جامعہ کے شب و روز:

سفر نامہ رئیس جامعہ حضرت مولاناحذیفہ صاحب دامت برکاتہم

            تحریر ہذا میں آپ کے اسفار ، کچھ عالمی منظر نامے اور جامعہ کے عصر حاضر کے مطابق کچھ اہم تعلیمی منصوبے اور ایک کامیاب طالب علم، عالم دین اور داعی بننے کی فکر کو بیان کیا گیا ہے ،جو اہم ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت دلچسپ بھی ہے۔

 اورنگ آباد میں عظیم مسجد کا سنگِ بنیاد:

            گزشتہ دو دن (۳۱ مئی و یکم جون)کا سفر اورنگ آباد اور حیدرآباد کا تھا۔ اورنگ آباد میں ایک عظیم مسجد کا سنگِ بنیاد رکھا گیا۔ ماشاء اللہ، ڈھائی کروڑ کی لاگت سے یہ مسجد تعمیر ہو رہی ہے، جس میں 1700 نمازیوں کی گنجائش ہوگی۔ والدِ محترم کی ’’مصلّٰی اسکیم‘‘ کے تحت بحمد اللہ ایک مجلس میں تقریباً ڈیڑھ کروڑ روپے جمع ہو گئے۔

             اس اسکیم کا اصول یہ ہے کہ اگر ہر نمازی کے لیے جگہ 15,000 روپے میں تیار ہوتی ہے، تو ڈھائی کروڑ میں مسجد مکمل ہو جاتی ہے۔(15000×1700=2,55,00,000 )

 ’’مصلّی اسکیم‘‘ کے تحت کامیاب منصوبے:

            الحمدللہ! والد صاحب کی اسی اسکیم کے تحت گزشتہ برس مہاراشٹر میں چار بڑی مساجد تعمیر ہوئیں۔ کسی کی لاگت تین کروڑ، کسی کی دو کروڑ، اور کسی کی ایک کروڑ رہی۔ ان مسجدوں کا سنگِ بنیاد تقریباً ایک سال قبل رکھا گیا تھا۔ اب ان کی تکمیل ہو چکی ہے اور افتتاح کی تقاریب جاری ہیں۔

قیادت کا انوکھا انداز:

            والد صاحب کو اللہ تعالیٰ نے یہ خاص ملکہ عطا فرمایا تھا کہ بڑے کاموں کو نہایت آسان انداز میں پیش کرتے تھے، گویا ’’یَسِّروا وَلا تُعَسِّروا، بَشِّروا وَلا تُنَفِّروا‘‘ کا عملی نمونہ تھے۔

 راجوری گاؤں میں مسجد کا افتتاح:

            اورنگ آباد سے آگے ’’راجوری‘‘ نامی ایک گاؤں ہے، جہاں ایک مسجد کا افتتاح تھا۔ اندازاً 1700 نمازیوں کے لیے مسجد تعمیر ہو رہی ہے۔ اب تک تقریباً 1000 افراد کی طرف سے رقم جمع ہو چکی ہے اور باقی کام جاری ہے۔ اِن شاء اللہ مکمل ہو جائے گا۔

 دارالعلوم حیدرآباد کا عظیم الشان پروگرام:

            حیدرآباد میں ’’دارالعلوم حیدرآباد‘‘ میں ایک عظیم الشان پروگرام ہوا، جس میں کرناٹک، آندھراپردیش اور تلنگانہ سے تقریباً 2000 علما شریک ہوئے۔ والدِ محترمؒ پر ایک خصوصی نشست رکھی گئی تھی، جو بحمدللہ بہت کامیاب رہی۔

’’کینیا ‘‘میں دینی بیداری کی ضرورت:

            اسی سفر کے دوران ہمارے جامعہ کے ایک فاضل، جو میرے رشتہ دار بھی ہیں اور برطانیہ میں مقیم ہیں، ہمراہ تھے۔ انہوں نے بتایا کہ حال ہی میں انہوں نے افریقی ملک ’’کینیا‘‘ کا دورہ کیا۔ وہاں دیہات میں مسلمان تو موجود ہیں، لیکن دین سے ناآشنا ہیں۔ انہوں نے وہیں دینی کام شروع کیا ہے اور علما کی اشد ضرورت ہے جو مقامی سطح پر رہ کر کام کریں۔

