعموماًبہت کچھ غلط سلط باتیں کہہ جانے کابعض لوگوں میں رواج ہے ۔لہٰذاجس طرح سواری پرچڑھ کرآدمی اپنی منزل مقصودکی طرف روانہ ہوتا ہے ،اسی طرح یہ کہہ کرآدمی جدھرکوچاہے نکل جاتاہے ،اِس وجہ سے حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اِسے جھوٹ کی سواری فرمایاہے۔(فضل المعبود:ج۵/ ص۶۷۸)

قدیم وجدیدسواری:

            شاہ راہِ زندگی میں عام طورپریہ دیکھاجاتاہے کہ اگرکسی کوکہیں جاناہوتوکسی سواری کااستعمال کرتے اورآرام سے منزل مقصودتک رسائی حاصل کرتے ہیں۔تاریخ بتاتی ہے کہ زمانۂ قدیم میں اونٹ،گھوڑے،ہاتھی اورخچروغیرہ کی سواری ہواکرتی تھی۔زمانہ نے تبدیلی کی کروٹ لی توبیل گاڑی،بگھی اورچھکڑے وغیرہ کاوجود ہماری زندگی میں موجودہوا۔جب ارشادِ رب العباد:{وَیَخْلُقُ مَالَاتَعْلَمُوْنَ۔}کی الجھی ہوئی گتھی سلجھی تو انسان کی ترقیاتی اڑان نے موجودہ سائنسی ایجادات واکتشافات کے دورمیں بہت ہی آرام دِہ اورتیز رفتار سواریاں ہمارے درمیان موجود کررکھی ہیں،جس سے بہ وقتِ ضرورت ہم بھرپورطریقے پراِس سے فائدہ اٹھاتے ہیں اورایک مقام سے دوسرے مقام تک بہت ہی قلیل وقت میں پہنچ جاتے ہیں۔اب حال یہ ہے کہ مہینوں کا سفر گھنٹوںاورگھنٹوں کا سفر منٹوں میں پوراہوجاتاہے ۔اِس ـلمبی فہرست میںرکشا، موٹرکار، بس، ریل، ہوائی جہازاورسائیکل کے علاوہ بھی دیگر اقسام کی بہت ساری گاڑیاںکھڑی ہوئی ہیں،اپنی پسندکاانتخاب کرلیجیے اوردورانِ سفردل کش نظاروں کا مزا بھی خوب مزے سے لیجیے۔

            یہاں پرکوئی ایجادات کی فہرست گِنوانامقصودنہیں ہے،تاہم {یَخْلُقُ مَالَاتَعْلَمُوْنَ۔}کے ذیل میں حضرت مولانا محمدیعقوب صاحبؒاول صدرالمدرسین دارالعلوم دیوبندکامقولہ ہے کہ:’’سفرسے متعلق برّی بحری سواریاں موٹر،ٹرین،ہوائی جہازسب اِس آیت کے ٹکڑے میں داخل ہیں‘‘۔(انوارالقرآن:ج ۵/ص ۳۲۰)

ایک جھوٹ بھی شامل ہے:

            بہرحال! یہ بات توانسانی سواری کی تھی،لیکن یہ جان کرآپ تعجب کریں گے کہ انسان کے علاوہ اور بھی کئی ایسی چیزیں ہیں،جوسواری کااستعمال کرتی ہیں۔اُن ہی میں سے ہماری گودمیں پلنے اورپروان چڑھنے والاایک’’جھوٹ‘‘ بھی شامل ہے ۔کیوںکہ یہ بھی بڑے بڑے سفرکرتاہے اورواسطہ پڑنے پریہ عوام کوبھی سفر سے لطف اندوزکراتاہے ۔کبھی توایسے حالات بھی پیداکردیتاہے کہ انسان اِس پراعتماداوربھروساکرکے اپنا ذاتی اورکاروباری سفربھی یہ کہتے ہوئے منسوخ کردیتاہے کہ’’جان ہے توجہان ہے‘‘یا’’جان بچی تولاکھوں پائے‘‘۔ اِس لیے اپنے پروگرام کوکسی دوسرے دن پرمؤخرکردیتے ہیں۔

