جانے والاگیا،داستاں رہ گئی

تحریر :شفیع احمدقاسمی اِ جرا،مدھوبنی/استاذجامعہ اکل کوا

”بڑی مشکل سے ہوتاہے چمن میں دیدہ ورپیدا“

میری نظراٹک گئی: 

             ۱۹/ محرم الحرام ۱۴۴۲ھ مطابق ۸/ستمبر۲۰۲۰ء کی تاریخ اورمنگل کی صبح تھی ۔جب راقم السطورنے نمازِ فجر سے فراغت کے بعد ہاتھ میں موبائل تھاما۔اور نہ چاہتے ہوئے واٹس ایپ پرایک سرسری اوراچٹتی سی نظر ڈالی تو دل کی دنیاکوزیروزبر کرنے والی ایک خبردل خراش پر نظر اٹک کررہ گئی۔ یکا یک زبان پرسکتہ ،ہاتھوں میں لرزہ اور آنکھوں کے سامنے عجیب سااندھیرا چھاگیا۔یقین کی دنیاتزلزل کاشکارہوگئی اورپھرجامعہ مظہر سعادت ” ہانسوٹ“ ضلع بھروچ (گجرات) کی پُربَہاراورسحرآفریں فضامیں بیتے ہوئے تقریباً ۷/ سالہ زندگی کاہرلمحہ یادوں کے دریچے سے اچھل اچھل کرجھانکنے اور ہَل چَل مچانے لگا۔ وہ کرب ناک،الم ناک،غم ناک،افسوس ناک اور دردناک خبریہ تھی کہ” جامع المعقول والمنقول اورعظیم محدث حضرت مفتی عبداللہ پٹیل مظاہری  عینِ فجر کے وقت اِس دارفانی سے دارجاودانی کی طرف رخصت ہوگئے “۔اناللہ واناالیہ راجعون!

 لوگ آتے جاتے رہیں گے:

            یہاں کسی کوقرارنہیں اورنہ رہے گا۔لوگ یہاں آتے ہیں اوراپنی مدتِ قیام پوری کرکے وہاں چلے جاتے ہیں،جہاں سے واپسی کاکوئی ٹکٹ ہی نہیں ملتا۔یہاں کاآناہی اِس بات کاسگنل ہے کہ اُسے بہرحال بوریا بستر لپیٹ کرجاناہی پڑے گا۔اِس میخانہٴ کائنات میں کسی کوبھی آبِ حیات کاجام جاودانی نوش کرنے کاموقع نہیں دیاجاتا۔شایدیہی وجہ ہے کہ دنیاکے نقشہ پرکروڑوںآ ئے اورگئے اورقیامت تک یوں ہی آتے اور جاتے رہیں گے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اُن جانے والوں میں سے کچھ ایسی نادرشخضیات اورنفوسِ قدسیہ ہوتے ہیں، جن کی سدابَہار یادوں کی خوش بو برسہا برس تک دل ودماغ کومعطرکیے رکھتی اور خون دل رلاتی رہتی ہیں۔ایسی ہستیوں کی تاریخ کے سینہ پربڑی گہری چھاپ ہوتی ہے،جوآسانی سے نہیں مٹتی۔ اُن ہی دیدہ وچیدہ،قابل قدر اور فقید المثال شخصیتوں میں سے ایک نام حضرت مفتی عبداللہ پٹیل مظاہری کابھی شامل ہے،جواَب بہ مشیتِ ایزدی ہمارے درمیان سے اٹھ کر خالقِ موت وحیات کے پاس چلے گئے ۔

 ارشادِ ربُّ العبادہے:﴿ وَمَاجَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِکَ الْخُلْدَ اَفَاْئِنْ مِّتَّ فَھُمُ الْخٰلِدُوْنَ﴾اِس لیے

انساں کو چاہیے کہ خیالِ قضا رہے

ہم کیا رہیں گے ، جب نہ رسولِ خدا رہے

ولادت وابتدائے تعلیم:

            حضرت مفتی صاحب کی ولادت رویدرہ ضلع بھروچ کی پٹیل برادری میں محمدپٹیل بن حاجی محمدابراہیم کے گھر۲۸/جمادی الاولیٰ ۱۳۷۱ھ مطابق ۲۴/فروری ۱۹۵۲ء کوپیرکی شب میں ہوئی ۔آپاپنے ۱۱/ بھائی بہنوں میں تیسرے نمبرپرتھے۔تعلیم کی بسم اللہ ۱۳۷۷ھ مطابق ۱۹۵۸ء سے ہوئی۔الف باسے لے کرناظرہ کی تکمیل کے بعدحفظ کی ابتدااپنے گاوٴں رویدرہ ہی میں ہوئی۔۱۳۸۲ھ مطابق ۱۹۶۲ء میں گجرات کے مشہور چمنستانِ علم ”جامعہ تعلیم الدین“ڈابھیل میں داخل ہوکرتکمیلِ حفظ کے علاوہ عربی دوم تک تعلیم حاصل کی۔بعدازاں ۱۳۹۰ھ مطابق ۱۹۷۱ء میں جامعہ مظاہرعلوم سہارن پور(یوپی)کارخ کیااورعربی سوم میں داخلہ لے کر۱۳۹۵ھ مطابق ۱۹۷۶ء میں سند فضیلت حاصل کی اور افتا بھی یہیں ہوا۔

رشتہٴ ازدواج :

            اب زندگی کی ۲۰/بَہاریں دیکھنے کے بعدسیدالکل فی الکل محمدعربی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد”اَلنِّکَاحُ مِنْ سُنَّتِیْ“کی روشنی میں رسم مناکحت اداکی گئی۔یہ نکاح۲۳/ذی الحجہ ۱۳۹۷ھ مطابق ۵/دسمبر۱۹۷۷ء سوموار کے دن پانولی کے یعقوب بھائی کی دخترسے مدینہ منورہ میں وکالةً ہوا۔اِس بابرکت نکاح کے قاضی حضرت جی مولاناانعام الحسن صاحب تھے اورآپ کی طرف سے ایجاب آپ کے استاذ محترم حضرت مولانا محمدبن سلیمان جھانجھی نے کیاتھا اور رواجِ عام کے مطابق نکاح کے فوراً ہی رخصتی عمل میں نہیںآ ئی ، بل کہ ۱۶/صفرالمظفر۱۳۸۹ھ مطابق ۲۶/ جنوری ۱۹۷۸ء کوجمعرات کے دن ہوئی۔چناں چہ اِس بابرکت رشتہ میں اللہ تعالیٰ نے بڑی برکت دی،جس کے نتیجہ میں آپ کے سبھی ذکورواناث اولادکی تعداد۱۲/ہیں۔جن میں سے ۸/لڑکے اور۴/ لڑکیاں ہیں۔ آپ کوسبھی لڑکوں کے نام کے شروع میں”عبید“کالفظ جڑاہواملے گااورلڑکیوں کے نام کاماخذ”حسن “ہی نظرآئے گا،جس سے حضرت مفتی صاحب کے ذوقِ حسن کی شہادت ملتی ہے۔

تدریسی زندگی کاآغاز:

            گجرات کی سرزمین پرسورت ضلع میں ترکیسرکے مقام پرواقع ”جامعہ فلاحِ دارین سے کیااورمسلسل ۸/ سال تک تدریسی خدمات کوبہ حسن وخوبی انجام دیا۔ جامعہ میںآ پ کی صلاحیت اورتبحرعلمی کالوہاماناگیا۔فہم وتفہیم کے خداداد ملکہ نے سبھی طلبہ واساتذہ میں دھوم مچادی اورہرایک کے دل پراپناعلمی سکہ جمایا۔یہاں کے دورانِ قیام؛ مختلف علوم وفنون پڑھانے کاموقع ملا،جس سے آپ کے علم میں بھی خوب گہرائی وگیرائی پیداہوئی۔

جامعہ ہانسوٹ کی بنیاد:

            جامعہ فلاحِ دارین سرزمینِ گجرات پرایک روشن مینارکی حیثیت رکھنے والاادارہ ہے،جس سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔لیکن یہ بھی ایک سچ ہے کہ وہ آپ کی اصل منزل نہیں تھی۔شایدیہی وجہ رہی کہ آپ نے ایک بڑے ادارہ کے قیام کامنصوبہ بناکرعلم وعمل کی روشنی سے دور،جہالت سے بھرپوراور”انکلیشور“سے ۱۹/کیلومیٹردورقصبہ ”ہانسوٹ“ کے مغربی جانب اوربحرعرب سے صرف۲۰/کیلومیٹرپیچھے ”کنٹیاجال“روڈپر۳۰/ایکڑوسیع وعریض اراضی پر اکابروبزرگان دین کے مشورے سے اللہ رب العزت کانام لے کر۸/جمادی الاولیٰ ۱۴۰۵ھ مطابق ۳۰/ جنوری ۱۹۸۵ء کوبدھ کے ایک ادارے کی بنیادرکھ دی۔