            جامعہ کے ایک فاضل، مولانا عمران صاحب، اس مقصد کے لیے تیار ہو گئے ہیں۔ اِن شاء اللہ، ان کا پاسپورٹ ایک ماہ میں مکمل ہو جائے گا، اور وہ کینیا روانہ ہوں گے؛ تاکہ وہاں مکاتب کا نظام ترتیب دیں۔ انہیں عربی اور انگریزی دونوں زبانوں پر قدرے مہارت ہے، جو کہ وہاں کے حالات میں ضروری ہے۔

 ’’آسٹریلیا‘‘ میں قبولِ اسلام اور علما کی ضرورت:

            اسی طرح آسٹریلیا سے بھی رابطہ ہوا۔ وہاں دیہاتی علاقوں میں لوگ اسلام قبول کر رہے ہیں، لیکن دین سکھانے والے افراد کی کمی ہے۔ دنیا کے مختلف خطوں میں ایسے علما کی ضرورت ہے جو دین کے ساتھ ساتھ تھوڑی بہت انگریزی اور عربی بھی جانتے ہوں۔ ضروری نہیں کہ زبان پر مکمل عبور ہو، اگر 60-70% آتی ہو تو بھی انسان وہاں جا کر سیکھ لیتا ہے۔

 جامعہ کے فضلا کی عالمی مقبولیت:

            یہی وجہ ہے کہ اب دنیا کی نگاہیں جامعہ کی طرف ہیں، کہ یہاں ایسے علما تیار ہوں جو جدید تقاضوں کے مطابق دینی خدمت انجام دے سکیں۔ بہت سے لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ عالم بننے کے بعد روزگار نہیں ملتا، حالاں کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اگر انسان میں دردِ دل اور جذبۂ خدمت ہو تو اللہ تعالیٰ اچھی جگہ بھی عطا فرماتا ہے اور اچھی تنخواہ بھی۔

 جذبۂ خدمت اور اس کا ثمرہ:

            مثال کے طور پر وہی فاضل جو ’’کینیا‘‘ جا رہے ہیں، ان کی ماہانہ تنخواہ 500 ڈالر، یعنی تقریباً پچاس ہزار روپے مقرر ہوئی ہے؛ لیکن ان کا جذبہ تنخواہ سے کہیں بلند ہے۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے طلبہ دل جمعی سے محنت کریں، علم حاصل کریں، اور خود کو دنیا کے لیے مفید بنائیں۔ آج دنیا آپ کی منتظر ہے۔

 بقرعید کے بعد تعلیمی منصوبہ:

            بقرعید کے بعد جامعہ میں ایک نیا نظام ترتیب دیا جا رہا ہے، خاص طور پر ان طلبہ کے لیے جو عربی اوّل سے عربی دوم میں منتقل ہوئے ہیں اور جنہیں اپنے ’’نحو و صرف‘‘ میں کمزوری محسوس ہوتی ہے۔ ان کے لیے الگ کلاسز رکھی جائیں گی؛ تاکہ ان کی بنیاد مضبوط ہو سکے۔

 خود احتسابی، علم میں ترقی کی کنجی:

            اسی طرح جن طلبہ کو اپنی انگریزی کمزور لگتی ہے، ان کے لیے بھی خود احتسابی ضروری ہے۔ ہر طالب علم کو خود سوچنا چاہیے کہ وہ کس درجے میں کمزور ہے اور کس علم میں بہتری کی ضرورت ہے۔

تعلیمی کمزوریوں کے ازالے کی کوشش:

            عربی سوم میں جانے والے طلبہ میں بھی بعض علمی کمزوریاں پائی جاتی ہیں، اس لیے ان کے لیے بھی مناسب رہنمائی اور مشق کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ میں نے حال ہی میں قاری حضرات کے ساتھ ایک میٹنگ کی، جس میں یہ طے ہوا کہ بقرعید کے بعد صبح کی مشق چائے پینے کے بعد کے بجائے فجر کے فوراً بعد ہوا کرے گی۔

            اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر طلبہ چائے پینے کے بعد کلاس یا مسجد میں آ کر سوجاتے ہیں۔ میں نے کہا کہ ان کی نیند کیسے اُڑائی جائے؟ اس کا واحد حل یہی ہے کہ مشق فجر کے بعد رکھی جائے۔ اس کا دوہرا فائدہ ہوگا: ایک تو شیطان بھاگے گا، اور دوسرا یہ کہ دن کا آغاز قرآن کی تلاوت سے ہوگا، جس میں برکت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

