ماخوذ:بیان حضرت مولانا احسان الحق صاحب حفظہ اللہ
محرک: حضرت مولاناحذیفہ صاحب وستانوی حفظہ اللہ
جوڑ پیداکرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی زبان کو سنبھالیں!
زبان سنبھالنے کا مطلب یہ ہے کہ دل میں آنے والی ہر بات کو ہم زبان پہ نہ لائیں! پہلے سوچیں کہ اس کو زبان پہ لانے سے جوڑ پیدا ہوگا یا توڑ؟اگر توڑ پیدا ہوتا ہے تو اس بات کو ہرگز زبان پہ نہ لائیں، اپنے سینے میں اس کو دبا کر قبر میں اپنے ساتھ لے جائیں، مگر کبھی زبان پر ایسی بات نہیں لانی چاہیے جو توڑ کا ذریعہ بنے۔اور اگر وہ بات جوڑ والی ہے، تو اس کو بھی کہنے کے دو طریقے ہیں:
ایک طریقہ توڑ نے والا، دوسراطریقہ جوڑنے والا، مثلاً: ایک آدمی کو ہم یوں کہتے ہیں کہ آپ کے والدِ محترم تشریف لائے ہیں،آپ باہر آ کر ان سے مل لیں! تو اس طریقہ سے ٹوٹا ہوا آدمی، ہم سے جڑ جائے گا۔ اور اگر ہم یہ کہیں کہ آپ کی والدہ کے خاوند آئے ہیں، یا آپ کی اماں جان کے خاوند آئے ہیں! تو گرچہ باپ ماں کا خاوندہی ہوتا ہے، لیکن اس طرح سے تعبیر کرنے کی وجہ سے جڑا ہوا آدمی بھی ہم سے کٹ جائے گا کہ آپ نے میرے ساتھ بد تمیزی و بد کلامی کی، حالاں کہ بات حقیقت پر مبنی ہے، کوئی جھوٹ نہیں ہے، لیکن یہ انداز و اسلوب ایسا ہے کہ جس کی وجہ سے جڑا ہوا شخص بھی کٹ جاتا ہے۔تو آج المیہ یہ ہے کہ ہم لوگ بات تو صحیح کہتے ہیں ،مگر اُسے ایسے اسلوب و انداز میں کہتے ہیں، جس کی وجہ سے توڑ پیدا ہو جاتا ہے۔
اس سلسلہ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ایک خاص صفت یہ تھی کہ وہ توڑ والی بات کا جواب بھی جوڑ والے انداز واسلوب میں دیا کرتے تھے، ہمیں بھی اپنے اندر آپ کی اس صفت کو پیدا کرنے کی ضرورت ہے؛کیوں کہ ہمیں پتہ ہی نہیں لگتا کہ ہم لوگوں کو توڑتے زیادہ ہیں یا جوڑتے زیادہ ہیں، خواہ ہم ذمہ دار ہوں، مختلف مرکزوں سے منسلک ہوں،یا جماعتوں اور تنظیموں کے اراکین!