کیااورکیوں کابھنور:

            ہمارے ترقی یافتہ معاشرے کاایک اہم کارنامہ یہ بھی ہے کہ اُس کودوسروں کی کھال میں الجھنے اور پوشیدہ خانگی حالات کے کریدنے کابڑاشوق ہوتاہے۔لوگوں کی اکثریت اِسی فکرمیں سرگرداںاورپریشان نظر آتی ہے کہ کون کیاکرتاہے؟ کیاباتیں اُن کی زبان سے نکلتی ہیں؟کن لوگوںسے اورکیوں ملتاہے؟کہاں آتاجاتا ہے اورکیوں؟اُن کے ساتھ اٹھنابیٹھناکیوں کرتاہے؟دوستی کاہاتھ کس سے ملاتاہے؟اگراُن کی کچھ باتیں جان لیتے ہیں تواب اُن کوایک نیاراستہ مل جاتاہے کہ کچھ اپنی طرف سے تھوڑی کھٹی میٹھی ملاوٹ کرکے ایک دوسرے کو بڑے مزے سے سنانے لگتے ہیں۔کیوںکہ ملاوٹ(جوکہ آج کل ایک طرح کاآرٹ اورکمال سمجھاجانے لگا ہے۔) فی الوقت ہرچیزمیں پائی جانے لگی ہے ۔بہ قول پاگلؔ کے

حد ہو گئی ہے اب تو ملاوٹ کی دیش میں

کھاؤ گے زہر وہ بھی تو نقلی ہے آج کل

باتوں کوآگے بڑھانے کی گاڑی اب رکتی نہیں ہے ،بلکہ سنی سنائی باتوں کودوسروں سے نقل کرنے میں کوئی تکلف بھی محسوس نہیں کرتے اوریوں حضرت شیخ سعدی شیرازیؒ کی زبان میں’’ہم چنیں مسلسل‘‘کامصداق بن کرکسی بڑی مصیبت کاپیش خیمہ بھی بن جاتی ہے ۔ہم لوگوںنے اپنی زندگی میںبہت باردیکھاہے کہ اِس طرح کے نقول درنقول کی بناپرکبھی کبھارتوملکی ومعاشرتی حالات بھی بگڑجاتے ہیں،فسادات کے لاوے بھی پھوٹ پڑتے ہیں اورپھربے شمارجان ومال کااتلاف بھی ہوجاتاہے ۔حالاںکہ اِس اہم موضوع پرحبیب ِکبریامحمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادِگرامی ہے کہ:’’کَفیٰ بِالْمَرْئِ کَذِباً اَنْ یُّحَدِّثَ بِکُلِّ مَاسَمِعَ‘‘آدمی کے جھوٹاہونے کے لیے اتناہی کافی ہے کہ ہرسنی بات کویہاں وہاںاورجہاں تہاں بیان کرتاپھرے۔’’اگرجھوٹ بھی بولیں صداقت نام ہوجائے‘‘۔

بڑاچھوٹابنتے دیرنہیںلگتی:

             یہ جھوٹ الگ الگ روپ دھارن کرنے میںاتناماہرہے کہ اگرآپ میںکسی کوکچھ نوازنے اوردینے  کاحوصلہ اورجذبہ ہوتواِسے ’’بہروپیا‘‘کاعظیم الشان خطاب بھی دے سکتے ہیں۔اِس لیے کہ یہ کبھی انتہائی بڑا ہو کربھی بالکل بَونالگتاہے ،جب اُس کامتکلم کوئی غیرسنجیدہ انسان ہو۔کبھی بہت چھوٹاہوکربھی بہت بڑابن جاتا ہے، صرف شرط اتنی ہے کہ اُس کامتکلم معاشرے کاکوئی مقبول ومعتبراورباوزن انسان ہو۔لیکن اتنی بات ذہنی پردے سے بہرحال نہیںہٹنی چاہیے کہ یہ بہرحال جھوٹ ہی ہے،جس کے مختلف روپ ابھی تک آپ کوکاغذی صفحات پر دکھائی دے رہے تھے۔اِس کی سواری کوئی گھوڑا، اونٹ ،خچریاہاتھی نہیں،بس ،ٹرک،ٹریکٹر، آٹو رکشا، ٹرین اور ہوائی جہازبھی نہیں ہوتی ہے۔مگرایک بات یادرکھ لیجیے کہ یہ ہوائی جہاز، ہیلی کاپٹر،ریل، بس، ٹیکسی، کَشتی، بادبانی کشتی اورٹرک ؛ہر سواری میںہروقت موجودآپ کومل جائے گا۔آپ جہاں بھی جائیں گے، وہاں موجود پائیں گے۔کسی جگہ پرکبھی بھی آپ کواِس کی غیرحاضری کی شکایت نہیں ملے گی۔

ایک مختصرساجملہ:

            ایک محاورہ ’’کسی کے کندھے پربندوق رکھ کرچلانا‘‘توآپ نے سناہی ہوگا۔یہاںبھی ٹھیک ایساہی معاملہ ہے۔اِس کی سواری ہماری زبان سے نکلنے والاایک بہت ہی مختصرساجملہ ہے ۔اب سوال یہ اٹھتانظرآتا ہے کہ وہ جملہ کون ساہے،جس کے سہارے لوگوںکے کندھوںپربندوق،بلکہ کہاجائے کہ توپ رکھ کرچلائی جاتی ہے ۔ تو وہ خوب صورت جملہ:’’بِئْسَ مَطْیَۃُ الرَّجُلِ زَعَمُوْا‘‘جھوٹ کی سب سے بری سواری یہ ہے کہ کہا جائے کہ ’’لوگ کہتے ہیں‘‘۔اب تھوڑی سی توجہ کیجیے تومعلوم ہوگاکہ جھوٹ کی یہ سواری کتنی عام ہوچکی ہے،جس کے فیض سے زیر آسمان؛انسانی زندگی کاکوئی بھی مکان،دالان،دکان،ریستوران،ایوان وپارلیمان،کھیت کھلیان،ہوٹل کا مچان اور کھیل کامیدان کچھ بھی خالی نہیںہے۔اِس شاندارپٹری پرشاہان وغلامان،تاجران ومالکان،ملازمان وکارکنان ، کاریگران واجیران اورسربراہان وسیاست دان سبھی بڑی شان بان اورایمان وایقان کے ساتھ ایک دوسرے کے کندھے سے کندھا ملا کرچل رہے ہیں۔اِس کی وجہ سے کتنے ہی فسادی کوئی من گھڑت کہانی بناکرعوامی گلیاروں میںگھُسادیتے ہیں اورخودکوبدنامی سے بچانے میں پورے طورپرکام یاب ہوکرخوب تالیاںبجاتے ہیں۔

نشریات شروع ہوجاتی ہے:

            معاشرتی ماحول میں ایک بات یہ بھی دیکھنے میںآرہی ہے کہ کسی بھی خبرکوبغیرتحقیق کیے نشرکرناشروع کردیتے ہیں۔حالاں کہ ہوناتویہ چاہیے تھاکہ اگرکوئی آدمی کسی کے بارے میںکوئی خبردے توپہلے جانچ پڑتال اورتحقیق کرے کہ کہنے والے کاہمارے معاشرے میںکتنااونچامقام ہے؟گاؤں والے لوگ اُس کے تعلق سے کیسی رائے رکھتے ہیں؟وہ اسلامی معاشرے میںکتنی بلندی پرفائزہے؟لوگوںکے درمیان وہ قابل اعتبارہے بھی یا نہیں؟اُس کی بیان کردہ باتوںکی تصدیق کی جاسکتی ہے یانہیں؟یہ سب کرنے کے بعدہی آگے بڑھانے کی سوچنا چاہیے،ویسے بہترتویہی ہے کہ اپنے ہی دل کے قبرستان میںدفن کرلیں۔جہاںپرسنیں،وہیںتک محدودرہنے دیں،بارڈرپارکرنے کی کوشش بالکل بھی نہ کریں،ورنہ کسی دن آپ پربھی مقدمہ دائرکیاجاسکتا ہے۔کیوںکہ قرآن کریم کہتاہے کہ:{ اِنْ جَآئَکُمْ فَاسِقٌم بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْٓا۔} اگرتمہارے پاس کوئی غیر معتبر شخص کوئی خبرلے کر آئے توپہلے اُس کی تحقیق کرلو۔(پھراعتبارکرکے بیان کرو۔)اِس کاشان دارفائدہ یہ ہوگاکہ ازلی دشمن شیطان کو ہمارے درمیان کسی طرح کے نزاعات اوراختلافات وانتشارکی دیوارکھڑی کرنے کاموقع نہیںملے گا۔

نزاعات کاانسداد:

            اکثرنزاعات ومناقشات کی ابتداجھوٹی خبروں سے ہی ہوتی ہے،اِس لیے اول اختلاف وانتشارکے اِسی سرچشمہ کوبندکرنے کی تعلیم دی۔یعنی کسی خبرکویوں ہی بے تحقیق قبول نہ کرو۔فرض کیجیے کہ ایک بے راہ رو اور تکلیف دہ آدمی نے اپنے کسی خیال اورجذبے سے بے قابوہوکرکسی قوم کی شکایت کی۔تم محض اُس کے بیان پر اعتمادکرکے اُس قوم پرچڑھ دوڑے۔بعدہٗ ظاہرہواکہ اُس شخص نے غلط کہاتھاتوخیال کروکہ اُس وقت کس قدر پچھتاناپڑے گا۔(گلدستۂ تفاسیر:ج ۶/ ص۵۵۶)

تم جھوٹ بولتے ہو:

            لیکن ہمارے اِردگِردکاماحول ایساخطرناک بن چکاہے کہ اِدھرایک بات سننے میں آئی اوراُدھرفوراً بدظنی کی کتاب شروع ہوگئی۔حدتواُس وقت ہوجاتی کہ اپنی اِس بدظنی پرایساایمان واعتمادرکھتے ہیں کہ خودصاحبِ معاملہ چاہے کتنی ہی صفائی کیوںنہ پیش کرے،تب بھی یہی ایک رٹ لگاتے رہیں گے کہ’’تم جھوٹ بول رہے ہو،تمھاری بات بالکل غلط ہے‘‘۔اللہ اکبر!یہ حالت ہوگئی ہے اپنے گمانِ باطل پرڈٹے رہنے کی کہ تھوڑابھی ٹس سے مس ہونے کوتیارنہیں۔حالاںکہ ایسے موقع پرارشادباری تعالیٰ ہے کہ :{ ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ۔}اے ایمان کادعویٰ کرنے والو!بہت زیادہ گمان سے بچو۔کیوںکہ بعض گمان گناہ کی فہرست میں آتے ہیں۔

اُن کوبھی پناہ مل گئی ہے:

            ویسے توعام حالات میں ہرقسم کی خبرکونقل کرنے میں احتیاط سے کام لیناچاہیے،لیکن جس خبرسے کسی پر الزام لگنے کااندیشہ ہوتواس میں احتیاطی پہلوکی ضرورت اورزیادہ بڑھ جاتی ہے۔کیوںکہ کسی کی عزت وآبروکا مسئلہ جڑاہواہے ،جوکہ حقوق العبادمیں داخل ہے اورحقوق العبادبغیربندوں کے معاف کیے معاف نہیں ہوتے۔ لیکن افسوس کے ساتھ لکھناپڑتاہے کہ جھوٹی خبروں سے فضااِس قدرآلودہ ہوچکی ہے کہ حقیقت کی کھوج لگانابھی پہاڑکھودکرنہرجاری کرنے جیساہوگیاہے ۔یہی وجہ ہے کہ اب اعتبارویقین کامحل بھی زمین بوس ہوچکاہے ۔ جھوٹ کی کثرت نے اِس قدرپَرپھیلارکھے ہیںکہ غلط بیانی اوربہتان طرازی کی قباحت کودلوںکی دنیاسے نکال باہرکردیاہے ۔اب ہرغیرذمہ دارانسان کے اندراتناحوصلہ پیداہوگیاہے کہ وہ بے بنیادسے بے بنیادبات کو ہی بنیادبناکردھڑلے سے معاشرے کی پُرسکون فضا میں بکھیردیتاہے۔اب غلط الزامات واتہامات کے سیلاب میں حقیقی مجرمین کوبھی شان دارپناہ گاہ مل گئی ہے۔اوراُن کوبھی اپنی بدنامی کازیادہ خطرہ باقی نہیں رہا۔وہ کہتے ہیں کہ اگرہماری بدنامی کی خبرگردش میں  آئے گی بھی توکیافرق پڑتاہے؟وہ تشکیک کی چہاردیواری میں اسی طرح سماجائے گی،جیسے کہ بہت ساری بے تحقیق باتیں اِس سے پہلے بھی سماکرنظراندازکی جاچکی ہیں۔

یہ مرض بھی رواجِ عام پاچکاہے:

            آپس میں بے اعتمادی،ناچاقی ،بلکہ نفرت کابیج بونے میں بدگمانی اوربلاوجہ ایک دوسرے کے پیچھے پڑے رہنے کابھی بڑادخل ہے ۔ کسی کوکسی سے بات کرتے دیکھ لیااورجھٹ پٹ اپنے دماغ میں ایک رائے قائم کرلی۔کسی کواپنے مخالفین کے ساتھ دیکھاتوبدظن ہوتے دیرنہیں لگی،یہ سبھی کچھ اپنے دلی حسدکی بیماری سے مجبور ہوکرہوتاہے ۔کسی کے تجارتی رازجاننے،کسی کے اندرونی اورخانگی معاملات کوکریدنے اورصرف قیاسی بنیادپر کسی بات کوپھیلانے کامرض بھی ہمارے معاشرے میں رواجِ عام پاچکاہے۔شایدہم یہ سوچنے کے روادارہی نہیں ہیں کہ ’’ذراسی بات کادنیابنادیتی ہے افسانہ‘‘۔ذراہم ٹھنڈے دل سے کبھی اپنی فرصت کے لمحات میں سوچیں اورغورکریں اپنے حالات وخیالات پر، اپنی دلی بیماریوں پر،پھراِس آیت کریمہ:{لاَ تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ۔}پربھی غورکریں۔کیایہ آیت ہم پرفٹ نہیں ہوتی؟ہم اپنے آپ میں غورکریں توسہی!کہ کیا ایک مومن کامل کی صفات ہمارے اندرموجودہیں،جومومن کامل معاشرے کی اچھائی اورصفائی کاسبب ہوتاہے یا صرف نام کے مسلمان ہیں،جن کی مسلمانیت پرشاعرمشرق علامہ اقبالؒ نے آنسوبہائے ہیں۔

یوں تو سید بھی مرزا بھی ہو افغان بھی ہو

تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو

کان،آنکھ اوردل کی تخصیص کیوں؟:

            اب یہ بھی دیکھ لیجیے کہ قرآن کریم نے:{لاَ تَقْفُ مَالَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ۔}میں اِس بات کوواضح

