جامعہ کے شب و روز:

فضلائے جامعہ اکل کوا         ۲۰۰۲ء کی خوش گوار ملاقات ، مشاہدات،مناظرات ، جھلکیاں

از قلم :۔محمد بلال اشا عتی ساتونوی 9405060763 :

            اللہ رب العزت نے تخلیق کائنات کے بعد مختلف اور گوناگوں نعمتوں سے حضرت انسان کو نوازا ، جن کا احاطہ وشمار ناممکن ہے ۔انہی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت رفقاء واصدقاء اور اساتذہ کرام کی نعمت ہے، خاص کر وہ دوست واحباب جن کے ساتھ زمانہ طالب علمی کا ایک طویل عرصہ گزرا ہو، جن کی معیت میں قال اللہ وقال الرسول کی علمی صدائے با زگشت ہو تی رہی جن کے ساتھ درسگاہ میں عبا رت خوانی پر لطف ہواکرتی ،جن کے ساتھ نشست وبرخاست طعام وقیام سیر وتفریح طنز ومزاح کا پر کیف وپر وجد ماحول ہوتا ،وہ رفقاء جو ایک دوسرے کی دلجوئی کے لئے ہر ممکنہ قربانی پیش کر دیتے ،پھر زندگی میں ایک موڑ ایسا آتا ہے کہ دستار فضیلت سروں پر سجا کر ذمہ داریوں سے لیس کر کے امت کے سامنے اس اثاثہ اسلامی کو پیش کر دیا جاتا ہے ،یہ وقت خود پرقابو پانے اور سنبھالنے کا ہوتا ہے ۔حضرت رئیس الجامعہ سے جدائیگی ہی اپنا مستقل درد رکھتی ہے ،مزید برآں رفقاء واصدقاء سے بچھڑنے کا غم اضطراب والم کو دوبالا کر دیتا ہے۔ دستار فضیلت لیکر فضلائے مدارس خوشی اور غم کے ملے جلے جذبات کے ساتھ اپنے اپنے علاقوں کی طرف رواں دواں ہوجاتے ہیں، یہ ناقص گمان لیکر کہ شاید اب ملاقات میدان محشر ہی میں ہو گی بالخصوص اس وقت جبکہ طلباء ہندوستان کے طول وعرض کے دور دراز علا قوں سے وابستہ ہوں ۔لیکن قدرت ا لہیہ کو کچھ اور ہی منظور ہوتا ہے ۔ 2020کے اوائل میں مولوی عمران بیڑ نا می ایک طالب علم ،فارغین جامعہ اکل کوا ,2002 واٹس ایپ گروپ تشکیل دیتا ہے اور ہندوستان بھر کے وہ تمام احباب جو ہما رے رفقاء درس تھے ،سے رابطہ کر کے ان کے واٹس ایپ نمبرات حاصل کر کے حلقہ گروپ میں شامل کرتا رہتاہے، تاآنکہ ایک منظم حلقہ تیار ہوجاتا ہے جس پر او لا ًقدرے قلیل پھر طویل پھر بے تکلف کلام کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ،اسی دوران تمام احباب ورفقاء کے قلب وجگر میں ملاقات کا داعیہ جوش مارتا ہے ،آپس میں تبا دلہ خیال ہوتا ہے مولوی عمران اس سلسلہ میں جامعہ اکل کوا کا سفر کر کے مستقل اجازت حاصل کر لیتا ہے ،اب انتظار کی گھڑیاں شروع ہو تی ہیں ،کر کٹ کے رنز کا ٹنے کی طرح ایام پر مارک کرنا شروع ہوجاتا ہے جیسے ایک عید کا سماں ،،جیسے کوئی بڑی سوغات ،جیسے کہ زندگی میں کوئی نیا مو ڑ یا انقلاب آنے والا ہو کہ پھر وہی صدیقانہ ،بے تکلفانہ ،یارانہ شان ہو گی،پھر سے ان مقدس ہستیوں کے رو ئے ولی اللہی کی زیارت ان کے دربار کی حاضری ہو گی ،قدم بو سی کی سعادت کا احساس جاگا ،تلمذیت کے ایام نے انگڑائیاں لیں اور پھر ۷، ستمبر ۲۰۲۱ء کی مسائیہ ساعتوں میں آٹھ نفرپرمشتمل قافلہ (یہ آٹھ طلباء میرے جامعہ منہاج العلوم رنجنی کے زمانہ الف سے لیکر یاء تک اور جامعہ اکل کوا میں دورہ حدیث شریف تک کے ساتھی رہے )کے ساتھ سفر کا آغازہوا ،کنڑ گھاٹ بند ہو نے کی وجہ سے وایا سلوڑ سفر شروع کیا گیا ،سلو ڑ شہر پہنچتے ہی میرے بہت مخلص ،خوش مزاج ، متواضع ،صالح تاجر دوست حافظ عبد العزیز منہاجی نے روانگی وواپسی ہردوقت ضیافت کا معقول نظم کیا(فجزاہ اللہ احسن الجزاء) جامعہ پہنچنے سے قبل ہی ہما رے میزبان رفقاء( عبد الحسیب بھائی بمبئی ،،شاداب بھائی شرڈی،جاوید بھائی رونجہ ،منیر نانے گاؤں ،عبد الغفار نا نے گاؤں ،عمر ناندیڑ ،عارف دھامن گاؤں ، اساتذہ جامعہ اکل کوا ) کے ذریعہ اطلاع ہو گئی تھی کہ آپ احباب کرام کا قیام جامعہ کے ایم بی اے کا لج کے حذیفہ بن یمان ہاسٹل میں رکھاگیا ہے ،ان میزبان رفقاء نے ضیافت میں کوئی کسر نہیں چھو ڑی ، ہر ممکن خدمت سے ساتھیوں کا دل جیت لیا ، زادھم اللہ شرفا وعزا ،الحمد للہ وہاں پہنچے ،تھو ڑی دیر آرام کر نے کے بعد تقریبا ساڑھے نو بجے نا شتہ سے فارغ ہو ئے اور اس کے فوراً بعد دن بھر کا شیڈول طے پایا۔ نا شتہ سے فراغت کے بعد ہم سب اپنے رفیق درس (ناظم تعلیمات جامعہ اکل کوا )مولانا حذیفہ صاحب وستانوی کے انتظار میں بیٹھے گپ شپ لگا رہے تھے اور دل میں طرح طرح کی باتیں جنم لے رہی تھی کہ آج مولانا حذیفہ پو رے جا معہ کے نا ظم تعلیمات ہیں، بڑا مقام ومرتبہ رکھتے ہیں نہ جا نے وہ کس اسٹائل میں ملاقات کرنا پسند کریں گے، وہی دور ہنسی ومذاق ہو گا جو زمانہ طالبعلمی میں دوستوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ہوتا ہے ،یا باادب با ملاحظہ ہوشیار خبردار کا نعرہ سن کر آداب شاہی بجا لانا پڑے گا،انہیں حضرت کہنا پڑے گا یا حذیفہ بھائی ویسے ہم ان کو شیخ (کلمہ تکریم )کہا کرتے تھے ،کہ اچا نک آنجناب کی ہستی نمودار ہو ئی جیسے کہ بادل کی اوٹ سے سورج نمودار ہوتا ہے ،اور آتے ہی انہوں نے ہم سب کی تکلفات رسمیہ کواس انداز سے دور کردیا کہ ایک طالب علم کو اس کا صفتی نام (جو طلباء آپس میں ایک دوسرے کا رکھتے ہیں مثلا اخفش)کہکر بلایا جس سے ہنسی کے قہقہے گونج اٹھے، اور وہی زمانہ یاد آگیا ،شراب کہن پھر پلا ساقیا،، وہی جام گردش میں لا ساقیا ،آپ کی بے تکلفی دیکھ کر ہما رے اوسان جو خطا ہو رہے تھے معتدل ہو ئے سب بے با ری باری مصافحہ کیا معانقہ کیا ہمارانام خود کہتے ہم تصدیق کرتے کہ ہاں میں فلاں ہی ہو ں ۔

