(تلخیص از محمد کمال الدین القاسمی)
عن ابی ہریرة رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: قال اللہ تعالی: أعددت لعبادی الصالحین مالا عین رأت ولا أذن سمعت ولا خطر علی قلب بشر،فاقرء وا ان شئتم فلا تعلم نفس ما أخفی لہم من قرة أعین (البخاری)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ چیز تیار کر رکھی ہے کہ (آج تک) نہ کسی آنکھ نے اس (جیسی کسی چیز) کو دیکھا ہے، نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی کے دل میں اس کا تصور تک آیا ہے، اگر تم اس بات کی تصدیق چا ہوتو یہ آیت پڑھو (فلا تعلم نفس ما أخفی لہم من قرة أعین) یعنی کوئی شخص بھی نہیں جانتا کہ ان کے لیے کیا چیز چھپا کر رکھی گئی ہے ،جو آنکھ کی ٹھنڈک کا سبب ہے۔
جنت میں اہل ایمان کا اعزاز:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا کہ:جو لوگ جنت میں سب سے پہلے داخل ہوں گے ،وہ چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن اورمنور ہوں گے اور ان کے بعد جولوگ داخل ہوں گے، وہ اس ستارے کی مانند روشن اور چمکدار ہوں گے، جو آسمان پر بہت تیز چمکتا ہے۔ تمام جنتیوں کے دل ایک شخص کی مانند ہوں گے نہ تو ان میں کوئی باہمی اختلاف ہوگا کہ وہ ایک دوسرے سے کوئی بغض و عدادت رکھیں گے۔
ان میں سے ہر ایک شخص کے لیے حور ِعین میں سے دو دو بیویاں ہوں گی (جواتنی زیادہ حسین و جمیل اور صاف و شفاف ہوں گی کہ ان کی پنڈلیوں کی ہڈی کا گوداہڈی اور گوشت سے باہر نظر آئے گا، تمام ہی صبح و شام (یعنی ہر وقت) اللہ تعالیٰ کو یاد کیا کر یں گے، نہ پاخانہ پھریں گے، نہ تھوکیں گے، اور نہ رینٹ سینکیں گے، ان کے برتن سونے چاندی کے ہوں گے، ان کی کنگھیاں سونے کی ہوں گی، ان کی انگیٹھیوں کا ایندھن” اگر“ (ایک لکڑی جس کو دھونی کے لئے سلگایا جاتاہے) ہوگا تو ان کا پسینہ مشک کی طرح خوشبودار ہو گا، اور سارے جنتی ایک شخص کی سی عادت وسیرت کے ہوں گے (یعنی سب کے سب یکساں طور پر خوش خلق اور ملنسار ہوں گے) نیز وہ سب شکل وصورت میں اپنے باپ آدم کی طرح ہوں گے اور ساٹھ گز اونچاقد رکھتے ہوں گے (البخاری)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا کہ:
جنتی لوگ جنت میں (خوب) کھائیں گے، پئیں گے؛ لیکن نہ تھوکیں گے، نہ پیشاب کر یں گے، نہ پاخانہ پھریں گے اور نہ ناک سنکیں گے۔ یہ سن کر بعض صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے عرض کیا کہ پھر کھانے کے فضلہ کا کیا ہوگا (اور اس کے اخراج کی کیا صورت ہوگی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کھانے کا فضلہ ڈکار اور پسینہ ہو جائے گا، مشک کی طرح خوشبو ہوگی اور جنتیوں کے دل میں تسبیح وتحمید یعنی سبحان اللہ! الحمدللہ! کا ورد اور ذکر الٰہی،اس طرح ڈال دیا جائے گا جیسے سانس جاری ہے۔
(المسلم)
قیامت کے دن اہل ِایمان کے چہروں کی رونق وشادابی:
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا کہ:
”قیامت کے دن جنت میں جولوگ سب سے پہلے داخل ہوں گے، ان کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن و چمکدار ہوں گے اور دوسری جماعت کے لوگ ان کے چہرے آسمان کے اس ستارے کی طرح روشن و چمکدار ہوں گے جو سب سے زیادہ چمکتا ہے، نیز ان جنتیوں میں ہر شخص کے لیے دو بیویاں ہوں گی اور ہر بیوی کے جسم پر (لباس کے) ستر جوڑے ہوں گے اور وہ دونوں بیویاں اتنی صاف و شفاف اور حسین وجمیل ہوں گی کہ ان کی پنڈلیوں کے اندر کا گوداستر جوڑوں کے اوپر سے نظر آئے گا۔“
(الترمذی)
جنت میں اہل ایمان کی بیویوں کا حسن و جمال:
علام ابن کثیر رحمہ اللہ نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ارشاد نقل کیا ہے کہ:
