فخر الاسلام مظاہری علیگ
جس دور کو مغربی فکرمیں عہدِ عقلیت سے تعبیر کیا جاتا ہے،وہ وہ دور ہے جس میں سائنس اورجدید فلسفہ دونوں کی ایک ساتھ آب یاری ہوئی اوردونوں نے انسانی سوچ کومابعدالطبیعیات سے بے زار کرنے میں یکساں رول ادا کیا۔’’جدید عقلیت‘‘ سے مراد قوانین فطرت کے سائنسی طریقۂ کار کے نتیجے میں ظاہر ہونے والی’’ عقلیت ‘‘ہے جس میں استقرا کے ساتھ قیاس پر مدار رکھتے ہوے نظریۂ فطرت کے سہارے نتائج اخذ کیے جاتے ہیں۔ اِس پیراڈم میںپہلے توتجربی(Impiricism)منہج کے ساتھ تعقلی/ریشنلزم(Rationalism)طریقۂ کار کا ظہور ہوا۔اُس کے بعد سلسلے وارتصوری (Idealism)،فطری و جبلی (Innate)،عملی/نتائجی(Pragmatism)،حقیقت پسندی (Realism)،ذہنی وجمالیاتی (Aesthetics)،ماورائی (Transcendental Idealism)،تحلیلی(Analytic)،معروضی (Objectivism)وغیرہ فلسفے ظاہر ہوئے جن سے مختلف قسم کے افکار و نظریات رونماہوتے چلے گئے۔
سائنس :سائنس کی حقیقی ماہیت تو صرف اِتنی ہے کہ:’’حقائق اور اصولوں کا علم اور وہ معلومات جو ترتیب وار مطالعہ سے حاصل کی جائیں‘‘۔یا’’وہ ملکہ اور مہارت جو یقینی اور قطعی بات کے ا ظہار کی عکاسی کرتی ہو‘‘۔لیکن بعدمیں خاص مادی نظریے اور عقیدے کے ساتھ تصورِ کائنات، تصورِ حیات اور نیچرل خصوصیات کی نظریاتی وضاحت کی قیدیں اِس میں لگائی گئیں جس نے اِسے اِلحادی رخ دیا۔نیچرل خصوصیات کی نظریاتی وضاحت ہی در حقیقت سائنس کا نقطۂ اِنحراف ہے۔ اِس نقطۂ اِنحراف پر بنیاد رکھتے ہوئے اہلِ سائنس نے ایک طرف تو سائنسی اصلاحات (Scientific Renaissance) کے نام پرقدیم علوم کی اِصلاحات کواپنا ہدف قرار دیا اور دوسری طرف مذہبی عقائد ، مذہبی اصول اورہدایات کے لیے بھی سائنس ہی کو معیار ماننے اور تسلیم کرانے پر اصرار کیا۔اور خود اپنا عقیدہ’’لا ادریت‘‘قرار دیا(وضاحت ’’نظریۂ علم (Epistemology )کے تحت صفحے پرآئے گی)۔
فلسفۂ جدیدہ (Modern philosophy):
رہافلسفہ جدیدہ!تو اُسے مادیت کے ساتھ وابستہ کرنے کاکارنامہ عہدِ جدید کے جن مفکروں نے انجام دیا اُن اہم ترین مفکروں میں سے ایک رینے ڈیکارٹ (Rene Decartes ۱۵۹۶ء- تا -۱۶۵۰ء) ہے جوحقائقِ اشیاء کا منکر، جدید ’’لا ادریہ ‘‘کا بانی اور جدیدفلسفہ کا بانی کہلاتا ہے۔اِس کے بعد جان لاک (John Locke ۱۵۹۶ء- تا -۱۶۵۰ء)کا نمبر آتا ہے جو آزادی اور آزاد خیالی کا بانی ہو نے کی حیثیت سے father of Liberalizm کے لقب سے مشہور ہے۔