جدید الحاد اور اس کا رد

اداریــہ:                                                                                                                                                                                                                                                                                         پہلی قسط:

مولانا حذیفہ ابن مولانا غلام محمد صاحب وستانویؔ

            اللہ رب العزت نے کائنات کے ذرے ذرے کو پیدا کیا اور اپنی حکمتِ بالغہ سے ہر شئ کا وظیفہ اور ذکر متعین کیا اور اللہ بذاتِ خود اپنی اس مخلوق پر محافظ ،مدبر اور نگراں ہے ۔حضرت انسان کو بھی اللہ ہی نے اپنی تخلیقِ خصوصی سے پیدا کیا اور اسے اشرف الخلائق بنایا اس کی ہدایت کے لیے عقل دی اور سلسلۂ انبیا کو جاری وساری کیا ؛ البتہ چوں کہ اسے امتحان کی غرض سے پیدا کیا ، لہٰذا خیر وشر دونوں کو پیدا کیا اور اسے اختیار دیا کہ وہ اپنی عقل سے یاتو راہِ ہدایت کو اختیار کرے یا راہِ ضلالت کو ، ہاں مگر کامیابی اور سرخ روئی ہدایت یافتہ لوگوں کے لیے مقدر کردی ۔

            ہم جس دورِ نامسعود سے گزر رہے ہیں ، وہ مسلمانوں کی مغلوبیت اور ائمۂ ضلال کی سیاسی غلبہ کا دور ہے اور سوء اتفاق یہ کہ یہ دور انسانی عقل وفکر پر اثر انداز ہونے کے اعتبار سے، ذرائع ابلاغ کے تیز تر ہونے کی وجہ سے اپنے نظریات کو آسانی سے عام کرنے کا سنہرہ دور ہے مزید برآں تمام ذرائع ابلاغ بھی ان ہی کے قبضہ میں ہے ۔ لہٰذا یہ مفاد پرست مادیت کے دلدادہ اور سائنس کے مافیا اس کا بھر پور استعمال کرکے الحادی افکار کو عام کرنے میں ذرہ کسر باقی نہیں رکھتے ۔ دوسری جانب اہل حق جیسی تندہی اور مغز بیداری کے ساتھ اس کا رد کرنا چاہیے، ویسا نہیں کرپارہے ہیں اور الحاد مسلمان معاشرہ کو دیمک کی طرح کھوکھلا کرتا جارہا ہے ۔ امت کا کوئی طبقہ ان کی فتنہ سامانیوں سے محفوظ نہیں ۔

            آج ہم ۱۴۴۰ھ اور ۲۰۱۹ء میں سانس لے رہے ہیں ، جہاں دنیا بہت تیز ہوچکی ہے ، لمحہ سے بھی کم عرصہ میں کوئی بھی خبر یا تحقیق یا حادثہ کی تفصیلات دنیا میں پھیل جاتی ہے ۔ آج سے تقریباً ۵۰؍ سال قبل مفکرِ امت حضرت مولانا علی میاں ندوی صاحب نے الحاد کے بڑھتے ہوئے رجحان کو دیکھ کر بڑا فکر انگیز کلام تحریر کیا تھا ۔مولانا نے اپنی معرکۃ الآریٰ کتاب ’’ ردۃ ولا ابابکر لہا ‘‘ میں قلمبند کیا ہے:

            ’’ ان جہاد الیوم وان خلافۃ النبوۃ وان اعظم القربات وأفضل العبادات أن تقاوم ہذہ الموجۃ اللادینیۃ التي تحتاج العالم الاسلامي وتغزو عقولہ ومراکزہ ‘‘

            اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ عصر حاضر کا سب سے اہم جہاد اور کارِ نبوت کا متقاضی عمل اوراللہ کا تقرب حاصل کرنے کا اہم ترین ذریعہ اور اس عہد جدید کی افضل ترین عبادت، عالم اسلام اور مسلمانوں کو درپیش لادینیت اور الحاد کے اس طوفانِ بالا خیز کا مقابلہ کرنا ہے، جس نے صرف عالم اسلام ہی نہیں بل کہ اسلامی تہذیب وثقافت کے مراکز تک کو متاثر کر کے رکھا ہے ۔ اور وہ مؤثر انداز میں مسلمانوں کی فکر پر اثر انداز ہورہا ہے ، لہٰذا (عالم اسلام ) کو سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کا زور دار انداز میں مقابلہ کرنے کی ٹھان لے ۔