ہماری بے حکمتی اور بد اخلاقی کی وجہ سے ایک آدمی یہ سوچ کے کہ بھئی ”احسان“(مولانا احسان الحق صاحب) نے تو میرے ساتھ بہت برا رویہ اختیار کیا ہے، میرے ساتھ بد تمیزی و بد تہذیبی کی ہے، ان کی وجہ سے میں تبلیغ بھی چھوڑتا ہوں اور آئندہ مرکز بھی نہیں آؤں گااور کبھی اس کام میں نہیں چلوں گا۔ تو اگر ”احسان“ کی بد اخلاقی کی وجہ سے وہ چھوڑ کے جا رہا ہے ،لیکن چوں کہ وہ بتا کر نہیں جاتا کہ میں تمہاری وجہ سے اس کام کو اور اس کام کے مرکز کو چھوڑ رہا ہوں، البتہ کچھ لوگ ہماری بد تمیزی و بد اخلاقی اور بد زبانی کے باوجود ہم سے جڑے رہتے ہیں، اس لئے ہمیں یہ خوش فہمی رہتی ہے کہ ماشاء اللہ! لاکھ سوا لاکھ کا مجمع بیٹھا ہوا ہے، لیکن جو لوگ ہماری بد اخلاقی کی وجہ سے کٹ گئے اور کام چھوڑ کر چلے گئے ان کا ہمیں پتہ ہی نہیں ہے۔ یاد رکھو! اس دنیا میں گرچہ ہم سے کوئی حساب و کتاب نہیں لے سکتا کہ تم نے لوگوں کو توڑا زیادہ یا جوڑا زیادہ؟ لیکن کل قیامت کے دن، ہر نئے اور پرانے شخص کو اس بات کا حساب دینا پڑے گا کہ آپ نے امت کو توڑا زیادہ تھا یا جوڑا زیادہ تھا، کتنے لوگوں کو بھگایا تھا، اور کیوں؟ اور یہ بھی سمجھ لو کہ اس دنیا میں تو انسان زبان کا زور لگا کر اگلے کو مطمئن کر سکتا ہے کہ میرا قصور نہیں، جانے والے کا قصور ہے، لیکن کل قیامت کے دن آدمی کی کوئی چالاکی اور زبان زوری اللہ تعالیٰ کے سامنے چل نہیں سکے گی؛ اس لیے اُس سخت ترین حساب پر پیش ہونے سے ہم سب کو ڈرنا اور اپنا اپنا دامن بچانا چاہیے کہ اللہ ہمیں ان لوگوں میں سے بنائے جو لگانے والے ہوں، جوڑنے اور قریب کرنے والے ہوں نہ کہ ان لوگوں میں سے جو بھگانے والے، اور دور و متنفر کرنے والے ہوں۔
دیکھئے! حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس دو صحابی آئے کہ رسولِ پاک علیہ الصلوٰة والسلام نے ہمیں زمین دی تھی، آپ حضور کے خلیفہ ہیں،آپ بھی ہمیں زمین دو!وہاں جتنے حضرات آپ کے ساتھ موجود تھے، آپ نے ان سے مشورہ لیا، سب نے کہا کہ انہیں زمین دے دو! چناں چہ آپ نے ایک پرچہ پر یہ لکھ کر دے دیا کہ فلاں زمین ہم نے فلاں دو مسلمان صحابی کو دے دی!نیز ان دونوں سے فرمایا کہ حضرت عمر ہماری اس مجلس میں نہیں ہیں، لہٰذایہ پرچہ لیکر ان کے پاس چلے جاؤ اور ان سے کہو وہ بھی اپنی گواہی اس پر ڈال دیں!
اب وہ دونوں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس پرچہ کو پڑھا، اور پڑھتے ہی آپ کو غصہ آ گیا، فرمایا: حضور نے تمہیں اس زمانے میں دیا تھا جس زمانے میں اسلام کمزور تھا، آج اسلام طاقتور ہو چکا ہے، تمہیں دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے،اس پر چہ پرتھوکا اور نیچے پھینک دیااور کہا اپنا پرچہ یہاں سے لے جاؤ! اب وہ دونوں حیران کہ امیرتو حضرت ابوبکرہیں امیر کے پرچے کو مامور ایسے تھوک کے نیچے پھینک رہا ہے، وہ دونوں پرچہ اٹھا کر حضرت ابوبکر کے پاس پہنچے اور ان سے اس انداز میں سوال کیا، جس کی وجہ سے دونوں حضرات(ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما) میں توڑ اور اختلاف پیدا ہو جائے، پوچھا یہ کہ اے ابوبکر!آپ بتائیں کہ آپ حضور کے خلیفہ ہیں یا عمر؟
ظاہر ہے کہ اس سوال کا جواب یہی بنتا تھا کہ رسول پاک علیہ السلام کا خلیفہ میں ہوں۔ لیکن اس میں اپنے مقام کو اپنی زبان سے ظاہر کرنا، اور اپنی بڑائی کا اظہارتھا اور حضرت ابوبکر میں اس کی ذرہ برابر بھی کوئی گنجائش نہیں تھی، کہ وہ کبھی ایسا لفظ بولیں، جس سے ان کی بڑائی ظاہر ہو؛ اس لیے یہ جواب نہیں دیا؛ کیوں کہ اگر یہ جواب دیتے تو فوراًوہ دونوں کہتے: آپ تو بڑے اچھے امیر ہیں، لیکن آپ کا مامور تو آپ کے پرچے کا احترام ہی نہیں کرتا۔حضرت ابوبکر نے یوں فرمایا ارے بھائی! اگر عمر امیر بننا چاہتے تو وہ بن سکتے تھے؛ کیوں کہ پہلے میں نے انصار کو ابو عبیدہ کے پاس بھیجا تھا، انہوں نے انکار کیا،تو لوگ میرے پاس آئے،پھر میں نے لوگوں کو حضرت عمر کے پاس بھیج دیا تھا، اگر حضرت عمر اس وقت امیر بننا چاہتے تو میں نے موقع دیا تھا وہ نہیں بنے، اس لیے مجبوری میں مجھے بننا پڑا!