مولا نا حذیفہ صاحب وستانوی :

            وضاحت کرتا چلو ں کہ حضرت مولانا محمد حذیفہ وستانوی ہما رے ہم درس تھے، ہم رکاب ہم پیالہ وہم نوالہ تھے ،یہ ہم سب کی سعادت ہی کی بات ہے کہ آپ کی معاصرت ہمیں نصیب ہو ئی ،ورنہ کہاں میں اور کہاں یہ نکہت گل، نسیم صبح تیری مہربا نی ،ہم سب کے ساتھ ایک عام طالب علم یا ایک عام ساتھی کی طرح آپ رہا کرتے تھے ،کبھی آپ نے اپنی شہزادگی ظاہر نہیں کی، نہ اقوال میں نہ افعال میں ،حتی کہ ہما رے ساتھ ہما رے رہائش قصر خدیجہ بھی آجا تے وہاں بھی طلباء کی نا مناسب چیزیں دیکھتے، مگر اس وقت کسی کو بھی نکیر نہیں کی، کہیں ایسا نہ ہو کہ رفقاء یہ تصور کریں کہ اب حاکمانہ روش پرآرہے ہیں ،حالاں کہ دوسرے احباب نکیر کرتے، لیکن اس وقت آپ نے مناسب نہیں سمجھا، ہاں بعد از فراغت ان تمام کی اصلاح ضرور فرمائی ۔اساتذہ کرام کے ساتھ بھی آپ کا معاملہ عاجزانہ ،منکسرانہ ،با ادب وطالب علم کی طرح ہی رہا ،حتی کہ گزشتہ کل بھی پروگرام میں آپ نے اپنی اور ہم سب کی کامیابی کا سہرااپنے اساتذہ کے ہی سر باندھا ،آپ ہی کو اللہ نے ذریعہ بنایا کہ ہم چار پانچ طلباء نے بعد نماز عشاء حضرت مولانا محمد فاروق صاحب مدنی کے پاس خارج میں کچھ کتابیں آپ کی معیت میں پڑھیں جن میں شذور الذھب ،،اذاھبت ریح الایمان ،،اور عربی مجلات ورسائل قابل ذکر ہیں،ان احباب میں مولانا محمد حذیفہ دامت برکا تہم ،بشیر بھائی کشمیری ، ریاض بھائی کشمیری ، جاوید رو ہن کھیڑ ، افتخار کشمیری اور ناچیز محمد بلال ساتونہ قابل ذکر ہیں،مولانا حذیفہ صاحب سے ہی ہم نے سیکھا ہے کہ اپنے اسلاف سے کس طرح رابطہ رکھاجاتا ہے،قاری صدیق صاحب باندوی  کے ملفوظات ہمیں سنا تے نیز حضرت قاری صدیق صاحب  کا ایک قمیص جو آپ  نے موصوف کو عنا یت فرمایا تھا کبھی کبھار زیب تن کر کے آتے اور کہتے کہ آج درس کی گہرائی وگیرائی کو خوب محسوس کیا ،مطالعہ کا شوق شروع ہی سے دامن گیر رہا ،ہمیں مجلات عربیہ اور اردو مجلات مثلاً تعمیر حیات مجلہ النور دیتے اور مطا لعہ کی تلقین فرما تے ، عشاء بعد کبھی ہم لوگ کچوری (اس وقت دو رو پیہ کی کچوری ملا کرتی تھی ملابازار میں )کھاتے اور دعوت دیتے تو شروع میں انکار کرتے، لیکن جب میں لقمة او قال لقمتین،، کہتا تو ایک دو لقمے کھالیا کرتے، اور کہتے حدیث کا لفظ ادا کر لیا اب انکار مناسب نہیں رہا ۔کبھی بھی انتظامی امور یا معاملات کو ہما رے سامنے ذکر نہیں کیا، ہم ان کو اپنی طرح ایک عام طالب علم پاتے تھے ،فراغت کے بعد ان کے مقام ومرتبہ کو دیکھ کر احساس ہوا کہ پورا جامعہ اسی بندے کاتھا چاہتے تو ہر قسم کی داروگیر ہم پر کر سکتے تھے ، مگر کبھی بھی نہیں کی ، عبا رت خوانی کا بہت زیا دہ شوق تھا چاہتے تھے کہ اقوالِ رسول کو زبان پرلا نے کی سعادت حاصل کروں لیکن جماعت میں تقریباپچیس طلباء مکررین تھے اس لئے سب کو عبا رت خوانی کے مواقع بھی فراہم کرتے،عالم اسلام کے ،مطالعہ کا بچپن ہی سے شوق موجزن رہا ،اسی لئے فراغت کے بعد جا معہ ازہر مصر جانا چاہتے تھے لیکن حضرت رئیس الجامعہ کے کام میں تعاون مانع رہا ۔آپ کبھی نہ تھکنے والے مسافر کی طرح کام کرنے کو ہی اپنا مقصد حیات سمجھتے ہیں ، میں کہاں رکتا ہوں عرش وفرش کی آواز سے ۔ مجھ کو جانا ہے بہت اونچا حد پرواز سے ، درسگاہ کے کمزور قسم کے ساتھیوں پر آپ کی توجہ مرکوز رہتی (معذرت کے ساتھ )یہی وجہ ہے کہ آپ کے حلقہ تکرار میں تقریبا ًطلباء ایسے ہی تھے ، اس سے مولانا مو صوف کی ضعفاء قوم وملت کے ساتھ ہمدردی اور ان کی کمال انسانیت کا اندازہ بخوبی لگایاجا سکتا ہے ،آج وہی طلباء جامعہ جیسی عظیم الشان جگہ خدمت انجام دے رہے ہیں ،فراغت کے بعد تعلیمات کی ذمہ داری آپ کے کندھوں پر آپڑی، جس کو آپ بحسن وخوبی انجام دے رہے ہیں۔ فزادہ اللہ وزاد الجامعة شرفا وعزا ۔