            یہ امر بھی مسلم ہے کہ عالم اسلام میں ہمیشہ مختلف گوشوں میں ،جب بھی کسی فتنہ نے سر اٹھایا اللہ نے اپنے ایسے بندوں کو کھڑا کیا، جنہوں نے اس فتنہ کی سرکوبی کی اور کتاب و سنت کے ساتھ ساتھ عقل کے اصولِ صحیحہ کی روشنی میں زوردار رد کیا اور اب بھی کررہے ہیں ۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ جو کام دنیا کی مختلف زبانوں میں ہوا ہے، ان تمام کو لے کر دیگر مختلف زبانوں میں اس کا ترجمہ کر کے اسے مدون کیا جا ئے اور اسے لوگوں تک پنچایاجائے۔

            قبل اس کے کہ ہم الحادِ جدید کا رد علمی انداز میں کریں، پہلے اس کا پسِ منظر بیان کرتے ہیں اور تب سے اب تک اس موضوع پر اعتدال کے ساتھ جو مضبوط کام ہو ا ہے اس کی نشاندہی کرنے کی کوشش کرتے ہیں؛ تا کہ اس کی جانب مراجعت آسان ہو۔

            اگر ہم مغرب کے تسلط کو جوعالم اسلام کی طرف تیزی سے بڑھنے لگا ہے ، تاریخی اعتبار سے دیکھتے ہیں تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ مختلف مراحل سے ہوتے ہوئے انیسویں صدی کے نصف کے بعد اپنے مادی افکار کے شیوع کے اعتبار سے شدت اختیار کرنے لگتا ہے ۔ گویا اٹھارہویں صدی میں عالم ِاسلام سیاسی اعتبار سے کمزور ہونے لگتا ہے اورانیسویں صدی کے نصف تک کافی کمزور ہوجاتا ہے اور مغرب کو عالمِ اسلام کے مختلف خطوں میں تسلط حاصل ہوجاتا ہے ۔مغرب اپنے سیاسی تسلط اور ظالمانہ قبضہ کے ساتھ ،عالم اسلام کے مادی خزانوں کو طویل مدت تک لوٹنے کا پلان بناتا ہے اور اس کے لیے اپنے نظریات کو تعلیم کے راستہ سے مسلمانوں پرتھوپنا شروع کردیتا ہے؛ یہاں تک کہ انیسویں صدی کے اواخر تک کافی مضبوط پوزیشن میں آجاتا ہے۔ جیسے ہی اس کے افکار ونظریات مسلمانوں پر اثر انداز ہوتے ہیں، اللہ ایسے رجال کار کھڑے کر دیتے ہیں، جو ان مادی افکار کا بھر پور تعاقب کرتے ہیں۔ اس میں عالمِ عرب میں سب سے پہلا نام شیخ حسین افندی الجسررحمہ اللہ کا نام سر فہرست ہے ۔ آپ نے الحاد وجدید کے رد میں بڑا مضبوط ،مستحکم اور اصولی کارنامہ انجام دیا ہے ۔ آپ کی دو کتابیں الحاد جدید کے رد میں بہت ہی عمدہ ہیں ۔

            ’’الرسالۃ الحمیدیۃ فی حقیقۃ الدیانۃ الاسلامیۃ وحقیقۃ الشریعۃ المحمدیۃ‘‘

             آپ کا وطن ملک شام کا شہر حلب ہے ۔ آپ نے یہ رسالہ وہیں پر ۱۸۸۸ میں قلم بند کیا ، پھر جب وہ عالم اسلام میں پھیل گیا تو خلیفہ عبد الحمید نے آپ کو استامبول بلالیا اور آپ نے ’’ الحصون الحمیدیۃ للمحافظۃ علی العقائد الاسلامیۃ ‘‘ رسالہ لکھا، جور سالۂ حمیدیہ کا تتمہ ہے ۔ اس طرح آپ نے امت مسلمہ پر احسان عظیم کیا ۔

