سفر نامہ رئیس جامعہ حضرت مولاناحذیفہ صاحب دامت برکاتہم
تحریرہذا میں آپ کے اسفار، کچھ عالمی منظر نامے اورجامعہ کے عصرحاضر کے مطابق کچھ اہم تعلیمی منصوبے اورایک کامیاب طالب علم، عالم دین اورداعی بننے کی فکر کو بیان کیا گیا ہے ،جواہم ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت دلچسپ بھی ہے۔
اورنگ آباد میں عظیم مسجد کا سنگِ بنیاد:
گزشتہ دودن (۳۱ مئی و یکم جون)کا سفراورنگ آباد اورحیدرآباد کا تھا۔ اورنگ آباد میں ایک عظیم مسجد کا سنگِ بنیاد رکھا گیا۔ ماشاء اللہ، ڈھائی کروڑ کی لاگت سے یہ مسجد تعمیرہورہی ہے، جس میں 1700 نمازیوں کی گنجائش ہوگی۔ والدِ محترم کی ’’مصلّٰی اسکیم‘‘ کے تحت بحمد اللہ ایک مجلس میں تقریباً ڈیڑھ کروڑ روپے جمع ہو گئے۔
اس اسکیم کا اصول یہ ہے کہ اگرہرنمازی کے لیے جگہ 15,000 روپے میں تیار ہوتی ہے، تو ڈھائی کروڑ میں مسجد مکمل ہو جاتی ہے۔(15000×1700=2,55,00,000 )
’’مصلّی اسکیم‘‘ کے تحت کامیاب منصوبے:
الحمدللہ! والد صاحب کی اسی اسکیم کے تحت گزشتہ برس مہاراشٹرمیں چاربڑی مساجد تعمیرہوئیں۔ کسی کی لاگت تین کروڑ، کسی کی دو کروڑ، اور کسی کی ایک کروڑرہی۔ ان مسجدوں کا سنگِ بنیاد تقریباً ایک سال قبل رکھا گیا تھا۔ اب ان کی تکمیل ہوچکی ہےاورافتتاح کی تقاریب جاری ہیں۔
قیادت کا انوکھا انداز:
والد صاحب کو اللہ تعالیٰ نے یہ خاص ملکہ عطا فرمایا تھا کہ بڑے کاموں کونہایت آسان انداز میں پیش کرتے تھے، گویا ’’یَسِّروا وَلا تُعَسِّروا، بَشِّروا وَلا تُنَفِّروا‘‘ کا عملی نمونہ تھے۔
راجوری گاؤں میں مسجد کا افتتاح:
اورنگ آباد سے آگے ’’راجوری‘‘ نامی ایک گاؤں ہے، جہاں ایک مسجد کا افتتاح تھا۔ اندازاً 1700 نمازیوں کے لیے مسجد تعمیر ہو رہی ہے۔ اب تک تقریباً 1000 افراد کی طرف سے رقم جمع ہوچکی ہے اورباقی کام جاری ہے۔ اِن شاء اللہ مکمل ہو جائے گا۔
دارالعلوم حیدرآباد کا عظیم الشان پروگرام:
حیدرآباد میں ’’دارالعلوم حیدرآباد‘‘ میں ایک عظیم الشان پروگرام ہوا، جس میں کرناٹک، آندھراپردیش اور تلنگانہ سے تقریباً 2000 علما شریک ہوئے۔ والدِ محترمؒ پرایک خصوصی نشست رکھی گئی تھی، جو بحمدللہ بہت کامیاب رہی۔
’’کینیا ‘‘میں دینی بیداری کی ضرورت:
اسی سفر کے دوران ہمارے جامعہ کے ایک فاضل، جو میرے رشتہ دار بھی ہیں اوربرطانیہ میں مقیم ہیں، ہمراہ تھے۔ انہوں نے بتایا کہ حال ہی میں انہوں نے افریقی ملک ’’کینیا‘‘ کا دورہ کیا۔ وہاں دیہات میں مسلمان تو موجود ہیں، لیکن دین سے ناآشنا ہیں۔ انہوں نے وہیں دینی کام شروع کیا ہے اورعلما کی اشد ضرورت ہے جو مقامی سطح پررہ کر کام کریں۔
جامعہ کے ایک فاضل، مولانا عمران صاحب، اس مقصد کے لیے تیارہو گئے ہیں۔ اِن شاء اللہ، ان کا پاسپورٹ ایک ماہ میں مکمل ہو جائے گا، اور وہ کینیا روانہ ہوں گے؛ تاکہ وہاں مکاتب کا نظام ترتیب دیں۔ انہیں عربی اورانگریزی دونوں زبانوں پرقدرے مہارت ہے، جو کہ وہاں کے حالات میں ضروری ہے۔