            بہر حال ملاقات کے بعد مل جل کر بیٹھے، ہرطالب علم کا ذاتی وصفتی نام پکارا گیا ، ہنسی مذاق کا ایک دور چلا ،اس کے بعد اپنے ساتھیوں سے وعظ فرمایا اور اپنے اپنے مقامات پر رہ کر اسلام کا خوگر بننے اور کام کرنے کی تلقین فرمائی، آپ نے فرمایا کہ ہر شخص رو زانہ کم از کم ایک پا رے کی تلا وت کرے، منشیات مثلاً تمباکو ،گٹکے وغیرہ سے پرہیز کریں، یہ علماء کی شان کے خلاف ہے ۔ایمان کامل بنا نے کی کو شش کریں کہ اس کے بغیر سب ادھورا ہے ،تہجد کی پابندی کریں ،اپنی بیویوں کو بھی تہجد کے لئے جگائیں ۔دوپہر کے کھانے اور قیلولہ سے فراغت کے بعد خادم القرآن وعامر المساجد الحاج حضرت مولانا غلام محمد صاحب وستانوی کی خدمت میں نصائح عالیہ سے مستفیض ہو نے کے لئے تقریبا تین بجے حاضر ہو ئے ،آپ کے دیدار سے ایک مشفق باپ کا احساس ہوا جو ہمارے لئے مچھروں سے بچنے تک کی دعائیں کیا کرتا ،مطبخ میں آکر پکا ئے گئے حلیم کے لیموں کا ذائقہ چیک کرتا، نیز فراغت سے چھ ماہ قبل ہی اپنے فارغ ہو نے والے طلباء کو اپنے پاس بٹھا کر رو رو کر ان کے سر پر ہاتھ پھیرتا ۔وہ منظر آنکھوں میں گھوم گیا ۔(۱)حضرت وستانوی نے ذکر اللہ سے مجلس کا آغاز فرمایا اور تمام طلباء کو ذکر اللہ کی عادت بنا نے کی تلقین فرمائی۔ (۲)میاں بیوی دونوں ملکر مہینہ میں دو قرآن مکمل کریں۔(۳)والدین کی خدمت لا زمی کریں کہ مولوی اس سے محروم ہوتا جا رہا ہے ۔(۴)دینی کام کو اپنا مشن بنائیں۔ (۵) ناقدین کی پرواہ کئے بغیر اپنا کام کئے جا ؤ ۔اس مجلس میں حضرت رئیس الجامعہ وناظم تعلیمات مولانا حذیفہ وستانوی کو سپاس نامہ تمام رفقاء ۲۰۰۲ کی جانب سے پیش کیا گیا ،جس میں حضرت رئیس الجامعہ کی خدمات کا اعتراف نیز رئیس الرفقاء کی رفاقت کا اعتراف اور آپ کی معاصرت پر اظہار فرح وسرور تھا ،یہاں سے فراغت کے بعد چو نکہ تمام اوقات کے طعام کا نظم رفیق مکرم یا میزبان رفقاء کی جانب سے ہی تھا ،اس لئے حافظ عبد الصمد صاحب (جن کا دسترخوان کوئی بھی اشا عتی فراموش نہیں کرسکتا خلاق عالم نے ایک خاص مشن کے لئے آپ کی تخلیق فرمائی، اللہ ان کو مزید صحت وعمر نصیب فرماکر دارین کی سرخروئی عطا فرما ئے ) نے عمدہ قسم کی چٹپٹی چیزیں مثلاً گرم گرم کچوری، گرم گرم جلیبی ،گرم سمو سہ ، گرم وڈا پاؤ ،اور ٹھنڈا ذائقہ دار موز اور انارکے اچھلتے کود تے اور تیرتے دانوں کا کسٹرڈ تیار کروائی تھی، ہر ایک کی اپنی لذت اور تاثیر تھی ، ان کے یہاں یہ سب چٹپٹی چیزیں تناول کر نے کے بعد تھو ڑی دیر ان سے گفتگو ہو ئی ،یہاں سے نکل کر پھر ہم لوگ دار الحدیث جدید پہنچے جہاں تقریب ختم بخاری شریف کا انعقاد تھا،اور شیخ رضوان الدین المعروفی حفظہ اللہ کے درس بخا ری نے ہم سب کو وہ منظر یاد دلا دیا تھا واضح ہو کہ ہما رے دورہ حدیث شریف میں آنے سے قبل ہی شیخ سلیمان شمسی علیہ الرحمہ وصال فرما گئے تھے اورحضرت مولانا شیخ رضوان الدین صاحب زامبیا میں شیخ الحدیث تھے آپ کو فو ری بلا کر مسند تدریس پر جلوہ افروز کیا گیا تھا،نیز یہی وہ جدید دار الحدیث ہے جس کا افتتاح ہما ری ہی جماعت سے ہواتھا ،ہما رے دورہ کے سال کے مکمل ہو تے ہوتے دارالحدیث کا تعمیری کام تقریبا مکمل ہوگیاتھا، اس لیے ہما ری ختم بخا ری سے ہی شیخ یونس جونپو ری  کے حسن تو سط سے دار الحدیث کا آغاز کیاگیا ، حضرت رئیس الجامعہ کی رقت آمیز دعا پر مجلس کا اختتام عمل میں آیا ، عصر بعد کا وقت ہمارا فارغ تھا ،جس میں ہم اپنے ذاتی اعمال وافعال میں مصروف رہے ،،مغرب کی نماز کے بعد ایک عظیم الشان محفل کا انعقاد تھا عربی درجات کے جتنے اساتذہ کرام سے ہم نے اکتساب علوم وفیض کیاہے ان کے پند ونصائح سے مستفید ہونا تھا نیز ان کی خدمت جلیلہ میں کچھ معمولی تحائف اپنی جانب سے پیش کر نے تھے پسرانہ نظریں ان کی زیارت کو بے تاب تھیں ،بعد نماز مغرب ایم بی اے کالج کے میٹنگ روم میں ہم لوگ جمع ہو ئے اساتذہ کرام اسٹیج کو رونق بخش رہے تھے ۔

حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب فلا حی :