ہر مسلمان کے لیے ”خیرہ“ ہے یعنی نیک اور بہترین نورانی حور اور ہر”خیرہ“ کے لیے خیمہ ہے اور ہر خیمہ کے چار دروازے ہیں۔ جن میں سے (اللہ تعالی کی جانب سے) ہر روز تحفہ، کرامت اور انعام آتارہتا ہے، نہ وہاں کوئی فساد ہے نہ سختی، نہ گند گی ہے اور نہ بدبو، حوروں سے صحبت ہے، جواچھوت، صاف اور سفید چمکتے موتیوں کی طرح ہیں۔
ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفر مایا کہ:
مومن کو جنت میں اتنی اتنی عورتوں کے پاس جانے (مجامعت کرنے) کی قوت عطا کی جائے گی۔ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ نے پوچھا حضور! کیا جنتی مرد اتنی طاقت رکھے گا، آپ نے فرمایا: (ہاں) اس کو ایک سو آدمیوں کے برابر طاقت ملے گی(تفسیر ابن کثیر)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ: یا رسول اللہ! کیا جنت میں جنتی لوگ جماع کریں گے؟ آپ نے فرمایا: ہاں! قسم ہے، اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، خوب اچھی طرح اور بہترین طریق پر۔ جب الگ ہوگا تو اسی وقت پاک صاف، اچھوتی اور باکرہ بن جائے گی۔ (نفسہ)
طبرانی کی ایک حدیث میں ہے کہ:جنتی مرد ایک ایک سو کنواریوں کے پاس ایک ایک دن ہو آئے گا۔
جنت کے درجات:
حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
جنت میں سو درجے ہیں اور ہر دو درجوں کے درمیان سو برس کی مسافت کا فاصلہ ہے۔(الترمذی)
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث میں وارد ہے کہ ”اگر تمام عالم کے لوگ ان میں سے کسی بھی ایک درجہ میں جمع ہو جائیں ،تو وہ سب کے لیے کافی ہو گا۔ (الترمذی)
ایک حدیث میں وارد ہے کہ جنتی بغیر بالوں کے مرد ہوں گے، ان کی آنکھیں سرمگیں ہوں گی، ان کا شباب کبھی فنا نہ ہو گا اور نہ ان کے کپڑے کبھی پرانے ہوں گے (الترمذی)
جنت میں اہلِ ایمان کا کھانا:
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کوثر کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
وہ ایک نہر ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا کی ہے (میرے لیے مخصوص ہے) اس نہر کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ شیریں ہے، اس میں ایسے پرندے ہیں، جن کی گردنیں اونٹ کی گردنوں کی طرح لمبی ہیں، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (یہ سن کر) عرض کیا کہ وہ پرندے تو بہت فربہ اور تنومند ہوں گے؟ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان پرندوں کو کھانے والے (یعنی جنتی لوگ) ان پرندوں سے بھی زیادہ توانا اور خوش حال ہوں گے۔(الترمذی)
جنت میں اہل ِایمان کی خواہشات کی تکمیل:
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول! کیا جنت میں گھوڑے بھی ہوں گے؟ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ اگر اللہ تعالی نے تمہیں جنت میں داخل کیا اور تم نے گھوڑے پر سوار ہونے کی خواہش ظاہر کی تو تمہیں جنت میں سرخ یاقوت کے گھوڑے پر سوار کیا جائے گا اور تم جنت میں جہاں جانا چاہو گے تو وہ گھوڑا برق رفتاری کے ساتھ دوڑ ے گا اور گو یا اڑا کرتمہیں لے جائے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک اور شخص نے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول! کیا جنت میں اونٹ بھی ہوں گے؟ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو وہ جواب نہیں دیا، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ساتھی کو دیا تھا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفر مایا :کہ اگر اللہ تعالی نے تمہیں جنت میں پہنچا دیا تو تمہیں ہر وہ چیز ملے گی، جس کو تمہارا دل چاہے گا، اور تمہاری آنکھیں پسند کر یں گی۔(الترمذی)