(۱۰)اِن دو فلسفیوںسے رہنمائی پاکر بعد کے فلاسفرانِ زمانہنے اپنے عقلی استدلال کے ذریعہ بڑاکارنامہ یہ انجام دیا کہ سائنس کی لاادریت (یعنی تشکیکیت اورمذہب بے زاری پیداکرنے)والے خیالات پر مہر لگا نے کے واسطے اپنی کوشیں وقف کر دیں۔۱۸ ویں صدی عیسوی میں متعدد سائنسی اور سیاسی اِنقلابات کے نتیجے میںفلسفے کے اِس جدیدطرزِ فکر کوترقی ہونا شروع ہوئی۔اِن جدید فلسفیوں کا موضوع کائنات اور معاشرے کے بارے میں غور و فکر کے طریقے دریافت کرنا اورانسان کی فطرت،کائنات کی فطرت اور اُن کے باہمی ربط کے متعلق بنیادی سوا لات کے جواب تلاش کرنا ہیں۔
اقسام فلسفہ جدیدہ:
بنیادی اورکلی حیثیت سے جدید فلسفے کے تین شعبے ہیں۔٭:اخلاقیات(Ethics)۔٭:تصورِ علم یا نظریۂ علم(Epistemology)اور
٭:مابعد الطبیعیات(Metaphysics)۔فلسفے کی دیگر شکلیں اِنہی تین کی ذیلی شاخیں ہیں۔اِسی طرح فلسفہ کے افکار و نظریات بھی، سب کے سب اِنہی کی تفصیلات سے ،نیز طے شدہ مفروضات اورحاصل کردہ تجزیاتی نتائج سے پیدا ہوتے ہیں۔فلسفے کی یہی کلیات تمام حقائق کی وضاحت کے پیمانے ہیں۔ طبعیاتی کائنات ہوں،اخلاقی قدریں ہوں یاما بعد الطبیعاتی مسائل مثلاً خدا،جنت،دوزخ روحوں کے متعلق مطالعہ وغیرہ ہو،سب کے متعلق اِنہی کے ذریعے معلومات حاصل کی جاتی ہیں۔ علم اور عقیدے کے مابین تفریق بھی اِنہی سے حاصل ہونے والے اصولوں کے ذریعے کی جاتی ہے۔البتہ اقسام فلسفہ کی زیادہ واضح تفصیل درج ذیل ہے:
۱:تصورِ علم یا نظریۂ علم(Epistemology):علم کے طریقے،مقصود اور ہدف سے بحث کرنے والا فن کہ ہم واقفیت کیسے حاصل کریں؟ کیا حاصل کریں؟ علم کے باب میں ہمارا تصور کیا ہو؟اِس فلسفے میںعلم کے استعمال کے نقطۂ نظر سے علم کی افادیت کا جائزہ ،علم کی فطرت کا مطالعہ ،سچائی کے ساتھ ہم آہنگی اور عقائد کی توجیہات کا مطالعہ کیا جا تا ہے۔علم کے پیدا کرنے(تولید علم۔ production of knowledge)کی صلاحیت رکھنے والی شی مثلاًتشکیک ،لا ادریت-skepticism-کو اعتبار کا درجہ اِسی نوع کا دیا جا تا ہے ؛تاکہ دیگر علم کا ظہور ہو سکے۔اورچوں کہ یہی طرزِ فکر(لا ادریت) سائنس کا پیراڈم ہے جس کے تحت ایک سائنس داں ،سب سے پہلے،قدیم علوم ،مذہبی عقائد اور خدائی احکام سے یک لخت منحرف ہو کر،نقل و وحی پرمبنی اصولوں کی طرف سے تشکیک و لا ادریت کے عقیدے کے لیے اپنا مخلص ہونا طے کرتا ہے،اُس کے بعد اِس جستجومیں لگ جاتا ہے کہ کس طرح اُس کی کاوش سے نیا علم پیدا ہو خواہ وہ علم آسمانی ہدایت اوراِلٰہی عقیدے (جنہیں در حقیقت وہ اپنے راستے کی رکاوٹ سمجھتا ہے)سے بغاوت ہی کو فروغ دے۔