            ’’اللّٰہُمَّ بارِکْ لأُمَّتی فی بُکُورِہا‘‘

            (اے اللہ! میری امت کے صبح کے وقت میں برکت عطا فرما)۔

نیند پر گرفت اور نظم و ضبط کی ضرورت:

            صبح کے وقت سونے کی عادت ترک کرنی چاہیے۔ آپ کہیں گے کہ یہ تو ہماری عادت بن چکی ہے۔ تو عرض ہے کہ عادت کو بدلا جا سکتا ہے، بس آپ جلدی سوئیے۔ نیند پر آپ کی گرفت ہونی چاہیے، نہ کہ نیند آپ پر حاوی ہو۔

            میں خود گزشتہ رات دو بجے سویا اور چار بجے اُٹھ گیا۔ تہجد پڑھی، پھر فجر کی نماز ادا کی اور ایئرپورٹ روانہ ہو گیا۔ حیدرآباد سے سورت پہنچا، وہاں دو تین کام مکمل کیے، دوپہر کو مہمانوں سے ملاقات کی، کھانے کے بعد تھوڑا سا آرام کیا اور پھر دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔ یہ سب نظم، عزم اور جذبہ سے ممکن ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص 10 گھنٹے نیند کے باوجود تھکا تھکا سا محسوس کرتا ہے تو یہ سستی اور بے عملی کی علامت ہے، نہ کہ جسمانی کمزوری۔ انسان اپنی نیند کو قابو کرکے بہت کچھ حاصل کر سکتا ہے۔

اخلاص کے ساتھ خدمتِ دین کی تمنا:

            اپنے دل میں یہ تمنا پیدا کریں کہ:

            ’’اے اللہ! تو مجھ سے اپنے دین کی خدمت لے، وہ بھی اخلاص کے ساتھ۔‘‘

            یہی دعا والدِ محترم مرحوم بھی تہجد میں آدھے آدھے گھنٹے تک مانگا کرتے تھے:

            ’’اللّٰہُمَّ خُذْ مِنِّی خِدْمَۃً لِدِیْنِکَ بِالإِخْلَاصِ‘‘

            اللہ تعالیٰ نے ان سے دین کے عظیم الشان کام لیے۔ اگر ہم بھی اخلاص، نظم اور محنت کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں تو اللہ ہم سے بھی دین کا کام لے سکتا ہے۔

’’جاپان‘‘ کا سبق آموز واقعہ:

            ان دنوں حیدرآباد کے سفر میں عجیب و غریب واقعات سننے کو ملے، جن میں سے ایک بڑا سبق آموز واقعہ جاپان سے تعلق رکھتا ہے۔ چند دن قبل جاپان سے ایک حافظ، عالم اور قاری صاحب کا فون آیا۔ کہنے لگے:

            ’’مولانا! ایک مہینے سے دل میں بے چینی تھی، آج آپ سے بات ہو رہی ہے۔‘‘

             میں نے پوچھا، بات کیا ہے؟

            کہنے لگے کہ چند سال پہلے مجھے جاپان میں امامت کے لیے ویزا ملا تھا، لیکن میرے پاس سفر کے لیے کرایہ نہیں تھا۔ میں والد صاحب کے پاس آیا، عرض کیا کہ ویزا آ گیا ہے مگر ٹکٹ کے پیسے نہیں ہیں۔ والد صاحبؒ نے کہا: ’’ٹھیک ہے، میں ٹکٹ دے دیتا ہوں۔‘‘ چناں چہ ان کے تعاون سے میں جاپان پہنچا اور امامت شروع کی۔

            اب جاپان میں لوگ تیزی سے اسلام قبول کر رہے ہیں، دین سیکھنا چاہتے ہیں، مگر وہاں کوئی معتبر دینی ادارہ نہیں۔

             رمضان سے پہلے میں نے والد صاحب سے مشورہ کیا کہ وہاں مدرسہ قائم کیا جائے۔ والد صاحبؒ نے فرمایا تھا:

             ’’اگر زندگی باقی رہی تو رمضان کے بعد ہم خود آئیں گے۔‘‘

             لیکن تقدیر کو کچھ اور منظور تھا، وہ دنیا سے رخصت ہو گئے۔

            اب وہ صاحب چاہتے ہیں کہ ہم جاپان میں مدرسہ قائم کرنے کی ترتیب بنائیں۔ میں نے حوصلہ دیا کہ ان شاء اللہ یہ کام ضرور ہوگا۔