جنت میں اہل ایمان کا بازار:
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:
جنت میں ایک بازار ہے، جس میں خرید و فروخت نہیں ہوگی، بلکہ وہاں مردوں اور عورتوں کی حسین و جمیل صورتیں نظر آئیں گی، جو شخص (خواہ مرد ہو یا عورت) وہاں جس صورت کو پسند کرے گا، اس میں سما جائے گا اور اس صورت کاہو جائے گا۔(الترمذی)
جنت میں اہل ایمان کے محلات:
ایک حدیث شریف میں وارد ہے کہ جنت کے کسی بھی ایک دروازے کے دونوں کواڑوں کے درمیان چالیس برس کی مسافت کا فاصلہ ہے اور ایک دن ایسا ہو گا کہ جنت اتنی وسعت وکشادگی کے باوجود لوگوں سے بھری ہوئی ہوگی۔(مسلم)
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا کہ:
مؤمن کو جنت میں جو خیمہ ملے گا،وہ پورا ایک کھوکھلا موتی ہوگا، جس کا عرض وطول ساٹھ میل کے برابر ہو گا، اس خیمہ کے ہر گوشہ میں اس مؤمن کے اہل ِخانہ ہوں گے اور ایک گوشہ کے اہل دوسرے کونے والوں کو نہیں دیکھ سکیں گے ،ان سب اہل ِخانہ کے پاس مؤمن آ تا جا تا رہے گا (مؤمن کے لیے) دو جنتیں چاندی کی ہوں گی کہ ان جنتیوں کے برتن، باسن (مکانات، محلات، خانہ داری کے دوسرے ضروری و آرائشی سامان، تخت، کرسی، میز، پلنگ، جھاڑ و، فانوس یہاں تک کہ درخت وغیرہ سب چاندی کے ہوں گے) اور دو جنتیں سونے کی ہوں گی کہ ان جنتیوں کے برتن، باسن وغیرہ دیگر اشیا ء سونے کی ہوں گی اور جنت ”العدن“ میں جنتیوں اور پروردگار کی طرف سے ان کے دیکھنے کے درمیان ذات باری تعالی کی عظمت و بزرگی کے پردہ کے علاوہ اور کوئی چیز حائل نہیں ہو گی۔ (البخاری)
جنت کا سامان ِتعمیر:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! مخلوق کو کس چیزسے پیدا کیا گیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، پانی سے، پھر ہم نے پوچھا کہ جنت کس چیز سے بنی ہے (اس کی عمارت) آپ نے فرمایا جنت کی (تعمیر اینٹوں کی ہے اور) ایک اینٹ سونے کی ہے اور ایک اینٹ چاندی کی۔ اس کا گارا (جس سے اینٹیں جوڑی جاتی ہیں) تیز خوشبو دار خاص مشک کا ہے، اس کی کنکریاں (رنگ اور چمک دمک میں) موتی اور یاقوت ہیں، اور اس کی مٹی زعفران (کی طرح زرد اور خوشبودار) ہے، جوشخص اس جنت میں داخل ہو گا عیش وعشرت میں رہے گا، کبھی کوئی رنج و فکر نہیں دیکھے گا، ہمیشہ زندہ رہے گا، مرے گا نہیں، نہ اس کا لباس پرانہ اور بوسیدہ ہو گا اور نہ اس کی جوانی فنا ہو گی۔(احمد و الترمذی)
نصیحت آموز حکایات:
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آئندہ اوراق میں چند حکایات نقل کی جاتی ہیں، جن سے آخرت کی نعمتوں کی کچھ حقیقت معلوم ہوگی اور دنیوی زندگی کی حقیقت بھی۔ اسلاف کی ان حکایات کو محض ایک قصہ سمجھ کر پڑھنا یا سننا نہیں چاہیے،بلکہ ان سے نصیحت اور عبرت حاصل کرنا چاہیے۔
سیدی ومولائی شفیق الامت، عارف باللہ حضرت مولانا شاہ محمد فاروق صاحب قدس اللہ روحہ، عبرت کی یہ تعریف بیان فرمایا کرتے تھے کہ:
عبرت اسے کہتے ہیں کہ دوسروں کے کمالات کو دیکھ کر اپنے نقائص پر نظر ہو جائے، پھر ان نقائص کو دور کر کے ان کمالات کو حاصل کیا جائے۔
اللہ تعالی اس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ ان مبارک احادیث اور بزرگان ِسلف کی حکایات سے آخرت کی صحیح فکر عطا ہوجائے اور اس راقم الحروف سیاہ کار کی خستہ حالی سے دعاؤں کی احتیاج صاف ظاہر ہے، کیا عجب ہے کہ آپ حضرات کی دعوات صالحہ سے اس کی بھی اصلاح ہو جائے۔
اللہم وفقنا لما تحب وترضی من القول والعمل والفعل والنیة والہدی انک علی کل شیء قدیر.