۲:جمالیات(Aesthetics):فلسفے کی اِس شاخ میںخوبصورتی ،آرٹ، میوزک،لذت کو موضوع بنا کر ذہن کا مطالعہ کیا جاتا ہے اوراِس بنادی سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ انسانی دماغ چند اشیا کے درمیان تطبیق دے کر خوبصورتی کامنظر کیوں کر پیدا کرتا ہے ۔جواب ملا کہ نہیں ملا؛لیکن یہ ضرور ہوا کہ اِس حوالے سے ا باحیت کی طرف رغبت اور شہوات میں ہیجان پیدا کرنے والے گانے فروغ دیے جانے لگے۔اور انسان کی خوبصورتی میں اُس کے لباس کی بڑی اہمیت ہے اور لباس کی خوبصورتی اُس کی ڈیزائن سے وابستہ ہے۔ اِس اصول موضوعہ پر بنا رکھتے ہوئے ،فیشن ڈیزائننگ کے نئے نئے طریقے وضع کیے گئے،مثلاًGrunge aestheticکے حوالے سے رقص کا اِسٹائل،بالوں کا اسٹائل۔نیزبیگی جینز پینٹ اور لباس کی تراش خراش کے وہ تمام نمونے ایجاد کیے گئے جو انسانی شہوتوں کو برانگیختہ کرنے والے ہوں۔
۳:مابعد الطبیعیات(Metaphysics):اِس میںکائنات سے متعلق شی کی حقیقت کا مطالعہ(Study of reality)کیا جا تا ہے۔
الف:علم کونیات(Cosmology):ما بعد الطبیعیات کی ایک شاخ جس میں کائنات،خلا اورزمانہ(universe,space and time)سے بحث کی جاتی ہے۔
ب:علم تکونات(Ontology):ما بعد الطبیعیات کی ایک شاخ جس میں حقیقۃ الشی سے بحث کی جائے۔”Study of the nature of being,becoming existence or reality as well as the basic category of being and their relations.”
ج:دینیات(Theology):ما بعد الطبیعیات کی ایک شاخ جس میں مذہبی امور سے بحث کی جاتی ہے۔
۴:اخلاقیات(Ethics):جس میںاخلاقی قدروں،صحیح ،غلط،خیر وشر کا مطالعہ کیا جا تا ہے۔
۵:علم الاقدار(Axiology):قدروں کی فطرت کا مطالعہ جس میںاِس امر کے جاننے کی کوشش کی جائے کہ کس قسم کی چیزیں افادیت کی حامل ہیں۔
۶:سیاسیات(Political philosophy):حکومت کے نظام،قانون اور عدلیہ سے متعلق مطالعہ اِس کاموضوع ہے ۔اِس فلسفے میںعہدِ مغرب کے دورِروشن خیالی کے ملحدانہ واباحت پسندانہ افکار کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔یہ فلسفہ عموماً اخلاقیات کی شاخ میں بھی شمار کیا جا تا ہے جس سے مراد ’’آزاد اخلاقیات‘‘ ہے۔
۷:سماجیات(Social philosophy):جس طرح فلسفۂ سیاست ملک یا ریاست کی گورنمنٹ کے رول سے بحث کرتا ہے،اُسی طرح سوشل فلاسفی سوسائٹی میں فرد کے ر ول سے متعلق سوالات کے جواب فراہم کرتا ہے۔لیکن اِن دونوں فلسفوں کے دائرے میں سوسائٹی کے اندر فرد اور گورنمنٹ دونوں کے ہی رول زیرِ بحث آتے ہیں۔