محنت، اخلاص اور استقامت کی مثال:

            سوچیے! ایک شخص گیا، مدرسہ قائم کیا، بچے وہاں دین سیکھنے لگے، لوگ اپنے ایمان پر مضبوط ہونے لگے۔ یہ وہ نیکی ہے جس کا ثواب تادیر جاری رہے گا، مگر اس کے پیچھے کیا تھا؟ ایک طلب، ایک فکر، ایک تڑپ کہ کچھ کر گزرنا ہے۔

            اسی موقع پر مجھے ہمارے بزرگ قاضی اطہر صاحب مبارکپوریؒ کا قول یاد آ گیا۔ وہ ایک عظیم محدث، محقق اور 40-50 کتابوں کے مصنف تھے۔ وہ فرمایا کرتے تھے:

            ’’آدمی ادارے سے نہیں بنتا، آدمی اپنی محنت سے بنتا ہے‘‘۔

یتیمی سے علمی قیادت تک:

            وہ کہتے ہیں:

            ’’میں جس مدرسے میں عربی اوّل سے دورۂ حدیث تک پڑھا، وہاں سو بچے بھی نہیں تھے۔ ایک کلاس میں تین چار بچے ہوتے تھے۔ میرا تعلق ’’مبارکپور‘‘ سے تھا، میں یتیم تھا، والدہ لوگوں کے گھروں میں کام کرتی تھیں۔’’ دیوبند‘‘ یا ’’مظاہرعلوم‘‘ جانا چاہتا تھا، لیکن وسائل نہیں تھے۔ چناں چہ میں نے وہیں رہ کر محنت کی اور پھر اللہ نے قبول فرمایا‘‘۔

            قاضی اطہرؒ نے اسلامی تاریخ، خاص طور پر صحابہ کرام کے ہندوستان میں ورود پر عربی میں دس سے زائد اور اردو میں تیس سے چالیس کتابیں لکھیں۔ ان کی زندگی اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ مقام و مرتبہ ادارے نہیں، محنت اور اخلاص عطا کرتے ہیں۔ یہی اصول زبان سیکھنے اور دین کی خدمت میں بھی کارفرما ہے۔

عربی سے اردو ترجمے کا تجربہ:

            عرب دنیا کے اہلِ علم ہمارے یہاں تشریف لاتے ہیں۔ 2015 ء کی بات ہے، ہمارے یہاں ادبِ اسلامی کا ایک پروگرام منعقد ہوا۔ اس میں عالمِ عرب سے کئی معزز مہمان شریک ہوئے۔ ان میں مولانا نظر الحفیظ ندویؒ بھی شامل تھے، جو عربی ادب کے بڑے ادیب اور اہلِ کمال میں شمار ہوتے تھے۔ نور اللہ مرقدہ۔

            پروگرام سے قبل مولانا نے مجھ سے کہا:

             ’’ہم نے سنا ہے کہ آپ عربی سے اردو میں برجستہ ترجمہ بہت عمدہ کرتے ہیں۔‘‘

             میں نے ادب سے جواب دیا:

            ’’ یہ تو آپ ندوہ والوں کا میدان ہے، آپ لوگ ہی یہ خدمت انجام دیں گے۔‘‘

لیکن مولانا نے فرمایا:

             ’’ہمارے پروگرام میں جو عرب مقررین خطاب کریں گے، ان کا اردو ترجمہ آپ کو کرنا ہوگا۔‘‘

             میں نے پھر انکار کیا:

            ’’میں نہیں کروں گا، آپ لوگ ہی کریں۔ ما شاء اللہ، ندوہ سے 20-25 افراد تشریف لائے ہیں، جن کی عمریں 60، 70، 75 سال ہیں، وہی اس کے حق دار ہیں۔‘‘

            انہوں نے کہا:

             ’’چلیے، ایک کام کیجیے۔ پہلا ترجمہ آپ کر دیجیے، باقی ہم سنبھال لیں گے۔‘‘

             میں نے کہا:

             ’’ٹھیک ہے، ایک کا کر لوں گا۔‘‘

            پہلا مقرر آیا، اس نے عربی میں خطاب کیا، اور میں نے ترجمہ کر دیا۔ خطاب کے فوراً بعد مولانا نظر الحفیظ صاحبؒ میرے پاس آئے اور فرمایا:

            ’’اب پورے پروگرام کا ترجمہ آپ ہی کریں گے۔‘‘

            میں نے حیرت سے پوچھا:

            ’’کیوں؟‘‘

             فرمایا:

             ’’ہمارے باقی ترجمہ کرنے والے سب یہ کہہ چکے ہیں کہ اتنا رواں، برجستہ اور واضح ترجمہ ہم سے نہیں ہو پائے گا۔ یہ شخص تو بغیر لکھے، براہِ راست ترجمہ کرتا ہے، اور درست بھی!‘‘

             چنانچہ پورے پروگرام میں جتنے بھی عرب مقررین تھے، ان سب کا ترجمہ میرے سپرد کیا گیا۔

            پروگرام کے بعد کچھ افراد میرے پاس آئے اور پوچھا:

             ’’آپ ندوہ سے فارغ ہیں؟‘‘

             میں نے کہا:

             ’’نہیں، الحمدللہ میں جامعہ کا طالب علم ہوں، کسی اور ادارے میں نہیں پڑھا۔‘‘

کامیابی کا راز: شوق، محنت اور لگن:

            اصل بات ادارے کی نہیں، محنت، شوق اور لگن کی ہے۔ اگر کسی کے اندر سیکھنے کی تڑپ ہو، تو وہ کسی بھی ادارے میں رہ کر بھی بلند مقام حاصل کر سکتا ہے۔ محنت وہ چیز ہے جو آدمی کو کہیں سے کہیں پہنچا دیتی ہے۔ خواہ آپ کسی چھوٹے مدرسے میں ہوں یا کسی بڑے ادارے میں، اصل کسوٹی آپ کا اخلاص، جذبہ اور مسلسل جدوجہد ہے۔

عصری مہارتیں اور جامعہ کا وژن:

            الحمدللہ، ہمارے جامعہ میں علمِ دین کے ساتھ ساتھ طلبہ کو دیگر ضروری علوم سکھانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ خصوصاً کمپیوٹر کی تعلیم میں ہم بہتری لا رہے ہیں؛ تاکہ ہر طالب علم بنیادی تکنیکی مہارت حاصل کرے، کیوں کہ آج کے دور میں ایک عالمِ دین کے لیے بھی یہ چیزیں ضروری ہو گئی ہیں۔

            چند سال پہلے ہمارے پاس ایک ماہر روبوٹکس تشریف لائے۔ انہوں نے کہا: ’’آج کی دنیا کی ٹیکنالوجی روبوٹکس پر چل رہی ہے۔‘‘ تو ہمیں خیال ہوا کہ ایک عالم کو اتنا ضرور معلوم ہونا چاہیے کہ اگر وہ کسی تعلیم یافتہ مجلس میں کھڑا ہو، تو متاثر یا مرعوب نہ ہو، بل کہ مؤثر گفتگو کر سکے۔

            اس کے بعد ہم نے کئی سال ماہر افراد کی تلاش کی، الحمدللہ، اب ایک ماہر شخص مل گئے ہیں جو روبوٹ اور ڈرون ٹیکنالوجی میں مہارت رکھتے ہیں۔ وہ ان شاء اللہ آئندہ ماہ سے جامعہ میں تدریس کے لیے آئیں گے۔ ہمارا مقصد یہ ہے کہ طالب علم چاہے تو وہ سب کچھ سیکھ سکتا ہے۔ اگر وہ نہ چاہے، تو بہانے ہزار ہوتے ہیں۔

مولانا بنوریؒ کی بصیرت افروز رائے:

            اسی تناظر میں میں حضرت مولانا یوسف بنوریؒ کا مضمون پڑھ رہا تھا۔ آپ نے 1960 میں ہی یہ بات لکھی تھی کہ مدارس میں جنرل نالج کی تعلیم ضروری ہے۔ تاریخ، جغرافیہ، اور سائنسی شعور جیسے مضامین بھی دینی طلبہ کو پڑھانے چاہئیں، تاکہ وہ سچ کو بہتر انداز میں پیش کر سکیں، کیونکہ اگر ہم نہ پڑھائیں گے تو دوسروں کی غلط تعبیرات ہی طلبہ کو متاثر کریں گی۔

فتنوں کا مقابلہ: عصری فہم کی ضرورت:

            حالیہ دنوں میں، میں حیدرآباد میں تھا۔ ایک فاضلِ جامعہ سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے ایک بہت تشویشناک بات بتائی کہ شہر میں مرزائی (مرزا محمد علی انجینئر) کے چونتیس مراکز قائم ہو چکے ہیں۔ یہ شخص نہ صرف صحابہ کرامؓ کے بارے میں گستاخانہ خیالات رکھتا ہے، بل کہ قرآن کی تشریح میں بھی اپنی عقل پرستی کا رنگ چڑھاتا ہے۔