’’آسٹریلیا‘‘ میں قبولِ اسلام اور علما کی ضرورت:
اسی طرح آسٹریلیا سے بھی رابطہ ہوا۔ وہاں دیہاتی علاقوں میں لوگ اسلام قبول کررہے ہیں، لیکن دین سکھانے والے افراد کی کمی ہے۔ دنیا کے مختلف خطوں میں ایسے علما کی ضرورت ہے جو دین کے ساتھ ساتھ تھوڑی بہت انگریزی اورعربی بھی جانتے ہوں۔ ضروری نہیں کہ زبان پرمکمل عبورہو، اگر 60-70% آتی ہو تو بھی انسان وہاں جا کر سیکھ لیتا ہے۔
جامعہ کے فضلا کی عالمی مقبولیت:
یہی وجہ ہے کہ اب دنیا کی نگاہیں جامعہ کی طرف ہیں، کہ یہاں ایسے علما تیار ہوں جو جدید تقاضوں کے مطابق دینی خدمت انجام دے سکیں۔ بہت سے لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ عالم بننے کے بعد روزگارنہیں ملتا، حالاں کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اگرانسان میں دردِ دل اورجذبۂ خدمت ہو تو اللہ تعالیٰ اچھی جگہ بھی عطا فرماتا ہے اوراچھی تنخواہ بھی۔
جذبۂ خدمت اوراس کا ثمرہ:
مثال کے طورپروہی فاضل جو ’’کینیا‘‘ جا رہے ہیں، ان کی ماہانہ تنخواہ 500 ڈالر، یعنی تقریباً پچاس ہزارروپے مقرر ہوئی ہے؛ لیکن ان کا جذبہ تنخواہ سے کہیں بلند ہے۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے طلبہ دل جمعی سے محنت کریں، علم حاصل کریں، اورخود کودنیا کے لیے مفید بنائیں۔ آج دنیا آپ کی منتظر ہے۔
بقرعید کے بعد تعلیمی منصوبہ:
بقرعید کے بعد جامعہ میں ایک نیا نظام ترتیب دیا جا رہا ہے، خاص طورپران طلبہ کے لیے جوعربی اوّل سے عربی دوم میں منتقل ہوئے ہیں اورجنہیں اپنے ’’نحو و صرف‘‘ میں کمزوری محسوس ہوتی ہے۔ ان کے لیے الگ کلاسز رکھی جائیں گی؛ تاکہ ان کی بنیاد مضبوط ہو سکے۔
خود احتسابی، علم میں ترقی کی کنجی:
اسی طرح جن طلبہ کو اپنی انگریزی کمزور لگتی ہے، ان کے لیے بھی خود احتسابی ضروری ہے۔ ہرطالب علم کوخود سوچنا چاہیے کہ وہ کس درجے میں کمزور ہے اور کس علم میں بہتری کی ضرورت ہے۔
تعلیمی کمزوریوں کے ازالے کی کوشش:
عربی سوم میں جانے والے طلبہ میں بھی بعض علمی کمزوریاں پائی جاتی ہیں، اس لیے ان کے لیے بھی مناسب رہنمائی اور مشق کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ میں نے حال ہی میں قاری حضرات کے ساتھ ایک میٹنگ کی، جس میں یہ طے ہوا کہ بقرعید کے بعد صبح کی مشق چائے پینے کے بعد کے بجائے فجر کے فوراً بعد ہوا کرے گی۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر طلبہ چائے پینے کے بعد کلاس یا مسجد میں آ کر سوجاتے ہیں۔ میں نے کہا کہ ان کی نیند کیسے اُڑائی جائے؟ اس کا واحد حل یہی ہے کہ مشق فجر کے بعد رکھی جائے۔ اس کا دوہرا فائدہ ہوگا: ایک تو شیطان بھاگے گا، اور دوسرا یہ کہ دن کا آغاز قرآن کی تلاوت سے ہوگا، جس میں برکت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اللّٰہُمَّ بارِکْ لأُمَّتی فی بُکُورِہا‘‘
(اے اللہ! میری امت کے صبح کے وقت میں برکت عطا فرما)۔
نیند پر گرفت اور نظم و ضبط کی ضرورت:
صبح کے وقت سونے کی عادت ترک کرنی چاہیے۔ آپ کہیں گے کہ یہ تو ہماری عادت بن چکی ہے۔ توعرض ہے کہ عادت کو بدلا جا سکتا ہے، بس آپ جلدی سوئیے۔ نیند پرآپ کی گرفت ہونی چاہیے، نہ کہ نیند آپ پر حاوی ہو۔
میں خود گزشتہ رات دو بجے سویا اورچار بجے اُٹھ گیا۔ تہجد پڑھی، پھر فجر کی نماز ادا کی اورایئرپورٹ روانہ ہو گیا۔ حیدرآباد سے سورت پہنچا، وہاں دو تین کام مکمل کیے، دوپہر کو مہمانوں سے ملاقات کی، کھانے کے بعد تھوڑا سا آرام کیا اور پھردوبارہ اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔ یہ سب نظم، عزم اورجذبہ سے ممکن ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص 10 گھنٹے نیند کے باوجود تھکا تھکا سا محسوس کرتا ہے تو یہ سستی اور بے عملی کی علامت ہے، نہ کہ جسمانی کمزوری۔ انسان اپنی نیند کو قابو کرکے بہت کچھ حاصل کر سکتا ہے۔
اخلاص کے ساتھ خدمتِ دین کی تمنا:
اپنے دل میں یہ تمنا پیدا کریں کہ:
’’اے اللہ! تو مجھ سے اپنے دین کی خدمت لے، وہ بھی اخلاص کے ساتھ۔‘‘
یہی دعا والدِ محترم مرحوم بھی تہجد میں آدھے آدھے گھنٹے تک مانگا کرتے تھے:
’’اللّٰہُمَّ خُذْ مِنِّی خِدْمَةً لِدِیْنِکَ بِالإِخْلَاصِ‘‘
اللہ تعالیٰ نے ان سے دین کے عظیم الشان کام لیے۔ اگرہم بھی اخلاص، نظم اورمحنت کواپنی زندگی کا حصہ بنا لیں تواللہ ہم سے بھی دین کا کام لے سکتا ہے۔
’’جاپان‘‘ کا سبق آموز واقعہ:
ان دنوں حیدرآباد کے سفر میں عجیب وغریب واقعات سننے کو ملے، جن میں سے ایک بڑا سبق آموز واقعہ جاپان سے تعلق رکھتا ہے۔ چند دن قبل جاپان سے ایک حافظ، عالم اور قاری صاحب کا فون آیا۔ کہنے لگے:
’’مولانا! ایک مہینے سے دل میں بے چینی تھی، آج آپ سے بات ہو رہی ہے۔‘‘
میں نے پوچھا، بات کیا ہے؟
کہنے لگے کہ چند سال پہلے مجھے جاپان میں امامت کے لیے ویزاملا تھا، لیکن میرے پاس سفر کے لیے کرایہ نہیں تھا۔ میں والد صاحب کے پاس آیا، عرض کیا کہ ویزا آ گیا ہے مگر ٹکٹ کے پیسے نہیں ہیں۔ والد صاحبؒ نے کہا: ’’ٹھیک ہے، میں ٹکٹ دے دیتا ہوں۔‘‘ چناں چہ ان کے تعاون سے میں جاپان پہنچا اورامامت شروع کی۔
اب جاپان میں لوگ تیزی سے اسلام قبول کررہے ہیں، دین سیکھنا چاہتے ہیں، مگروہاں کوئی معتبر دینی ادارہ نہیں۔
رمضان سے پہلے میں نے والد صاحب سے مشورہ کیا کہ وہاں مدرسہ قائم کیا جائے۔ والد صاحبؒ نے فرمایا تھا:
’’اگر زندگی باقی رہی تو رمضان کے بعد ہم خود آئیں گے۔‘‘
لیکن تقدیرکو کچھ اورمنظور تھا، وہ دنیا سے رخصت ہو گئے۔
اب وہ صاحب چاہتے ہیں کہ ہم جاپان میں مدرسہ قائم کرنے کی ترتیب بنائیں۔ میں نے حوصلہ دیا کہ ان شاء اللہ یہ کام ضرور ہوگا۔
محنت، اخلاص اور استقامت کی مثال:
سوچیے! ایک شخص گیا، مدرسہ قائم کیا، بچے وہاں دین سیکھنے لگے، لوگ اپنے ایمان پر مضبوط ہونے لگے۔ یہ وہ نیکی ہے جس کا ثواب تادیر جاری رہے گا، مگراس کے پیچھے کیا تھا؟ ایک طلب، ایک فکر، ایک تڑپ کہ کچھ کر گزرنا ہے۔