ادارہ کی وجہ تسمیہ:

            نسبت بھی بہت بڑی چیزہوتی ہے۔صحابیت کی نسبت نے صحابہ کوزندہ جاویدبنادیا۔عصائے موسیٰ،دم عیسیٰ،ناقہٴ صالح اورسگِ اصحابِ کہف؛سب ہی کونسبت نے کہاں سے کہاں پہنچادیا۔لہٰذایہاں پربہتریہی ہے کہ”صَاحِبُ الْبَیْتِ اَدْریٰ بِمَا فِیْہِ“کی روشنی میں ملاحظہ کریں۔حضرت مفتی صاحب خودہی فرماتے ہیں: ”کہ جامعہ کے سلسلہ میں بہت سے نام میرے ذہن میں تھے۔بالآخرایسانام؛جوظاہری وباطنی معنی پربھی دلالت کرے اوراپنے اساتذہٴ کرام کی نسبت کوبیان کرے سمجھ میںآ یا۔اکابرعلماومشائخ کرام سے مشورہ کیااوربانیانِ مظاہرعلوم سہارن پور حضرت مولانامظہرصاحب نانوتوی مع فقیہ سہارن پورحضرت مولاناسعادت علی صاحب اور حضرت مولانا اسعد اللہ صاحب کے مبارک ناموں سے اِستبراک ونیک فال لیتے ہوئے اِس ادارہ کو ”جامعہ مظہر سعادت“کے نام سے موسوم کیا“۔

 (تحفہٴ سعادت:ص۱۷)

            چناں چہ اللہ کی نصرت،اکابرکی توجہ اورمفتی صاحب کی محنت سے یہ ادارہ ایسے برگ وبار لایا کہ ارشادِ باری تعالیٰ:﴿کَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ اَصْلُھَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُھَا فِی السَّمَآءِ﴾ کا حقیقی مصداق بن گیا۔ اللہ رب العزت نے اپنے فضل وکرم سے جامعہ کواِس قدرترقیات سے نوازا کہ جلدہی گجرات کے بڑے مدرسوں کی فہرست میں اِس کا شمار ہونے لگا۔

جامعہ میں میری حاضری:

            یہ ۱۴۱۹ھ مطابق ۱۹۹۸ء کی بات ہے ۔جب مولانامحمدسہیل دربھنگوی سابق استاذجامعہ ہانسوٹ کے توسط سے جامعہ میں احقرکوبلایاگیا۔جب پہلی بار دفترمیں حاضری ہوئی تودیکھاکہ ایک شخصیت؛لحیم وشحیم اور علمی رعب وجلال کی تصویر لیے اپنے مسندپرجلوہ افروزہے۔سامنے چندطلبہ؛مانندستاروں کے قطارمیں بیٹھے ہیں اور اشکالات ودفع اشکالات کاسلسلہ جاری ہے۔مجھے دیکھتے ہی فوراً ہی اپنے علمی اندازمیں پوچھ بیٹھے کہ ”الاشباہ والنظائر“کے مصنف ۲/حضرات ہیں اورآپ کیسے یہ فیصلہ کریں گے کہ کون سی ”الاشباہ“کس فن سے تعلق رکھتی ہے؟میں نے کہاکہ اگرابن نجیم مصری کی ہوگی تو فن اصول فقہ میں اوراگرعلامہ سیوطی کی لکھی ہوگی توفن نحوسے متعلق ہوگی۔جواب سن کرشاباشی دی اور انٹرویوکاسلسلہ اِسی پرختم ہو گیا ۔ کتب خانے کے ذمہ دارسے کام کی نوعیت سمجھانے کی بات کرکے وہاں سے رخصت کردیاگیا۔اِس کے بعدجیسے جیسے احقرکے قیام جامعہ میں قدامت کا رنگ چڑھتا گیا ویسے ہی حضرت مفتی صاحب کے عبادات، اخلاقیات، معاملات اوراحسانات کارنگ نکھرتا گیا ۔

مفتی صاحب کانرالاذوق:

            رب کریم نے اپنی شانِ کریمی سے حضرت مفتی عبداللہ صاحبکوعجیب البیلے ذوق سے نوازاتھا،جن میں سے کچھ نمونے ابھی نہاں خانہٴ دماغ سے باہرنکلنے کوتیارہیں،جسے آپ کی خدمت میں حاضرکر رہا ہوں۔ پڑھیے اوراندازہ لگائیے !