            مؤرخین اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ مغربی فلسفہ کے راستے سے، جو الحادِ جدید عالمِ اسلام میں داخل ہوچکا تھا، اس کے رد میں اسلامی عقائد کو صحیح ثابت کرنے کے ـلیے یہ سب سے پہلا مشروع اور سب سے پہلی کتاب ہے ،جس نے موضوع کا حق ادا کیا ۔ اس کتاب کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس نے مغربی افکار ،نظریات اور الحادِ جدید کے رد کے اصول فراہم کیے ۔ آپ نے جو اصول وقواعد اپنی تصنیف لطیف میں ذکرکیے وہ یہ ہیں :

            ۱-  مسائلِ اعتقادیہ کو ثابت کرنے کے لیے کتاب و سنت ،اور احادیثِ متواترہ اور احادیث مشہورہ سے ہی استدلال صحیح ہے ۔

            ۲-  کتاب وسنت کے نصوص کو سمجھنے میں ایسے معانی اور مراد ہی کا اعتبار ہوگا، جس کی طرف ذہن اولِ مرحلہ ہی مبادرت کرلے اور اسکی بے جا کھینچ تان کر تاویل کرنا صحیح نہ ہوگا ۔

            ۳-  کتاب و سنت کے نص سے ثابت شدہ کسی بھی مسئلہ کو اس کے معارض معنی پر محمول کرنا ہر گز صحیح نہ ہوگا ۔

            ۴-  مسلمان صرف اور صرف اجماعِ شرعی پر اعتقاد رکھنے کا مکلف ہے ۔

            ۵-  سائنس دانوں اور فلاسفہ کے اجماع کو تسلیم کرنے کے ہم ہرگز مکلف نہیں ہیں ، خاص طور پر جب ان کا نظریہ نصوصِ شرعیہ کے خلاف ہو ۔

            ۶-  کسی سائنس داں کی اپنی کوئی رائے یا نظریہ، جو نص صریح کے خلاف ہو اس کو تسلیم کرنا بھی مسلمان کے لیے ضروری نہیں ، بل کہ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی ۔جب ان کا اجماع ہی مردود ہے تو انفرادی نظریہ کیسے قابلِ اعتقاد ہوگا؟ !

            ۷-  نصوص وحی کے مقاصد میںسائنس کے مباحث کو تفصیل کے ساتھ ذکر کرنا نہیں ہے؛ بل کہ اس کا مقصد اللہ کی معرفت کا راستہ دکھلانا اور اس کی عبادت کا طریقہ بیان کرنا اور ایسے احکام بیان کرنا ہے، جس پر چل کر بندہ معاش کے مسائل کا انتظام سیکھ سکے اور معاد یعنی آخرت کے حسنِ انجام کو پاسکے ۔

             لہٰذا علومِ کونیہ یعنی تخلیق کیسے ہوئی اور کائنات کا نظام کیسے جاری و ساری ہے یہ اور اس جیسے مباحث قرآن کا موضوع تو نہیں ہیں ، مگر پھر بھی کتاب و سنت میں اس کے بارے میں اچھی خاصی تفصیلات ذکر ہے، وہ اس لیے کہ اس کے ذریعہ انسان تسخیرِ کائنات میں مدد لے سکے یا اس کو جان کر وہ اللہ کی کبریائی اور عظمت کا اعتراف کرلے اور اسے یہ یقین حاصل ہوجائے کہ میں نے جس کو اپنا رب اور معبود تسلیم کیا ہے۔ وہ انتہائی وسیع علم کا مالک ہے اور اس کے قبضۂ قدرت میں کائنات کی ہر چیز ہے اور اس کا ہر کام حکمت سے پر ہے ۔

            یہ سات قواعد ہیں جس کے ارد گرد علامہ حسین جسر آفندی کی کتاب گردش کرتی ہے ۔ واقعتا یہ اتنہائی قیمتی اصول وقواعد ہیں ۔(جاری…)