یہ حکایات قطب الاقطاب شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب کا ندھلوی” ثم المہاجر المدنی قدس اللہ سرہ“ نے اپنی کتاب فضائل ِصدقات میں ذکر کی ہیں۔ حضرت ہی کے الفاظ میں بعینہ ان حکایات کو ذکر کیا جا تا ہے۔ نیز یہ حکایات نزہة البسا تین ترجمہ” روض الر یاحین“ میں بھی موجود ہیں۔
ایک بت پرست کے ایمان لانے کا عجیب واقعہ:
حضرت عبدالواحد بن زید رحمتہ اللہ علیہ (جو مشائخ چشتیہ کے سلسلہ میں مشہور بزرگ ہیں) فرماتے ہیں: کہ ہم لوگ ایک مرتبہ کشتی میں سوار جار ہے تھے، ہوا کی گردش نے ہماری کشتی کو ایک جزیرہ میں پہنچا دیا ،ہم نے وہاں ایک آدمی کو دیکھا، کہ ایک بت کو پوج رہا ہے، ہم نے اس سے پوچھا کہ تو کس کی پرستش کرتا ہے؟
اس نے اس بت کی طرف اشارہ کیا۔
ہم نے کہا: تیرامعبود خود تیرا بنایا ہوا ہے اور ہمارا معبودایسی چیز یں بنا دیتا ہے۔
جو اپنے ہاتھ سے بنایا ہوا ہووہ پوجنے کے لائق نہیں ہے۔
اس نے کہا کہ تم کس کی پرستش کرتے ہو؟
ہم نے کہا، اس پاک ذات کی جس کا عرش آسمان کے اوپر ہے، اس کی گرفت زمین پر ہے اس کی عظمت اور بڑائی سب سے بالاتر ہے۔
کہنے لگا تمہیں اس پاک ذات کا علم کس طرح ہوا؟
ہم نے کہا کہ اس نے ایک رسول صلی اللہ علیہ وسلم (قاصد) ہمارے پاس بھیجا ،جو بہت کریم اور شریف تھے، اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ سب باتیں بتائیں۔
اس نے کہا وہ رسول کہاں ہیں؟
ہم نے کہا کہ اس نے جب پیام پہنچا دیا اور اپنا حق پورا کر دیا ،تو اس مالک نے اس کو اپنے پاس بلالیا تا کہ اس کے پیام پہنچانے اور اچھی طرح پورا کر دینے کا صلہ و انعام عطا فرمائے۔
اس نے کہا کہ اس رسول نے تمہارے پاس کوئی علامت چھوڑی ہے؟
ہم نے کہا: اس مالک کا پاک کلام ہمارے پاس چھوڑا ہے۔
اس نے کہا: مجھے وہ کتاب دکھا ؤ۔
ہم نے قرآن پاک لاکر اس کے سامنے رکھا۔
اس نے کہا: میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں، تم اس میں سے مجھے کچھ سناؤ۔
ہم نے ایک سورت سنائی، وہ سنتے ہوئے روتا رہا؛ یہاں تک کہ وہ سورت پوری ہوگئی۔
اس نے کہا کہ اس پاک کلام والے کا حق یہی ہے کہ اس کی نافرمانی نہ کی جائے، اس کے بعد وہ مسلمان ہو گیا۔
ہم نے اس کو اسلام کے ارکان اور احکام بتائے اور چند سورتیں قرآن پاک کی سکھائیں۔ جب رات ہوئی عشا کی نماز پڑھ کر ہم سونے لگے، تو اس نے پوچھا کہ تمہارا معبودبھی رات کو سوتا ہے؟
ہم نے کہا وہ پاک ذات” حی قیوم“ ہے وہ نہ سوتا ہے نہ اس کو اونگھ آتی ہے۔ (آیت الکرسی)
وہ کہنے لگا تم کس قدر نالائق بندے ہو کہ آ قا تو جا گتار ہے اور تم سو جاؤ۔
ہمیں اس کی بات سے بڑی حیرت ہوئی۔ جب ہم اس جزیرہ سے واپس ہونے لگے تو وہ کہنے لگا کہ مجھے بھی اپنے ساتھ ہی لے چلو؛تا کہ میں دین کی باتیں سیکھوں۔ ہم نے اس کو اپنے ساتھ لے لیا، جب ہم شہر عبادان میں پہنچے تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ یہ شخص نومسلم ہے ،اس کے لیے کچھ معاش کی فکر بھی ہونی چاہیے۔ ہم نے کچھ درہم چندہ کیا اور اس کو دینے لگے۔