اسی موقع پر مجھے ہمارے بزرگ قاضی اطہر صاحب مبارکپوریؒ کا قول یاد آ گیا۔ وہ ایک عظیم محدث، محقق اور 40-50 کتابوں کے مصنف تھے۔ وہ فرمایا کرتے تھے:
’’آدمی ادارے سے نہیں بنتا، آدمی اپنی محنت سے بنتا ہے‘‘۔
یتیمی سے علمی قیادت تک:
وہ کہتے ہیں:
’’میں جس مدرسے میں عربی اوّل سے دورۂ حدیث تک پڑھا، وہاں سو بچے بھی نہیں تھے۔ ایک کلاس میں تین چار بچے ہوتے تھے۔ میرا تعلق ’’مبارکپور‘‘ سے تھا، میں یتیم تھا، والدہ لوگوں کے گھروں میں کام کرتی تھیں۔’’ دیوبند‘‘ یا ’’مظاہرعلوم‘‘ جانا چاہتا تھا، لیکن وسائل نہیں تھے۔ چناں چہ میں نے وہیں رہ کر محنت کی اور پھر اللہ نے قبول فرمایا‘‘۔
قاضی اطہرؒ نے اسلامی تاریخ، خاص طورپر صحابہ کرام کے ہندوستان میں ورود پر عربی میں دس سے زائد اوراردو میں تیس سے چالیس کتابیں لکھیں۔ ان کی زندگی اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ مقام و مرتبہ ادارے نہیں، محنت اور اخلاص عطا کرتے ہیں۔ یہی اصول زبان سیکھنے اوردین کی خدمت میں بھی کارفرما ہے۔
عربی سے اردو ترجمے کا تجربہ:
عرب دنیا کے اہلِ علم ہمارے یہاں تشریف لاتے ہیں۔ 2015 ء کی بات ہے، ہمارے یہاں ادبِ اسلامی کا ایک پروگرام منعقد ہوا۔ اس میں عالمِ عرب سے کئی معزز مہمان شریک ہوئے۔ ان میں مولانا نظر الحفیظ ندویؒ بھی شامل تھے، جو عربی ادب کے بڑے ادیب اوراہلِ کمال میں شمار ہوتے تھے۔ نوراللہ مرقدہ۔
پروگرام سے قبل مولانا نے مجھ سے کہا:
’’ہم نے سنا ہے کہ آپ عربی سے اردو میں برجستہ ترجمہ بہت عمدہ کرتے ہیں۔‘‘
میں نے ادب سے جواب دیا:
’’ یہ تو آپ ندوہ والوں کا میدان ہے، آپ لوگ ہی یہ خدمت انجام دیں گے۔‘‘
لیکن مولانا نے فرمایا:
’’ہمارے پروگرام میں جوعرب مقررین خطاب کریں گے، ان کا اردو ترجمہ آپ کو کرنا ہوگا۔‘‘
میں نے پھرانکارکیا:
’’میں نہیں کروں گا، آپ لوگ ہی کریں۔ ما شاء اللہ، ندوہ سے 20-25 افراد تشریف لائے ہیں، جن کی عمریں 60، 70، 75 سال ہیں، وہی اس کے حق دار ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا:
’’چلیے، ایک کام کیجیے۔ پہلا ترجمہ آپ کردیجیے، باقی ہم سنبھال لیں گے۔‘‘
میں نے کہا:
’’ٹھیک ہے، ایک کا کرلوں گا۔‘‘
پہلا مقررآیا، اس نے عربی میں خطاب کیا، اورمیں نے ترجمہ کردیا۔ خطاب کے فوراً بعد مولانا نظرالحفیظ صاحبؒ میرے پاس آئے اورفرمایا:
’’اب پورے پروگرام کا ترجمہ آپ ہی کریں گے۔‘‘
میں نے حیرت سے پوچھا:
’’کیوں؟‘‘
فرمایا:
’’ہمارے باقی ترجمہ کرنے والے سب یہ کہہ چکے ہیں کہ اتنا رواں، برجستہ اورواضح ترجمہ ہم سے نہیں ہو پائے گا۔ یہ شخص توبغیر لکھے، براہِ راست ترجمہ کرتا ہے، اوردرست بھی!‘‘
چنانچہ پورے پروگرام میں جتنے بھی عرب مقررین تھے، ان سب کا ترجمہ میرے سپرد کیا گیا۔
پروگرام کے بعد کچھ افراد میرے پاس آئے اور پوچھا:
’’آپ ندوہ سے فارغ ہیں؟‘‘
میں نے کہا:
’’نہیں، الحمدللہ میں جامعہ کا طالب علم ہوں، کسی اور ادارے میں نہیں پڑھا۔‘‘
کامیابی کا راز: شوق، محنت اور لگن:
اصل بات ادارے کی نہیں، محنت، شوق اورلگن کی ہے۔ اگر کسی کے اندر سیکھنے کی تڑپ ہو، تو وہ کسی بھی ادارے میں رہ کر بھی بلند مقام حاصل کرسکتا ہے۔ محنت وہ چیز ہے جو آدمی کو کہیں سے کہیں پہنچا دیتی ہے۔ خواہ آپ کسی چھوٹے مدرسے میں ہوں یا کسی بڑے ادارے میں، اصل کسوٹی آپ کا اخلاص، جذبہ اورمسلسل جدوجہد ہے۔
عصری مہارتیں اور جامعہ کا وژن:
الحمدللہ، ہمارے جامعہ میں علمِ دین کے ساتھ ساتھ طلبہ کو دیگر ضروری علوم سکھانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ خصوصاً کمپیوٹر کی تعلیم میں ہم بہتری لا رہے ہیں؛ تاکہ ہرطالب علم بنیادی تکنیکی مہارت حاصل کرے، کیوں کہ آج کے دورمیں ایک عالمِ دین کے لیے بھی یہ چیزیں ضروری ہو گئی ہیں۔
چند سال پہلے ہمارے پاس ایک ماہرروبوٹکس تشریف لائے۔ انہوں نے کہا: ’’آج کی دنیا کی ٹیکنالوجی روبوٹکس پرچل رہی ہے۔‘‘ تو ہمیں خیال ہوا کہ ایک عالم کو اتنا ضرور معلوم ہونا چاہیے کہ اگر وہ کسی تعلیم یافتہ مجلس میں کھڑا ہو، تو متاثر یا مرعوب نہ ہو، بل کہ مؤثر گفتگو کر سکے۔
اس کے بعد ہم نے کئی سال ماہر افراد کی تلاش کی، الحمدللہ، اب ایک ماہر شخص مل گئے ہیں جو روبوٹ اورڈرون ٹیکنالوجی میں مہارت رکھتے ہیں۔ وہ ان شاء اللہ آئندہ ماہ سے جامعہ میں تدریس کے لیے آئیں گے۔ ہمارا مقصد یہ ہے کہ طالب علم چاہے تو وہ سب کچھ سیکھ سکتا ہے۔ اگر وہ نہ چاہے، تو بہانے ہزار ہوتے ہیں۔
مولانا بنوریؒ کی بصیرت افروز رائے:
اسی تناظرمیں میں حضرت مولانا یوسف بنوریؒ کا مضمون پڑھ رہا تھا۔ آپ نے 1960 میں ہی یہ بات لکھی تھی کہ مدارس میں جنرل نالج کی تعلیم ضروری ہے۔ تاریخ، جغرافیہ، اورسائنسی شعور جیسے مضامین بھی دینی طلبہ کو پڑھانے چاہئیں، تاکہ وہ سچ کوبہتر انداز میں پیش کر سکیں، کیونکہ اگر ہم نہ پڑھائیں گے تو دوسروں کی غلط تعبیرات ہی طلبہ کو متاثر کریں گی۔
فتنوں کا مقابلہ: عصری فہم کی ضرورت:
حالیہ دنوں میں، میں حیدرآباد میں تھا۔ ایک فاضلِ جامعہ سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے ایک بہت تشویشناک بات بتائی کہ شہر میں مرزائی (مرزا محمد علی انجینئر) کے چونتیس مراکز قائم ہو چکے ہیں۔ یہ شخص نہ صرف صحابہ کرامؓ کے بارے میں گستاخانہ خیالات رکھتا ہے، بل کہ قرآن کی تشریح میں بھی اپنی عقل پرستی کا رنگ چڑھاتا ہے۔
میں نے تحقیق کی کہ نوجوان اس کی طرف کیوں مائل ہوتے ہیں؟ تو معلوم ہوا کہ وہ سائنس کی بات کرتا ہے، عقلی انداز اپناتا ہے، اوراسے قرآن سے جوڑکر پیش کرتا ہے۔ یہی انداز آج کے نوجوانوں کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ مگر افسوس! جب وہ اس کی باتوں سے متاثر ہو جاتے ہیں تو پھر وہ آہستہ آہستہ اس کی فاسد فکرکو بھی قبول کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ ہم بھی سائنس کو قرآن سے گھسیٹ کرجوڑیں، بل کہ ہم یہ کہتے ہیں کہ سائنس کواللہ کی قدرت کا مظہربن کر دکھائیں۔ کائنات کے عجائب کے ذریعے اللہ کی عظمت کو اجاگر کریں۔
