جدا ہودیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

 

مولانا افتخاراحمد قاسمی بستوی / استاذ جامعہ اکل کوا

            اللہ رب العزت نے ہمیں زندگی گزارنے کے لیے جوآئین دیا ہے، وہ قرآنِ کریم کی شکل میں ابدی اور سرمدی ہے۔ رہتی دنیا تک یہ دستورِ حیات اور قانونِ زیست رہے گا۔ دنیا کے کسی بھی آئین کو اگر دیکھیں اور اس میں جتنی بھی اچھی، معتدل اور خوش آئند باتیں پائیں تو ان باتوں کا آئینِ اسلامی اور دستور قرآنی میں کلی یا جزوی طور پر کسی نہ کسی شکل میں ذکر ضرور ہوگا۔ قرآن کریم ایسا آسمانی وروحانی دستور ہے ،جس میں ہر ذی روح اور ہر متنفس کی راحت رسانی کے لیے کوئی نہ کوئی حکم ضرور ملے گا۔

            یہ آسمانی اور روحانی قانون ہے، جسے دنیا میں نافذ کرنے سے انصاف اور عدل گستری کو سب سے زیادہ ترقی ملے گی۔ اس لیے کہ دنیا اور دنیا والوں کو بنانے والا خالقِ کائنات اللہ رب العزت ہے اور اسی نے اس قانون کو بھی بنایا ہے تو اسی کو عقلی طور پر اپنی بنائی ہوئی چیز کو پیدا کرنے کے بعد صحیح ہدایات دینے کا حق پہنچتا ہے اور اسی کو اپنی تمام مخلوقات کے نہاں اور عیاں احوال وخصوصیات کا پورا علم ہے۔

            آج عالم میں جمہوری طرز کی حکومت چلانے کا طریقہ چل رہا ہے، اس کی آسان تعبیر اگر دیکھی جائے تو یہی ہوسکتی ہے کہ یہ عوام کی حکومت ہوتی ہے، عوام اپنے مفاد ِعامہ کے لیے اپنے نمائندگان کو منتخب کرتے ہیں۔ وہ نمائندے آمریت کے خلاف عوامی نمائندگی کرتے ہوئے عوام کے مفاد میں فیصلے کیا کرتے ہیں؛اگر محدود ومختصر مقام میں اس طرزِ حکومت کا نفاذ ہوتا ہے تو سارے افراد کو ایک مقام پر جمع کرکے ان سے فرداً فرداً ان کی رائے طلب کی جاتی ہے۔ ایسی جمہوریت کو ” ڈائرکٹ یا بلا واسطہ جمہوریت “ کا نام دیا جاسکتا ہے۔

            سوئزر لینڈ کے کچھ شہروں میں، ریاستہائے متحدہ امریکہ میں اورنیو انگلینڈ کے کچھ علاقوں میں یہی جمہوریت آج بھی نافذ ہے۔

            لیکن ایسے ممالک جو وسیع رقبے پر مشتمل ہوں، ان میں اپنے نمائندوں کو عوام منتخب کرکے قانون ساز اسمبلی میں بھیجتے ہیں۔ یہی نمائندے اپنے عوام کے جذبات واحساسات اور خیالات وافکار کے علاوہ ان کی ضروریات کی نمائندگی کرکے قانون ساز ادارے میں رکھتے ہیں۔ اس طرزِ نمائندگی میں شفافیت وخلوص اگر کار فرما ہوتا ہے تو قانون ساز ادارے میں عوام کی صحیح نمائندگی ممکن ہوتی ہے۔اس طرزِ حکومت کو ” اِن ڈائرکٹ یا بالواسطہ جمہوریت“ کہا جاسکتا ہے۔

            نفس و شیطانی پرستی کے ماحول میں ” آمریت “ کے طرز کی حکومت وجود پذیر ہوتی ہے، جس میں حکمراں من مانی حکومت چلاتا اور اقتدار کا منفی استعمال کرکے سب کو دام ِعبودیت میں گرفتار کرتا چلا جاتا ہے۔ اس آمریت کے خلاف جمہوریت وجود میں آئی ہے، جس میں عوام اپنے نمائندوں کو ایوانِ حکومت میں بھیج کر اپنے مسائل کا حل صحیح اور حق بجانب رخ پر تلاش کرتے ہیں اور حکمراں کو راستی اور درست سمت کی نمائندگی پر ایک حد تک پابند بنائے رکھتے ہیں، جس سے سربراہان ِمملکت میں آمریت، مطلق العنانی، ڈکٹیٹر شپ اور ظالمانہ خود مختاری جنم نہیں لے پاتی۔