            لیکن آنکھیں اس وقت اشکبار ہوئی جب اپنے اساتذہ میں ہم نے حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب فلا حی کو نہیں پایا، حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب فلا حی تقریبا ڈیڑھ سال قبل راہی دارالبقاء ہو گئے ہیں ،مولانا مرحوم کی شخصیت پو رے جا معہ میں ایک نمایاں شخصیت تھی ،آپ بلبل جامعہ تھے ،عمدہ اسلوب اور جید طرز کلام آپ کی طبیعت ثانیہ تھی ،جامع کلمات اور اسلامی وفنی اشعار آپ کا ذوق سلیم تھا، لب ولہجہ ملاحت آمیز اور چہرہ تسر الناظرین تھا قدرت نے قد کاٹھ اور خد وخال میں خوب جودت عطا فرما ئی تھی خاصکر جب آپ جبہ زیب تن فرماکر آتے تو خلاق عالم کی حسن کائنات کا منظر جلوہ گر ہوتا، مسابقات قرآنیہ اور محافل ومجالس کی نظامت کے آپ شہسوار تھے ،آپ کو سننے والا کبھی اکتاہٹ محسوس نہ کرتا بل کہ ھل من مزید کہکرمزید کا طالب ہوتا،سلا ست وطلاقت لسانی میں شاید آپ کا کوئی ثانی مل سکے ،اواخر سال میں جب طلباء عبارت خوانی کرتے ہو ئے تھک جاتے اس وقت آپ خود عبا رت خوانی کرتے، ایسا محسوس ہوتا جیسے آسمان وزمین تھم گئے ہو ،آج اگر وہ ہما رے درمیان ہو تے تو نہ جا نے کتنی خوشی ومسرت کے ساتھ ہم نااہلوں کا استقبال کرتے ،اور کہتے اے جانے والو تمہیں چشم تر کا سلام ( مرحوم سالانہ جلسہ میں یہ مصرعہ ،الوداعی نظم کے بعد پڑھ کر خود بھی رو تے اور تمام حاضرین کو رلاتے تھے )زبان حال سے سب کی طبیعت بے چین تھی آہ فلا حی صاحب”انا بفراقک لمحزونون،، تغمدہ اللہ بغفرانہ وجعل الجنة بحبوحة جنانہ ،،بہرحال تلاوت کلام اللہ سے مجلس کا آغاز فرمایا نعتیہ کلام قاری شفیق صاحب مارول نے پیش کیا ،سب سے پہلے سید القراء حضرت مولانا سید قاری عارف الدین صاحب کو مولانا حذیفہ صاحب نے مدعو کیا حضرت نے فرمایا کہ ہم اپنے اندر علم کے ساتھ ساتھ عبدیت پیدا کریں کہ علم محض تکبر کی طرف ڈالتا ہے، ثانیا حضرت مولانا مفتی جعفر صاحب دامت برکاتہم نے فرمایا کہ علم اور عبدیت کے ساتھ صبر وثبات کو مضبوطی سے تھا مے رہیں ، اور فرمایا کہ اپنے علم پر عمل کرتے رہیں آپ ہی ہمارا اخروی سرما یہ ہے یہ کہکر آپ آبدیدہ ہو گئے اور اپنی جگہ جلوہ افروز ہو گئے ،بعدہ مفسر قرآن حضرت مولانا محمد فاروق مدنی نے فرمایا کہ (۱)مطالعہ کی عادت ڈالیں علمی تعمق پیدا کریں (۲)روزانہ کم از کم دس منٹ اللہ کے حضور دعا کریں آج ہم نے دعاکرنا بند کر دیا ہے (۳)حالات حاضرہ سے واقفیت رکھیں ، نبی اکرم ﷺ نے کسری کے مرنے کے بعد صحابہ سے پو چھا کہ کسری کے بعد بادشاہ کس کو بنایا گیا ہے اس سے معلوم ہوا کہ سیا سی امور سے باخبر رہنا چا ہئیے (۴) خندق کا مشورہ حضرت سلمان فارسی  نے دیاتھا ورنہ عربوں کا یہ رواج نہ تھا بل کہ اہل فارس کاتھا اس مشورہ کو حضور ﷺ نے قبول فرمایا معلوم ہوا کہ وہ نئی بات جو شرع کے خلاف نہ ہو اس کے اختیار کر نے میں کوئی حرج نہیں ۔ اخیر میں حضرت مولانا محمد رضوان الدین صاحب معروفی نے فرمایا کہ آپ پر امت کی ذمہ داریاں ہیں اللہ نے اپنے نبی ﷺ سے کہا یا ایھا المدثر قم فانذر وربک فکبر وثیابک فطھرپر کلام کرتے ہو ئے فرمایا کہ کام کرنے والوں کو استقامت اور ثابت قدمی سے کام کرنا ہوگا، (۲)تقریر میں اللہ کی بڑائی بیان کریں نہ کہ اپنی فضیلت ،(۳) اپنے کپڑوں کو صاف ستھرا رکھیں (۵) آپ سے اچھا کوئی مولوی کام کر نے والا آجا ئے تو خوشی کا احساس کریں نہ کہ اس سے حسد اور جلن کا معاملہ کریں ،اس لئے کہ جو جلن کا شکار ہوگا مطلب یہ کہ وہ اللہ کی مرضی کے لئے کام نہیں کر رہاتھا بل کہ خود کے لئے کر رہاتھا اور جو کسی بڑے مو لوی یا اپنے سے اچھا کام کر نے والے کو دیکھ کر خوش ہوتا ہے مطلب یہ کہ وہ اللہ کی مرضی کے لئے کام کر رہا ہے ، حضرت مولانا عبد الرحیم فلا حی کے فرزند مفتی ریحان کی خدمت میں تعزیت نا مہ ناچیز کو پیش کرنے کے لئے کہا گیا، اور کلمات تشکر مولوی صابر سلو ڑی نے پیش کئے حضرت مولانا رضوان الدین صاحب معروفی کی پر مغز دعا پر مجلس کا اختتام عمل میں آیا۔ اس نشست میں تمام اساتذہ کو سپاس نا مہ تحائف وغیرہ پیش کئے گئے ،نیزتمام رفقاء اور اساتذہ کے لئے عشائیہ کا غیر معمولی نظم بھی تھا، اس نشست میں حضرت مولانا رضوان الدین صاحب معروفی ، حضرت مولانا قاری سید عارف الدین صاحب ، حضرت مولانا محمد فاروق صاحب مدنی حضرت مولانا حسن صاحب ستپونی ،حضرت مولانا رضی الرحمن صاحب حضرت مولانا صدر الحسن صاحب حضرت مولانا شفیق صاحب مارول حضرت مولانا عبد الرحمن ملی الندوی حضرت مولانا مفتی محمد جعفر صاحب حضرت مولانا شاہد جمال صاحب حضرت مولانا افتخار صاحب بستوی حضرت مولانا علی صاحب قاری افضل صاحب قاری حسین صاحب حضرت مولانا سعید صاحب مکرانی موجود تھے۔ حضرت مولانا افتخار صاحب سمستی پوری علالت کے باعث نہیں آسکے اللہ پاک حضرت کو شفاء کاملہ نصیب فرماکر آپ کا سایہ تادیر قائم فرما ئے آمین ۔عشائیہ اور عشاء سے فراغت کے بعد مادر علمی سے واپسی ہوئی اس پر رونق محفل میں میرے کچھ مخلص دوست قوی عذر کی بناپر شریک نہیں ہو سکے مثلا افتخار احمد کشمیری ،جاوید روہن کھیڑ الطاف عثمان آبا دی ، لیکن امید ہے کہ ان شاء اللہ ان سے بھی ملاقات ہو گی ،حضرت وستانوی کے پاس پیش کردہ رپورٹ کے مطابق ہما ری جماعت کے ایک سو چھ طلباء میں سے الحمد للہ پچاسی طلباء حاضر ہو ئے تھے ،جس میں سے اکیاسی طلباء دینی خدمات میں مصروف ہیں نیز بقیہ چار بھی صالح تاجر اور مکاتب کے نظام سے وابستہ ہیں اس جماعت میں سر فہرست ناظم تعلیمات جامعہ اکل کوا مولانا حذیفہ وستانوی ہے نیز کوئی ناظم مدرسہ ہے تو کوئی شیخ الحدیث کی مسند پر فائق ہے ،دعا کریں کہ اللہ پاک سب کی محنتوں کو قبول فرمائے درازی عمرکے ساتھ ایمان پر خاتمہ عطافرما ئے ۔