اس نے پوچھا یہ کیا ہے؟
ہم نے کہا کہ یہ کچھ درہم ہیں ان کو تم اپنے خرچ میں لے آنا۔
کہنے لگا”لاالہ الا اللہ“ تم لوگوں نے مجھے ایسا راستہ دکھایا ،جس پر خود بھی نہیں چلتے۔ میں ایک جزیرہ میں تھا ایک بت کی پرستش کرتا تھا، خدائے پاک کی پرستش بھی نہ کرتاتھا،اس نے اس حالت میں بھی مجھے ضائع اور ہلاک نہیں کیا؛ حالانکہ میں اس کو جانتا بھی نہیں تھا ،پس وہ اس وقت مجھے کیوں کر ضائع کر دے گا، جب کہ میں اس کو پہچانتا بھی ہوں (اس کی عبادت بھی کرتا ہوں)۔
تین دن کے بعدہمیں معلوم ہوا کہ اس کا آخری وقت ہے موت کے قریب ہے، ہم اس کے پاس گئے، اس سے پوچھا کہ تیری کوئی حاجت ہوتو بتا؟
کہنے لگا میری تمام حاجتیں اس پاک ذات نے پوری کر دیں، جس نے تم لوگوں کو جزیرہ میں (میری ہدایت کے لیے) بھیجا تھا۔
شیخ عبدالواحد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: کہ مجھ پر دفعتًا نیند کا غلبہ ہوا ،میں و ہیں سو گیا تو میں نے خواب میں دیکھا ایک نہایت سرسبز شاداب باغ ہے، اس میں ایک نہایت نفیس قبہ بنا ہوا ہے، اس میں ایک تخت بچھا ہوا ہے، اس تخت پر ایک نہایت حسین لڑکی کہ اس جیسی خوبصورت عورت کسی نے نہ دیکھی ہو گی، یہ کہہ رہی ہے خدا کے واسطے اس کو جلدی بھیج دو، اس کے اشتیاق میں میری بے قراری حد سے بڑھ گئی۔ میری جو آنکھ کھلی تو اس نومسلم کی روح پرواز کر چکی تھی۔ ہم نے اس کی تجہیز و تکفین کی اور دفن کردیا،جب رات ہوئی تو میں نے وہی باغ اور قبہ اور تخت پر و ہ لڑکی اس کے پاس دیکھی اور وہ یہ آیت شریفہ پڑھ رہاتھا: (والملئکة یدخلون علیہم من کل باب“ الایة (رعد ) جس کا ترجمہ یہ ہے: اور فرشتے ان کے پاس ہر دروازہ سے آتے ہوں گے اور ان کو سلام کرتے ہوں گے (جو ہر قسم کی آفت سے سلامتی کا مزدہ ہے اور یہ اس وجہ سے کہ تم نے صبر کیا تھا (اور دین پر مضبوط جمے رہے) پس اس جہاں میں تمہارا انجام بہت بہتر ہے ۔(روض)
حق تعالیٰ شانہ کی عطا اور بخشش کے کرشمے ہیں کہ ساری عمر بت پرستی کی اور اس نے اپنے لطف و کرم سے موت کے قریب ان لوگوں کوز بردستی کشتی کے بے قابو ہو جانے سے وہاں بھیجا اور اس کو آخرت کی دولت سے مالامال کر دیا۔” اللہم لا مانع لما أعطیت ولا معطی لما منعت“مالک الملک جس کو تو دینا چاہے اس کو کوئی روکنے والا نہیں ہے اور جس کو تو نہ چاہے اس کو کوئی دینے والا نہیں ہے۔
حضرت مالک بن دینار کا ایک نوجوان کو جنت کی ضمانت دینا :