۸:منطق(Logic):عقلی استدلال میں مقدمات کی ترتیب اورنتیجے کی درستگی کو جانچنے والا علم۔عقلی دلائل سے پیدا ہونے والے افکار کی جانچ کے بعد اُنہیں اِستناد عطا کرنے والا علم۔فلاسفیکل لوجک میں قوت پیدا کرنے کے لیے بیسویں صدی عیسوی کے وسط میں اِس امر کی تحریک چلی کہ فلسفی نتائج منطقی ٹیکنیک (Logical technique)پر مبنی ہونے چا ہئیں۔یہ تحریک تحلیلی فلسفے پر مبنی تھی۔
مکاتبِ فکر کے لحاظ سے:
۱:جدید مغربی فلسفہ(Western philosophi)۔۲:جدیدمشرقی فلسفہ(Eastern philosophy)
۱:جدید مغربی فلسفہ(Western philosophi):یہ فلسفہ قدیم یونان سے ما خوذ ہے اور درج ذیل شکلوں میں رونما ہو تا ہے۔
الف:فلسفۂ نشاۃ ثانیہ(Renaissance)
ب:فلسفۂ عقلیت(Rationalism)
ج:فلسفۂ تجربیت(Empiricism)
د: فلسفۂ سیاست(Political philosophy-by country)
ہ:تصوریت(Idealism):یہ فلسفہ حواس ظاہرہ کے مقابلے میں ذہن پربھروسہ کرتا ہے۔
و:فلسفۂ وجود(Existentialism)انسانی تجربات کا مطالعہ۔
ز:مظاہر کا علم جو وجودیات سے مختلف ہوتا ہے(Phenomenology)
ح:فلسفۂ نتائجی (Pragmatism):اِس کا مطلب یہ ہے کہ صرف وہی خیالات بامعنی ہیں جو عملی اور اطلاقی ہوں۔چارلس پیئرس،ولیم جیمس اورجان ڈیوی اِس عملی و افادی فلسفے کے حامل ہیں۔
ط:فلسفہ ذہنی (Subjective Philosophy):مفروضے ،عقائد،ذاتی خیالات پر مبنی فلسفہ جو جذبات اور احساسات سے پیدہوتا ہے۔
ی:تحلیلی فلسفہ(Analytic philosophy): اِسے فلسفۂ لسان(Linguistic philosophy)بھی کہتے ہیں۔یہ فلاسفی اپنے وسیع تناظر میںمنطقی،لسانی، سائنسی تفہیم اور نیچرل سائنس کی قدر و منزلت ثابت کرنے کے حوالے سے حتمی تعین اور فیصلہ کن رول ادا کرنے کے لیے جانی جاتی ہے ۔چناں چہ یہ موضوعی تجربات کے لیے بڑی اہمیت کی حامل ہے اور اِطلاقی حیثیت سے گفتگو کرتی ہے ۔بیسویں صدی کی ابتدا میںیونائٹیڈ اِسٹیٹ،یونائیٹڈ کنگڈم،کنیڈا،اِسکاڈیناویا،آسٹریلیا اور نیوزی لینڈوغیرہ انگریزی بولنے والے ممالک میں یہ طریقہ دریافت کیا گیا۔اور اِن ممالک کی یونیورسٹیوں میں’’انالیٹک‘‘ ڈپارٹمنٹ کے نام سے شعبے قائم کیے گئے۔ یہ تحلیلی طریقہ( Analytic philosophy)اپنے خیالات میں سائنس کے ساتھ بالکل ہم آہنگ ہے۔ اِس کا کہنا ہے کہ فلسفہ صرف اِتنا کام کر سکتا ہے کہ سائنس سے پنپنے والے اَفکار کی منطقی طور پر تصدیق کر دے ۔یعنی فلسفہ کا بس اِتنا ہی کام ہے کہ وہ سائنٹفک میتھڈ سے حاصل ہونے والے نتائج کی رجسٹری کر دے اور بس۔(۱)