فللہ الحمد والمنہ ولہ الثناء الحسن وصلی اللہ علی النبی الکریم

 

جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی زیرنگرانی

 دارالقضاء کا افتتاح

حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے عہدہٴ قضاء کا حلف دلایا

جامعہ اکل کوا ۱۰/ستمبر۱ ۲۰۲ء

            ملک کی عظیم دینی درسگاہ جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا، نندور بار میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی زیرنگرانی صوبہ مہاراشٹر کے ۲۶/ویں دارالقضاء کا قیام عمل میں آیا۔ افتتاحی اجلاس اور حلف برداری تقریب کی صدارت حضرت مولانا غلام محمد وستانوی صاحب نے فرمائی۔

            حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب کارگزار جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈنے دور نبوی سے اب تک نظام قضاء کی تاریخ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایاکہ اگر کسی علاقہ میں نظامِ قضاء نہ ہو اور مسلمان غیرشرعی تصفیہ پر مجبور ہوتے ہوں تو ظن غالب ہے کہ اس خطہ و علاقہ کے علماء و عمائدین عنداللہ ماخوذ ہوں گے۔

             حضرت مولانا عتیق احمد بستوی صاحب کنوینر دارالقضاء کمیٹی نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ کارقضاء ایک اہم ترین دینی فریضہ ہے، مجھے خوشی ہے کہ ملک کی اس عظیم دینی درسگاہ اور اس علاقہ کے لئے دارالقضاء کا قیام عمل میں آیا۔ مولانا نے فرمایا کہ اس دارالقضاء کے قیام پر صدر بورڈ محترم نے اپنی خوشی و مسرت و دعائیہ کلمات ارشاد فرمائے۔