چلیے کتب خانہ میں:

            آپ کتب خانہٴ جامعہ کی سیرکیجیے توپتاچلے گاکہ کتب خانہ میں۳۶/فنون سے متعلق الگ الگ رنگوں کا انتخاب کررکھاہے ۔اِس کافائدہ یہ ہے کہ ایک فن کی کتاب اگرکسی بے ذوق؛بل کہ بدذوق نے دوسرے فن میں رکھ دی تو فوراً پتاچل جاتاہے کہ کتاب غلط جگہ پررکھ دی گئی ہے ۔کتابوں کی پشت پرلگی رنگین چِٹ آپ کے ذوق سلیم کا مذاق اڑاتے ہوئے زبان حال سے کہہ رہی ہوگی کہ نہ جانے کیسے بد ذوق سے پالاپڑگیاہے ، اِسے یہ بھی پتا نہیں کہ میرامقام یہ نہیں ہے۔

چادرپرتشریف رکھیے:

             تویہاں بھی حضرت کے ذوقِ نفاست کی شہادت ملے گی۔عام طورپرہم لوگ دیکھتے ہیں کہ چادرکے حاشیے پر”شولاپور،کولہاپور“یا”باغوان“ وغیرہ لکھاہوتاہے ،لیکن مفتی صاحب نے باضابطہ فیکٹری مالکان سے رابطہ کرکے ایک ہی رنگ میں مختلف ڈیزائنوں کی چادریں بنوارکھی ہیں۔اگریقین نہ آئے تو آپ خودہی پورے احاطہٴ جامعہ کا چکرلگاکرمشاہدہ کرلیجیے۔ہرجگہ اورہرچادرکے حاشیہ پر آپ کو ”جامعہ ہانسوٹ“ ہی لکھاملے گا۔

مفتی صاحب نے تالابنوایاتھا:

            اِسی طرح سے مرحوم نے راقم السطورہی کے دورمیں سنہرے رنگ کے۵۰/ عددتالے آرڈردے کر بنوائے تھے۔ ہرتالے پرآپ نے ”جامعہ ہانسوٹ“کندہ کروایاتھا۔اُس تالے کی ایک عجیب خوبی یہ تھی کہ ہرتالے اورچابی پر ا/ سے لے کر۵۰/ تک کاسلسلہ وارنمبردرج تھا۔جس نمبرکاتالاکھولناہواُسی نمبرکی چابی لازمی ہے ،ورنہ آپ چاہے جتنا بھی سر پٹک لیں،تالاہرگزنہیں کھلے گا۔ حالاں کہ غورسے دیکھیں گے تومعلوم ہوگاکہ چابی کے ڈیزائن میں ذرا بھی فرق نہیں ہے ۔انہیں ۵۰/تالوں کی ۲/چابیاں ایسی بھی ہیں ،جس پر۱/تا۲۵/اوردوسری چابی پر ۲۶/ تا ۵۰/ نمبر درج تھا۔ اس کا نام ”مفتاح الاقفال“ تھایاانگریزی میں (Master Key)سے پہچانا جاتا تھا۔اِس کی خوبی یہ تھی کہ پہلی چابی سے ۱/تا۲۵/اوردوسری چابی سے ۲۶/ تا ۵۰/ نمبرکے کسی بھی تالے کوآپ بغیر کسی پریشانی کے کھول سکتے ہیں۔

قرآنی میوزیم:

            ۲۸/تا۳۰/ربیع الاول ۱۴۱۹ھ مطابق ۲۲/تا۲۴/جولائی ۱۹۹۸ء کوجامعہ اشاعت العلوم اکل کواضلع نندوربارکے زیر اہتمام چلنے والے” آل گجرات مسابقة القرآن الکریم“ کے موقع پرقرآن کریم کے نادرونایاب اور چھوٹے بڑے نسخوں کو ملک وبیرون ملک سے رابطہ کرکے اکٹھا کیاتھا۔اُن میں ایک۳۰۰/سالہ قدیم نسخہ سید سیلانی لنکاپتی کے ہاتھ کا لکھا ہوابھی ہے۔ایک قرآن کی ہر سطر ”الف“سے شروع ہوتی اورالفی کہلاتی ہے ۔اِسی طرح ایک نسخہ ”واوٴ“سے شروع ہو کر واوی کے نام سے موسوم ہے ۔پھرایک ایساقرآن بھی نظرآتاہے جو بغیر روشنائی کے اُبھرے حروف میں ہے اور اِس کی کتابت ناخن سے کی گئی ہے ۔قرآن کریم کاایک ایسانادرنسخہ بھی ہے،جس کا ایک پارہ ایک ہی ورق میں ہے ۔قصہ مختصریہ کہ اِس میوزیم کی دل کشی اورزیبائی ورعنائی زائرینِ جامعہ کی پوری توجہ اپنی جانب کھینچ لیتی ہے اورزائر مفتی صاحب کے ذوقِ نفیس کی داددیے بغیرنہیں رہتا۔ظاہربات ہے کہ یہ بڑاہی علمی کام ہے،جس پرماضی میں شایدکسی کی نگاہ نہیں پڑی تھی۔