دعوت کا مؤثر اسلوب:
لہٰذا ہمیں اپنی تقریر، اندازِ بیان اورخطاب کے طریقے پرنظرثانی کرنی ہوگی۔ اگر ہم نوجوانوں کے فہم و ذوق کے مطابق بات کریں گے، تو وہ ہماری طرف آئیں گے۔ بصورتِ دیگر، وہ ایسے فتنہ پرورلوگوں کی طرف راغب ہو جائیں گے۔
اس لیے ہماری تقریر میں سائنس، تاریخ، جغرافیہ اورعمومی شعور بھی شامل ہونا چاہیے، تاکہ ہم عصری طبقے سے مؤثر گفتگو کرسکیں۔ جب ایک عالمِ دین بات کرے اوروہ نوجوان کی زبان میں سچ بیان کرے، تو سننے والا کہے گا: ’’یہ مولانا تو میری بات کرتا ہے!‘‘ اس کے برعکس، اگر ہم ان کے فہم اوردلچسپی سے کٹ کر رہیں، تو وہ کسی اور کے دروازے پرجائیں گے۔
ہمہ جہت عالم دین کی ضرورت:
لہٰذا آج کا عالمِ دین صرف کتابوں کاعالم نہ ہو، بل کہ دعوت، دلیل، حکمت اور ٹیکنالوجی کا بھی فہم رکھتا ہو۔ اوریہ سب سیکھنا ممکن ہے، اگرانسان کے اندر سیکھنے کا شوق ہو، اور فکرِ دین ہو۔
مولانا احمد رضا خان کی وفات پرحضرت تھانویؒ کا رد عمل:
ایک طالب علم نے سوال کیا کہ مولانا احمد رضا خان صاحبؒ کی رحلت پرعلمائے دیوبند کے سرتاج، مجددِ ملت، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کا افسوس کرنا اوراس افسوس پراعتراض کرنا، اوراس پر حضرت کا جواب دینا کہ:
’’اگر وہ ہمیں کافر کہتے ہیں، تو وہ خود کافر ہو جاتے ہیں‘‘ — حضرت نے ایسا جواب کیوں دیا؟ اس جواب کا کیا مطلب ہے؟
علمائے دیوبند کا اعتدال پسند موقف:
دیکھیے! ہمارے علمائے دیوبند کی خاص بات یہ ہے کہ ان میں عدل واعتدال پایا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں اعتدال کی روشنی میں سمجھایا جاتا ہے کہ کفراور بدعت دو مختلف چیزیں ہیں۔
بدعت ایک بری بات ہے، مگر بدعت اور کفر میں تمیز ہونی چاہیے۔ جو لوگ غیر مقلدین ہیں، ان کے ہاں بدعت، کفراورشرک سب ایک جیسے ہو جاتے ہیں۔ وہ لوگ ہمیں بھی مشرک کہتے ہیں، کیوں کہ ہم امام ابوحنیفہؒ کی تقلید کرتے ہیں۔ اور امام ابو حنیفہؒ کی تقلید کرنے والے کو کیسے مشرک کہا جا سکتا ہے؟
وہ بدعتی حضرات کو سیدھا کافر اور مشرک قرار دے دیتے ہیں۔
شریعت کا اصول، مسلمان کہنے کا معیار:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
’’مَنْ صَلَّی صَلَاتَنَا، وَاسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا، وَأَکَلَ ذَبِیْحَتَنَا، فَذَٰلِکَ الْمُسْلِمُ الَّذِی لَهُ ذِمَّةُ اللَّہِ وَذِمَّةُ رَسُولِهِ، فَلَا تُخْفِرُوا اللَّہَ فِی ذِمَّتِهِ‘‘۔ (رواہ البخاری)
یعنی: جو ہماری قبلے کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتا ہے، ہمارے ذبیحے کو کھاتا ہے اور اسلام کی بنیادی چیزوں پرایمان رکھتا ہے، پھراگر کچھ غلطی بھی ہو تو وہ مسلمان ہے؛ اور اسے کافر یا مشرک نہیں کہا جا سکتا۔کسی کو مشرک کہنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔
حضرت گنگوہیؒ کا رقت انگیز واقعہ:
حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ علمِ حدیث کا درس دے رہے تھے، توایک دن درس کے دوران حضرت رونے لگے۔ تلامذہ نے پوچھا کہ حضرت کیوں رو رہے ہیں؟ فرمایا: آج میں نے ایک حدیث پڑھی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
’’جب سارے جنتی جنت میں چلے جائیں گے اور جہنمی جہنم میں ہوں گے، تو پھر اللہ تعالیٰ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہیں گے کہ: دیکھو! جہنم میں جس کے سینے میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہے، اس کو نکال کرجنت میں لے آؤ۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی بصیرت دی جائے گی کہ آپ لوگوں کے دلوں کی کیفیت دیکھ سکیں گے۔ جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہوگا، آپ اسے نکال لیں گے۔
پھر اللہ تعالیٰ کہیں گے:
اب اوردیکھو! حضور صلی اللہ علیہ وسلم پھر دیکھیں گے کہ کچھ لوگ ہوں گے جن کے دل میں رائی کے دانے سے بھی کم ایمان ہوگا، آپ انہیں بھی نکال لیں۔
پھر اللہ کہیں گے: اب تو کوئی دکھائی نہیں دیتا۔
پھراللہ اپنا چُلو بھریں گے اوران لوگوں کو بھی نکال کرجنت میں ڈال دیں گے جن کے دل میں رائی کے دانے سے بھی کم ایمان ہوگا۔یہ عمل تین مرتبہ ہوگا۔ (رواہ البخاری)
حضرت گنگوہی ؒ کا درد اور امت کی اصلاح:
یہ حدیث پڑھ کر حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ رونے لگے اور فرمایا:
’’ہم اُٹھتے بیٹھتے کسی کو بھی کافر بنا دیتے ہیں، حالانکہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو بھی اپنے فضل سے جہنم سے نکال کرجنت میں لے جائے گا، جن کے دلوں کا ایمان اتنا کم ہوگا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر بھی اسے دیکھ نہیں پائے گی۔ اور ہم جلد بازی میں کفر کا فتویٰ لگاتے ہیں۔‘‘
کفر کے فتوے میں احتیاط:
پس، اس معاملے میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔
اہلِ حق کی روش یہی ہے کہ کسی کے ایمان و کفر پر فتویٰ دینے میں جلد بازی نہیں کرتے، بل کہ قرآن و سنت اور فقہی اصولوں کی روشنی میں فیصلہ کرتے ہیں۔
حضرت تھانویؒ کا عدل، اعتدال اور ادبِ مخالف:
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اورہمارے اکابرین کا طریقہ یہی تھا کہ اگر کسی کا ہم سے علمی یا فکری اختلاف ہو، تب بھی اُس کے ساتھ بدتمیزی یا بے ادبی کا رویہ نہ اپنایا جائے۔ ایک مرتبہ حضرت کے سامنے کسی نے ’’احمد رضا خان بریلوی‘‘ کو محض نام لے کر ذکر کیا تو حضرت نے روک دیا اورفرمایا:
’’ بھائی! وہ ایک عالم ہے، تو کم از کم اُسے مولوی، علامہ، مولانا کچھ تو کہو۔ ہمارا اُس سے علمی اختلاف ہے، وہ اپنی جگہ، لیکن یہ تو شریعت کا اصول ہے کہ بڑوں کی توقیر کی جائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
’’لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ یَرْحَمْ صَغِیرَنَا وَلَمْ یُوَقِّرْ کَبِیرَنَا‘‘ (رواہ الترمذی)
’’وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پررحم نہ کرے اورہمارے بڑوں کی توقیر نہ کرے۔‘‘