ایسا جواب دیا کہ ان دونوں کا غصہ بھی ٹھنڈا ہو گیااور جواب بھی مل گیا، اور کسی قسم کا کوئی توڑ اور اختلاف بھی نہیں ہوا۔ جب کہ ان کا سوال توڑ والا تھا، لیکن ٓپ نے اپنی عادت مبارکہ کے مطابق جواب جوڑ والا دیا۔اور پھر تھوڑی دیر میں حضرت عمر بھی پہنچ گئے،آپ غصہ میں بھرے ہوئے اور یوں فرما رہے ہیں کہ اے ابوبکر! یہ زمین آپ کی ہے یا مسلمانوں کی؟آپ نے کہا میری نہیں ہے مسلمانوں کی ہے!
تو آپ نے مشورے کے بغیر کیسے دے دی؟ اب اس کا جواب حضرت ابوبکر کے پاس ہے کہ سارے مسلمانوں سے ایسے مسئلے میں مشورہ کرنا ممکن نہیں،لہٰذا جتنے میرے پاس تھے ان سے میں نے مشورہ کر لیا، سب نے کہا دیدو! آپ تھے نہیں آپ کے پاس میں نے پرچہ بھیج دیا!حضرت ابوبکر حضرت عمر کو ایسا جواب دے سکتے تھے، جس سے وہ لاجواب ہو جاتے، لیکن ان کا غصہ اور بڑھ جاتا؛ اس لیے یہ جواب نہیں دیا ، کیوں کہ اس میں پھر توڑ پیدا ہوتا؛بل کہ آپ نے جواب یہ دیاکہ اے عمر! میں نے اسی لیے آپ سے کہا تھا کہ آپ خلیفہ بن جاؤ!میں کمزور ہوں، لوگوں سے دب جاتا ہوں، آپ طاقتور ہو، آپ لوگوں سے نہیں دبتے!یہاں بھی آپ نے ایسا جواب دیا کہ جس سے حضرت عمر کا بھی غصہ ٹھنڈا ہو گیا۔یہاں بھی آپ کا جواب جوڑ والا تھا۔
آج امت کے بے شمار ٹکڑے ہو چکے ہیں اور جو امت کو تقسیم کرتا ہے اس میں سے کچھ کو اپنا سمجھتا ہے اور کچھ کوغیر سمجھتا ہے تووہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہٴ کرام کی محنت پر پانی پھیرتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو ذبح کرتا ہے؛اس لیے ہم اللہ رب العزت سے دعاکریں کہ اللہ ہمیں ان میں سے نہ بنائے جو امت میں توڑ پیدا کرنے والے ہیں، اللہ ہمیں ان میں سے بنائے جو امت میں جوڑ پیدا کرنے والے ہیں۔ یہ صفت اپنے اندر پیدا کریں گے نا، ان شاء اللہ! پہلے تو لوپھر بولو! ہر بول سے پہلے سوچیں کہ یہ بول جوڑوالا ہے یا توڑ والا ہے، اگر جوڑ والا ہے تو بھی اس کو اس انداز سے بیان کریں ،جس سے جوڑ پیدا ہو ورنہ جوڑ والی بات کو بھی آدمی توڑ والے الفاظ سے کہہ دیتا ہے اور پھر معاملہ اور بگڑجاتاہے۔( اللہ ہمیں عمل کو توفیق عطا فرمائے۔آمین)