جعفر بن سلیمان کہتے ہیں کہ میں حضرت مالک بن دینار رحمتہ اللہ علیہ کے ساتھ ایک دفعہ بصرہ میں چل رہا تھا ،ایک عالیشان محل پر گزر ہوا، جس کی تعمیر جاری تھی اور ایک نوجوان بیٹھا ہوا معماروں کو ہدایت دے رہا تھا کہ یہاں یہ بنے گا، وہاں اس طرح بنے گا۔ مالک بن دینار رحمتہ اللہ علیہ اس نوجوان کو دیکھ کر فرمانے لگے کہ یہ شخص کیسا حسین نو جوان ہے اور کس چیز میں پھنس رہا ہے اس کو اس تعمیر میں کیسا انہماک ہے ،میری طبیعت پر یہ تقاضا ہے کہ میں اللہ جل شانہ سے اس نو جوان کے لیے دعا کروں کہ وہ اس کو اس جھگڑے سے چھڑا کر اپنا مخلص بندہ بنا لے، کیسا اچھا ہوتا اگر یہ جنت کے نو جوانوں میں بن جائے۔ جعفر چل اس نوجوان کے پاس چلیں۔
جعفر کہتے ہیں کہ ہم دونوں اس نو جوان کے پاس گئے، اس کو سلام کیا اس نے سلام کا جواب دیا، وہ مالک رحمتہ اللہ علیہ سے واقف تھا ،مگر مالک رحمتہ اللہ علیہ کو پہچانا نہیں، تھوڑی دیر میں پہچانا تو کھڑا ہو گیا۔ اور کہنے لگا کیسے تشریف آوری ہوئی! مالک رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا :تم نے اپنے اس مکان میں کس قدر روپیہ لگانے کا ارادہ کیا ہے؟
اس نے کہا ایک لاکھ درہم۔
مالک رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اگر تم یہ ایک لاکھ درہم مجھے دے دو تو میں تمہارے لیے جنت میں ایک مکان کا ذمہ لیتا ہوں ،جو اس سے بدرجہا بہتر ہو گا اور اس میں حشم خدم بہت سے ہوں گے، اس میں خیمے اور قبے سرخ یاقوت کے ہوں گے، اور جن پر موتی جڑے ہوئے ہوں گے، اس کی مٹی زعفران کی ہوگی ،اس کا گارا مشک سے بنا ہوا ہو گا، جس کی خوشبوئیں مہکتی ہوں گی، وہ کبھی نہ پرانا ہوگا، نہ ٹوٹے گا، اس کو معمار نہیں بنائیں گے ؛بلکہ حق تعالیٰ شانہ کے امر”کن“ سے تیار ہو جائے گا۔
اس نوجوان نے کہا مجھے سوچنے کے لیے آج رات کی مہلت دیجئے ،کل صبح آپ تشریف لاویں تو میں اس کے متعلق اپنی رائے عرض کروں گا۔
حضرت مالک رحمتہ اللہ علیہ واپس چلے گئے اور رات بھر اس نوجوان کی فکر اور سوچ میں رہے۔ آخر شب میں اس کے لیے بہت عاجزی سے دعا کی، جب صبح ہوئی اور ہم دونوں اس کے مکان پر گئے،تو نو جوان دروازہ سے باہر ہی انتظار میں بیٹھا تھا اور جب حضرت مالک رحمتہ اللہ علیہ کو دیکھا تو بہت خوش ہوا۔
حضرت مالک رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا: تمہاری کل کی بات کے بارے میں کیا رائے رہی؟
اس نوجوان نے کہا کہ آپ اس چیز کو پورا کریں گے، جس کا کل آپ نے وعدہ فرمایا تھا۔
حضرت مالک رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا: ضرور۔
اس نے درہم کے توڑے سامنے لا کر رکھ دیئے اور دوات قلم لا کر رکھ دیا۔
حضرت مالک رحمتہ اللہ علیہ نے ایک پرچہ لکھا، جس میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بعد لکھا کہ یہ اقرار نامہ ہے کہ مالک بن دینار (رحمتہ اللہ علیہ) نے فلاں شخص سے اس کا ذمہ لیا ہے کہ اس کے اس محل کے بدلہ میں حق تعالی شانہ کے یہاں اس کو ایسا ایسا محل جس کی صفت اوپر بیان کی گئی(جو جو صفات اس مکان کی اوپرگزری وہ سب لکھنے کے بعد لکھا) ملے گا بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ عمدہ اور بہتر جو عمدہ سایہ میں حق تعالی شانہ کے قریب ہوگا۔ یہ پرچہ لکھ کر اس کے حوالہ کر دیا اور ایک لا کھ در ہم اس سے لیکر چلے آئے۔