 اوربالکل بے غبارکردیاہے کہ بروزقیامت خدائی سپریم کورٹ میں جب ہماری حاضری ہوگی تووہاںپرکان، آنکھ اوردل سے سوال کیاجائے گا۔اب ہمیں غورکرناپڑے گاکہ جسم انسانی میں دیگراعضاوجوارح کوچھوڑکرآخر اِنہیں تین اعضاکی تخصیص کیوںکی گئی ہے؟اِس بارے میں مفتی محمدشفیع صاحبؒ لکھتے ہیں کہ:’’یہاں کان،آنکھ اوردل کی تخصیص شایداِس لیے کی گئی کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کویہ حواس اوردل کاشعورواِدراک اِسی لیے بخشاکہ جوخیال یاعقیدہ دل میں آئے،اُن حواس اورادراک کے ذریعہ اُس کوجانچ کرسکے کہ یہ صحیح ہے تواس پرعمل کرے اور غلط ہے توبازرہے۔جوشخص اِن سے کام لیے بغیربے تحقیق باتوں کی پیروی میں لگ گیا،اُس نے اللہ تعالیٰ کی اُن نعمتوں کی ناشکری کی‘‘۔(معارف القرآن:ج۵/ص۴۷۱)

آپ خواہ مخواہ بدظن ہورہے ہیں:

            غوروفکرکوکام میں لانے سے پتاچلتاہے کہ کان اورآنکھ ہی دوایسے آلے ہیں،جن سے انسان کسی بھی بات کوسنتااورچیزکودیکھتاہے۔کان سنی ہوئی باتوں کودل ودماغ تک پارسل کرتاہے اورآنکھ دیکھی ہوئی چیزوں سے دل ودماغ کوآگاہ وباخبرکرتاہے اورپھراُسی رپورٹ کی بنیادپردل ودماغ فیصلے کرتے ہیں۔اب اگرکوئی انسان صرف سن کریادیکھ کراپنی عقل ودانش کوکام میں لائے بغیرکسی طرح کی رائے قائم کرلیتاہے یاکوئی فیصلہ صادر کر دیتا ہے تومعلوم ہواکہ اُس نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے عطاکردہ اُن اعضاکوصحیح طورپراستعمال کیا ہی نہیں ہے ۔

پچاس گرام سے ڈھائی سوگرام:

            اب اِس کاخوب صورت نتیجہ یہ برآمدہواکہ کسی سے خواہ مخواہ بدظن ہوگیا،کسی کے سرپرتہمت کی گٹھری ڈال دی،کسی سے بلاوجہ نفرت مول لے لی،سامنے دیکھ لیاتوپچاس گرام کے منہ کوپھلاکرڈھائی سوگرام کابنالیا، ہروقت بغض وحسد کی آگ میں جلنے لگا،اپنے صاف وشفاف سینہ کوبھی کینہ کاخزینہ بنالیا۔بعدمیں پتالگاکہ یہ بدظنی اور تہمت ونفرت توبالکل بلاوجہ اوربے بنیادتھی۔حقیقت توکچھ اور ہی ہے،جس سے مکمل طورسے پردہ نہیں ہٹایا گیا تھا۔اِس لیے کہ جس چیزکوآنکھوں نے دیکھایاکانوں نے سناہے وہ محض ظاہری پہلوہے ۔اب اِس کی اصل حقیقت کیاہے؟اِس کاپتاتوتحقیق وتفتیش اور چھان پھٹک کے مراحل سے گزرنے کے بعدہی چلے گا،جس کی ہم ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے۔

            رب کریم سے دعاہے کہ وہ اپنے فضل وکرم سے ہم سبھی کوجھوٹ کی شناعت سے بچ کرزندگی گذارنے کی توفیق مرحمت فرمائے،تاکہ ماحول ومعاشرے میں امن وسکون اورآپسی بھائی چارگی کودوام نصیب ہو سکے۔ آمین یارب العالمین بجاہِ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم ! !!