            میں نے تحقیق کی کہ نوجوان اس کی طرف کیوں مائل ہوتے ہیں؟ تو معلوم ہوا کہ وہ سائنس کی بات کرتا ہے، عقلی انداز اپناتا ہے، اور اسے قرآن سے جوڑ کر پیش کرتا ہے۔ یہی انداز آج کے نوجوانوں کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ مگر افسوس! جب وہ اس کی باتوں سے متاثر ہو جاتے ہیں تو پھر وہ آہستہ آہستہ اس کی فاسد فکر کو بھی قبول کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

            ہم یہ نہیں کہتے کہ ہم بھی سائنس کو قرآن سے گھسیٹ کر جوڑیں، بل کہ ہم یہ کہتے ہیں کہ سائنس کو اللہ کی قدرت کا مظہر بن کر دکھائیں۔ کائنات کے عجائب کے ذریعے اللہ کی عظمت کو اجاگر کریں۔

دعوت کا مؤثر اسلوب:

            لہٰذا ہمیں اپنی تقریر، اندازِ بیان اور خطاب کے طریقے پر نظرثانی کرنی ہوگی۔ اگر ہم نوجوانوں کے فہم و ذوق کے مطابق بات کریں گے، تو وہ ہماری طرف آئیں گے۔ بصورتِ دیگر، وہ ایسے فتنہ پرور لوگوں کی طرف راغب ہو جائیں گے۔

            اس لیے ہماری تقریر میں سائنس، تاریخ، جغرافیہ اور عمومی شعور بھی شامل ہونا چاہیے، تاکہ ہم عصری طبقے سے مؤثر گفتگو کر سکیں۔ جب ایک عالمِ دین بات کرے اور وہ نوجوان کی زبان میں سچ بیان کرے، تو سننے والا کہے گا: ’’یہ مولانا تو میری بات کرتا ہے!‘‘ اس کے برعکس، اگر ہم ان کے فہم اور دلچسپی سے کٹ کر رہیں، تو وہ کسی اور کے دروازے پر جائیں گے۔

ہمہ جہت عالم دین کی ضرورت:

            لہٰذا آج کا عالمِ دین صرف کتابوں کا عالم نہ ہو، بل کہ دعوت، دلیل، حکمت اور ٹیکنالوجی کا بھی فہم رکھتا ہو۔ اور یہ سب سیکھنا ممکن ہے، اگر انسان کے اندر سیکھنے کا شوق ہو، اور فکرِ دین ہو۔

مولانا احمد رضا خان کی وفات پر حضرت تھانویؒ کا رد عمل:

            ایک طالب علم نے سوال کیا کہ مولانا احمد رضا خان صاحبؒ کی رحلت پر علمائے دیوبند کے سرتاج، مجددِ ملت، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کا افسوس کرنا اور اس افسوس پر اعتراض کرنا، اور اس پر حضرت کا جواب دینا کہ:

            ’’اگر وہ ہمیں کافر کہتے ہیں، تو وہ خود کافر ہو جاتے ہیں‘‘ — حضرت نے ایسا جواب کیوں دیا؟ اس جواب کا کیا مطلب ہے؟

علمائے دیوبند کا اعتدال پسند موقف:

            دیکھیے! ہمارے علمائے دیوبند کی خاص بات یہ ہے کہ ان میں عدل و اعتدال پایا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں اعتدال کی روشنی میں سمجھایا جاتا ہے کہ کفر اور بدعت دو مختلف چیزیں ہیں۔

            بدعت ایک بری بات ہے، مگر بدعت اور کفر میں تمیز ہونی چاہیے۔ جو لوگ غیر مقلدین ہیں، ان کے ہاں بدعت، کفر اور شرک سب ایک جیسے ہو جاتے ہیں۔ وہ لوگ ہمیں بھی مشرک کہتے ہیں، کیوں کہ ہم امام ابوحنیفہؒ کی تقلید کرتے ہیں۔ اور امام ابو حنیفہؒ کی تقلید کرنے والے کو کیسے مشرک کہا جا سکتا ہے؟

            وہ بدعتی حضرات کو سیدھا کافر اور مشرک قرار دے دیتے ہیں۔

شریعت کا اصول، مسلمان کہنے کا معیار:

            اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

            ’’مَنْ صَلَّی صَلَاتَنَا، وَاسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا، وَأَکَلَ ذَبِیْحَتَنَا، فَذَٰلِکَ الْمُسْلِمُ الَّذِی لَہُ ذِمَّۃُ اللَّہِ وَذِمَّۃُ رَسُولِہِ، فَلَا تُخْفِرُوا اللَّہَ فِی ذِمَّتِہِ‘‘۔ (رواہ البخاری)

            یعنی: جو ہماری قبلے کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتا ہے، ہمارے ذبیحے کو کھاتا ہے اور اسلام کی بنیادی چیزوں پر ایمان رکھتا ہے، پھر اگر کچھ غلطی بھی ہو تو وہ مسلمان ہے؛ اور اسے کافر یا مشرک نہیں کہا جا سکتا۔کسی کو مشرک کہنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔

حضرت گنگوہیؒ کا رقت انگیز واقعہ:

            حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ علمِ حدیث کا درس دے رہے تھے، تو ایک دن درس کے دوران حضرت رونے لگے۔ تلامذہ نے پوچھا کہ حضرت کیوں رو رہے ہیں؟ فرمایا: آج میں نے ایک حدیث پڑھی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

            ’’جب سارے جنتی جنت میں چلے جائیں گے اور جہنمی جہنم میں ہوں گے، تو پھر اللہ تعالیٰ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہیں گے کہ: دیکھو! جہنم میں جس کے سینے میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہے، اس کو نکال کر جنت میں لے آؤ۔‘‘

            آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی بصیرت دی جائے گی کہ آپ لوگوں کے دلوں کی کیفیت دیکھ سکیں گے۔ جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہوگا، آپ اسے نکال لیں گے۔

پھر اللہ تعالیٰ کہیں گے:

            اب اور دیکھو! حضور صلی اللہ علیہ وسلم پھر دیکھیں گے کہ کچھ لوگ ہوں گے جن کے دل میں رائی کے دانے سے بھی کم ایمان ہوگا، آپ انہیں بھی نکال لیں۔

            پھر اللہ کہیں گے: اب تو کوئی دکھائی نہیں دیتا۔

            پھر اللہ اپنا چُلو بھریں گے اور ان لوگوں کو بھی نکال کر جنت میں ڈال دیں گے جن کے دل میں رائی کے دانے سے بھی کم ایمان ہوگا۔یہ عمل تین مرتبہ ہوگا۔ (رواہ البخاری)

حضرت گنگوہی ؒ کا درد اور امت کی اصلاح:

            یہ حدیث پڑھ کر حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ رونے لگے اور فرمایا:

            ’’ہم اُٹھتے بیٹھتے کسی کو بھی کافر بنا دیتے ہیں، حالانکہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو بھی اپنے فضل سے جہنم سے نکال کر جنت میں لے جائے گا، جن کے دلوں کا ایمان اتنا کم ہوگا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر بھی اسے دیکھ نہیں پائے گی۔ اور ہم جلد بازی میں کفر کا فتویٰ لگاتے ہیں۔‘‘

 کفر کے فتوے میں احتیاط:

            پس، اس معاملے میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔

            اہلِ حق کی روش یہی ہے کہ کسی کے ایمان و کفر پر فتویٰ دینے میں جلد بازی نہیں کرتے، بل کہ قرآن و سنت اور فقہی اصولوں کی روشنی میں فیصلہ کرتے ہیں۔

حضرت تھانویؒ کا عدل، اعتدال اور ادبِ مخالف:

            حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اور ہمارے اکابرین کا طریقہ یہی تھا کہ اگر کسی کا ہم سے علمی یا فکری اختلاف ہو، تب بھی اُس کے ساتھ بدتمیزی یا بے ادبی کا رویہ نہ اپنایا جائے۔ ایک مرتبہ حضرت کے سامنے کسی نے ’’احمد رضا خان بریلوی‘‘ کو محض نام لے کر ذکر کیا تو حضرت نے روک دیا اور فرمایا:

            ’’ بھائی! وہ ایک عالم ہے، تو کم از کم اُسے مولوی، علامہ، مولانا کچھ تو کہو۔ ہمارا اُس سے علمی اختلاف ہے، وہ اپنی جگہ، لیکن یہ تو شریعت کا اصول ہے کہ بڑوں کی توقیر کی جائے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