            البتہ اس میں حکمراں کا دل صاف، ذہن شفاف اور دماغ سنجیدہ اور عملی رخ درستگی کے سانچے میں ڈھلا ہوا ہونا ضروری ہے۔ ورنہ جمہوریت کے ستونوں پر وہ اپنا قبضہ جما کر آمریت کی حدود کو چھونے اور آمریت کے تخت پر جلوہ نشیں ہونے میں کام یاب ہوکر ایک ڈکٹیٹرا نہ نظام ہی کا حامی وناصر بن سکتا ہے، جس کا نقصان بے شمار ملکوں میں دیکھا جا چکا ہے۔اگر حکمراں ظالم وجابر ذہنیت کا حامل اور ظلم و ستم کو روارکھنے والا ٹھہرا تو اسے ہر چہار جانب سے ظلم کے پہاڑ توڑنے کے مواقع مل ہی جاتے ہیں؛ اس لیے جمہوریت میں اقتدار کے تین حصوں کو الگ الگ نام دے کر ایک دوسرے کے لیے معاون اور ہر ایک سے آزاد رکھا جاتا ہے۔ چناں چہ اقتدار کا ایک حصہ ”مقننہ “ قانون سازی کا عمل انجام دیتا ہے اور اقتدار کا دوسرا حصہ ” انتظامیہ “ کا ہوتا ہے، جس کو امور حکومت کی انجام دہی میں انتظامی پہلووٴں کا خود مختار ادارہ بنایا جاتا ہے اورتیسرا حصہ ” عدلیہ “ کا ہوتا ہے، جو دونوں اداروں اور حصوں پر بالا دستی رکھتے ہوئے اپنے امور کی انجام دہی میں ترقی کی راہ پر رواں دواں ہوتا ہے۔ اگر کسی بھی باشندے کو ” مقننہ “ یا ” انتظامیہ “ سے کوئی شکایت درپیش ہوتی ہے تو ” عدلیہ “ سے وہ رجوع کرتا ہے اور ” عدلیہ “ اپنی بالادستی کی بنیاد پر نہایت منصفانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے بلا خوف لومة لائم اس کی شکایت کو رفع کرتا ہے۔

            بھارت کا آئین بھی اسی نوعیت کی حکمرانی پر یقین رکھتا ہے، جہاں آئین ہند کی روشنی میں ” مقننہ “ ”عدلیہ“اور ” انتظامیہ“ تینوں حصے اقتدار کی آزادی کے ساتھ اپنے اپنے دائرہ اختیار میں کام کرتے ہیں اور ”عدلیہ “ کی بالا دستی میں سارے امور انجام پذیر ہوتے ہیں۔ ان تینوں اداروں پر اگر کسی حکمراں کی بالا دستی قائم ہوجائے تو جمہوریت کا خاتمہ کہلائے گا اورظلم و ستم کا دور دورہ شروع ہوجائے گا۔

            بد قسمتی سے بھار ت میں بھی حکمرانی کا یہی طور طریق شروع ہوچکا ہے۔ عدلیہ کی بالادستی کا خاتمہ صاف نظر آرہا ہے، مقننہ اور انتظامیہ سے جمہوریت کی شکایت کو دور کرنے کا اب راستہ تقریباً مسدود ہوگیا ہے۔

            اسی صورتِ حال کے پیشِ نظر ہر خردو کلاں اورہر امیر و غریب پریشان اور حالات سے بے حد کبیدہ خاطر نظر آرہا ہے، جس کا پرزور جمہوریت کی بحالی ہے اور ہندستانی عوام جمہوریت کی بحالی کے ذریعے اپنے ساتھ انصاف کا مطالبہ کررہے ہیں اور ظلم و ستم کی عملی مظاہرے کو اپنے ساتھ روا رکھنے کے کسی طرح حق میں نہیں ہیں۔