ایک انچ کاقرآن مجید:

            ایک بارتعطیل عیدالاضحی کے موقع سے مفتی صاحب کی عدم موجودگی میں مولانااحمدصاحب ٹنکاروی سابق استاذجامعہ ہانسوٹ اورموجودہ شیخ الحدیث جامعہ فلاح دارین ترکیسر کی ایماپر دہلی،دیوبند،سہارن پورکاسفر ہواتھا۔ اُسی موقع سے استاذِجامعہ اوررفیق محترم مفتی کلیم گنگوہی کی پُرخلوص دعوت پر گنگوہ بھی جاناہوااورقطب العالم حضرت مولانارشیداحمدگنگوہیابن مولاناہدایت احمدانصاری کے مزاراقدس پرحاضری کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔بہرحال اِسی سفرمیں دیوبندا ور دہلی کے مختلف کتب خانوں کی سیرکرتے ہوئے مٹیامحل دہلی کے مشہور اور معروف کتب خانہ”فریدبک ڈپو“میں بھی جانا ہوا، جہاں سے جامعہ کامعاملاتی ربط چل رہاتھا۔ میں نے وہاں قرآن کریم کاایک ایسانسخہ دیکھا، جس کی سائز صرف ایک انچ تھی۔میں منتظم کتب خانہ سے جامعہ کے قرآنی میوزیم کا تعارف کراتے ہوئے ۲/نسخے حاصل کر کے لایااور جامعہ کے قرآنی میوزیم کی زینت میں اوراضافہ ہوا۔

طلبہ واساتذہ کی تعلیمی نگرانی:

            حضرت مفتی صاحب اپنے طلبہ اورماتحتوں کوکام کابنانااورہمہ وقت تعلیمی وتعمیری کام میں مشغول دیکھنا چاہتے تھے، جس کی بناپراحاطہ میں دن رات کے کسی بھی وقت گھوم گھوم کرجائز ہ لیتے اورنگرانی فرماتے تھے،اِس بارے میں اُن کاکوئی ٹائم ٹیبل نہیں تھا۔اگرکسی کونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک فرمان”کُلُّکُمْ رَاعٍ وَ کُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعَیَّتِہ“کی تشریح دیکھنی ہو تو حضرت مفتی صاحب کی زندگی میں جھانک کراچھی طرح دیکھ سکتے ہیں کہ آخرت کی جواب دِہی کااحساس کس قدرغالب تھا۔یہی وجہ تھی کہ تمام ہی طلبہ اوراساتذہ اپنی اپنی درس گاہوں میں اوردیگر کارکنان اپنی مفوضہ ذمہ داری کی انجام دہی میں ہمیشہ کوّے کی طرح چوکنارہتے۔کیوں کہ کسی کوپتا نہیں ہوتا تھا کہ کب اور کدھر سے حضرت کا ورودہوجائے؟

اگرکوئی کوتاہی کاشکارنظرآتا:

            حیرت کی بات یہ ہوتی تھی کہ اگرکسی کوکوتاہی کامرتکب پاتے تواُسی جگہ سرزنش اورڈانٹ ڈپٹ نہیں کرتے،بل کہ چشم پوشی کرجاتے اورخاموشی کی چادرتان کروہاں سے گذرجاتے ۔اورجب دفترمیں پہنچتے تو پھر وہاں بلاکرایسانہیں کہ اپنے منصب کے مطابق پوری گرمی جھاڑدیتے ،بل کہ اگروہ طلبہ ہیں توسبق سے متعلق سوالات وجوابات کاسلسلہ شروع ہوجاتا۔اطمینان بخش جواب آپ کواطمینان دلادیتا۔ورنہ توپھرذراتیزلہجے میں گوش مالی کرتے ہوئے تعلیم کی طرف رغبت دلاتے اور اگراساتذہ یادیگرکارکنان ہیں تو نہایت لطیف پیرایے میں ذمہ داری اورعنداللہ جواب دہی کا احساس دلاتے ۔ ایک مہتمم اور کسی ادارہ کے بانی کی یہ ایسی خوبی اور ممتاز صفت ہے جواب رخصت ہورہی ہے،بل کہ ہمارے درمیان سے بالکل غائب ہی ہو چکی ہے۔