            مولانا تبریز عالم صاحب آرگنائزر دارالقضاء کمیٹی نے نظامِ قضاء کے قانونی و سماجی پہلو پر گفتگو کرتے ہوئے دارالقضاء کو ملک و سماج کی اہم ترین ضرورت قرار دیا۔

             حضرت مولانا حذیفہ وستانوی صاحب نے اجلاس کی نظامت فرمائی۔ حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے مولانا مفتی محمد جعفر صاحب ملیرحمانی قاضی شریعت اور مولانا مفتی محمد دانش صاحب کو نائب قاضی شریعت کا حلف دلایا۔

             حضرت مولانا مفتی عبیداللہ اسعدی صاحب شیخ الحدیث جامعہ عربیہ ہتھورا باندہ کی دعا پر اجلاس اختتام پذیر ہوا۔

 سوشل میڈیا ڈیسک آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ

جامعہ انجینئرنگ اور مینجمنٹ کے پانچ طلبا پینٹاگون اسپیس پرائیویٹ لمیٹڈ کے لیے منتخب ہوئے:

            جامعہ انجینئرنگ اینڈ مینجمنٹ اسٹڈیز اکل کوا کی طرف سے مبارکباد باد۔

            اس کالج کے پانچ طلبا کو پینٹاگون اسپیس پرائیویٹ لمیٹیڈ بنگلور کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔

طالب علم مختلف ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے 3 لاکھ روپے سالانہ پیکیج کے ساتھ کام کرے گا۔

            ٹی پی او جناب بلال خان پٹھان انھوں نے پرنسپل ڈاکٹر سید کمال الدین اور ڈپٹی پرنسپل ڈاکٹر سید عرفان کی رہنمائی میں کامیاب کوششیں کیں۔

منتخب طلباء:

             (۱)پرشانت کاشیناتھ پاٹل۔(۲) محمد رضوان نگرکر۔ (۳)دیپک نریندر پاٹل۔

            (۴) کلپیش ولاس بھامرے۔(۵) شیخ خوشبو محمد رفیق۔

             جامعہ کے رئیس مولانا غلام محمد وستانوی #صاحب اور دیگر احباب نے تمام منتخب طلبا کو مبارکباد پیش کی۔

جامعہ لا کالج کے سال اول کے کامیاب ترین نتائج

            ”کے، بی ،سی، این، ایم، یو“ سے ملحق جامعہ کالج آف لاء نے اپنے پہلے تعلیمی سال کا آغاز ایل ایل بی سال اول کے لیے کیا، جس میں 59 طلباء نے داخلہ لیا، اور ان میں سے 57 طلبا نے امتحان میں شرکت کی۔

            تمام طلباء کامیابی سے ہم کنار ہوئے اور انہیں سال دوم ایل ایل بی میں ترقی دی جائے گی۔

            4 اکتوبر کو، ایل ایل بی کے پہلے سال کے لیے سی ای ٹی کا امتحان منعقد کیا جائے گا اور نتائج کے بعد دوبارہ سال اول کے داخلے کا عمل سی، اے، پی راؤنڈ کے ذریعے شروع ہوگا۔

جامعہ کالج آف فارمیسی کو ملا ایوارڈ:

            الحمداللہ، جامعہ کالج آف فارمیسی، کو بی گِن اپ ریسرچ انٹیلجنس لمیٹڈ کی طرف سے تعلیمی اختصاص میں دو ایوارڈ ملے ہیں۔

            ایوارڈ اور کانفرنس کا انعقاد 23 ستمبر 2021 کو بنگلورو میں ہوا۔

ایوارڈ کی اقسام درج ذیل ہیں:

            1 -سال 2021 میں مہاراشٹر کا سب سے زیادہ امید افزااور قابل اعتماد فارمیسی کالج۔

            2- عالمی وباء کے دوران آن لائن تعلیم کی فراہمی میں جامعہ کالج کی شاندار کارکردگی۔

یاس کے بعد آس:

            ویسٹ بنگال میں یاس طوفان کی تباہی میں جامعہ کا رفاہی عملہ آس بن کر بنگال پہنچا۔

            جامعہ تعلیمی خدمات کے ساتھ رفاہی خدمات بھی انجام دیتا ہے۔ حال ہی میں بنگال کے علاقہ میدناپور، مرشدآباد میں پدما ندی میں آئے طوفان کے سبب تین پنچایت اور پانچ گاؤں کے لوگ بے گھر ہوگئے۔ جامعہ نے ”الامداد فاؤنڈیشن انگلینڈ“ کی مدد سے پانچ سو متأثرہ خاندانوں میں فوڈ کٹ تقسیم کرائی۔ جو دال، چاول، تیل، پوہا، چنا، نمک، آلو، مرچ، شکر اور آٹا جیسی اشیا پر مشتمل تھی۔ یہ سامان ایک مہینہ تک ایک فیملی کی غذائی ضروریات کو انشائاللہ پورا کرے گا۔

معروف شخصیات ساز منور زماں صاحب احاطہٴ جامعہ میں:

            آپ جامعہ کی دعوت پر ایک یوم کے لیے تشریف لائے، اور جامعہ کے پروفیسرز، ٹیچرز، اسٹوڈینٹ، اساتذہ اور طلبہ کے درمیان آپ کی چار بہت مفید نشست ہوئی۔

