شفیع احمدقاسمیؔ،اِجرا،مدھوبنی/استاذجامعہ اکل کوا
آزادی کے معنی :
آج ہم بہت خوش ہورہے ہیںکہ ہم آزادہیںاورآزادی کی فضامیںسانس لیتے ہوئے اِس دنیاسے اُس دنیا کی طرف سفرکر رہے ہیں۔ہمیںوطنِ عزیزہندستان میں آزادی کی یہ دولت ۱۵؍اگست ۱۹۴۷ء مطابق ۲۸؍ رمضان المبارک ۱۳۶۶ھ ، بروز:جمعہ کوملی ہے ۔لیکن آگے چلنے سے پہلے اِس بات کوخوب اچھی طرح سے سمجھ لیںکہ آزادی کے معنی کیا ہیں اور اِس کی حقیقت کیاہے؟ آزادی اور پابندی دومتقابل چیزیں ہیں۔ جوبندھاہوایا جکڑا ہوانظرآئے اُسے پابندکہتے ہیںیاکہتے ہیں کہ وہ قید اوربندش میں ہے ۔اور جو بے خوف و خطر اپنی مرضی سے گھومتاپھرتا نظرآئے ،کوئی روک ٹوک کرنے والا نہ ہو اُس کو آزادکہتے ہیں۔
ہر آزادی محمودنہیںہوتی:
لیکن یادرہے کہ اِسی طرح نہ ہر آزادی محمودہوتی ہے نہ ہرپابندی مذموم ۔غورکریں توعقل بھی یہی فیصلہ سنائے گی ۔مثلاً: ایک شان دارمحل میںکوئی آدمی ٹھاٹ باٹ سے رہتاہے،اب کوئی عقل سے پیدل یہ کہنے لگے کہ وہ توبڑی مصیبت میں ہے ۔محل سے نکلتے ہی نہیں،قیدمیںہے ،پابندہے،اِس لیے دعاکیجیے کہ یہ فلک بوس محل جلد ہی زمین دوزجائے اور اس کو آزادی نصیب ہو۔اِسی طرح کھانا،پینااورلباس وغیرہ میں بھی پابندیاں ہیں۔کھانے کی خاطرکتنی مشقتوں کاسامنا کرناپڑتاہے کہ دن بھرمیںتین چارمرتبہ دکان سے مختلف اشیا خرید کر لاؤ۔ پھرپکاؤ کھاؤ، بار باردانت گھِسائی کرو،لقمہ چبانے کے بعدنگلو،ہضم ہونے کے بعداُسے باہرنکالو۔اتنی مصیبت جھیلنے سے اچھاہے کہ کھاناپیناہی چھوڑدواور آزادرہو۔یہی حال لباس کی پابندی کاہے ۔پہلے بازار جاؤ، پیسے خرچ کرکے کپڑے خریدو،درزی کے پاس گنجائش نہ ہوتو خوشامدکرو،مسکہ لگاؤ،سلائی پرخرچ کرو،اب سلائی کے بعد پہنو، چند دنوںبعدجب گندانظرآئے تودھلائی کرکے سکھاؤ،سوکھنے کے بعدپریس کرو۔دیکھاآپ نے ؛ کہ کتنا جھمیلا اور کس قدرپابندیاںہیں ؟ـاِس سے بہترتویہی ہوتاکہ لباس کے جھنجھٹ ہی میںنہ پڑواور آزاد رہو۔ کیا کوئی عقل مند اِسے گواراکرسکتاہے ؟ہے کسی میں اتنی ہمت ؛جویہ کرکے دکھادے؟
سب سے اچھارہوکنوارہ :
اسی طرح سے بیوی بچوںکاحال دیکھ لیںکہ اُن کی خاطرلوگ کیسی کیسی پریشانیوںکوگلے لگاتے ہیں۔ آدمی کتنی پابندیوںمیں جکڑارہتاہے اوراُن پرکتنامال خرچ کرتاہے؟شادی شدہ انسان بیوی بچوںکے آرام کے لیے رات دن پابندیوںمیںگرفتاررہتاہے۔کیایہ اچھانہیںکہ ساری پابندیوںکی دیوارتوڑکرآزادہوجائے ؟ اور اِس کا سب سے آسان اوراچھاراستہ یہی ہے کہ شادی کے بکھیڑے ہی میںنہ پڑے ؎
’’سب سے اچھارہوکنوارہ ؛پھنسونہ اِس جنجال میں‘‘
ہرپابندی بھی بری نہیں:
بہت سی پابندیاں بڑی رحمت ہوتی ہیں۔اِس کے بالمقابل بہت سی آزادیاں بڑی زحمت ہوتی ہیں، جیسے ہمارے یہاں شادیاںہوا کرتی ہیں۔مختلف حکومتوںکے مختلف قوانین اوراُن کی پابندی۔ اب کوئی یہ کہنے لگے کہ حکومت قوانین بناکرہمیں پابندیوںمیںگرفتارکرتی ہے اورہماری آزادی سلب کرناچاہتی ہے،ہماری آزادی کاحق چھین رہی ہے ۔چوری مت کرو، ڈاکہ مت ڈالو،رشوت خوری نہ کرو، ٹریفک نظام کی پاسداری کرو، جی،ایس ٹی بھرو، سیل ٹیکس اداکرو۔یہ پابندی ، وہ پابندی۔پھراُن پابندیوں کو برقرار رکھنے کی خاطر عدالتوں پر عدالتیں اور ججوں پرجج ہیں۔خلاف ورزی پر جیل میں ٹھونس کرسخت سزائیں دی جاتی ہیں ۔ سوچیے کہ اگر یہ قوانین نہ ہوںتودنیاکایہ سارانظام درہم برہم ہوگا یا نہیں؟ نظامِ دنیااِنہی قوانین کی پابندیوںسے صحیح سمت میں چل رہاہے ۔ اِن کے بغیر دنیا ایک دن توکیا،ایک قدم بھی آگے نہیں چل سکتی۔تومعلوم ہواکہ ہر آزادی اچھی نہیں ہوتی اور ہر پابندی بھی بری نہیںہوتی۔اب اس کا معیار سمجھ ـلیجیے کہ کون سی آزادی اچھی ہوتی ہے اورکون سی بندش ؟
اچھائی کامعیار:
یہ ہے کہ جس حالت میںانسان کے واسطے دائمی نعمتیں اورراحتیںہوں، دائمی لذتیں اور فرحتیں ہوں، وہی حالت انسان کے ـلیے بہترہے ۔چاہے وہ بہ ظاہرپابندی معلوم ہوتی ہو۔لیکن وہ پابندی انسان کے حق میں نعمت ہے ،بہ ظاہر کوئی کیساہی نظرآئے ۔مطلق آزادہویاپابنداورگرفتار؛اُس کاکچھ اعتبارنہیں۔دیکھنے کی اصل چیز یہ ہے کہ راحت ولذت کس میں ہے ؟اِسی حقیقت کوخالق انس وجان نے قرآن میں یوںبیان کیاہے: {عَسیٰ أَنْ تَکْرَہُوْا شَیْئًا وَہُوَخَیْرٌلَّکُمْ وَعَسیٰ أَنْ تُحِبُّوْاشَیْئًا وَہُوَشَرٌّلَّکُمْ}(البقرۃ:۲۱۶)
ترجمہ: ہوسکتاہے کہ ایک چیزکوتم ناگوارسمجھو اوروہ تمہارے حق میں بہترہواوریہ بھی ہوسکتاہے کہ تم ایک چیزکوبہترسمجھواوروہ تمہارے لیے نقصان دہ ہو۔
گلے میںدوسروںکی غلامی کاطوق:
اِن باتوںکوسامنے رکھاجائے تومعلوم ہوگاکہ آزادی کے بہترہونے یاپابندی کے بہترہونے کامعیاریہ ٹھہرا کہ اُن میں سے لذت ،راحت اورآرام کس میں ہے ؟جس میں سروروراحت ہوگی وہی بہترہے ۔اس لیے دنیا میںجتنی نعمتیں نظرآتی ہیں ،اُن میں امتیازضروری ہے کہ کون سی نعمت واقعی نعمت اورکون سی چیزدیکھنے میں نعمت ؛ لیکن حقیقت میں زحمت ہے ؟اِس کافیصلہ کریںگے توپتہ چلے گاکہ اس سے آزادی میںکچھ فائدہ ہے یا نہیں؟ویسے آپ چاہے جتنی آزادیاںمناتے رہیں،جھنڈے لہراتے اورنعرے لگاتے رہیں،جنگی مشقیںکرتے رہیں اورجو دل میں آئے کرتے رہیں،مگرجب تک دل آزادنہیں ہوگاسچی آزادی حاصل نہیںہوسکتی۔آزادی کے نعرے لگاتے اورترانے گاتے رہیںگے مگردوسروںکی غلامی کاطوق بھی ـگلے میں لٹکتارہے گا۔سرپرجوتے بھی برستے رہیںگے۔اب خودہی دیجیے جواب،کہ ایسی آزادی نعمت ہے یاعذاب؟جس نے کررکھاہے خانہ خراب۔
نعمت کی پہچان:
اب یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کون سی چیزنعمت ہے اورکون سی نعمت کی شکل میں زحمت؟ سیدھی بات یہ ہے کہ جس نے تمام اشیاکوپیداکیا،عدم سے وجودبخشاوہی ذات اُس کی حقیقت کوجانتی ہے ۔وہ جس چیزکونافع بتائے ہم اُسی کونافع سمجھیں اورجس میںنقصان قراردے اسے ہم بھی اپنے حق میںمہلک سمجھا کریں۔ کبھی اپنی عقل کابے لگام گھوڑادوڑانے کی کوشش یاغلطی ہرگز نہ کریں۔کیوں؟{أَلَایَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ}
ترجمہ: کیاجس نے پیداکیااُسی کومعلوم نہیں!