فکرِراحت رسانی:

            مرحوم میں جہاں بہت ساری خوبیاں قادرمطلق نے ودیعت کررکھی تھیں،وہیں ایک خوبی یہ بھی کوٹ کوٹ کربھری ہوئی تھی کہ اپنے اساتذہ اورطلبہ کی راحت رسانی کابھی پوراخیال رکھتے۔اِس بات کااندازہ کرنے کے لیے آگے کی تحریر کا مطالعہ کرنابے حدضروری ہے ۔

صبح کاسفرشام ہی سے شروع:

            اُس وقت ہم لوگوں کوگھرجانے کے لیے سورت سے اکلوتی ٹرین ؛صرف سومواراورجمعرات کوبہ نام ”تاپتی گنگا“ایکسپریس ہی ملتی تھی،جو اُس وقت سورت اسٹیشن سے صبح کے ۶/بجے ہی روانہ ہوتی تھی۔اب ظاہر بات ہے کہ ہانسوٹ سے سورت شہر کافاصلہ ۵۱/کیلو میٹرہے توگاڑی پکڑنے کے لیے ایک دن پہلے شام ہی میں بوریابسترتہہ کرناپڑے گا۔ اور اسٹیشن کی پُرشور فضا میں پوری رات گذارنی پڑے گی،اِس کے علاوہ کوئی چارہٴ کار نہیں ہے۔ایسی صورت میں جب مفتی صاحب جامعہ میں موجود ہوتے یااُن کوکسی طرح پتا چل جاتاتونہ اپنے پاس بلواتے اورنہ کسی کی معرفت کوئی پیغام بھیجتے،بل کہ بہ ذاتِ خود چل کرتشریف لاتے اورکہتے کہ آپ لوگ ابھی نہ جائیں۔اورپھرصبح۴/ بجے کے بعدجامعہ کی گاڑی یاعدم موجودگی کی صورت میں کسی دوسری گاڑی سے بہ نفس نفیس ہماری خالی جھولی میں اپنی خصوصی دعاوٴں کی سوغات دے کررخصت فرماتے ۔

ایک بارایسابھی ہوا:

            کہ مجھے اور جامعہ کے سابق استاذحدیث مفتی محمدفاروق قاسمی# دربھنگوی ؛حال مقیم ”جامعہ دارالاحسان“ بارڈولی کو وطن جانا تھا ۔مفتی صاحب سے ملاقات کے لیے گئے توکہاکہ جامعہ کی گاڑی واپی کے گیرج میں ہے ۔ اِس لیے ایساکریں کہ سرشام عصرکی نمازکے بعدہی ہانسوٹ سے نکل جائیں اور اسٹیشن ہی کے پاس ”ہوٹل روپالی“ میں پہنچ کر میرانام بتادیجیے گا۔ ہوٹل پہنچ کرحضرت مفتی صاحب کاحوالہ دیا توفوراً ہی بولے کہ ہاں!مفتی عبداللہ صاحب کا فون آیا تھا۔ آپ ۲/آدمی ہیں،اِس لیے الگ الگ روم لیں گے یاایک ہی روم میں رہنا پسند کریں گے؟ ہم لوگوں نے ایک ہی روم میں رہ کر شب گذاری کرنامناسب سمجھا۔ہوٹل کے مالک نے کافی راحت بخش کمرہ دے کر پھر ہوٹل ہی کی جانب سے رات کے کھانے کاانتظام کیاگیا۔پھرصبح ۵/بجے وہاں سے روانہ ہو کر اسٹیشن آئے توگاڑی کو پلیٹ فارم پر کھڑی پایا۔ہم لوگ سفرکی دعا:﴿ سُبْحٰنَ الَّذِیْ سَخَّرَلَنَا ھٰذَا وَمَا کُنَّا لَہمُقْرِنِیْنَ وَاِنّآاِلٰی رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ ﴾پڑھ کرسوارہوگئے اورآرام سے دوسرے دن گھرپہنچ گئے۔

․․․فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہ:

            حضرت ابوہریرہ کی روایت میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادہے :” مَنْ کَانَ یُوْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِفَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہ“ (اکرام الضیف:ص۲۲)