            پہلی مجلس اسکول وکالجز کے طلبہ کے درمیان رہی، جس میں آپ نے (کمیونکیشن ) مواصلاتی مہارت پر گفتگو کی، دوسری مجلس اسکول وکالجز کے اساتذہ کے درمیان رہی، جس میں آپ نے اقسام ِاساتذہ کو بیان کیا اور تیسری قسم درد کے ساتھ پڑھانے والے اساتذہ کی فہرست میں داخل ہونے کے کی پرزور ترغیب دی۔

            تیسری مجلس اساتذہ جامعہ کے درمیان ن ہوئی ، جس میں آپ نے علوم دینیہ اور دعوت دین کی اہمیت عصرحاضر میں مزید عام و مفید بنانے کے لیے انگریزی زبان کی اہمیت اور افہام وتفہیم کی سہولت کے لیے اسمارٹ بورٹ وغیرہ کے استعمال کے فوائد بتائے، اور پھر سے ایسے علما کی ضرورت جتائی جو قیادت و سیادت کے لیے مکمل تیار ہوں۔

            چوتھی مجلس میں طلبہ کو تحریض دلاتے ہوئے وقت کی قدر اور زمانے کی ضرورت کے مطابق ، مستقبل کے چیلنجز کے مقابلے کے لیے مکمل طور سے تیار ہونے پرزور دیا اور جامعہ کے اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصے دار بننے کا عہد لیا، اور جامعہ وطلبہ کے شوق ورغبت کو دیکھتے ہوئے ایک آڈوٹوریم کی تعمیر کی خواہش ظاہر کی اور اپنے مکمل تعاون کا وعدہ کیا ہے، جسے جامعہ کے مدیر تنفیذی مولانا حذیفہ صاحب نے منظوری دیتے ہوئے مستقبل قریب میں تعلیم کی تسہیل کے لیے اسمارٹ بورڈ اور آڈیٹوریم کے نظم و قیام کی حامی بھری اور نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

 

جامعہ کے پروجیکٹ کو 14ممالک کے 314 پروجیکٹ میں پہلا نمبر:

 

            یہ بتاتے ہوئے بڑی خوشی ہو رہی ہے کہ جامعہ کی ایک منفرد پہل (Education On Wheel)چلتا پھرتا اسکولی نظام کے پروجیکٹ کو انعام اول سے نوازا گیا ہے۔

            اُس مقابلہ میں 14 ممالک کے 314 پروجیکٹ کو شریک کیا گیا تھا۔

            جامعہ کے اس پروجیکٹ کو ”فریق دینارین اور معاون تنظیم الہیئة الخیریة العالمیة کویت“ کی جانب سے شریک کیا گیا تھا۔ لاک ڈاوٴ ن میں بھی پروٹوکول کی مکمل رعایت کے ساتھ پوری پابندی سے یہ پروجیکٹ کام کرتا رہا اور کر رہا ہے۔

            جیسا کہ پہلے بھی بتایا گیا ہے کہ(ایجوکیشن اَون وہیل) تمام جدید آلات سے مزین ایسی بس ہے، جو کوویڈ 19 کے سبب تعلیم سے محروم بچوں کو تعلیم فراہم کرنے ان کی بستی اور علاقہ میں جاتی ہے،اور ماہر وتجربہ کار اساتذہ کی رہنمائی اور آلات علم کے تقسیم کار سے معیاری تعلیم حاصل کرنے میں مدد کرتی ہے۔

 

جامعہ علی الانا میں یوم انصاف کاانعقاد :

 

             25/9/21 ” عالمی سماجی انصاف کا دن ”علی الانا انگلش میڈیم اسکول“ میں ایک اہم پیغام کے ساتھ منایا گیا۔

            دسویں جماعت کی طالبہ ناہیدہ اریبانی نے”عالمی یوم امن“ پراپنی تقریر میں تعلیم کی اہمیت، صحت کی حفاظت، روزگار کی ضرورت، سیاست کے مقاصد، اصلاح معاشرے کی صورت پر روشنی ڈالی اور عدل وانصاف کو ان تمام چیزوں میں کلید باور کروایا۔ اسلام میں صنف نازک کی تعلیم کے سلسلے میں روز ِاول سے جو فکرو ہدایات ہیں اسے بتایا۔ اور اسلام کی طرف صنف ِنازک کی تعلیم کے سلسلے میں جو پروپیگنڈے ہیں ،اس کی بخیہ ادھیڑتے ہوئے کہا کہ اسلام نے عورتوں کی تعلیم پر کبھی روک ٹوک نہیں کیا،ہاں مگر عریانیت اور اختلاط کے خلاف ہمیشہ سینہ سپررہا۔تعلیم سے معاشرہ سنورتا ہے اور عریانیت سے بے حیائی جنم لیتی ہے، جو سارے معاشرے کو تباہ کردیتی ہے۔

عورتوں کو تعلیم کی طرف خوب توجہ دینی چاہیے تاکہ ایک صالح معاشرہ وجود میں آسکے۔