ک:معروضی فلسفہ(Objectivism):اِسے ایک روسی امریکی محقق عورت آئن رینڈ(۱۹۰۵-۱۹۸۲) نے دریافت کیا۔اِس فلسفے میںیہ عقیدہ رکھا جا تا ہے کہ انسان کے ذریعے حاصل کیے جانے والے خیالات ،اقدار اورعلم در حقیقت معروضی ہیں۔اور معروضی کی وضاحت اِس طرح کی جاتی ہے کہ وہ نہ ذہنی ہیں،نہ خدا کی جانب سے تائید و ہدایت کی محتاج ہیں۔یہ فلسفہ چار ارکان پر مشتمل ہے۔۱:مابعد الطبعی(Metaphysics):جو کہ معروضی حقیقت ہے۔۲:عقیدۂ علم(Epistemology):عقل(Reason)ہے۔۳:اخلاقی قدر(Ethics):انسان کی خود اپنی دلچسپی ہے۔۴:(Politics):سرمایہ داری(Capitalism)ہے۔یہ فلسفہ اِس بات کا حامی ہے کہ انسانی علم اور قدروں کے ساتھ خیر وابستہ ہے اور اُن کے فقدان میں شر۔
۲:جدیدمشرقی فلسفہ(Eastern philosophy):اِس قسم میں وہ تمام فلسفے شامل ہیں جوعہدِ جدید میںمشرق اور جنوبی ایشیا میں پیدا ہوئے۔جیسے چائنی فلاسفی،جاپانی فلاسفی،کوریائی فلاسفی،ہندی فلسفہ بہ شمول بدھسٹ کی فلاسفی۔ یہ فلسفے مشرقی،جنوبی اور جنوبِ مشرق ممالک مثلاًویتنام،ہندوستان اورمنگولیا وغیرہ سے تعلق رکھنے والے علاقوں میں ظاہر ہوئے۔اُن میں سے ایک جدید نظریہ کنفیوشنز(New confucians)ہے۔یہ نظریہ چائنا میں مذہب اور سماجی قدروںکو۵۰۰ سال ق م کے طرز پر ڈھانے والا نظریہ ہے۔یہ علاقوں کے اعتبار سے مشرقی کہلاتا ہے،ورنہ اصول اِس کے بھی مغرب سے ہی ماخوذ ہیں۔
طریقۂ کار کے لحاظ سے:طریقۂ کار کے لحاظ سے جدید فلسفے کی دو قسمیں ہیں:
(۱) اِستقراء (Inductive method): فرانسس بیکن، اور تمام سائنسداں اسی بنیادی اصول کے پابند ہیں۔
(۲)قیاس (Deductive method): کانٹ، Frederick (the Enlightment king)، ولف( Wolff)والٹیئرکی تحقیقات ونتائج اِسی اصول پر مبنی ہیں۔ڈیکارٹ، اسپینوزا، اور لیبنز، لاک، برکلے، ہیگل، جرمنی تصور یہ (German idealist) مثلاً شیلنگ(Shelling)، شوپنہار(Schopnhauer) جس پر کانٹ کے اثرات بہت گہرے مرتب ہو ئے۔یہ سب قیاسی اصول کے پابند ہیں۔
پھر اپنے رجحانات اور مناہج کے لحاظ سے جدید فلسفیوں کے خیالات اورنتائج الگ الگ ہیں۔
جان لاک (John Locke)، جارج برکلے، اور ڈیوڈ ہیوم تجربی طریقے اور حواس خمسہ پر بھروسہ کرنے کے ساتھ فلسفی دلائل کے خوگر ہیں، لیکن ڈیکارٹ، لیبنز اور اسپنو زا کی عقلیت( Rationalism)کے مخالف ہیں۔اِن کا فلسفہ تجربی( Impiricism )کہلاتا ہے۔ اِس کے بر عکس Innateفلسفہ ہے جو اَشیاء کے فطری اور جبلی ہو نے پر یقین رکھتا ہے۔ گو یا یہ فلسفہ مذکورہ ’’تجربی فلسفہ‘‘ (Impiricism )کا ضد ہے۔اس کا کہنا ہے کہ تجربے اور حواس خمسہ کی ہی مدد سے تمام معلومات حاصل نہیں ہوتیں، بلکہ بعض حقائق حواس کے بغیر بھی دریافت ہو سکتے ہیں۔اِن دونوں سے الگ اِمّینویل کانٹ کا عقلی تصوری اورماورائی فلسفہ ہے ۔اوراِمّینویل کانٹ کی خالص عقلیت (Pure Reason)، ڈیوڈ ہیوم کے افکار کا رد عمل ہے، بلکہ کہنا چاہیے کہ اِس نے ۱۸ویں صدی کے دو غالب نظریات کے مکاتبِ فکر یعنی ریشنلزم اور تجربیت کے لیے پل کا کام کرنے والی فکر Transcendental idealism دریافت کی۔