جعفر رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ شام کو حضرت مالک رحمتہ اللہ علیہ کے پاس اس میں سے اتنا بھی باقی نہ تھا کہ ایک وقت کے کھانے ہی کا کام چل سکے، اس واقعہ کو چالیس دن بھی نہ گزرے تھے کہ ایک دن حضرت مالک رحمتہ اللہ علیہ جب صبح کی نماز سے فارغ ہوئے تو مسجد کی محراب میں ایک پرچہ پڑا دیکھا، یہ وہی پرچہ تھا جو مالک رحمتہ اللہ علیہ نے اس نو جوان کولکھ کر دیا تھا اور اس کی پشت پر بغیر روشنائی کے لکھا ہوا تھا کہ یہ اللہ جل شانہ کی طرف سے مالک بن دینار (رحمتہ اللہ علیہ) کے ذمہ کی برات ہے ،جس مکان کا تم نے اس جوان سے ذمہ لیا تھا، وہ ہم نے اس کو پورا پورا دے دیا اور اس سے ستر گنا زیادہ دے دیا۔
حضرت مالک رحمتہ اللہ علیہ اس پرچہ کو پڑھ کر حیران سے ہوئے، اس کے بعد ہم اس نوجوان کے مکان پر گئے تو وہاں مکان پر سیاہی کا نشان تھا (جو سوگ کی علامت کے طور پر لگایا ہوگا) اور رونے کی آواز آ رہی تھیں، ہم نے پوچھا تو معلوم ہوا کہ اس نو جوان کا کل گزشتہ انتقال ہو گیا، ہم نے پوچھا کہ اس کا غسل میت کس نے دیا تھا؟ اس کو بلایا گیا ہم نے اس سے اس کے نہلانے اور کفنانے کی کیفیت پوچھی۔ اس نے کہا کہ اس نوجوان نے اپنے مرنے سے پہلے مجھے ایک پرچہ دیا تھا اور یہ کہا تھا کہ جب تو مجھے نہلا کر کفن پہنائے تو یہ پرچہ اس میں رکھ دینا، میں نے اس کو نہلایا،کفنایا اور وہ پرچہ اس کے کفن کے اور بدن کے درمیان میں رکھ دیا۔ حضرت مالک رحمتہ اللہ علیہ نے وہ پر چہ اپنے پاس سے نکال کر اس کو دکھایا وہ کہنے لگا کہ یہ وہی پر چہ ہے ۔
قسم ہے اس ذات کی جس نے اس کو موت دی، یہ پرچہ میں نے خوداس کے کفن کے اندر رکھا تھا۔ یہ منظر دیکھ کر ایک دوسرا نو جوان اٹھا اور کہنے لگا کہ مالک رحمتہ اللہ علیہ! آپ مجھ سے دو لاکھ درھم لے لیجئے اور مجھے بھی پر چہ لکھ دیجئے۔
حضرت مالک رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ وہ بات دور چلی گئی،اب نہیں ہوسکتا۔اللہ جل شانہ، جو چاہتا ہے وہ کرتا ہے، اس کے بعد جب بھی مالک رحمتہ اللہ علیہ اس نو جوان کا ذکر فرماتے تو رونے لگتے، اور اس کے لیے دعا کرتے تھے۔ (روض) بزرگوں کو اس قسم کے واقعات بہت کثرت سے پیش آتے ہیں کہ جوش میں کوئی بات زبان سے نکل گئی، حق تعالیٰ شانہ اس کو اسی طرح پورا فرماتے ہیں۔ جس کو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک ارشاد میں ان الفاظ سے نقل کیا گیا کہ بہت سے بکھرے ہوئے بالوں والے غبار آلودہ لوگ جن کولوگ اپنے دروازہ سے ہٹادیں اور ان کی پروا بھی نہ کریں، ایسے ہیں کہ اگر اللہ جل شانہ پر کسی بات کی قسم کھالیں تو وہ ان کی بات کو پورا کرے۔ (مسلم شریف)