            اسلام نے سیاسی وسماجی میدانوں میں جو اصول وخطوط طے کیے ہیں ان کی روشنی میں ملک کے کسی بھی باشندے کو کبھی چنداں شکایت کا موقع نہیں ملتا، اگر شکایت ہو بھی جاتی ہے تو اس کو سننے کے لیے عدالت کے دروازے منصفانہ کارروائی کو بروقت انجام دینے کے لیے ہمہ وقت وارہتے ہیں۔ انصاف کا فیصلہ دیر سے بھی آئے تو بھی اسلام اسے پسند نہیں کرتا، اسلام ذرا بھی دیر انصاف کے لیے گوارا نہیں کرتا۔ اسلام تو یہاں تک کہتاہے کہ ”مطل الغنی ظلم “ مال دار کا حق کی ادائیگی میں غریب کے ساتھ ٹال مٹول کا رویہ بھی ظلم میں داخل ہے۔ مزدور نے اگر کسی مال دار یا عام شخص کی مزدوری کرکے اپنے لیے پیسے کمائے ہیں تو یہ اس کا حق مال دار یا عام شخص پر واجب ہے، جس کو ادا کرنے میں دیر کرنا بھی ظلم ہے۔ اسی لیے حکم ہے کہ مزدور کو اس کی مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پیشتر ہی دے دیا کرو۔ حدیث شریف میں وارد ہے کہ اعطوا الاجیر اجرتہ قبل ان یجف عرقہ (عن جابر  )

            جمہوری نظام میں جتنی باتیں عدل گستری اور انصاف پروری کی وقوع پذیر ہوتی ہیں، اسلام اس کی بھر پور تائید کرتا ہے۔ اس کا قانون اسلام کی آئینی دفعات میں اس طرح ثبت ہے کہ ﴿لا یجرمنکم شنان قوم علی ان لا تعدلوا، اعدلوا ہو اقرب للتقویٰ ﴾کسی قوم سے دشمنی کی آزو آتش تم کو اس بات پر قطعاً آمادہ نہیں کرنا چاہیے کہ تم انصاف کی دوا دوش سے سرِ مو بھی انحراف کرنے والے بن جاوٴ۔ دیکھو! انصاف کا دامن تھامے رہنا، یہی خدا سے ڈرنے اور بچاوٴ کا قریب ترین راستہ ہے۔

            اسی لیے اللہ تعالیٰ نے خود قرآنِ کریم میں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث شریف میں مسلمانوں کے امیر وخلیفہ کے اوصاف واخلاق اور اس کے کردار وعادات کے بارے میں روشناس کرایا ہے، لیکن حتمی طور پر امیرو خلیفہ کے تقرر کے لیے کوئی ایک طریقہ ایسا متعین نہیں کیا ہے، جس سے انحراف؛ ضروریات دین سے انحراف کہلاتا ہو۔ چناں چہ ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے پردہ فرماگئے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات میں اپنی جگہ پر کوئی اپنا خلیفہ، جانشین یا امیر المومنین نہیں مقرر فرمایا۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ مختلف حالات وواقعات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا اشارہ ضرور دے دیا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ جانشینی اور خلافت کے زیادہ مستحق ہیں۔ اپنی بیماری کے ایام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے امامت کے فرائض، اپنے خاص مصلے پر کھڑا ہوکر انجام دینے کے لیے مکلف بنایا۔ ۹/ہجری میں جب موسمِ حج آیا تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ” امیر الحج “ بناکر مکہ روانہ فرمایا۔ کچھ اور بھی واقعات سیر و سوانح کی کتابوں میں موجود ہیں، جو اس بات کے غماز ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی منصبِ خلافت کے لائق اور زیب جانشینی ہیں۔ یہ واقعات اس بات کی دلیل ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابو بکر رضی اللہ عنہ کو منصبِ خلافت دینا چاہتے ہیں، لیکن خود تعیین نہیں فرمائی اور اس جہانِ رنگ وبو سے رخصت ہوگئے۔

            نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طرز سے ایک حد تک واشگاف ہوتا ہے کہ خلیفہ کے تقرر کا اختیار جمہور مسلمانوں کو حاصل ہے۔ منصبِ خلافت پر متمکن اور جلوہ افروز کرنے کا اگر کوئی اور ” احوط اورانسب “ طریقہ ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حیات میں اس کو ضرور ترجیح دیتے۔

            نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کچھ جلیل القدر صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیز و تکفین میں مصروف تھے اور ادھر کچھ انصار مدینہ کا اجتماع سقیفہ بنی ساعدہ میں انتخاب امیر کے لیے منعقد ہوا، جیسے ہی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو اس کی اطلاع ملی کہ سقیفہ بنی ساعدہ میں انصار مدینہ امارت و خلافت کے موضوع اٹھارہے ہیں، وہیں پہنچ گئے اور خلافت وامارت کی تعیین پر مشاورت کا عمل شروع ہوا، پھر صحابہ کی اکثریت نے خوشی سے آپ کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔

            حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اپنے انتقال سے پہلے ہی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو خلافت کے منصبِ جلیل کے لیے اگر چہ نامزد کردیا تھا، لیکن آپ نے اس عظیم الشان اقدام کے لیے کئی ایک صحابہ سے بار بار مشورہ لیا پھر تمام لوگوں کو جمع کرکے ارشاد فرمایا : کیا آپ لوگ اس شخص کے سلسلے میں اپنی رضا کا اظہار کرتے ہو، جسے میں اپنا جانشین مقرر کررہا ہوں۔ خدائے وحدہ لاشریک کی قسم ! میں نے رائے قائم کرنے میں اپنے ذہن پر زور ڈالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور میں اپنے کسی خاندان یا رشتے داروں میں سے کسی کو خلیفہ نہیں بنارہا ہوں، بل کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنا رہا ہوں۔

            اس طرح حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی صحابہ کے مشورے سے اور سب کے متفق ہوجانے کے بعد خلافت کے منصب کے لیے منتخب کرلیے گئے۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا زمانہٴ خلافت شروع ہوا، فتوحات وغیرہ کا سلسلہ جاری رہا، یہاں تک کہ آپ رضی اللہ عنہ کے دور ِخلافت کے آخری سال ایام ِحج میں کسی شخص کو یہ کہتے سناگیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے انتقال کے بعد میں فلاں شخص کو خلیفة المسلمین بنالوں گا۔اس لیے کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ جو خلیفہ اولیٰ تھے وہ بھی تو اچانک خلیفة المسلمین بنے تھے۔

            حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس شخص کے قول کا نوٹس لیا، مدینہ منورہ میں مسجد نبوی میں سب کو اکٹھا کیا اور تاریخ ساز خطبہ دیا: جس میں انہوں نے فرمایا کہ مجھے اطلاع ملی ہے کہ تم میں سے ایک شخص کہتا ہے کہ

             ” اگر عمر فاروق انتقال کرجائیں تو میں فلاں شخص سے بیعت کروں گا۔“

            دیکھو! تمہیں کوئی یہ کہہ کر دھوکہ نہ دے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت ہنگامی حالت میں وجود پذیر ہوئی سن لو! وہ ایسی ہی تھی لیکن خداوند قدوس نے اس طرح امت کو شر سے محفوظ رکھا۔ آگے خطبے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” جس کسی نے مسلمانوں کے مشورے کے بغیر کسی سے بیعت کی تو بیعت کرنے والا اور جس کی بیعت کی گئی ہو دونوں اپنی جانیں گنوابیٹھیں گے۔ اس پیغام میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ (جن کے بارے میں ”لوکان بعدی نبی لکان عمر “ وارد ہوا ہے )لوگوں کو بتلارہے ہیں کہ اگرچہ حضرت ابوبکر صدیق  کی خلافت ایک ہنگامی حالت کی بنیاد پر جلدی سے ہوگئی تھی، لیکن اس سے دھوکہ نہ کھانا، مسلمانوں کے باہمی مشورے سے ہی خلافت کی تعیین وتشکیل ہوگی۔

            وقت گزرتا گیا،حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فجر کی نماز میں ایک حملہ آور فیروز ابو لوٴلوٴ کے حملہ کرنے سے زخمی ہوگئے۔زخم کاری تھا شہادت مقدر ہوچکی تھی، لوگوں نے خلافت پر گفتگو کی کہ کسی کو آپ اپنے بعد خلیفة المسلمین مقرر فرمادیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ اگر میں اپنے بعد کسی کو خلیفہ مقرر کرتا ہوں تو میرے لیے مجھ سے بہتر شخص حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ذات بہترین نمونہ ہے کہ وہ خلیفہ مقرر کرکے اس دنیا سے رخصت ہوئے اور خلیفہ نہیں مقرر کرتا تو بھی میرے لیے مجھ سے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بہتر ذات اقدس میں نمونہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خلیفہ مقرر نہیں فرمایا۔

            چناں چہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میرے والد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو یہ بات فرمائی تو مجھے یقین ہوگیا کہ آپ خلیفہ مقرر نہیں فرمائیں گے؛چناں چہ آپ نے سات رکنی ایک کمیٹی تشکیل دی، جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ، حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ، حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ، حضرت زبیر رضی اللہ عنہ اورحضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہماکو شامل فرمایا اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو دل جوئی کے لیے شریک کرلیا تھا۔ خلافت کے لیے بقیہ ۶/ افراد کمیٹی میں سے کسی کو بھی منتخب کیا جاسکتا تھا۔