فیصلہ؛ دینے والے کامعتبرہوتاہے:
اُس کوسب معلوم ہے کہ کس چیزمیںنفع اورکس میںنقصان ہے ۔اللہ تعالیٰ جیسے خودکامل ہے اُسی طرح ان کاعلم بھی کامل ہے ۔ان سے زیادہ علم کسی کوہوہی نہیںسکتا۔دوسرے یہ کہ نعمت دینے والاہی اس کی حقیقت اور مقصدکوجانتاہے کہ کس مقصدکے لیے دی جارہی ہے ۔ایک آدمی کسی کوشربت کے پھول دارگلاس میںزہرڈال کر دیتا اورخوش ہوتاہے کہ پیتے ہی تڑپے گا،مگرپینے والااِس سازش سے بالکل بے خبرروح افزاسمجھ کرخوشی سے پی جاتا ہے۔اب توپینے والابھی خوش اورپلانے والابھی خوش ،مگریہ سوچیے کہ کس کی خوشی سچی اورکس کی جھوٹی ہے ؟پتہ چلا کہ فیصلہ دینے لینے والے میں دینے والے کی بات کاہی اعتبارہوگا،اس لیے کہ وہی ساری حقیقتوںسے آگاہ اور خبر دارہے ۔اب عقل کاتقاضایہ ہے کہ جب تک اُس کوراضی نہیںکریںگے،وہ مالک جوکچھ بھی دے گااس میں برکت اوررحمت نہیںہوسکتی،حقیقت میں عذاب ہی عذاب ہوگا۔
اُس سے کچھ نہیں لے سکتے:
یہ عام بات ہے کہ جس آدمی کے قبضہ میں سب کچھ ہواگراس سے کچھ لیناچاہیںتوراضی کیے بغیراُس سے کچھ نہیں لے سکتے ۔ناراض ہونے کی صورت میں دے گاہی نہیں اوراگردل پر پتھررکھ کردے گابھی تولینے والے کے حق میںکبھی فائدہ مندنہیںہوگا،بل کہ دینے والاضروراُس میںزہرڈال کر دے گا۔جس میںکوئی نفع نہیں،البتہ خسارہ اورنقصان استقبال کرنے کوتیارہے۔
رب کی رضاکیسے مل سکتی ہے ؟
پہلے راضی کرنے کامطلب سمجھ لیں۔کیوںکہ ذہنوںمیں یہ بات خوب بن سنورکربیٹھی ہوئی ہے کہ مالک کو راضی کرلینااتناہی آسان کام ہے جتناکہ حلوہ چبانا ۔فلاں وظیفہ پڑھتے رہو،اتنی تسبیحات پڑھ لو،کسی بابا سے تعویذ لے کرلٹکالواوربس! وہ خوش ہوجائیںگے۔اُن کی نافرمانی چھوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں،جوجی میں آئے کرتے رہو،ہرجگہ منہ مارتے پھرو۔بس ہاتھ میں لمبی لمبی ہزاری تسبیح رہنی چاہیے۔اِس طرح توکوئی مخلوق بھی راضی نہیں ہوگی۔ اگر ہوتی ہے تو پھر راضی کرکے دکھانا۔کسی کی کوئی بات نہ مانیں ،بل کہ دھوبی کی بیوی کی طرح ہر بات میںمخالفت ہی کرتے رہیں، لیکن ساتھ ہی منہ پرجھوٹی تعریف کے پل بھی تیارکیاکریں ،خوشامد اور چاپلوسی بھی کیا کریں۔ ایسا کرنے سے کیا کوئی پاگل بھی راضی ہوگا؟ ہرگزنہیںہوگا۔جب ایسے دھوکے میں کوئی مخلوق نہیں آ سکتی توپھراللہ تعالیٰ کیسے راضی ہو جائیں گے؟وہ توبارباراعلان کررہاہے کہ جومیری نافرمانی نہیں چھوڑے گا، وہ عذاب سے بچ نہیں سکتا اور نہ ہی کہیں بھاگ کرجاسکتاہے ۔{لَاتَنْفُذُوْنَ إِلَّابِسُلْطٰنٍ} مگر آج کے مسلمان کا قرآن کریم پربس اتنا ہی ایمان ہے کہ اِس کوپڑھ لو۔اورپڑھ کرمٹھائیاں کھالو، بس پڑھ پڑھ کر اور فاتحہ دے دے کر مٹھائیاں کھاتے کھلاتے رہو۔ گویا قرآن کا نزول ہی ہواہے مٹھائیاںکھانے کھلانے کے لیے۔ قرآن پرایمان تو ہے ،مگرمٹھائی کھانے کی حدتک ،اللہ کرے کہ ہمیںقرآن پر صحیح ایمان آ جائے۔