۱۹ ؍ویں صدی عیسوی میں جب کہ نظریۂ علم (Epistemology)کی وسعتوں کے تحت لااَدریت اور تشکیکیت (Skepticsm)، وجودیت(Existantia lism)، عقلیت (Rationalism)، تجربیت (Empiricism)، اِنسانیت (Humanism)، ثبوتیت (Positivism)، سائنٹفک ریشنلزم آف نیچر(Sceintific Rationalism of nature)، افادیت(Utilitarianism) اور معروضیت (Objectivism) کا ولولہ اور دور دورہ تھا، عین اُسی وقت اِن سب سے آزاد ہونے کے لیے، اور انسان کو باطنی سکون پہنچا نے کے لیے، اِن کے مقابلے اور رد عمل کے طور پر رومانیت (Romanticism) کانہایت قوت کے ساتھ ظہور ہوا، جو ذہنی، جذباتی، جمالیاتی، بصری آرٹ، میوزک، کلچر، لٹریچر اور حقیقت پسندانہ اَدب پر مبنی تحریک تھی، رومانٹسزم کی یہ سب شاخیں فلسفیانہ خیالات کی سوغاتیں ہیں۔اور انہیں دریافت کرنے والے فلاسفرز یہ ہیں: روسو، کانٹ، فشتے، شیلینگ، ولہلم ہیگل، رالف والڈو، اِمَرسن، ہنری ڈیوڈ تھورو، اور شوپنہاروغیرہ۔
اِن فلسفیوں نے ظواہر اور نیچر کو ذریعہ کے طور پر استعمال تو کیا، لیکن سارا زور اِن کا ذہن، اِحساس، اِدراک، شعور، خیال؛ یعنی حوا س خمسہ باطنہ کے اَعمال سے حاصل ہونے والے نتائج اور وِجدان پر تھا۔ اِن کے پیش نظر ’’معروضی ‘‘مطالعہ کے بجائے ’’ذِہنی‘‘ اِدراکات تھے۔ نیچر کو انہوں نے ایک تجربہ کی چیز تو بتلایا، لیکن مقصود ماننے سے اور اِس بات سے کہ حقائق جاننے کا ذریعہ یہی ہے، اِنکار کیا۔اِن کا ماننا تھا کہ نیچر سے تجربہ تو حاصل کیا جا سکتا ہے، لیکن اِن کی اہمیت اِس قدر نہیں ہے کہ اِنہیں آخری حقیقت سمجھا جائے۔آخری حقیقت وہ احساسات ہیں جو اَخلاقی اَقدار تعمیر کرنے میںمدد گار ہوں، حقائق تک پہنچ سکتا ہے۔اِن اَفکار میں تجدید و ترقی ہوتی رہی، تا آں کہ کانٹ کے ما ورائی Transcendental idealism نظریہ کے بعد ہیگل نے اِنہی موضوعات کو بنیاد بناکر علمِ مجادلہ وضع کر د یا جسے Dilectic method کا نام دیا گیا۔ اِس کا مرکزی فارمولا یہ تھا کہ تحقیق کے بعد مضاد تحقیق کا ظہور ہو تا ہے ، اُس کے نتیجہ میں تعمیر ہو تی ہے اور یہ تخریب و تعمیر اور تشکیل جدید کا سلسلہ چلتا ہی رہتا ہے ۔
انسانی عقل کے استعمال کے ذریعے مغربی مفکروں کا اہم گول(goal یا مقصود)،درج ذیل تین چیزیں حاصل کرنا ہیں:
۱:معلومات(knowledge)۔۲:آزادی(freedom)۔۳:خوشی و خوش حالی(happiness)۔