            ’’لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ یَرْحَمْ صَغِیرَنَا وَلَمْ یُوَقِّرْ کَبِیرَنَا‘‘ (رواہ الترمذی)

             ’’وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی توقیر نہ کرے۔‘‘

حضرت تھانویؒ کی فراست کا ایک واقعہ:

            حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی فراست اور حکمت کا ایک واقعہ بڑا سبق آموز ہے۔ آپ کو خبر ملی کہ لکھنؤ کے اطراف کچھ لوگ مرتد ہو رہے ہیں۔ حضرت وہاں پہنچے اور اُن سے پوچھا:

            ’’بھائی! آپ لوگ اسلام کیوں چھوڑ رہے ہیں؟‘‘

            انہوں نے کہا: ’’حضرت! ہم لوگ دیہات میں رہتے ہیں، دین کی تعلیم دینے والا کوئی نہیں، بس ہم نے جو سنا، وہی عمل کرتے رہے۔ محرم میں تعزیہ نکالتے ہیں۔ دو مولوی آئے اور کہا کہ تعزیہ نکالنا حرام ہے، جو تعزیہ نکالے گا وہ مشرک ہے، کافر ہے۔ ہم نے سوچا کہ جب ہمیں ویسے ہی کافر کہہ دیا گیا تو پھر اصل میں کافر کیوں نہ ہو جائیں؟‘‘

حکمت و مصلحت کا عملی مظاہرہ:

            حضرت نے فرمایا: ’’میں تمہیں تعزیہ نکالنے کی اجازت دیتا ہوں، نکالو۔‘‘

            وہ لوگ خوش ہو گئے کہ چلو، اب تو ہم مسلمان رہ سکتے ہیں۔ جب حضرت وہاں سے روانہ ہوئے، تو ساتھ کے علما نے حیرت سے پوچھا: ’’حضرت! آپ نے ایک بدعت کو جائز کہہ دیا؟‘‘

            حضرت نے فرمایا: ’’نہیں، میں نے جائز نہیں کہا، صرف وقتی حکمت عملی اختیار کی۔ اگر میں ان سے ضد کرتا اور سختی کرتا تو وہ اسلام سے اور دور ہو جاتے۔ میں نے وقتی طور پر بدعت کے مقابلے میں کفر کو روکا، تاکہ وہ دین میں باقی رہیں۔ اب ہم ان کے پاس آدمی بھیجیں گے، محنت کریں گے، ان کی بدعت کو بھی ختم کرائیں گے، اور صحیح دین کی طرف ان کو لے آئیں گے، لیکن اگر اس وقت سختی کرتا تو وہ ہمارے ہاتھ سے نکل جاتے۔‘‘

’اصولِ فقہ‘ ضررین میں اخف کا انتخاب:

            تو ایسی فراست،اعتدال اور حکمت کے ساتھ کام کرنا ضروری ہے۔

            تو یہ کفر اور بدعت جب ایک ساتھ جمع ہو گئے، تو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:

            ’’اِذَا اِجْتَمَعَ الضَّرَرَانِ رُوْعِیَ أَخَفُّہُمَا‘‘

            یعنی: جب دو ضرر اور تکلیف دہ چیزیں جمع ہو جائیں، تو اس صورت میں جو ہلکی ہو، اسے اختیار کیا جائے گا۔

            یہاں کفر اور بدعت جمع ہوئے تھے، اور ان دونوں میں ہلکی چیز بدعت ہے، اس لیے حضرت نے وقتی طور پر بدعت کی اجازت دی۔ بعد میں اُن کے پاس اپنے لوگ بھیجے، ان پر محنت کی، اور ما شاء اللہ، پھر وہ لوگ اسلام پر صحیح طور پر قائم ہو گئے۔ اُن کی نسلوں میں علما بھی پیدا ہوئے اور حفاظ بھی۔

فہم و فراست کے ساتھ دینی خدمات:

            اس لیے دین کے کاموں میں بہت سوچ سمجھ کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ جذبات میں آ کر فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں ہمیشہ عدل و اعتدال کے ساتھ معاملہ کرنا ہے۔ کسی شخص میں بدعت ہو، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم فوراً اس کو کافر کہہ دیں۔ بدعتی، بدعتی ہی ہوتا ہے، جب تک اس کے عقائد کفر کی حد تک نہ پہنچیں۔

   اللہ تعالیٰ ہم سب کو بدعت سے محفوظ رکھے، اور فہم و فراست کے ساتھ دین کا کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