اب سوچ لیجیے کہ جوآزادی ہم نے حاصل کی اورجس کاہم جشن منارہے ہیں،پورے ملک میںہرطرف خوشی کے شادیانے بج رہے ہیں،اس کی حقیقت کیاہے ؟کیایہ واقعی آزادی کی نعمت ہے ،جس سے ہمیں سکونِ قلب کی دولت ملتی ہے یاآزادی کے نام پرایک خوش نمادھوکا،بدترین غلامی اورقیدہے ،جس سے ہماری پریشانیوں میںپہلے سے کہیں زیادہ اضافہ ہوگیا؟حالات دیکھ کرخودفیصلہ کرلیجیے۔
مسلمانوںکے کرتوت:
اب ذرایہاںپرتھوڑی دیررک کردورِ غلامی اوردورِآزادی کاموازنہ کیجیے ۔دورِ غلامی میں،جن مشکلات کاہمیں سامناتھا کیا آزادی کے بعد اُن سے چھٹکارامل گیا؟آزادی سے پہلے انگریزہماری دنیاوآخرت کوتباہ کر رہے تھے اورہندومسلم خون سے ہولی کھیل رہے تھے ۔آج کیاہے ؟مسلمان ہی مسلمان کاگلاکاٹ رہاہے ۔بل کہ اس نے تو ظلم وزیادتی اورقتل و غارت گری میں کفارکوبھی مات دے دی۔یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیںکہ مسلمانوں کے کرتوت سب کے سامنے ہیں۔ سچ بتاؤکہ یہ جشنِ آزادی منانے کاکوئی جوازہے ؟ہماری سوچ ایسی الٹی ہوگئی کہ مصائب وآلام اور قیدوبند کا نام ہی آزادی رکھ کرمسلسل اپنے آپ کودھوکادے رہے ہیںکہ ہم آزاد ہیں۔ اگر واقعی آزادی کے خواہش مند ہیں، تو اب مصائب کوآزادی سے بدلنے کانسخہ بھی لے لیجیے ۔
آزادی کانسخہ:
آسمان کے نیچے اورزمین کے اوپرصرف ایک ہی ہے کہ سب کی نافرمانی کریں اوررب کی نافرمانی چھوڑ دیںاوراُس کوراضی کر لیں۔بس ہر مصیبت اورپریشانی سے آزادہوجائیںگے۔ہم آپس میںکہتے ہیںکہ ایک لمبے عرصہ سے انگریزوں کی گرفت میں تھے اُس سے آزاد ہوگئے،اِس لیے خوشیاںمناتے اورترانے گنگناتے ہیں۔مگرہم دوسری طرف یہ بھول جاتے ہیںکہ حقیقی آزادی وہی ہے ،جس میں آدمی ہرقسم کی قیدوبندسے آزاد ہو جائے ۔چھوٹے دشمن سے بچ کربڑے دشمن کی قیدمیںچلے گئے ؛تووہ آزادی کہاں اورکیسے ہوئی؟
شکریہ !آپ نے آزادی دلادی:
ایک بھیڑیابکری کوپکڑکرلے جارہاتھاایک شخص نے آگے بڑھ کر بھیڑیاسے چھڑالیا۔بکری کی جان میں جان آئی اورخوش ہوکرشکریہ اداکرنے لگی کہ حضورشکریہ،جزاک اللہ !آپ نے تو دشمن کے چنگل سے چھڑا کر ہمیں آزادی دلادی اورایک نئی زندگی بخش دی۔خوش ہوکرجشنِ آزادی منارہی ہے کہ اُس شخص نے چھری نکال کر گردن پررکھ دی۔یہ دیکھ کر بکری کی ساری خوشی خاک میںمل گئی ۔اب کیاکہتی ہے ؟ارے ظالم!مجھے تو یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ توخودبھیڑیاہے ،اب پتاچلاکہ تو تو اُس سے بھی بڑابھیڑیانکلا۔