حضرت تھانویؒ کی فراست کا ایک واقعہ:
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی فراست اور حکمت کا ایک واقعہ بڑا سبق آموز ہے۔ آپ کو خبر ملی کہ لکھنؤ کے اطراف کچھ لوگ مرتد ہو رہے ہیں۔ حضرت وہاں پہنچے اوراُن سے پوچھا:
’’بھائی! آپ لوگ اسلام کیوں چھوڑ رہے ہیں؟‘‘
انہوں نے کہا: ’’حضرت! ہم لوگ دیہات میں رہتے ہیں، دین کی تعلیم دینے والا کوئی نہیں، بس ہم نے جو سنا، وہی عمل کرتے رہے۔ محرم میں تعزیہ نکالتے ہیں۔ دو مولوی آئے اورکہا کہ تعزیہ نکالنا حرام ہے، جو تعزیہ نکالے گا وہ مشرک ہے، کافر ہے۔ ہم نے سوچا کہ جب ہمیں ویسے ہی کافر کہہ دیا گیا تو پھر اصل میں کافر کیوں نہ ہو جائیں؟‘‘
حکمت و مصلحت کا عملی مظاہرہ:
حضرت نے فرمایا: ’’میں تمہیں تعزیہ نکالنے کی اجازت دیتا ہوں، نکالو۔‘‘
وہ لوگ خوش ہو گئے کہ چلو، اب تو ہم مسلمان رہ سکتے ہیں۔ جب حضرت وہاں سے روانہ ہوئے، تو ساتھ کے علما نے حیرت سے پوچھا: ’’حضرت! آپ نے ایک بدعت کو جائز کہہ دیا؟‘‘
حضرت نے فرمایا: ’’نہیں، میں نے جائزنہیں کہا، صرف وقتی حکمت عملی اختیار کی۔ اگر میں ان سے ضد کرتا اورسختی کرتا تو وہ اسلام سے اوردورہوجاتے۔ میں نے وقتی طورپربدعت کے مقابلے میں کفر کوروکا، تاکہ وہ دین میں باقی رہیں۔ اب ہم ان کے پاس آدمی بھیجیں گے، محنت کریں گے، ان کی بدعت کو بھی ختم کرائیں گے، اور صحیح دین کی طرف ان کو لے آئیں گے، لیکن اگراس وقت سختی کرتا تو وہ ہمارے ہاتھ سے نکل جاتے۔‘‘
’اصولِ فقہ‘ ضررین میں اخف کا انتخاب:
تو ایسی فراست،اعتدال اورحکمت کے ساتھ کام کرنا ضروری ہے۔
تو یہ کفر اوربدعت جب ایک ساتھ جمع ہو گئے، تو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
’’اِذَا اِجْتَمَعَ الضَّرَرَانِ رُوْعِیَ أَخَفُّہُمَا‘‘
یعنی: جب دو ضرراورتکلیف دہ چیزیں جمع ہو جائیں، تواس صورت میں جو ہلکی ہو، اسے اختیار کیا جائے گا۔
یہاں کفراوربدعت جمع ہوئے تھے، اوران دونوں میں ہلکی چیز بدعت ہے، اس لیے حضرت نے وقتی طورپربدعت کی اجازت دی۔ بعد میں اُن کے پاس اپنے لوگ بھیجے، ان پر محنت کی، اورما شاء اللہ، پھروہ لوگ اسلام پرصحیح طورپرقائم ہو گئے۔ اُن کی نسلوں میں علما بھی پیدا ہوئے اورحفاظ بھی۔
فہم و فراست کے ساتھ دینی خدمات:
اس لیے دین کے کاموں میں بہت سوچ سمجھ کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ جذبات میں آ کر فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں ہمیشہ عدل واعتدال کے ساتھ معاملہ کرنا ہے۔ کسی شخص میں بدعت ہو، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم فوراً اس کو کافر کہہ دیں۔ بدعتی، بدعتی ہی ہوتا ہے، جب تک اس کے عقائد کفر کی حد تک نہ پہنچیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کوبدعت سے محفوظ رکھے، اورفہم و فراست کے ساتھ دین کا کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