            اس ۷/ رکنی کمیٹی نے باہمی مشورے اور خوب چھان بین اور تحقیق کے بعد حضرت عثمان بن عفان ذی النورین رضی اللہ عنہ کو مسلمانوں کا تیسرا خلیفہ بنادیا۔ حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ نے خلافت کا بار باحسن وجوہ سنبھالا، مسلمانوں کو آپ کے دورِ خلافت میں بھی خوب ترقی ملی۔کتابوں میں آتا ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اپنے بعد حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنانے کے لیے ایک کاغذ میں اپنے منشی کے پاس لکھواکر رکھ دیا تھا، لیکن قضا اور قدر کہیے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت سے پہلے ہی حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ۳۲ھ میں اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔ ایک روایت سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنا خلیفہ حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کو بنانا پسند فرمایا تھا، لیکن جب شر پسندوں اور باغیوں کے ہاتھوں آپ رضی اللہ عنہ کی شہادت کا سانحہ پیش آیا تو ۵/ دن تک غافقی بن حرب نامی شخص نے مدینہ منورہ پر اپنا قبضہ جمائے رکھا۔ ایسی حالت میں اہل ِمصر حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو، اہل کوفہ حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کو اور اہل بصرہ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کو مسلمانوں کا خلیفہ بنانا چاہتے تھے؛لیکن یہ تینوں حضرات نے خلیفہ بننے سے انکار کردیا۔ یہ لوگ پھر حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کے پاس گئے، ان دونوں حضرات نے بھی خلافت کی ذمے داری سنبھالنے سے صاف انکار کردیا۔ اس صورت حال میں عبد اللہ بن سبا یہودی شر پسندوں کا سرغنہ بھیس بدل کر مدینہ آیا اور اپنے لوگوں کو تاکید کی کہ خلیفہ بنائے بغیر اپنے اپنے علاقوں میں ہر گزواپس نہ جائیں۔

            ایک روایت یہ بھی ہے کہ اس دوران حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے خلافت کی باگ ڈور سنبھالنے کو کہا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

             ” میری بیعت خفیہ طریقے سے نہیں ہوسکتی، یہ مسلمانوں کی مرضی سے ہونی چاہیے۔ “

            ایک دوسری روایت میں آپ رضی اللہ عنہ کا جواب یوں منقول ہے کہ ” یہ اہلِ شوریٰ اور اہلِ بدر کا کام ہے، جسے وہ منتخب کریں وہی خلیفہ ہوگا ۔پس ہم جمع ہوں گے اور اس معاملے پر غور کریں گے۔“

            ان چاروں خلفائے راشدین کے طرز ِعمل اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسلوب وطریقہ کار سے صاف پتہ چلتا ہے کہ خلیفہ کے انتخاب میں مشاورت اور جمہور کی رائے کو خاصی اہمیت حاصل ہے۔

            اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشاورت پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے خلافت کے عمل کو رہنے دیا اور وقتاً فوقتاً مختلف واقعات سے امت کو اشارہ دیتے رہے کہ تمہارے مشورے میں کردار واخلاق اور اعمال وصفات کی بنیاد پر ہی خلافت کا انتخابی عمل انجام پذیر ہونا چاہیے۔

            معنی کے اعتبار سے جمہوریت اور مشاورت شریعت کے احکام سے میل کھاتی ہوئی نظر آتی ہے، جو طریقہ جمہوریت کا احکام اسلام سے متضاد ہے، اسے اکابر امت نے بھی تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔

            اسی لیے حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ نے جمہوریت کی سخت الفاظ میں تردید فرمائی ہے ؛ لہٰذا ہم کو چاہیے کہ شریعت کی تشریح وتعمیل میں اپنے اکابر کی تشریحات کو ضرور سامنے رکھیں ۔ اس کے بغیر نہ کوئی اپنی ذاتی رائے قائم کرے نہ ہی کسی ذاتی تشریح پر بعجلت تمام عمل پیرا ہونے لگے، ورنہ تحریف ِعملی اور تحریف اعتقادی کا شکار ہونے میں دیر نہ لگے گی اور ہم محنت بھی کریں گے تو ہماری محنت ﴿ الذین ضل سعیہم فی الحیاة الدنیا وہم یحسبون انہم یحسنون صنعا ﴾اللہ تعالیٰ ہم سب کو صراط مستقیم پرگامزن رکھے ۔ آمین!