جانور تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر نثار تھے

معارف تھانوی 

جانور تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر نثار تھے:

             ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا: کہ صحابہ تو بڑی چیز ہیں، وہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہوں توکیا عجیب ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ ذات ہے کہ جانورتک آپ پر نثار تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع میں ترسٹھ اونٹ اپنے دست مبارک سے ذبح کیے، اور بقیہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کراکر سو پورے فرمادیے، اور ترسٹھ کے عدد میں ایک لطیفہ ہے کہ شاید یہ اشارہ ہو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سنینِ عمر کے عدد کی طرف، تو ذبح کرنے کے وقت ہر ایک اونٹ آپ کی طرف سبقت کرتا تھا کہ پہلے حضور مجھ کو ذبح کریں، حدیث کے الفاظ یہ ہیں :” کُلُہُنَّ یَزْدَلِفْنَ إِلَیْہ“(بخاری) اور اس سے جیسی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ محبوبیت معلوم ہوتی ہے، اسی طرح شانِ سلطنت معلوم ہوتی ہے، کیوں کہ سو اونٹ تو عادةً کوئی بادشاہ بھی ذبح نہیں کرتا، اور اگر کسی بادشاہ نے اس قدر اونٹ قربانی کر بھی دیئے تو یہ محبوبیت تو نصیب نہیں ہو سکتی، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس شانِ محبوبیت پر ایک شعر پڑھا کرتا ہوں۔

ہمہ آہوانِ صحرا سرِ خود نہادہ بر گف

بامید آنکہ روزی بشکار خواہی آمد

ترجمہ:

جنگل کے تمام ہرن اپنے سر ہتھیلی پر رکھے کھڑے ہیں

اس امید میں کہ شاید کسی روز تم شکار کے لئے آجاؤ

(ملفوظات حکیم الامت :۱/۳۰۱)

حضرت کا تقویٰ اور اس کے ثمرات:

             ایک واقعہ عجیب فرمایا کہ ایک مرتبہ میں بارہ اکبر پور ضلع کانپور گیا تھا، وہاں وعظ بھی ہوا تھا، وعظ کے بعد واپسی کے لیے تیاری ہوئی، اسٹیشن وہاں سے تقریباً چھ سات کوس کے فاصلہ پر تھا، اور کچھ ایسا زمانہ تھا کہ کبھی کبھی بارش بھی ہو جاتی تھی، اسی لیے میں احتیا طاً ظہر کے وقت روانہ ہو گیا، اگر چہ ریل رات کو نو بجے جاتی تھی، اتفاق سے اس وقت بھی تھوڑی تھوڑی بارش ہو رہی تھی، وہاں کے لوگوں نے تانگہ پر اچھی طرح سائبان کا انظام کر دیا تھا، میں مع ہمراہیوں کے سوار ہو کر چل دیا، اکبر پور میں ایک صاحب منصف تھے، وہ میرے شَناسا تھے، ان کو معلوم ہوگیا کہ وہ اس وقت اسٹیشن پر آرہا ہے، انہوں نے اسٹیشن ماسٹر کو ایک رقعہ لکھا کہ فلاں شخص اسٹیشن آ رہا ہے، شب کی گاڑی سے سوار ہوگا، اس کوکسی قسم کی تکلیف نہ ہو، کوئی خاص کمرہ آرام کے لیے تجویز کر دیا جاوے، وجہ اس کی تھی کہ وہ اسٹیشن جنگل میں تھا، اور بہت مختصر، جیسا یہ تھانہ بھون کا اسٹیشن ہے، کوئی جگہ اس پر ایسی نہ تھی کہ مسافر آرام کرسکے، یہاں پر تو بحمداللہ! مسافر خانہ بھی تیار ہو گیا ہے، اور منصف صاحب نے مجھ کو اس کی اطلاع نہیں کی کہ میں اسٹیشن ماسٹر کو لکھ چکا ہوں، اب جس وقت اسٹیشن پر پہنچے، ادھر تو بارش ہورہی تھی اور ادھر کوئی جگہ ایسی نہیں تھی کہ کپڑے ہی بچاسکیں،ادھر نماز کا وقت قریب تھا، عجب کشمکش تھی کہ وہ بابو آ یا، اس نے مجھ سے میرا نام دریافت کیا، نام سن کر اس نے ہم کو ایک کمرہ میں ٹھہرا دیا اور کہا کہ اس میں آرام فرمائیے، منصف صاحب کا میرے نام پر چہ آیا ہے کہ فلاں شخص اسٹیشن پر آرہا ہے، اس کو کوئی تکلیف نہ ہو، کمرہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اسباب وغیرہ کے رکھنے کا تھا، وہاں پر آرام سے نمازیں ادا کیں، جب مغرب کے وقت اندھیرا ہو گیا تو اس بابو نے ریلوے ملازم کو حکم دیا کہ دیکھو اس کمرہ میں روشنی کا انتظام کر دو، یہ سن کر مجھ کو بڑی فکر ہوئی، اور زیادہ اس وجہ سے کہ بابو” ہندو“ تھا، وہ فکر یہ ہوئی کہ یہ مسافرخانہ تو ہے نہیں، اگر مسافر خانہ ہوتا تو یہ خیال ہوتا کہ اس میں ریلوے قانون سے روشنی جائز تھی، یہ تو اسباب کا کمرہ ہے، صرف ہماری رعایت سے روشنی کی جاتی ہے، تو اس صورت میں ریلوے کے تیل سے انتفاع جائز نہیں ہو سکتا، اس لیے بڑی کشمکش ہوئی، اگر با بو سے منع کیا جاتا ہے تو یہ ہندو ہے، بیوقوف بنادے گا اور ہنسے گا، بات کو سمجھے گا نہیں، اب کیا کیا جاوے؟ اس وقت یہی سوجھی کہ دعا کرنا چاہیے، لہٰذا میں نے دعا کی کہ اے اللہ !بچنے کی صورت گو اختیاری ہے، مگر یہ ضعف ہے کہ اظہار پر شرم دامنگیرہے، اس لیے آپ ہی حفاظت فرمانے والے ہیں، آپ ہی حفاظت فرمائیں، یہ خیال دل میں آنا تھا کہ فورًا اسٹیشن ماسٹر نے اس نوکر کو آواز دے کر کہا کہ دیکھو”ریلوے کی لالٹین وہاں پر روشن نہ کرنا، بل کہ ہمارے نج کی (نجی) لالٹین روشن کر دینا“ یہ سن کر حق تعالیٰ کے انعام کا مشاہدہ ہوا کہ میں بیان نہیں کر سکتا، اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا، اب اس سے یعنی ہندو بابو سے کوئی پوچھتا کہ اس کو یہ خیال کیوں پیدا ہوا، خبر نہیں کیا جواب دیتا، یہ حق سبحانہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ اپنے بندوں کی حفاظت فرماتے ہیں: ﴿ وَ مَنْ یَتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہُ مَخْرَجًا وَیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لا یَحْتَسِبُ(سورہ طلاق:۲،۳)، ”جو شخص تقویٰ اختیار کرنا چاہتا ہے حق تعالیٰ اس کے لیے بچنے کی راہ نکال دیتے ہیں، اور ایسی جگہ سے رزق عطا فرماتے ہیں جہاں سے وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔“ (ملفوظ نمبر:۸ ۱)(منتخب ملفوظات : ۱/۵۲)