            اِس حدیثِ پاک کاخوش نمااورجاذب نظر؛منظردیکھنے کے لیے ہم آپ کوہانسوٹ کی سرزمین پرمفتی صاحب کی بارگاہ میں لے کرچلتے ہیں۔

            یوں تومعاشرے میں ہرآدمی مہمانوں کی خدمت کواپنی سعادت اورخوش بختی سمجھتاہے اوردل وجان سے خدمت کرتاہے ۔لیکن مفتی صاحب مرحوم کی بات اوراکرام مہمان کاجذبہ ہی جداہے ،بل کہ اُن کاہرانداز دلکش اور انوکھے پن کی دل کش تصویر ہے۔مہمان نوازی سے متعلق جوخوبی اوردریادلی میں نے جامعہ مظہر سعادت کی چہار دیواری میں دیکھی وہ کہیں نہ دیکھی اورنہ سنی ۔ مفتی صاحب جامعہ کی حدود میں صرف واردین وصادرین اور متعلقین ،محسنین ومنتسبین ہی کی ضیافت اورتواضع پر اکتفا نہیں کرتے تھے ۔بل کہ ناظم مطبخ موسیٰ پٹیل اوراستاذ حفظ حافظ سلیمان صاحب باندوی کو عام حکم تھاکہ کسی بھی استاذکے رشتہ داریادوست احباب ملنے کو آئیں اورآپ کے پاس خبرپہنچے توان کے کھانے کامعقول انتظام کریں۔ چناں چہ احقر بہ ذات خوداِس تجربہ کی راہ سے کئی بار گذر چکا اور دیگر احباب کی زبانی سن چکاہے ۔

             جیسے ہی کسی طالب علم نے جا کر ناظم مطبخ کے کانوں میں یہ آوازڈالی کہ فلاں استاذ کے یہاں اتنے مہمانوں کی آمدہوئی ہے ، تھوڑی دیر بعدہی خوان سجا کرکمرے تک بھیج دیاجاتا۔اوریہ صرف عمومی کھاناہی نہیں ہوتاتھا،بل کہ اکرام ضیف کی خاطر الگ سے کوئی نہ کوئی سالن ؛ مثلاً انڈا،گوشت ،سبزی یا دیگر کسی چیز کی دست یابی بروقت ہوجائے ،وہ استاذمذکورکے کمرہ میں بھیج دیا جاتا۔ اس لیے اساتذہ جامعہ کوکبھی مہمانوں کے تکریم کی کوئی فکرنہیں رہتی تھی۔

میڈیکل کیمپ:

            ایک عادتِ شریفہ یہ بھی دیکھنے میںآ ئی کہ اگرجامعہ کی سرحدمیں کسی طرح کاکوئی ہنگامی پروگرام منعقد ہوتا تو ایسامیں نے کبھی نہیں دیکھاکہ کارکنان اوراساتذہ کوکام میں لگاکرخودآرام سے سوجاتے ۔چناں چہ ۱۷/ جمادی الاولیٰ ۱۴۲۳ھ مطابق۲۸/جولائی ۲۰۰۲ء بروزاتوارکوجامعہ کی چہاردیواری میں جامعہ کی طرف سے مفتی صاحب کی ایما پر (United Medical Trust)کے شہرت یافتہ ڈاکٹر مہاڈیک کی قیادت میں (Medical Camp)لگایاگیا،جس میں سورت کے چندبڑے اسپتالوں سے ۳۲/ ڈاکٹروں کی ایک ٹیم آئی اورکل ۲۳۴۵/ مریضوں کی جانچ کرائی گئی تھی۔متعینہ تاریخ سے ایک دن پہلے کی بات ہے کہ رات بھرموجودہ دار القرآن کی عمارت کے سامنے والے سعادت پارک میں بینرس،ناموں کی تختیاں اور دیگرلوازمات کی تیاری چل رہی تھی۔ مفتی صاحب بھی اپنے ماتحتوں اورکارکنان کی حوصلہ افزائی کی خاطر عشاکے بعد سے صبح کے ۴/ بجے تک پارک میں موجود رہے ۔

            اللہ کریم نے حضرت مفتی صاحب کوگوناگوں خوبیوں اوراوصاف سے نوازاتھا۔پریشانی یہ ہے کہ اُن کی کن خوبیوں کونوک قلم کرکے عقیدت مندوں کے سامنے اجاگرکیاجائے اورکن خوبیوں کونظر انداز کیا جائے؟بس یہ میری سمجھ سے بالاترہے۔”سمجھ میں کچھ نہیںآ تاکہ چھیڑوں داستاں کیسے“۔

زندگی کے آخری لمحات:

            اِس لیے مضمون کومختصرکرتے ہوئے صرف اتنابتلادوں کہ حضرت کو۲۰۱۶ء میں اپنے ہی لگائے چمنستانِ علم وعمل سے دست بردارہوناپڑا۔اُن کی زندگی کے اوراق کھنگالیں گے تومعلوم ہوگاکہ جسمانی طورپرالگ تو ہو گئے،لیکن روحانی طورپراُسی چمن کی آبیاری میں اٹکے ہوئے تھے۔کچھ حاسدین کی نگاہِ کرم ایسی ہوئی کہ قتل کے کیس میں گھسیٹ کرجیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچادیا۔لیکن وہاں پربھی ارشادِرحمة للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم ”خَیْرُ النَّاسِ مَنْ یَّنْفَعُ النَّاسَ“کی ڈگرپرچلتے ہوئے اپنے وقت کوقیدیوں کے درمیان تعلیم اوراُن کی اصلاحِ احوال کے لیے استعمال کیا۔

            شوگراوردیگرامراض کے شکنجے میں پہلے ہی سے گھِرے ہوئے تھے،اِس حادثے کی وجہ سے گردے نے بھی چھٹی مانگ لی اورصحت دن بہ دن گرتی ہی چلی گئی ۔بہ غرضِ علاج (Parole) پراولاًسورت ہاسپیٹل میں بھرتی ہوئے ۔وہاں افاقہ نہ ہونے پربھروچ ہاسپیٹل میں داخل کیے گئے اوریہیں علم وعمل کانیر تاباں ، کردار کا غازی، علما کا قدردان،سراپاحلم ومروت اوراخلاص ووفا کا تاج محل سبھی محبین ومتعلقین اوراعزاواقربا کو روتا،بلکتا، سسکتا اور تڑپتا چھوڑکر عین فجر کے وقت داغِ مفارقت دے گیا۔جن کے بارے میں عروس البلادممبئی کی سرزمین پرفقہی سمینار کے موقع پر فقہ اکیڈمی کے بانی اورسابق صدرمسلم پرسنل لاء بورڈفقیہ العصر قاضی مجاہدالاسلام قاسمینے فرمایاتھا کہ: ”گجرات میں ۲/اہلِ علم ہیں اوراتفاق سے دونوں ہی کانام عبداللہ ہے ۔ ایک ضلع بھروچ کے کاپودرہ میں اور دوسرے ہانسوٹ میں ہیں“۔

وفات حسرت آیات:

            جاننے والے اِس بات کوبہ خوبی جانتے ہیں کہ حضرت مفتی صاحب کی زندگی کے آخری ایام بڑی ہی ابتلاوآزمائش کی نذرر ہے۔سنت یوسفی علیہ السلام کوگلے لگا کراورشعب ابی طالب کی یادتازہ کرکے آپ نے زندگی کی ۶۸/ بہاریں دیکھنے کے بعد (کل ۲۵۰۱۳/دن )اِس عالم فانی میں گذارکرعالم آخرت کی جانب کوچ فرمایا۔ یوں ارشاد رب العباد: ﴿کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ﴾کی صداقت دنیاکے سامنے آئی اورچاروناچارہرکسی کوبزبان حال یہ کہنا ہی پڑاکہ: ﴿وَلَنْ یُّوٴَخِّرَاللّٰہُ نَفْسًا اِذَا جَآءَ اَجَلُھَا۔ ﴾

بارگاہ ربی سے امیدہے :

            کہ اب حضرت مفتی عبداللہ صاحب اِس دارالغباریادارالفرارسے نکل کرایسی جگہ پر پہنچ گئے ہیں،جوکہ واقعی دار القرار ہے ۔جہاں اُن کوحاسدین ومعاندین کی طرف سے ستائے جانے کاکوئی خدشہ نہیں ہے اور کانوں میں رس گھولنے والی یہ صداگونج رہی ہوگی کہ:﴿اَلَا ٓاِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ

            توآئیے ہم لوگ بھی حضرت مرحوم کے لیے بارگاہِ ایزدی میں دست بدعاہوں اوردعائے ماثورپیش کریں:اللّٰھم اغفرلہ وارحمہ ۔ونقہ من الخطایاکماینقی الثوب الابیض من الدنس وباعد بینہ وبین معاصیہ کما باعدت بین المشرق والمغرب۔آمین یارب العالمین!

ستم کا آشنا تھا وہ سبھی کے دل دکھا گیا          کہ شام ِغم تو کاٹ لی،سحرہوئی تو چلاگیا