تواب دیکھیںکہ حقیقی آزادی کون سی ہوتی ہے ؟اگرآزادہوتے ہی انسان اُسی جیسے ،بل کہ اس سے بھی بڑے دشمن کے پنجے میں آجائے ،نفس اورشیطان کی قیدمیںچلاجائے توپھربتائیے کہ یہ آزادی کس کام کی ؟ یہ ہمیشہ یاد رکھیں کہ حقیقی آزادی وہی ہوتی ہے،جس میں آپ ہرقسم کے دشمنوںسے آزادہوجائیں۔اُن کے ہر شر سے محفوظ ومامون اوربے فکر ہو کرلمبی تان کرسوئیں۔ورنہ توایسی آزادی سے پہلی قیدہی بھلی ہے ۔
سب سے بڑادشمن ؟
انسان کااپنانفس ہی ہے ۔جوہروقت برائیوںکاحکم دیتا،گناہوںکے سبزباغ میںگھماتا اورگناہوں پر اُکساتا رہتاہے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادعالی ہے:’’إِنَّ اَعْدیٰ اَعْدَائِکَ مَابَیْنَ جَنْبَیْکَ‘‘کہ تیرا سب سے بڑا اور بدترین دشمن تیرے پہلومیں یعنی تیرادل ہے جوتیری دنیاوآخرت کوتباہ کررہاہے ۔اللہ کوناراض کرتاہے ،سب سے بڑادشمن تویہ ہے۔وہ شیطان؛ جسے ہروقت ہم بدنام کرتے پھرتے ہیں وہ تودوسرے نمبر پر آتا ہے ۔لیکن وہ بھی ہروقت ہمارے ساتھ ہی رہتا،پریشان کرتا اورجہنم میں لے جانے کاسامان کرتا ہے۔اِس دشمن کے متعلق اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:{إِنَّ الشَّیْطٰنَ عَدُوٌ فَاتَّخِذُوْہٗ عَدُوًا} کہ شیطان تمہارادشمن ہے ، اس لیے تم بھی اُس کو دشمن ٹھہرالو۔
کچھ دیرنظربازی بھی کرلو:
اِس سے صاف معلوم ہوگیاکہ سب سے خطرناک اوربدترین دشمن اپنانفس ہے ،جواپنے ہی اندرچھپا ہواہے۔ نفس اورشیطان بہ ظاہردوست اوربڑے خیرخواہ معلوم ہوتے ہیں،اس لیے اُن کاہرتقاضاانسان کوخوش نما اوربھلامعلوم ہوتا ہے ۔یہ تقاضادل میں پیداہوتے ہی انسان چاہتاہے کہ جلداُس کوپوراکروں۔مثلاً: نفس نے تقاضاکیاکہ جھوٹ بول کر، دھوکادے کرفلاں شخص کاپیسہ مارلو،غریبوںکی زمین غصب کرلو،اگربنی اسرائیل کی مچھلیاں سامنے آئیں توکچھ دیر نظربازی بھی کرلو، بہن کا مال ہڑپ کر لو۔منکرات ومعصیت کو،خصوصاً بدعات کو خوب مزین کرکے پیش کرتاہے ۔ گویاکہ وہ ظالم حلوے میں زہر ملا کر ہمیں کھلارہاہے اوراللہ کاشکرہے کہ ہم بھی خوب مزے سے کھا رہے ہیں ۔لوگ سوچیںگے کہ اب حلوہ بھی نہ کھائیں توپھرکیاکھائیں؟بہرحال حلوے میں زہر کا ہونابہت خطرناک ہے اللہ ہماری حفاظت فرمائے اورحقیقی آزادی کی دولت سے مالا مال فرمائے آمین!